اس ملاقات میں آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اس کانفرنس کے انعقاد کو سراہتے ہوئے مرحوم آيت اللہ میلانی کو معنوی، اخلاقی، علمی، سماجی اور سیاسی لحاظ سے ایک جامع شخصیت قرار دیا اور کہا کہ آیت اللہ میلانی نے حقیقی معنی میں مشہد کے حوزۂ علمیہ (اعلی دینی تعلیمی مرکز) کو حیات نو عطا کی اور یہ حوزہ مرحوم کا مرہون منت ہے۔

انھوں نے کہا کہ شخصی لحاظ سے آيت اللہ میلانی ایک ممتاز، مؤقر اور متین انسان ہونے کے ساتھ ہی منکسر المزاج، دوستوں سے وفادار، لطیف روح اور شعری ذوق رکھنے والی شخصیت تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مرحوم میلانی علمی لحاظ سے ایک عظیم عالم دین تھے جنھوں نے مرحوم نائینی اور مرحوم شیخ محمد حسین اصفہانی جیسے اساتذہ سے علم حاصل کیا تھا اور علمی دروس اور بحثوں میں ان کا بیان انتہائی اچھا ہوتا تھا اور انھوں نے بڑے اچھے اور فاضل شاگردوں کی پرورش کی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے وقت کے اہم سماجی اور سیاسی واقعات میں آيت اللہ میلانی کی موجودگي کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم میلانی سنہ ساٹھ کے عشرے میں طاغوتی حکومت کے خلاف جدوجہد شروع ہونے کے وقت سے ہی اسلامی تحریک کے ارکان میں سے ایک تھے اور واقعات کے متن میں موجود رہتے تھے اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی گرفتاری کے بعد کئی علماء کے ساتھ ان کی تہران آمد، سیاسی مسائل میں ان کی مؤثر شرکت کی ایک مثال ہے۔

انھوں نے اسلامی تحریک کی حمایت میں آيت اللہ میلانی کے ٹھوس، مضبوط اور مستحکم بیانوں کو سیاسی مسائل میں مرحوم کی موجودگي کی ایک اور مثال بتایا اور کہا کہ امام خمینی کو ترکی جلاوطن کیے جانے کے بعد ان کی حمایت میں آيت اللہ میلانی کا خط ایک تاریخی دستاویز ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے زور دے کر کہا کہ جدوجہد میں شامل افراد اور مختلف سیاسی دھڑوں کے لوگوں سے آيت اللہ میلانی رابطے میں تھے تاہم وہ ہمیشہ بہت شدت سے اس بات کا لحاظ کرتے تھے کہ انھیں کسی ایک سیاسی دھڑے سے منسوب قرار دیا جائے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے آخر میں امید ظاہر کی کہ یہ کانفرنس، لوگوں کو آيت اللہ میلانی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے روشناس کرانے کی تمہید بنے گی۔

اس ملاقات کے آغاز میں آستان قدس رضوی کے متولی حجت الاسلام و المسلمین مروی نے آیت اللہ میلانی کو خراج عقیدت پیش کرنے کی کانفرنس کے اہداف، کانفرنس کی علمی کمیٹیوں اور اسی طرح مشہد اور کربلا میں اس کانفرنس کی تمہیدی نشستوں کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی۔