انہوں نے زور دے کر کہا کہ اہل بیت کا مکتب، آٹھویں امام کے سفر خراسان کے نتائج کی روشنی میں گوشہ تنہائی سے نکل آیا اور شیعوں کو ایسا جذبہ ملا جس نے تاریخ میں شیعہ کو محفوظ رکھا اور اہل بیت کے مکتب کے پیروکاروں کو روز بروز پھیلایا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے امام ہشتم کے سفر خراسان کے ایک اہم نتیجے کے طور پر عاشورہ کے مسئلے کی ترویج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت علی بن موسی الرضا علیہ السلام نے عوام کے دلوں کی توجہ عاشورہ کے قیام کی طرف مبذول کرا کے اس کے فلسفے اور مقاصد یعنی ظلم کے خلاف جدوجہد اور اسلامی معاشرے میں فاسق و فاجر افراد کو ہرگز برداشت نہ کئے جانے کو ذہنوں کی توجہ کا مرکز بنا دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے ایک اور حصے میں حالیہ مسلط کردہ جنگ میں عوام کی پوری طاقت اور قوت سے ڈٹ جانے کی حقیقت کو دنیا کی نظر میں ایرانی قوم کی خاص عظمت اور دوچنداں وقار کا باعث قرار دیا اور یہ سوال کیا کہ واقعی گزشتہ 45 برسوں میں ایران سے امریکا کی تمام حکومتوں کی مسلسل دشمنی کی کیا وجہ ہے؟
انہوں نے اس سوال کے جواب میں مزید کہا کہ امریکی ماضی میں اس دشمنی کی حقیقی وجہ کو دہشت گردی، انسانی حقوق، جمہوریت، عورت کے مسئلے اور اسی طرح کے دیگر عناوین کے پیچھے چھپاتے تھے یا کہتے تھے کہ ہم ایران کے رویے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں لیکن جو شخص آج امریکا میں برسراقتدار ہے اس نے ایران سے دشمنی کی حقیقی وجہ کو افشا کر دیا اور کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایران ہماری بات مانے یعنی درحقیقت ہم چاہتے ہیں کہ ایرانی قوم اور جمہوری اسلامی نظام ہمارے تابع فرمان ہو۔
آیت اللہ خامنہ ای نے امریکیوں کے اس مہلک مقصد کی گہرے ادراک کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا: وہ چاہتے ہیں کہ ایران جیسی عظیم تاریخ اور ایسی عزت و افتخار والی قوم امریکا کے تابع فرمان ہو۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ امریکا سے براہ راست مذاکرات کیوں نہیں کرتے اور مسائل کو حل کیوں نہیں کرتے وہ ظاہر بین ہیں کیونکہ معاملے کی حقیقت یہ نہیں ہے اور ایران سے دشمنی کے امریکی مقصد کے باعث یہ مسائل حل نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے ایرانی قوم کو زیر کرنے اور اپنا تابع فرمان بنانے کے لیے امریکی عہدیداروں کے بیانوں اور اقدامات کو ایرانیوں کی توہین قرار دیا اور زور دے کر کہا کہ قوم ایسی بدترین توقع سے سخت ناراض ہے اور اس مطالبے کے مقابلے میں طاقت کے ساتھ کھڑی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے زور دے کر کہا کہ انہوں نے صیہونی حکومت کو اکسایا اور مدد کی تاکہ وہ اپنے خیال میں اسلامی جمہوریہ کا کام تمام کر دیں کیونکہ انہیں گمان نہیں تھا کہ ملت ایران ان کے سامنے ڈٹ جائے گی اور ایسا زوردار مکا مارے گی کہ وہ پچھتانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے جنگ شروع ہونے کے ایک دن بعد یورپ میں امریکا کے کچھ عناصر کے اجلاس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے حقیر مقاصد کے حصول کے بارے میں اتنا خوش فہمی میں مبتلا اور مطمئن تھے کہ حملے شروع ہونے کے ایک دن بعد ہی متبادل حکومت کے تعین کے لیے اجلاس بلایا اور بادشاہ بھی مقرر کر دیا۔
انہوں نے ان احمقوں کے درمیان ایک ایرانی کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس ایرانی پر خاک ہو جو اپنے ملک کے خلاف اور صیہونیت اور امریکا کے حق میں کام کر رہا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے عوام اور نظام کے درمیان فاصلے کی خام تصویر کو ان کے دشمنوں اور ان کے مزدوروں کی خوش فہمی قرار دیا اور کہا کہ ایرانی قوم نے حکومت، مسلح فورسز اور نظام کے ساتھ کھڑے ہو کر ان سب کے منہ پر زوردار مکا مارا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کی مسلح فورسز کی طاقت کی نمائش کو حالات کا رخ تبدیل ہو جانے کا باعث قرار دیا اور کہا کہ ہم اور پوری ایرانی قوم مسلح فورسز کے عظیم کارنامے کا تشکر کرتے ہیں اور آئندہ بھی ایران اور اس کی مسلح فورسز کی طاقت و صلاحیت روز بروز بڑھتی جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ گزشتہ 45 برسوں میں ان دشمنیوں کے باوجود روز بروز مضبوط تر ہوتی گئی ہے اور دشمن کو بھی یہ احساس ہو گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کو زیر کرنے کا راستہ اسلحے کا استعمال کرنا نہیں بلکہ ملک کے اندر اختلاف و نفاق پیدا کرنا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں صیہونی حکومت کو دنیا کے عوام کی نظر میں سب سے زیادہ قابل نفرت حکومت قرار دیا اور کہا کہ آج حتی کہ مغربی حکومتیں جیسے برطانیہ اور فرانس بھی جو ہمیشہ صیہونی حکومت کے حامی رہی ہیں اس کی مذمت کر رہی ہیں البتہ یہ مذمتیں زبانی اور بے فائدہ ہیں۔
انہوں نے صیہونی حکومت کے موجودہ سربراہان کے جرائم جیسے بھوک اور پیاس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے بچوں کے قتل اور غذا کی قطار میں انہیں فائرنگ سے ہلاک کرنے کو انسانی تاریخ میں عدیم المثال قرار دیا اور کہا کہ ان گھناؤنے جرائم کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونا چاہیے البتہ زبانی مذمت کرنا بے فائدہ ہے بلکہ بہادر یمنی عوام کی طرح ایسا اقدام کرنا چاہیے کہ صیہونی حکومت کی مدد کے راستے ہر طرف سے بند ہو جائیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ کے ہر ممکن اقدام کی تیاری کا اعلان کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ خداوند متعال ایرانی قوم اور دنیا کے تمام حق پرستوں کی تحریک کو برکت عطا کر کے اس گہرے اور مہلک سرطان کی جڑ کو خطے سے اکھاڑ پھینکے اور مسلم اقوام کو بیدار کرے اور آپس میں متحد کرے۔
انہوں نے ملک کے مختلف گوشوں میں امریکا اور صیہونیت کے ایجنٹوں اور غافل مقررین و مصنفین کو اختلاف اور و انتشار پیدا کرنے والے عناصر قرار دیا اور کہا کہ آج الحمد للہ عوام متحد ہیں اور اگرچہ سیاسی و سماجی معاملات میں اختلاف رائے ہے لیکن نظام اور ملک کے دفاع اور دشمن کے سامنے ڈٹ جانے کے سلسلے میں سب متحد ہیں اور یہ اتحاد دشمنوں کی جارحیت اور حملے کی راہ میں رکاوٹ ہے اور اسی وجہ سے وہ اس وحدت کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے قومی اتحاد کی حفاظت کو ایک سماجی فریضہ قرار دیا اور ملک کے خادمین خصوصاً صدر جمہوریہ کی حمایت پر زور دیا۔
آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا تھا کہ عوام کا آپس میں متحد رہنا، عوام اور حکومت کا اتحاد، نظام کے ذمہ دار افراد کا آپس میں اور عوام اور مسلح فورسز کے ساتھ اتحاد حتمی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ علامات اور نشانیاں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ آج دشمن کی سب سے زیادہ کوشش اس ہم آہنگی، ہم دلی اور تعاون کو مجروح کرنے پر مرکوز ہے۔