خطاب حسب ذیل ہے:

 

 بسم اللہ  الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ  ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ  الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداة المھدیّین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

  تمام ‏عالم وجود بالخصوص ایرانیوں کے ولی نعمت اور مہربان امام، حضرت علی بن موسی الرّضا (علیہ الصلاۃ والسلام) کے یوم شہادت کی تعزیت پیش کرتا ہوں۔ یہ مجلس بھی آپ کا ہی لطف وکرم ہے کہ یہ توفیق عطا ہوئی کہ یہ پرخلوص مجلس منعقد ہو اور آپ حضرات سے ملاقات ہو۔ چند جملے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے بارے میں اور چند جملے موجودہ مسائل کے بارے میں عرض کروں گا۔ 
 حضرت علی بن موسی الرّضا علیہ السلام کی زندگی میں تسلسل کے ساتھ بڑے واقعات رونما ہوئے اور انہیں میں سے ایک آپ کی مدینے سے طوس، مرو اور خراسان آمد ہے۔ آپ کی زندگی میں دیگر  گوناگوں واقعات بھی رونما ہوئے۔ آپ کے سفر خراسان کے جملہ نتائج میں، مکتب اہل بیت کے لئے اس کے فوائد بھی شامل ہیں۔ یعنی اگرچہ آپ کو اس سفر پر مجبور کیا گیا تھا اور آپ اپنی مرضی سے خراسان نہيں آئے تھے، لیکن خداوند عالم نے آپ کے اس سفر میں برکت عطا فرمائی اور آپ کے اس سفر کے دوران اور شہادت کے بعد جو بڑے واقعات رونما ہوئے ان سے مکتب اہل بیت کی غیر معمولی ترویج ہوئی۔ مکتب اہل بیت گوشہ نشین تھا، مظلوم تھا، امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد، اسلامی دنیا میں جہاں بھی شیعہ تھے، وہ بے شمار مشکلات سے دوچار تھے، جسمانی مشکلات، معاشی پریشانیاں اور ذہنی مشکلات سے دوچار تھے۔ یہ مشکلات و مسائل تدریجی طور پر امام محمد باقر علیہ السلام کے دور میں کم ہوئے، امام جعفرصادق علیہ السلام کے دور میں مزید کم ہوئے، اس کے بعد حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے زمانے میں یہ گوشہ نشینی کم ہوئی لیکن حضرت امام علی رضا علیہ السلام) کے دور میں عالم اسلام میں مکتب اہل بیت کی نشر و اشاعت ہوئی۔ آپ کے اس سفر سے شیعوں کا حوصلہ بڑھا اور اس حوصلے نے مکتب تشیع کی حفاظت کی۔ اس واقعے کو آج تقریبا 12 سو برس ہو رہے ہیں اور اس دوران مکتب اہل بیت کی پیروی کرنے والوں کی تعداد ميں روز افزوں اضافہ ہوا ہے۔ ان میں شیعہ بھی ہیں اور تعلیمات اہل بیت پر اعتقاد رکھنے والے غیر شیعہ بھی ہیں۔ ایسے افراد زیادہ ہیں جو با ضابطہ شیعہ نہیں ہیں لیکن اہل بیت کی تعلیمات اور اہل بیت علیہم السلام کے فکری اصولوں پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ یہ حضرت علی بن موسی الرّضا علیہ السلام کی مدینے سے خراسان آمد کا نتیجہ تھا۔ آپ کی موجودگی میں جو واقعات رونما ہوئے، جو مذاکرات اور مباحث انجام پائے، آپ نے مامون اور عوام کے ساتھ جو رویہ رکھا، اس زمانے کے حکام کے ساتھ آپ کا جو طرزعمل تھا، اس کی تاثیر یہ تھی کہ نگاہوں میں شیعوں کی عظمت بڑھی اور مکتب اہل بیت اوپر اٹھا۔    
 دوسری تاثیر جس پر ميں زور دینا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ حضرت علی بن موسی الرّضا علیہ السلام نے مسئلہ عاشورا،  امام حسین علیہ السلام کی بات عوام کے درمیان پھیلائی۔ یعنی عوام کے درمیان خود واقعہ عاشورا اس بات کا باعث بنا ہے کہ تاریخ میں شیعوں کو ظلم کے خلاف مجاہدت کا علم بردار تسلیم کیا گيا۔  

واقعہ کربلا ایسا واقعہ تھا کہ جس نے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی اور جس ہستی نے اس کو ایک تحریک کی شکل عطا کی وہ  حضرت علی بن موسی الرّضا علیہ السلام تھے۔ یہ ابن شبیب، ریّان بن شبیب کی معروف روایت کہ حضرت نے فرمایا کہ اِن کُنتَ باکیاً لِشَیءٍ فَابکِ لِلحُسَینِ (علیہ السلام) (2)‌ یہ روایت کا شروع کا حصہ ہے۔ روایت بہت مفصل ہے۔ بہت اہم ہے۔ "کسی چیز پر بھی آنسو بہانا چاہو تو حسین پر گریہ کرو" یہ روایت مسئلہ کربلا کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ اس کے بعد امام حسین کی زیارت کے لئے جانے والوں ، آپ کی عزادارکی کرنے والوں اور آپ پر اشک بہانے والوں کے لئے، عظیم وعدے کہ قیامت میں ہمارے ساتھ محشور ہوں گے، ہمارے ساتھ رہیں گے وغیرہ وغیرہ، یہ باتیں بھی اس روایت میں موجود ہیں۔
 جب واقعہ کربلا بیان ہوا اور حسین ابن علی (سلام  اللہ علیہما) کی شہادت بیان ہوئی تو فطری طور پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آپ کو کیوں شہید کیا گیا؟ یہ سوال اسلام کی بہت سی اجتماعی تعلیمات کی کنجی ہے۔ کیوں شہید ہوئے؟ کیا ہوا کہ رحلت پیغمبر کے  تقریبا پچاس برس بعد، اتنی بڑی مصیبت آئی، ہوا کیا تھا؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ تاریخ بشریت کے حوادث اور مسلمانوں کے فرائض اس سوال سے آشکار ہو سکتے ہیں۔
 امام حسین علیہ السلام نے ظلم کے خلاف مجاہدت کی۔ آپ کو بے انصافی قبول نہیں تھی۔ امام حسین علیہ السلام کو اسلامی معاشرے پر فاسقوں اور فاجروں کا غلبہ منظور نہیں تھا۔ آپ یہ تسلیم نہیں کر سکتے تھے۔ یہ بہت اہم مسائل ہیں۔ جب واقعہ کربلا بیان ہوگا تو فطری طور پر یہ باتیں بھی بیان ہوں گی۔

 یہ چند جملے حضرت علی بن موسی الرّضا سلام اللہ علیہ کے بارے میں تھے کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے بیان کی برکت سے واقعہ کربلا و عاشورا بیان ہوئے، یہ بہت اہم ہے۔  

  ملک کے موجودہ مسائل کے تعلق سے یہ عرض کرنا ہے کہ لڑائی ہوئی، ایرانی قوم پر اہم حوادث مسلط کئے گئے، جنگ مسلط کی گئی، قوم نے پوری قوت اور طاقت سے استقامت کی اور اپنی ثابت قدمی سے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لی۔ ان واقعات نے دنیا کے لوگوں کی نگاہ میں ایران کی عظمت بڑھا دی ایک نئی عزت عطا کر دی، یہ خود اس واقعے  سے متعلق ہے۔   
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایران سے امریکا کی دشمنی کس لئے ہے؟ یہ سوال بظاہر بہت آ‎سان ہے لیکن درحقیقت بہت پیچیدہ ہے۔ اس سوال کا جواب بہت اہم ہے، جواب بھی پیچیدہ ہے۔ یہ دشمنی آج کی نہيں ہے۔ 45 برس سے امریکی حکومتیں، انواع و اقسام کے لوگ، اشخاص اور امریکی پارٹیاں، جو اقتدار میں آتی رہیں، انھوں نے اسلامی جمہوریہ ایران اور ملت ایران کے خلاف یہی دشمنی، یہی پابندی اور یہی دھمکی روا رکھی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟  ماضی میں اس کی وجہ چھپاتی رہی ہیں، مختلف ناموں سے، دہشت گردی کے نام پر، انسانی حقوق کے نام پر، خواتین کے مسئلے کے نام پر، ڈیموکریسی کے نام پر، مختلف ناموں سے، اس کی پردہ پوشی کرتی رہی ہیں اور اگر کہتی بھی تھیں تو آبرومندانہ شکل میں کہتی تھیں کہ ہم ایران کا طرزعمل تبدیل کرنا چاہتے ہیں؛ ماضی میں اس طرح کی باتیں کیا کرتی تھیں۔ یہ جناب جو آج امریکا میں برسر اقتدار ہیں، (3) انھوں نے پول کھول دی، حقیقی مقصد واضح کر دیا؛ انھوں نے کہہ دیا کہ ایران سے، ملت ایران سے ہماری لڑائی اس لئے ہے کہ ایران امریکا کا تابع فرمان ہو!  ہم ایرانیوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھنا چاہئے؛ یہ اہم مسئلہ ہے۔ البتہ ممکن ہے کہ ہم نے جو بات کہی ہے  ان کی تعبیر اس سے ذرا مختلف ہو، مثال کے طور یہ ہو کہ "ایران ہماری بات سنے"  یہ بات کہی ہو،  یعنی دنیا میں  ایک حکومت اور ایک طاقت ایسی ہے جو ایران سے، ایسی تاریخ، ایسی عزت اور ایسی ملت رکھنے والے ایران سے یہ چاہتی ہے کہ یہ ملک، اپنی اس تاریخ، اس عظیم قوم اور اپنے تمام تر افتخارات کے ساتھ، اس کی اطاعت کرے! دشمنی کی وجہ یہ ہے ؛ دشمنی اس لئے ہے۔       
    جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ "جناب امریکا کے خلاف نعرے نہ لگائیے وہ غصہ ہوتے ہیں، آپ سے دشمنی کرتے ہیں" یہ لوگ صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں۔

 جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ امریکا سے براہ راست مذاکرات کرکے اپنے مسائل حل کیوں نہیں کرتے" میری نظر میں یہ لوگ صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے۔ یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایران امریکا کی اطاعت کرے۔ ایرانی عوام اس توہین سے نالاں ہیں اور جو لوگ ملت ایران سے یہ غلط توقع رکھتے ہیں ان کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ پوری قوت سے ان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ حالیہ جنگ بھی اسی لئے تھی۔ صیہونی حکومت کو آگے بڑھایا، ورغلایا، اس کی حمایت کی، اور ایران پر حملے کے لئے اس کی مدد کی کہ ان کے خیال خام کے تحت، ایران کا کام ختم کر دے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا کام ختم کر دے! وہ یہ نہیں سمجھ رہے تھے کہ ایران ان کی حرکت پر ایسا  طمانچہ رسید کرے گا کہ انہيں پشیمان کر دے گا۔ انھوں نے یہ نہیں سوچا تھا۔  

 وہ سمجھ رہے تھے کہ اس حملے سے ایران کا کام ختم ہو جائے گا۔ دیکھئے 13 جون کو ایران پر حملہ ہوا، ایک دن بعد یعنی 14 جون کو

 کچھ لوگ ایک یورپی دارالحکومت میں بیٹھ کر اسلامی جمہوری نظام کے متبادل کی بات کر رہے تھے! میں نے سنا ہے کہ دو تین دن قبل ٹیلیویژن پر بھی یہ بات کہی ہے، لیکن مجھے اسی وقت اس کی اطلاع دی گئی تھی۔ یعنی وہ اتنے مطمئن تھے کہ یہ حملہ اسلامی جمہوری نظام کی بنیادیں ختم کر دے گا؛ انہیں یقین تھا کہ وہ عوام کو اسلامی جمہوریہ کے مقابلے پر لے آئيں گے۔ اتنے مطمئن تھے کہ حملے کے دوسرے ہی دن، بیٹھ کر یہ  بحث کرنے لگے کہ ایران میں اسلامی جمہوری نظام کی جگہ کون سی اور کیسی حکومت برسر اقتدار لائی جائے! بادشاہ کا تعین بھی کر دیا؛  ایران کے لئے شاہ کا تعین بھی ہو گیا کہ وہ ایران کا بادشاہ ہوگا! وہ ایران کے بارے میں یہ سوچ رہے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس حملے سے ایران کے نظام اورعوام کے درمیان فاصلہ پیدا ہو جائے گا۔ نظام کمزور ہو جائے گا اور وہ اپنا پست اور خباثت آمیز مقصد حاصل کر لیں گے۔ لیکن ملت ایران نے، میں نے یہ بات بارہا کہی ہے اور پھر کہتا ہوں، کہ ایرانی عوام نے مسلح فورسز، حکومت اور نظام کے شانہ بشانہ استقامت اور ثابت قدمی کا ثبوت دیا اور دشمنوں کے منہ پر محکم مکا رسید کیا۔      
ان احمقوں کے درمیان جو اسلامی جمہوری نظام کا متبادل معین کرنے کے لئے بیٹھے تھے، ایک ایرانی بھی تھا۔ وائے ہو اس ایرانی پر جو اپنے ملک کے خلاف اور صیہونیت اور امریکا کے فائدے میں کام کرے! البتہ یہ میٹنگ اس وقت ہوئی تھی جب ابھی ہماری مسلح افواج نے اپنی طاقت پوری طرح نہیں دکھائی تھی۔ پہلا اور دوسرا دن تھا۔ اس کے بعد جب الحمد للہ ہماری مسلح افواج نے بڑے کارنامے انجام دیے، جس کے لئے پوری ملت ایران کو مسلح افواج کا شکریہ ادا کرنا چاہئے اور ہم شکریہ ادا کرتے ہیں اور ان شاء اللہ اس کے بعد ملت ایران کی  مسلح افواج  کی طاقت و توانائی میں روز افزوں اضافہ ہوگا۔  

 یہاں ایک اور نکتہ بھی پایا جاتا ہے جو میں عرض کروں گا۔ ان واقعات میں ہمارے دشمن جس نتیجے پر پہنچے، وہ یہ ہے کہ ایران کو جنگ اور فوجی حملے سے نہیں جھکا سکتے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو تشدد کے ان وسائل سے کام لے کر پیچھے نہیں دھکیل سکتے ۔ وہ 45 برس سے اس کوشش میں ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ ایران روز بروز قوی سے قوی تر ہوا ہے۔  تو سوچا کہ اس کے لئے اندرونی اختلاف پیدا کریں۔ نفاق و تفرقہ ڈالنے کی کوشش کریں۔ البتہ ملک کے اندر ان کے عوامل موجود ہیں۔ صیہونزم اور امریکا کے عوامل ملک کے گوشہ و کنار میں موجود ہیں۔ ان کے ذریعے اور ان لوگوں کے ذریعے جو اس بات سے غافل ہیں کہ کیا بول رہے ہیں اور کیا لکھ رہے ہیں کوشش کی کہ عوام کے درمیان اختلاف و تفرقہ پیدا کریں اور گروہ بندی وجود میں لائیں۔  لیکن الحمد للہ آج ملک متحد ہے۔ عوام متحد ہیں۔ طریقہ کار کا اختلاف ہے۔ سیاسی اور سماجی امورکے طریقہ کار میں اختلاف ہے، لیکن نظام کے دفاع میں، ملک کے دفاع میں اور ملک کے دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے کے مسئلے میں، عوام متحد ہیں اور یہ اتحاد ان کے (دشمنوں کے) نقصان میں ہے، یہ اتحاد ان کی جارحیت میں مانع  اور رکاوٹ ہے۔ وہ اس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرف سے ہوشیار رہیں۔    
    اہل بیان، اہل قلم، بولنے والے، لکھنے والے، محققین اور جو لوگ ٹوئٹ کرتے ہیں، سوچ سمجھ کے کام کریں۔ یہ مقدس اتحاد، یہ عظیم اجتماع اور عوام کے قلب و ارادے کی محافظ یہ فولادی ڈھال کمزور نہیں ہونی چاہئے۔

الحمد للہ آج یہ اتحاد ہے۔ عوام اس اتحاد کی حفاظت کریں۔ حکام خاص طور پر مجریہ، مقننہ اور عدلیہ، تینوں شعبوں کے ذمہ داران میں  مکمل اتحاد اور ہمدلی پائی جاتی ہے، اس کی حفاظت کریں۔ عوام ملک کی خدمت کرنے والوں کی حمایت کریں؛ صدر مملکت کی حمایت کریں۔ ملک کے صدر محنتی ہیں اور انتھک محنت کر رہے ہیں، جو لوگ اس طرح پوری محنت سے کام کرنے والے ہوں، انتھک محنت کرنے والے ہوں، ان کی قدر کو سمھجیں۔  عوام اور حکومت کے درمیان جو اتحاد پایا جاتا ہے، نظام کے مختلف شعبوں کے ذمہ داران کے درمیان جو اتحاد ہے، مسلح افواج اور عوام اور عوام کے مختلف طبقات کے درمیان جو وحدت پائی جاتی ہے، اس کی حفاظت کی جائے یہ میری تاکید ہے۔ 

 قرائن و شواہد سے میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ آج دشمن کی پوری کوشش ہے کہ اس وحدت و اتحاد اور اس ہمدلی کو نقصان پہنچے۔ دشمن کی  کوشش ہے کہ اس باہمی  تعاون اور اتحاد کو کسی بھی طرح نقصان پہنچے۔

عوام اس بات پر توجہ رکھیں۔ البتہ ممکن ہے کہ مختلف مسائل میں لوگوں کے نظریات مختلف ہوں، اس  میں کوئی حرج نہيں ہے، لیکن صاحبان فکر اس بات پر توجہ رکھیں کہ ملت ایران کی موجودیت کی تکمیل کرنے والی نئی فکر پیش کرنے میں اور کردار کشی نیز توہین میں فرق ہے۔  اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی اصولوں کی توہین نہ کریں۔ انہیں بنیادی اصولوں نے اس قوم کو یہ رشد و پیشرفت  عطا کی ہے۔ ملک کو اس طرح اوپر لائے ہیں، قوم کو یہ طاقت و توانائی انہیں بنیادی اصولوں سے ملی ہے۔ اگر ان بنیادی اصولوں کی تکمیل اور تقویت اور اصلاح کرنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن تخریبی کارروائی نہيں ہونی چاہئے۔ تخریبی کارروائی وہ چیز ہے جو دشمن چاہتا ہے۔ نظام کے تینوں شعبوں،  پارلیمنٹ، حکومت اور عدلیہ، اور مسلح افواج نیز دیگر اداروں کا باہمی اتحاد جاری رہنا چاہئے۔

 آج ہمارا دشمن، وہ دشمن جو ہمارے مقابل ہے یعنی صیہونی حکومت، دنیا کی سب سے زیاد قابل نفرت حکومت ہے۔ دنیا کی اقوام بھی صیہونی حکومت سے متنفر ہیں۔ حکومتیں بھی صیہونی حکومت کی مذمت کرتی ہیں۔ یعنی آپ دیکھیں کہ مغربی حکومتوں کے سربراہان جو ہمیشہ صیہونی حکومت کے حامی رہے ہيں، آج وہ بھی اس کی مذمت کر رہے ہیں۔ البتہ ان کی مذمت زبانی ہے؛ یہ ناکافی ہے۔ زبانی مذمت کا کوئی فائدہ نہيں ہے۔  

 جو جرائم آج صیہونی حکام انجام دے رہے ہیں، میرے خیال میں تاریخ میں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بچوں کو بھوک اور پیاس سے مار رہے ہيں، بچوں کو بھوک اور پیاس سے قتل کر رہے ہیں۔ جو بچے کھانا لینے کے لئے آتے ہیں ان پر گولیوں کا برسٹ مار دیتے ہیں۔ دنیا اور تاریخ میں، جہاں تک مجھے علم ہے، ان جرائم کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان جرائم نے اقوام کو اس سے متنفر کر دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں ڈٹ جانے کی ضرورت ہے۔ استقامت کی ضرورت ہے اور استقامت زبانی نہیں ہے کہ حکومتیں زبان سے کہیں کہ ہم مخالف ہیں۔ مذمت کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ حکومت فرانس اور حکومت برطانیہ اور دیگر حکومتوں نے بھی مذمت کی ہے۔ اس کا کو‏ئی فائدہ نہیں ہے۔  صیہونی حکومت کی مدد کا راستہ بند ہونا چاہئے۔ ان تک مدد پہنچنے کا راستہ بند کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کام آج یمن کے شجاع عوام کر رہے ہیں، وہ صحیح کام ہے۔ صیہونی حکومت کے حکام جو جرائم کر رہے ہيں، اس کے مقابلے کا اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے کہ ان تک مدد پہنچنے کے راستے بند کر دیے جائيں۔  
ہم ہر اس کام کے لئے پوری طرح آمادہ ہیں جو اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے ممکن ہو، جس کام کا بھی امکان ہو، ہم اس کے لئے تیار ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم ملت ایران کے اقدام میں اور دنیا کے سبھی حق پرستوں کے اقدام میں برکت عطا فرمائے اور گندے سرطانی پھوڑے کو جڑے سے ختم کر دے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم مسلم اقوام کو بیدار اور ایک دوسرے سے متحد کرے۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ

1۔ اس مجلس میں پہلے دو ذاکرین اور مرثیہ خوانوں نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا مرثیہ پڑھا اور آپ کے مصائب بیان کئے

 2۔ امالی صدوق، مجلس 27 ص 130

3۔ ڈونلڈ ٹرمپ ( امریکی صدر)