بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقییۃ اللہ فی الارضین.
برادران وخواہران گرامی خوش آمدید!
دیگر حکومتوں کے اراکین کے ساتھ ہونے والی میٹنگوں کی طرح یہ میٹنگ بھی اس حکومت کے اراکین، رفقا اور حکام کے شکرئے کے لئے بلائی گئی ہے لیکن اس میں جناب رئیسی عزیز کی جگہ خالی ہے۔ البتہ ہمارے اعتقادات کے مطابق مومنین کی ارواح طیبہ بالخصوص شہدا حاضر و ناظر ہیں، دیکھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں، بنابریں وہ بھی ہمارے شکرئے اور قدردانی سے مطلع ہوں گے۔
یہ میٹنگ شکرئے کے لئے ہے اور امید ہے کہ خداوند عالم آپ کی ان زحمتوں کو قبول فرمائے گا۔ آپ نے جو کام کئے ہیں وہ بھی اہمیت رکھتے ہیں اور جن کاموں کی نیت تھی، اس کی بھی اہمیت ہے۔ یعنی آپ کی نیت یہ تھی کہ یہ حکومت جاری رہے اور امور نیز منصوبوں پر آپ عمل کریں، خدا کے پاس اس کا بھی اجر ہے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ کو کامیاب کرے، آپ کی نصرت فرمائے کہ آپ، خدمات کا یہ سلسلہ جاری رکھ سکیں۔
فطری بات ہے کہ حکومت کی انتظامیہ تبدیل ہوگی، اس میں شک نہیں ہے، لیکن ضروری نہیں ہے کہ خدمت کرنے والے انہیں عہدوں پر اور خاص مینجمنٹ کے دائرے میں ہی کام کریں، بلکہ ہر پوزیشن اور حالت میں انہیں کام اور خدمت کے لئے آمادہ رہنا چاہئے۔ آپ بھی ملک کی خدمت کریں، ملک کے لئے کام کریں اور الحمد للہ، کر سکتے ہیں۔ جناب آقائے رئیسی مرحوم (رضوان اللہ علیہ) کی حکومت کام اور امید کی حکومت تھی اور داخلہ و خارجہ دونوں شعبوں میں فعال تھی۔ اگرچہ شاید انھوں نے اور ان کی حکومت کے اراکین نے یہ بات کبھی نہیں کہی ہے، لیکن عملا یہ نظر آ رہا تھا اور سمجھا جا رہا تھا۔ انہیں واقعی مستقبل کی امید اور توقع تھی۔ وہ حق پر تھے اور آپ کے تعاون سے یہ اہداف حاصل کرنا چاہتے تھے۔
میں ایک بات آقائے رئیسی مرحوم (رضوان اللہ علیہ) کے بارے میں،جو میرے ذہن میں، نمایاں ہے، عرض کروں گا۔ البتہ جناب آقائے مخبر (ایکٹںگ صدر) نے بہت اچھی طرح بیان کیا ہے، ان کے بہت سے پہلووں کا ذکر کیا ہے، چند باتیں میں بھی عرض کروں گا۔
میری نظر میں عوامی ہونا، جناب آقائے رئیسی کی نمایاں ترین خصوصیت تھی۔ یہ ہم سب کے لئے، سبھی حکومتوں کے لئے، سربراہان حکومت کے لئے اور حکومتی اراکین کے لئے نمونہ عمل ہونا چاہئے۔ وہ عوام پر توجہ دیتے تھے، عوام کا احترام کرتے تھے، عوام کے درمیان جاتے تھے، عوام کے درمیان حقائق کو محسوس کرتے تھے، ان کی باتیں سنتے تھے، ان کی ضرورتوں کو اپنے پروگراموں میں رکھتے تھے، وہ ایسے ہی تھے۔
ان کے منصوبوں، کاموں اور پروگراموں کی بنیاد عوامی مشکلات کا حل تلاش کرنا تھا۔ یہ امکان تھا کہ ان میں کچھ نتیجہ بخش ہو اور بعض نتیجے تک نہ پہنچیں، لیکن ان کے کاموں کی بنیاد یہ تھی جس کو ہم نے ہمیشہ ان کے ساتھ ہونے والی میٹنگوں میں دیکھا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو اسلام کو مطلوب ہے۔ یعنی عوام کے ساتھ ہونا۔
امیرالمومنین (علیہ السلام) اپنے ایک مشہور فرمان میں مالک اشتر سے فرماتے ہیں کہ "تمھاری نظر میں سب سے اچھے اور بہترین کام یہ ہونے چاہئيں۔ آپ نے دو تین باتوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ "اجمعھا لرضی الرّعیـۃ" تمھاری نظر میں بہترین کام وہ ہونا چاہئے جو عوام کی رضامندی اور خوشی کا باعث ہو۔ اس کی فکر میں رہو۔"
امیر المومنین (علیہ السلام) کے کلام میں بعض اوقات "رعیت" کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد خواص کے مقابلے میں عام لوگ ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ بہترین کام اور سب سے اچھا کام یہ ہے کہ عام لوگ مد نظر ہوں۔ انہیں خوش کرو، ان کی خوشنودی حاصل کرو اور کوشش کرو کہ وہ تم سے راضی رہیں۔
اس کے بعد فرماتے ہیں "وَ اِنَّما عِمادُ الدّینِ وَ جِماعُ المُسلِمینَ وَ العُدَّة لِلاَعداءِ العامۃ مِنَ الاُمّہ"(2) دشمن کے مقابلے میں جو تمھارے کام کے ہیں، جو وحدت لا سکتے ہیں، جو ملک میں یکجہتی پیدا کر سکتے ہیں، یہی عام لوگ ہیں۔ یہی عام لوگ ہیں جو اگر ایک ساتھ ہوں تو ملک متحد ہوتا ہے ورنہ خواص میں سے تو ہر ایک کا اپنا محرک ہوتا ہے، وہ اپنے لئے کام کرتے ہیں۔ "طبعا اھواء" (3) اختلاف ہو تو ایک دوسرے کے خلاف اقدام کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں ہے۔ یعنی اجتماع بے معنی ہو جاتا ہے۔ لیکن عوام ، عام لوگ، عوام الناس، مجتمع ہو سکتے ہیں، "وعدّہ ای للاعداء" دشمن کے مقابلے میں، ہر میدان میں عوام کام آتے ہیں۔
اس کے بعد آپ بہت دلچسپ بات کہتے ہیں۔ میں نے نہج البلاغہ سے متعلق برسوں جاری رہنے والے (درس کے) جلسوں میں، حکومت میں شامل رفقا کے لئے اس کے بعض حصوں کی تشریح کی ہے۔ آپ (امیر المومنین علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ یہ جوخواص ہیں ان کی توقع بہت ہوتی ہے اور صبر و تحمل سب سے کم ہوتا ہے۔ ان کی مدد سب سے کم اور ناقابل ذکر ہوتی ہے۔ جںگ ہو جائے تو وہ نظر نہیں آتے،عوام اس کے برعکس ہیں۔ اس کے نمونے تو آپ سب نے دفاع مقدس کے میدان میں اور دفاع حرم اور دیگر امور میں دیکھے ہیں۔
دیکھئے یہ ایک واضح ترین لکیر ہے جو امیر المومنین (علیہ السلام) نے کھینچی ہے۔ آقائے رئیسی اسی پر چل رہے تھے، یہ بہت اہم ہے۔ بہت خوب ہے، واقعی نمونہ عمل ہے۔ ہم سب کو یہ کام سیکھناچاہئے۔ یہ ان کا ایک نمایاں پہلو تھا۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ وہ (شہید رئیسی) ملک کی اندرونی توانائیوں پر واقعی یقین رکھتے تھے۔ میں بہت سے اعلی عہدیداروں کے ساتھ میٹنگوں میں ایران کی اندرونی توانائیوں اور گنجائشوں کے بارے میں تبادلہ خیال کرتا ہوں۔ کوئی بھی ان کا مخالف نہیں ہے۔ لیکن یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ کون اپنے پورے وجود سے اس پر یقین رکھتا ہے اور کون نہیں رکھتا۔ وہ واقعی اس پر یقین رکھتے تھے یعنی انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ ہم ملک کی سبھی یا بہت سی مشکلات کو اندرونی توانائیوں پر بھروسہ کرکے دور کرسکتے ہیں اور وہ اس پر کام بھی کر رہے تھے۔ یہ وہ بنیادی پالیسیاں ہیں جن پر وہ کام کر رہے تھے۔
ان کا ایک اور نمایاں پہلو یہ تھا کہ انقلابی اور دینی موقف کا صراحت کے ساتھ اعلان کرتے تھے۔
ذو معنی باتیں کرنا اور اس بات کا خیال رکھنا کہ اگر ہم نے اپنا انقلابی موقف بیان کیا تو وہ شخص، وہ گروہ، یا وہ شخصیت ناراض ہو جائے گی، یہ بات ان کے اندر نہیں تھی۔ وہ اپنا انقلابی موقف، جس پر انہیں یقین تھا اور جس کے وہ پابند تھے، پوری صراحت کے ساتھ بیان کرتے تھے۔ ان سے کسی ملک کے بارے میں پوچھا کہ آپ اس سے روابط برقرار کریں گے؟ انھوں نے صراحت کے ساتھ کسی چیز اور کسی بات کا خیال کئے بغیر کہا کہ نہیں! وہ ہر معاملے میں صراحت کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔ وہ ویسے ہی تھے جیسا ہم نے انہیں دیکھا تھا۔
ان کی ایک اور خصوصیت جس کو سب نے دیکھا ہے، جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں، یہ ہے کہ وہ کام سے نہیں تھکتے تھے۔ میں نے بارہا ان سے کہا کہ تھوڑا آرام کر لیا کریں۔ مثال بھی پیش کرتا تھا کہ بعض معاملات میں لوگوں نے آرام نہیں کیا اور مشکل میں پڑ گئے۔ میں کہتا تھا کہ آپ اپنے آئندہ کے کاموں کے لئے ہی تھوڑا سا آرام کر لیں ورنہ ممکن ہے کہ گر جائيں اور کام نہ کر سکیں! میں نے بارہا کہا ہے۔ واقعی جیسے انہیں تھکن نہیں ہوتی تھی۔ حیرت ہوتی ہے۔ آدھی رات کو غیر ملکی دورے سے واپس آئے اور دوسرے دن صبح ہی کہیں مثال کے طور پر کرج یا کسی اور جگہ عوام سے ملنے چلے گئے یا مختلف مسائل پر کوئی میٹنگ رکھ لی ۔ یہ بہت اہم امور ہیں۔
ان کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ وہ طعنوں سے مایوس نہیں ہوتے تھے۔ ہم میں سے بہت سوں میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ جیسے ہی کوئی ہم پر تنقید کرتا ہے، ہمارا دل ٹوٹ جاتا ہے، موڈ خراب ہو جاتا ہے اور برا لگتا ہے کہ ہمارے تئیں ناقدری کیوں کی گئی اور پھر ہم کام میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اکثر یہ ہوتا ہے۔ ہم ہمیشہ چاہتے ہیں کہ ہماری تعریف کی جائے۔ لیکن وہ ایسے نہیں تھے۔ ان پر زبانی حملے بہت ہوتے تھے لیکن وہ مایوس نہیں ہوتے تھے۔ البتہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انہیں تکلیف نہیں ہوتی تھی؛ دکھ ہوتا تھا، بعض اوقات مجھ سے شکایت بھی کرتے تھے لیکن مایوس نہیں ہوتے تھے اور کام کے تعلق سے ان کا حوصلہ بھی پست نہیں ہوتا تھا۔ یہ ان کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔
ان کی ایک اور ممتاز خصوصیت یہ تھی کہ وہ خارجہ سیاست میں دو باتوں کا ایک ساتھ خیال رکھتے تھے۔ افہام و تفہیم اور عزت ووقار۔ وہ افہام و تفہیم کے قائل تھے۔ بعض اوقات کسی یورپی ملک کے سربراہ کے ساتھ ایک گھنٹے اور ڈیڑھ گھنٹے تک ٹیلیفون پر گفتگو کرتے تھے! وہ ایک گھنٹے اور ڈیڑھ گھنٹے ٹیلیفون پر بات کرتے تھے، تو افہام و تفہیم پر یقین رکھتے تھے۔ لیکن عزت و وقار کے ساتھ۔ البتہ زیادہ سخت اور دور کرنے والے انداز میں نہیں کہ روابط ہی ختم ہو جائيں۔ لیکن بلاوجہ کسی کو کوئی زیادہ امتیاز نہیں دیتے تھے۔ اس کو برتر اور خود کو کمتر نہیں تصور کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شہادت کے بعد دنیا کے چند ممتاز سربراہان نے جو آج کی دنیا میں ممتاز اور پہلے درجے کی ہستیوں میں شمار ہوتے ہیں، انھوں نے ہمارے لئے جو (تعزیتی) پیغامات بھیجے ہیں، ان میں انہیں ( شہید رئیسی کو) ممتاز ہستی قرار دیا ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ یعنی کسی معمولی سیاستداں کی طرح نہیں بلکہ ممتاز سیاستداں کی حیثیت سے ان کا نام لیا جاتا تھا۔ روابط کے اصولوں پر وہ یقین رکھتے تھے۔ ہم نے برسوں افریقا کو بھلا رکھا تھا اگرچہ افریقا کی اہمیت اتنی زیادہ بیان کی گئی۔ انھوں نے افریقا سے رابطہ برقرار کیا۔ رفت وآمد کی اور سمجھوتے کئے۔ مختلف ملکوں سے روابط برقرار کئے، ان تمام ملکوں سے جن سے روابط کی برقراری کے امکانات تھے، اور ان سے روابط برقرار ہونا چاہئے تھا، وہ ان سے روابط برقرار کرنے پر یقین رکھتے تھے اور روابط برقرار کئے۔ وہ اس سلسلے ترجیحات کا پورا خیال رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر ہمسائیگی کو ترجیح حاصل ہے وہ اس کو اہمیت دیتے تھے۔
ان کی ایک اور خصوصیت جس کا جناب مخبر نے بہت اچھی طرح ذکر کیا، بڑے منصوبوں پر کام کرنا تھا۔ وہ سنگین پروجکٹوں پر کام کرتے تھے۔ مثال کے طور پر مختلف علاقوں میں سمندر کے پانی کی منتقلی کا پروجکٹ ہے۔ یہ پانی کا مسئلہ، دور دراز کے علاقوں سے ان شہروں اور علاقوں تک پانی کی سپلائی کا منصوبہ جو مدتوں سے پانی کے انتظار میں تھے۔ انھوں نے ان کے پینے کے پانی اور ان کی زراعت کا مسئلہ حل کر دیا۔ اس طرح کے بہت سے پروجیکٹ تھے۔ یہ بھی ہمارے مرحوم صدر کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔
ایک اور نمایاں خصوصیت ان کے اخلاق سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ واقعی بہت منکسر مزاج تھے۔ بردبار تھے۔ صابر تھے، برد باری سے کام لیتے تھے، جو لوگ ان سے اختلاف رائے رکھتے تھے، ان سے بھی نباہ کرتے تھے۔ جبکہ نظریاتی اختلاف زيادہ تر عملی اختلاف میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ ملک چلانے میں یہ باتیں پیش آتی ہیں۔ وہ مجھ سے کہتے تھے، بیان کرتے تھے، بعض معاملات کا ذکر کرتے تھے، ان کی طبیعت مکدر ہو جاتی تھی۔ لیکن ان فریقوں سے بھی نباہ کرتے تھے۔ کسی معاملے میں ان کا کسی سے کوئی اختلاف تھا، میں نے کہا کہ کوئی ردعمل ظاہر نہ کریں۔ ان کے لئے بہت مشکل تھا۔ لیکن ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ یعنی واقعی وہ تحمل سے کام لیتے تھے۔ اگر ان کے اندر یہ صبر و تحمل نہ ہوتا تو ملک میں بہت بڑی لڑائی ہو جاتی۔ وہ ایسے تھے۔
ان کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ دعا ومناجات اور توسل کیا کرتے تھے جس کی طرف انھوں نے اشارہ کیا۔(4) وہ دعائیں جو انھوں نے بتائیں ان کی خصوصیات میں نہیں جانتا لیکن یہ جانتا ہوں کہ وہ دعا، ذکر خدا، توسل اور مناجات والے انسان تھے۔ ان کا قلب پاک تھا۔ عالم غیب سے قلبی رابطہ تھا اور یہی وہ چیزیں ہیں جو انسان کو نجات دلاتی ہیں۔
خدا ان شاء اللہ ان کے درجات بند کرے۔ میں نے یہ باتیں اس لئے کی ہیں کہ یہ رکارڈ میں آ جائيں اور نمونہ عمل کے طور پر ان کا اندراج ہو۔ سب کو معلوم ہو جائے کہ جو ملک کی مجریہ کا سربراہ ہے اس کے اندر یہ فکری، عملی اور قلبی خصوصیات بھی ہو سکتی ہیں۔ ان کے اندر یہ خصوصیات تھیں۔
وزرا حضرات کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ نے تعاون کیا، کوشش کی، ان چند برسوں میں صدر جمہوریہ کی مدد کی۔ اگر دوستوں کا تعاون نہ ہوتا تو وہ یقینا، یہ کام نہیں کر سکتے تھے۔ انسان اکیلے یہ کام نہیں کر سکتا۔ اس کے لئے ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کی ٹیم آپ لوگ تھے اور الحمد للہ آپ نے مدد کی۔ خاص طور پر میں جناب مخبر کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ ان تین برسوں میں جناب رئیسی کے ساتھ تعاون کے لئے بھی اور البتہ جناب مخبر نے جو سختیاں اور مشکلات برداشت کی ہیں، انہیں بیان کرنے کے لئے کافی وقت درکار ہے۔ انھوں نے واقعی بہت سختی برداشت کی لیکن بہت اچھا تعاون کیا جناب رئیسی کے ساتھ بھی اور ان چالیس پچاس دنوں میں بھی نگراں صدر کی حیثیت سے بھی واقعی بہت اچھی طرح کام کیا۔ یہ جو کہا گیا تھا کہ آخری دن تک سبھی امور انجام دیے جائيں، انھوں نے حقیقتا یہی کیا۔ آپ سبھی رفقا بھی اسی طرح۔ آپ الحمد للہ اپنے فرائض میں مصروف ہیں۔ آخری لمحے تک یہ کام جاری رکھیں۔ حکومتوں کے لئے، صدور کے لئے، وزیروں کے لئے یہ سب نمونہ عمل ہے۔ ان شاء اللہ اس نمونہ عمل سے استفادہ کیا جائے۔ ہم سب استفادہ کریں مجھے بھی استفادہ کرنا چاہئے۔
آخر میں، میں ایک بار پھر انتخابات کے حوالے سے (5) عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ حکام، وزارت داخلہ، قومی نشریاتی ادارے آئی آر آئی بی، پولیس فورس اور سیکورٹی انتظامات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بہت اچھی طرح انتخابات منعقد ہوئے۔ میں تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ سب نے کام کیا، سب نے کوششیں کیں اور الحمد للہ ان کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ انتخابات کسی بھی ناگوار واقعے کے بغیر منعقد ہوئے۔ یہ بہت اہم ہے۔ دنیا میں اکثر جگہوں پر ہر جگہ کے لئے نہیں کہہ رہا ہوں، مجھے ہر جگہ کی اطلاع نہیں ہے، سیاسی اور نظریاتی اختلافات جو پائے جاتے ہیں، ان کی وجہ سے انتخابات کے موقع پر لڑائی ہوتی ہے، مار پیٹ ہوتی ہے اور بعض اوقات تو قتل تک ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہاں الحمد للہ مکمل سلامتی کے ساتھ پر امن طور پر انتخابات ہوئے۔ یہ آپ کا کمال ہے کہ اتنی اچھی طرح انتخابات کرائے ۔
ہمارا طریقہ یہ رہا ہے کہ الوداعی ملاقات میں سبھی حضرات کی خدمت میں قرآن مجید کا ہدیہ پیش کیا جاتا ہے یہ ہدیہ بھی پیش کیا جائے گا۔ میں جناب مخبر کو یہ ہدیہ پیش کرتا ہوں۔ خدا آپ کی حفاظت کرے۔ ان شاء اللہ آپ کی مدد اور نصرت کرے اور کامیابی عطا فرمائے۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
1۔ ملاقات کے آغاز میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نگراں صدر محمد مخبر نے کچھ باتیں بیان کیں۔
2۔ نہج البلاغہ خط نمبر 53
3 ۔ آرزوئیں اور مطالبات
4۔ جناب آقائے مخبر
5۔ صدارتی الیکشن کے لئے پہلے مرحلے میں 28 جون کو دوسرے مرحلے میں 5 جولائی کو ووٹنگ ہوئی۔