انھوں نے اسی طرح تیونس کے صدر کے دورے کے سبب ایران اور تیونس کے تعلقات میں ایک نیا مطلع کھلنے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تیونس کی اعلی قیادت میں جناب قیس سعید جیسی فاضل اور یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی شخصیت کی موجودگی ایک موقع ہے کہ برسوں تک آمریت اور عالم اسلام سے تعلقات منقطع رہنے کے بعد یہ ملک اپنی نئی اور اچھی تصویر پیش کرے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تیونس کے عوام کے کچھ سال پہلے کے اقدام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو شمالی افریقا میں ایک بڑی تحریک کا پیش خیمہ بن گئے، کہا کہ تیونس کی قوم میں پیشرفت اور آگے بڑھنے کی بہت زیادہ صلاحیت پائی جاتی ہے اور ہمیں امید ہے کہ جناب قیس سعید کی تدابیر سے تیونس کے مختلف رجحان رکھنے والے گروہوں اور جماعتوں میں ضروری اتحاد پیدا ہوگا اور مزید پیشرفت کی راہ ہموار ہوگی۔
انھوں نے تیونس کے صدر کے صیہونیت مخالف موقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کا موقف، عرب دنیا میں بڑھنا چاہیے کیونکہ افسوس کہ عرب دنیا میں اس طرح کے مسائل کا اہتمام نہیں کیا جاتا اور ہمارا ماننا ہے کہ کامیابی کا واحد راستہ، استقامت اور پائیداری ہے۔
آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے تعلقات کے فروغ کے لیے ایران اور تیونس میں پائی جانے والی اچھی گنجائشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مرحوم صدر کی حکومت، کام، فعالیت اور رابطے کی حکومت تھی اور اس وقت جناب ڈاکٹر مخبر کے پاس مکمل اختیارات ہیں کہ وہ تعلقات کے فروغ کے لیے اسی راہ کو جاری رکھیں۔
انھوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں ملکوں کے درمیان ہمدلی اور ہمزبانی، زمینی تعاون میں تبدیل ہوگی۔
اس ملاقات میں تیونس کے صدر قیس سعید نے حالیہ تلخ واقعے پر تیونس کی حکومت اور قوم کی پرخلوص اور دلی تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے مرحوم صدر کے ساتھ ہماری آخری ملاقات کچھ عرصے پہلے الجزائر میں ہوئی تھی اور وہیں ہم نے اتفاق کیا تھا کہ میں تہران کا دورہ کروں گا لیکن میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں ان کے انتقال کی تعزیت پیش کرنے کے لیے تہران آؤں گا۔
تیونس کے صدر نے تمام میدانوں میں تعلقات کے فروغ کے لیے دونوں ملکوں کے مشترکہ عزم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ سمجھوتوں پر کام کر کے تعاون کو عملی فروغ حاصل ہوگا۔
جناب قیس سعید نے اسی طرح خطے کے حالات اور صیہونی حکومت کے ہاتھوں غزہ کے عوام کے قتل عام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عالم اسلام کو اپنے موجودہ معذرت خواہانہ موقف سے باہر نکلنا چاہیے اور ایک دوسرے کی آواز سے آواز ملا کر پوری سرزمین فلسطین میں فلسطینیوں کے حق کی بحالی اور قدس شریف کے دارالحکومت والی ایک خودمختار ریاست کی تشکیل کی کوشش کرنی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ آج دنیا میں انسانی معاشرہ، عالمی برادری سے آگے بڑھ چکا ہے اور انسانی معاشرہ مختلف ملکوں میں ایک آواز ہو کر غزہ میں ظلم و جرم کے خلاف میدان میں آ چکا ہے۔