قرآن مجید میں راہ یا راستے کے لیے کئي الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ "طریق" جب ایک فرضی راستے پر کوئی آگے بڑھتا ہے جبکہ اس پر نہ کوئي علامت ہے، نہ اسے پتھروں سے ہموار کیا گيا ہے، بس کوئي ایک فرضی راستے پر چلنے لگے تو اسے طریق کہتے ہیں، اس راہ میں کوئي خصوصیت نہیں سوائے اس کے کہ ایک راہرو اس پر چلے۔ تو یہ ایک عمومی معنی ہے۔ "سبیل" کے معنی اس سے زیادہ محدود ہیں، یہ وہ راستہ ہے جس پر چلنے والے زیادہ ہیں۔ سبیل، ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والوں کی کثرت کی وجہ سے وہ ہموار ہو گيا ہے اور واضح ہو گيا ہے، البتہ ممکن ہے کبھی انسان اس راستے کو کھو دے۔ "صراط" پوری طرح سے واضح راستے کو کہتے ہیں۔ یہ راستہ اتنا واضح ہے کہ اس راستے کو کھو دینے کا امکان ہی نہیں ہے۔ "اِھدِنَا الصِّراط" یعنی بالکل واضح راستہ دکھا، اس پر "المستقیم" کی قید بھی لگا دی یعنی ہمیں بالکل واضح اور سیدھا راستہ دکھا۔
امام خامنہ ای
1 مئي 1991