بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.
سب سے پہلے میں آپ سبھی حضرات، اور چودھویں حکومت کے سبھی اراکین، اعلی عہدیداران، کارکنوں، خاص طور پر ان اداروں کے لئے، جنہوں نے بارہ روزہ آزمائش کے دوران فعال کردار ادا کیا، جن کا ذکر جناب پزشکیان نے کیا، جیسے وزارت صحت اور دیگر سبھی اداروں کے لئے خدا سے مزید توفیقات کی دعا کرتا ہوں۔
ہمیں اطلاع ہے کہ ان 12 دنوں میں واقعی فداکاری به معنای واقعی کلمه، نقشآفرینی کردند. از همهی آنها تشکّر میکنیم.
کی گئی۔ ہم اس کے لئے سبھی کے شکرگزار ہیں۔
میں صدر محترم کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں جو مفید اور انتھک کام کر رہے ہیں۔ اس طرح کام کرنا، اس جذبے کے ساتھ کام کرنا اور اس حوصلے کے ساتھ کام کرنا، وہی چیز ہے جس کی ملک کو ضرورت ہے۔ منجملہ ان کا چین کا سفر بہت اچھا تھا اور اس سے بڑے واقعات کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں جن کی ملک کو اقتصادی لحاظ سے بھی اور سیاسی لحاظ سے بھی ضرورت ہے؛ خوش قسمتی سے ان کے اس دورے میں، ایک معاملے میں یہ امکان پیدا ہوا ہے جس کے سلسلے میں کامیابی ملی ہے اور ان شاء اللہ اس کی پیروی کی ضرورت ہے۔
اس سے پہلے کہ میں گفتگو شروع کروں، ایک بات جو میں نے آج کی یاد داشت کے آخر میں نوٹ کی ہے، لیکن مناسب سمجھتا ہوں کہ پہلے اس کو عرض کر دوں؛ اور وہ بات یہ ہے کہ ملک کے حکام میں شامل وہ احباب جو عوام سے ہم کلام ہوتے ہیں، وہ ملک کی طاقت، توانائی اور وسائل کی بات کریں، اس طرح کمزوریوں کی داستان نہ بیان کریں جس طرح کہ انھوں نے (2) آج یہاں گفتگو کی ہے۔
یہ صحیح ہے کہ ہمارے اندر کمزوریاں ہیں، نقائص ہیں اور کمیاں ہیں؛ کس ملک میں نہيں ہیں؟ لیکن ہمارے اندر قوتیں بھی ہیں، توانائیاں بھی ہیں، کام ہوئے ہیں اور کوششیں کی گئی ہیں؛ انہیں بیان کریں اور عوام کو بتائيں۔ اس سلسلے میں اخبارات و جرائد کی بھی ذمہ داری ہے، ریڈیو اور ٹی وی کی بھی ذمہ داری ہے لیکن سب سے زیادہ ذمہ داری خود حکام کی ہے کہ جب عوام کے درمیان لاؤڈ اسپیکر کے سامنے کھڑے ہوں تو کمزوری، ناتوانی اور نا امیدی کی بات نہ کریں۔
خود جناب صدر مملکت ابھی تقریبا آدھا گھنٹہ بولے؛ ان کی تقریر کی سبھی باتیں طاقت اور قوت کی ہیں۔ البتہ میں اجرائی امور سے واقف ہوں۔ برسوں میں خود، اجرائی امور میں رہا ہوں، جانتا ہوں کہ چاہنے، فیصلہ کرنے اور کام ہونے میں کم فاصلہ نہیں ہوتا۔ یہ ہم سب جانتے ہیں۔ لیکن خود یہ بات کہ انسان چاہے، اس کے اندر جذبہ ہو، ہمت ہو اور یہ امید ہو کہ وہ یہ کام کر سکے گا، یہ خواہشات کی تکمیل کا اہم عامل ہے۔ یہ وہ ضروری بات تھی۔ میں واقعی ان باتوں کے لئے جناب ڈاکٹر پزشکیان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
اپنے عزیز دوستوں سے عرض کروں گا کہ عوام کی خدمت کا جو موقع ملا ہے اس کی قدر کریں۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ موقع ہر ایک کو نہیں ملتا اور دوسری بات یہ ہے کہ ہمیشہ نہیں ملتا۔ ہمیں اور آپ کو چند برس کے لئے ایک ذمہ داری ملتی ہے، کوئی کام کرتے ہیں، کوئی میدان ملتا ہے جس میں آگے بڑھ سکتے ہیں، کام کر سکتے ہیں، عوام کی خدمت کر سکتے ہیں اور اس مدت میں رضائے الہی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس موقع کو ضائع نہ ہونے دیں۔ خدمت کی اس زندگی کے ایک ایک لمحے سے استفادہ کریں۔ اگر ہم اس نصیحت پر عمل کریں اور حقیقی کام کے بجائے متوازی امور انجام دینے، بے کار بیٹھنے، کم کام کرنے اور دوسرے مسائل میں الجھنے سے بچیں تو میرے خیال میں، جیسا کہ کہا گیا، مشکلات حل ہو جائيں گی اور کم وقت میں یا اوسط مدت کے اندر حل ہو جائيں گی۔ ایسا نہیں ہے کہ آج کہیں اور پھر برسوں منتظر رہیں۔ خاص طور پر اقتصادی مسائل میں جن کا تعلق عوام کی معیشت سے ہے، بہت سنجیدگی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
بیرونی تغیرات کا منتظر بھی نہیں رہنا چاہئے۔ دنیا میں، عالم سیاست میں، سفارتکاری کی دنیا میں رونما ہونے والے اتفاقات کے منتظر نہ رہیں، بلکہ اپنا کام کریں۔ جس کے ذمہ جو کام ہے وہ اس کو انجام دے۔ ہمارے ذمہ جو کام ہے، ہم اس کو انجام دیں۔ "نہ جنگ اور نہ صلح" کی اس کیفیت پر جو دشمن ہم پر مسلط کرنا چاہتا ہے، کام اور محنت کے جذبہ کو غالب رکھیں۔ ملک کو لاحق خطرات اور نقصانات میں سے ایک یہی " نہ جنگ اور نہ صلح " کی کیفیت ہے جو اچھی نہیں ہے، یہ فضا اچھی نہیں ہے۔ ہمیں اپنی گفتار سے، اپنے عمل سے اور نتائج کی نشاندہی کرکے، اس حالت پر، کام کے جذبے کو، محنت کے جذبے کو، ہمت اور ارادے کو غالب کرنا چاہئے۔
ملّی طاقت اور عزت کی تقویت، حکومتوں کے اہم فرائض میں سے ہے۔ پوری دنیا میں یہی ہے۔ دنیا کی سبھی طاقتوں کا فرض ہوتا ہے کہ ملّی طاقت وتوانائی کی تقویت کریں جس میں قوم کا اتحاد، جذبہ اور محرک سب سے اہم ہے۔ یعنی طاقت کے عوامل میں، اگر شمار کریں تو سب سے اہم یہی ہیں کہ قوم متحد ہو، اس کے اندر جذبہ ہو، امید ہو اور ولولہ ہو۔ ہمیں اپنی کارکردگی میں، بات کرنے میں، اپنے فرائض کی پابندی میں، قوم کے اندر یہ جذبہ پیدا کرنا چاہئے اور اگر موجود ہو تو اس کی تقویت کرنی چاہئے اور یہ جذبہ کمزور نہیں ہونے دینا چاہئے۔
کام میں ترجیحات پر توجہ دینا چاہئے۔ کام زیادہ ہے اور توانائی، چاہے وہ مالی ہو یا انسانی، جو کام ہونے ہیں ان سے سے کم ہوتی ہے۔ بنابریں ترجیحات کا تعین ہونا چاہئے۔ ترجیحات کے تعین میں ایک فوریت، ( فوری ضرورت) ہے اور ایک بنیادی حیثیت ہے؛ یہ ترجیح کے معیار ہیں۔ بعض امور فوری نوعیت کے ہوتے ہیں اور بعض میں بنیادی پہلو پایا جاتا ہے۔ انہیں ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ ان ترجیحات پر توجہ دیں۔ مدیریت (مینجمنٹ) کے بنیادی عناصر میں سے ایک یہی ہے یعنی یہ کہ انسان یہ تشخیص دے سکے اور سمجھ سکے کہ کون سے امور ترجیح رکھتے ہیں۔
میں جناب ڈاکٹر عارف کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا۔ مجھے اطلاع ہے کہ جو فیصلے ہوتے ہیں، ان سے متعلق امور اور کاموں کی کتنی پیروی کرتے ہیں کہ یہ فراموش نہ ہو جائے اور یہ رہ نہ جائے۔ وہ محنت کرتے ہیں، کام کرتے ہیں، مجھے اس سلسلے میں ان کی محنتوں اور سرگرمیوں کی اطلاع ہے۔
حکومتیں عوام کی عام اور مشترکہ ضروریات پوری کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ وہ مشترکہ ضروریات جنہیں پورا کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے، معیشت، سلامتی، صحت، ثقافت، طرز زندگی اور ماحول حیات وغیرہ ہیں۔ ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ ان میں ترجیح کس کو حاصل ہے۔ ان بنیادی امور میں ترجیح کس کو حاصل ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اسلامی نظام بنیادی طور پر، اسلامی تعلیمات اور قوانین پر عمل درآمد کے لئے ہے۔ کوئی دوسری بات کرے تو حقیقت کے خلاف ہے۔ پہلے دن سے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا نعرہ یہ تھا کہ خدا کے لئے، اہداف الہی کے لئے، تعلیمات الہی کے لئے اور خدا کے احکام کے لئے کام کرنا چاہئے۔ آپ نے اس کے بعد عوام سے کہا اور عوام بھی زیادہ تر دینی جذبے کے ساتھ اٹھے اور آگے بڑھے۔ (بنابریں) اسلامی نظام میں کام خدا کے لئے ہوتا ہے، ان اہداف کے لئے ہوتا ہے۔
ایک بات جس کی میں تاکید کرنا چاہتا ہوں، پیروی ہے، کبھی صدر مملکت کی سطح پر ہونی چاہئے، الحمد للہ یہ ہے، یہ واقعی پیروی کرتے ہیں۔ اپنے ان صوبائی دوروں میں، عوام سے رابطے میں، وزارت خانوں میں جاکر، کارکنوں اور اعلی افسران سے مل کر، یہ پیروی بہت اہم ہے اور بہت مفید بھی ہے۔ لیکن صرف یہی نہیں ہے بلکہ پیروی خود ڈھانچے میں اور سسٹم میں ہونی چاہئے۔ درمیانے درجے کے افسران میں بھی ہونی چاہئے۔ بعض اوقات آپ وزیر حضرات کوئی فیصلہ کرتے ہیں، وہ فیصلہ آپ کو قبول بھی ہوتا ہے، اور چاہتے بھی ہیں کہ کام ہو، اس کا حکم بھی دیتے ہیں، آپ کا اسسٹنٹ بھی اعلی افسر کو حکم دیتا ہے، لیکن دو تین واسطے کے بعد یہ معاملہ مسلسل کمزور پڑتا جاتا ہے اور پھر ختم ہو جاتا ہے۔ نچلی سطح پر پہنچتا ہے تو باقی نہیں رہتا! جبکہ کام نچلی سطح پر ہی ہونا ہوتا ہے۔ یہ کارکن ہیں جو کام کرتے ہیں۔ وزرا اور اعلی افسران تو صرف حکم دیتے ہیں۔ پیروی بہت اہم ہے اور نچلی سطح تک نتیجہ حاصل کرنے تک، آخر تک پیروی ہونی چاہئے۔
خوش قسمتی سے آج ملک میں اجماع کا امکان ہے؛ آج یہ چیز ہے۔ ملک کے تینوں شعبوں (مجریہ، مقننہ اور عدلیہ) کے سربراہان میں ہم فکری، ہم دلی اور آمادگی پائی جاتی ہے؛ بہت سے فیصلوں میں اور فیصلہ کن معاملات میں یہ ایک ساتھ ہیں لہذا آج اجماع حاصل کرنا میرے خیال میں ماضی سے زیادہ آسان ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ جن امور پر اجماع ہو انہیں آگے بڑھائيں ۔ یہ کام بھی واقعی بہت اہم ہیں۔ یہی چند نکات جو انہوں نے کہے ہیں، ایک یہی حکومت کے ڈھانچے کو سبک کرنے کا مسئلہ ہے؛ یعنی بعض اداروں کو کم کرنے کی بات ہے جن کا وجود اور عدم، برابر ہے۔ یا کسی ادارے میں کارکنوں کی تعداد گھٹانے کا مسئلہ ہے۔ کسی وزارت خانے اور انسٹیٹیوشن میں کارکنوں کی تعداد کم کرنے کا مسئلہ ہے۔ یہ کام اہم ہیں اور مشکل بھی۔ یہ آسان کام نہیں ہیں۔ لیکن آج ہمدلی پائی جاتی ہے تو یہ کام کئے جا سکتے ہیں۔ انہيں انجام دینا چاہئے۔ یہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بڑا موقع ہے۔ کام کے طریقے مختلف ہیں، رکاوٹیں بھی ہیں؛ لیکن انہیں برطرف کرنے کی ضرورت ہے۔
اقتصاد کے بارے میں جو ملک کا ایک اہم مسئلہ ہے، میری چند سفارشات ہیں جو عرض کروں گا۔ البتہ کہنے کے لئے باتیں بہت ہیں، جیسا کہ اشارہ کیا، کہنے کے لئے بہت کچھ ہے، لیکن کمترین پر اکتفا کرنا چاہئے۔
پہلا مسئلہ کارخانوں کا احیا ہے؛ جو لوگ اس کام سے سروکار رکھتے ہیں اور حقیقی اقتصادی مسائل اور عملی معیشت کو سمجھتے ہیں، سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جتنی پیداوار بڑھے گی اتنی ہی ملک کی اقتصادی ترقی ہوگی۔ پیداوار پر توجہ دیں، پیداواری یونٹوں کا احیا کریں۔ ابھی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ بعض کارخانوں کی بجلی کٹ جاتی ہے؛ بعض اوقات ایمرجنسی ہوسکتی ہے، لیکن جب ایمرجنسی نہ ہو تو پیداوار کے مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے۔ یہ میری پہلی سفارش ہے۔
میری دوسری سفارش یہ ہے کہ بنیادی ضرورت کی چیزیں بر وقت فراہم کی جائيں؛ یہ ملک کا ایک مسئلہ ہے۔ بعض معاملات میں، متعلقہ ذمہ دار نے مجھے رپورٹ دی ہے، مجھے کیوں رپورٹ دی، میں نہیں جانتا، لیکن مجھے رپورٹ دی ہے کہ فلاں چیز اہم بنیادی ضرورت کی چیزوں میں ہے، اس کو اس مدت کے لئے ہونا چاہئے، اس مدت کے ایک تہائی کے برابر، میں مدت کا ذکر نہیں کرنا چاہتا، لیکن یہ خطرہ ہے۔ ہمیں بنیادی ضرورت کا سامان بروقت مہیا کرنا چاہئے۔ چیزوں کے ذخیرے کی میزان، ضرورت کے لحاظ سے ہونی چاہیے۔ خطرات کا احتمال ہے؛ ہم ہمیشہ خطرات کی پیش بینی نہیں کر سکتے؛ کبھی کوئی مشکل آ سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی چیز ابھی درآمد کی جا سکتی ہو اور کسی وقت میں درآمد نہ کی جا سکتی ہو؛ اس کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔ ان خطرات کو نظر ميں رکھا جائے۔ بنابریں، ملک میں بنیادی ضرورت کی چیزوں کی مقدار اطمینان بخش ہونا چاہئے۔ اگر ملک ميں بنیادی ضرورت کا سامان وقت پر موجود ہو تو اس کا عوام کے دسترخوان سے براہ راست تعلق ہے؛ یعنی اس صورت میں بازار میں عارضی اور من چاہی گرانی نہیں ہوگی اور غذائی تحفظ کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ یہ ایک مسئلہ ہے۔
بنیادی ضرورت کی اشیا سے متعلق ایک بات جو کئی برس سے کہی جا رہی ہے، بنیادی ضرورت کی چیزوں کو مسابقتی بنانے سے تعلق رکھتی ہے۔ بعض بنیادی ضرورت کی چیزوں کی درآمد پر اجارہ داری ہے؛ اجارہ داری بری چیز ہے۔ اجارہ داری سے اداروں کے ہاتھ بندھ جاتے ہیں۔ جن ملکوں سے درآمدات انجام پاتی ہیں، اور جو لوگ درآمدات کا کام کرتے ہیں، ان کے درمیان کمپٹیشن ہونا چاہئے۔ ان کے درمیان کمپٹیشن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے ملک میں سامان لانے میں مدد ملے گی۔ کہا جاتا ہے کہ اگر ہم کمپٹیشن پیدا کر دیں تو باہر سے خریدی جانے والی چیزوں کی زرمبادلہ کی قیمت بھی کم ہوگی اور ملک کے اندر ریال میں بھی ان کی قیمت گر جائے گی۔ یہ بہت اچھی بات ہوگی۔ یہ مسئلہ بہت اہم ہے۔
عوام کی معیشت کا مسئلہ ملک کے اہم مسائل میں ہے؛ جیسا کہ ابھی جناب صدر مملکت نے بھی اشارہ کیا، ایسا کام کیا جائے کہ عوام بنیادی ضرورت کی کچھ چیزیں، مثال کے طور پر دس یا اس سے کچھ کم بنیادی ضرورت کی چیزیں قیمتیں بڑھنے کی فکر کے بغیر مہیا کر سکیں۔ یعنی یہ نہ ہو کہ آج ایک قیمت ہے اور کل گرانی کی وجہ سے قیمت دگنی ہو جائے۔ بعض لوگ کوپن کی بات کرتے ہیں اور جو لوگ ماہر ہیں، اس فیلڈ سے تعلق رکھتے ہیں، وہ اس کی تائید کرتے ہیں، میں خود اس بارے میں زیادہ دخل نہیں رکھتا، لیکن میرا خیال ہے کہ اس کام کی پیروی کرنی چاہئے۔ کہا جاتا ہے کہ کوپن کو ڈیجیٹل بھی کیا جا سکتا ہے۔ یعنی اس کی بنیاد موجود ہے اس سے کام لیا جا سکتا ہے یعنی ایسا انتظام کیا جا سکتا ہے کہ عوام تقریبا دس طرح کی چیزیں قیمت بڑھنے کی کسی پریشانی اور فکر کے بغیر حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک سفارش اس سلسلے میں بھی ہے۔
دوسری چیزوں کے تعلق سے بھی بازار میں نظم و ضبط کی فکر کرنا چاہئے۔ یعنی لوگ یہ نہ سمجھیں کہ بازار کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے؛ آج ایک قیمت ہے اور کل عجیب و غریب انداز میں قیمت اوپر چلی گئی۔ یہاں ایک قیمت ہے اور اس طرف دوسری قیمت ہے! یہ حالت جو بازار کے بےلگام ہو جانے کی کیفیت ہوتی ہے، عوام کے جذبات کو مجروح کرتی ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ لوگ یہ حالت محسوس کرنے لگیں۔
چیزوں کے ذخیرے کے بارے میں بھی یہ کہنا غیر مناسب نہیں ہے کہ موسم سرما کے لئے گیس کا ذخیرہ اہم مسائل میں سے ہے۔ ابھی سے گیس کی درآمدات وغیرہ کا کام شروع کر دینا چاہئے تاکہ سردیوں میں ملک کو کوئی مشکل در پیش نہ ہو۔ ترکمنستان یا دوسری جگہوں سے درآمد کی جا سکتی ہے۔
مکان کا مسئلہ بھی اہم مسائل میں سے ہے؛ گھر کا مسئلہ واقعی بنیادی مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں میرے سامنے تجاویز پیش کی جاتی ہیں، چونکہ یہ کام میرا نہیں ہے، میرے ہاتھ میں یہ کام نہیں ہے، اس لئے میں یہ تجاویز ذمہ دار عہدیداروں کو بھیج دیتا ہوں۔
گھر کا مسئلہ، کسی حد تک، مکمل طور پر حل نہ ہو تب بھی کسی حد تک حل کرنے کے تعلق سے تجاویز پیش کی جاتی ہیں، محترم حکام یہ تجاویز سنتے ہیں، ان پر غور کریں، پیروی کریں تاکہ ان شاہ اللہ نتیجہ حاصل ہو سکے۔
ایک مسئلہ تیل کا بھی ہے۔ اشارہ کیا گیا کہ پیداوار اور برآمدات دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود، تیل کی پیداوار جو ملک کی معیشت کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے، ظاہر ہے کہ بہت کم ہے۔ ہمارے تیل نکالنے کے طریقے پرانے ہیں۔ وسائل قدیمی ہیں، طریقے بھی قدیمی ہیں اور دنیا کے بہت سے تیل پیدا کرنے والے علاقوں سے ہم پیچھے ہیں جبکہ آج نوجوان طالب علموں اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ذریعے ہم یقینا اہم امور انجام دے سکتے ہیں۔ ان سے مدد لیں۔ اس سلسلے میں ہم نے ایک مشکل مسئلے میں گزشتہ حکومتوں میں تجربہ کیا ہے۔ ایک مشکل مسئلہ درپیش تھا، دو تین طالب علم میرے پاس آئے اور کہا کہ ہم یہ مسئلہ حل کر دیں گے۔ میں نے انہیں وزیر کے پاس بھیج دیا۔ بعد میں پیٹرولیئم کے وزیر نے بتایا کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ یعنی چند نوجوان طلبا اور تعلیم یافتہ نوجوان شاید تیل کی پیداوار اور تیل نکالنے کے طریقے میں تبدیلی لا سکیں۔ تیل کی برآمدات کے سلسلے میں بھی ہمیں زیادہ فعالیت کی ضرورت ہے۔ یعنی خریداروں کی تعداد بڑھانے اور خریداروں میں تنوع لانے کے لئے کام کی ضرورت ہے، یہ مسئلہ بھی اہم ہے اور ان شاءاللہ اس کی پیروی کی جائے۔
ایک نصیحت میں اسراف کے بارے میں کروں گا۔ ہم واقعی اسراف کرتے ہیں! میں نے چند برس قبل، اسراف نہ کرنے کو سال کا سلوگن قرار دیا تھا۔ اب مجھے اس سلوگن کے الفاظ یاد نہیں ہیں، لیکن مطلب یہ تھا کہ لوگ اسراف نہ کریں۔ کچھ لوگ میرے پاس آئے اور کہا کہ سب سے زیادہ اسراف تو آپ خود کرتے ہیں، سب سے زیادہ اسراف حکومت کرتی ہے، ہم نے دیکھا کہ لوگ سچ کہتے ہیں۔ بجلی، گیس، پانی حتی عمارت وغیرہ میں، سفر کے سلسلے میں، اسراف ہو رہا ہے۔ غیر ضروری سفر کی کیا ضرورت ہے؟ بہت سے سفر ایسے ہیں جن کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اور پھر سفر میں ضرورت سے دوگنا اور تین گنا زیادہ لوگوں کو ساتھ لے جایا جاتا ہے۔ اس کی ضرورت کیا ہے؟ اگر کہیں جانا ضروری ہو تو کم لوگ، اتنے ہی جائيں جتنے کی ضرورت ہو۔ یا مثال کے طور پر فرض کریں کہ سفر میں مہنگے ہوٹلوں میں قیام؛ یہ سب اسراف ہے۔ یہ اسراف نہیں ہونا چاہئے۔ جب آمدنی کم ہو تو خرچ بھی کم ہونا چاہئے۔
چو دخلت نیست، خرج آهستهتر کن
که میگویند ملّاحان سرودی
اگر باران به کوهستان نبارد
به سالی دجله گردد خشکرودی(5)
یعنی : "آمدنی نہیں ہے تو بہت کم خرچ کرو
ملاحوں کا گیت ہے کہ
اگر پہاڑوں پر بارش نہ ہو تو
دجلہ بھی خشک ہو جائے گی"
پہلے آمدنی کے ذرائع مہیا ہوں تب خرچ کے بارے میں سوچا جائے۔
میری آخری بات غزہ اور ان جرائم کے بارے میں ہے جو یہ ملعون صیہونی انجام دے رہے ہیں۔ واقعی حیرت ہوتی ہے کہ اتنے جرائم، اتنے المناک مظالم! اور انہیں شرم بھی نہیں آتی؛ صراحت کے ساتھ زبان پر لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انجام دے رہیں اور انجام دیں گے۔ اس کا علاج ہونا چاہئے۔ یہ صحیح ہے کہ امریکا اس کا پشت پناہ ہے اور امریکا بڑی طاقت ہے، اس میں شک نہیں ہے، لیکن اس کے مقابلے کا راستہ بند نہیں ہے۔ معترض ممالک، جن میں اسلامی اور غیر اسلامی دونوں طرح کے ممالک شامل ہیں، خاص طور اسلامی ممالک کو چاہئے کہ صیہونیوں سے تجارتی رابطہ بالکل منقطع کر لیں۔ حتی سیاسی روابط بھی ختم کر لیں، اس کو الگ تھلگ کر دیں۔ البتہ آج خبیث صیہونی نظام، ایسی حکومت ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ الگ تھلگ ہے۔ دنیا کی سب سے زیادہ نفرت انگیز حکومت ہے؛ اس میں شک نہیں ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ الگ تھلگ ہو سکتی ہے۔ اس کے راستے بند کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سبھی حکومتوں کا فریضہ ہے۔ میرے خیال میں ہماری ایک بنیادی ڈپلومیسی یہ ہونی چاہئے کہ حکومتوں سے درخواست کریں، تاکید کریں کہ اس حکومت کے ساتھ اپنے روابط منقطع کر لیں؛ سب سے پہلے تجارتی روابط اور اس کے بعد سیاسی روابط منقطع کریں۔
میں یہاں چند الفاظ بولنے والوں اور لکھنے والوں سے، ان لوگوں سے جو اخباروں میں لکھتے ہیں، مقالے لکھتے ہیں، ریڈیو اور ٹی وی پر بولتے ہیں، سوشل میڈیا پر بیان جاری کرتے ہیں، ان سے میں کہوں گا کہ کوشش کریں کہ اپنے ملک کے نقصان میں نہ بولیں۔ اپنے ملک کی کمزوریاں بیان نہ کریں، لوگوں کے درمیان طاقت اور قوت کے نقاط بیان کریں، اس قوت کی بات کریں جو واقعی ہے، ان توانائیوں کی بات کریں جو پائی جاتی ہیں، عوام کے درمیان انہیں بیان کریں۔
ان شاء اللہ خداوند عالم آپ سب کو توفیق عطا کرے، آپ کی مدد کرے کہ آپ اپنا اہم اور سنگیں فریضہ بنحو احسن انجام دے سکیں۔ ہم آپ کے لئے دعا گو ہیں
والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1۔ اس ملاقات میں پہلے صدر جناب مسعود پزشکیان نے رپورٹ پیش کی
2۔ صدر مملکت
3۔ نائب صدر جناب محمد رضا عارف
4۔ خرچ کے معیار کی اصلاح، رجوع کریں، نئے سال کی آمد کے موقع پر خطاب سے، 21-03-2009
5۔ سعدی۔ گلستان،ساتواں باب