سید الشہداء حضرت ابی عبد اللہ الحسین علیہ السلام اور اہلبیت کے کچھ شیدائيوں نے حسینیۂ امام خمینی میں رہبر انقلاب اسلامی کی موجودگي میں آل اللہ کی شام غریباں کی عزاداری کی۔
امام حسین علیہ السلام کے کارنامے کی روح یہ تھی کہ وہ حق بات اور حق کی راہ کا نفاذ کریں اور ان تمام طاقتوں کے مقابلے میں ڈٹ جائيں جو اس راہ میں ایک دوسرے کے ساتھ آ گئي تھیں۔
24 ستمبر 1985
حسینیۂ امام خمینی میں چھے محرم سے شروع ہونے والے مجلس عزا کے سلسلے کی تیسری مجلس منعقد ہوئی جس میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای اور عزاداروں نے شرکت کی۔
شہید مطہری انقلاب سے برسوں پہلے چیخ چیخ کے کہتے تھے: "آج کے دور کا شمر –اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم کا نام لیتے تھے- فلاں ہے۔" حقیقت امر بھی یہی ہے۔ ہم شمر پر لعنت بھیجتے ہیں تاکہ شمر بننے اور شمر جیسا عمل کرنے کی جڑ اس دنیا میں کاٹ دی جائے۔
9 جنوری 2008
وہ قوم جو کمزوری اور ذلت کو تسلیم کر لے اور مقدس اہداف کی راہ میں اپنے کسی فرد کی انگلی کٹانے کے لیے بھی تیار نہ ہو اس کا زوال یقینی ہے اور ذلت و خواری اس کا مقدر ہے۔
30 مارچ 1985
دین اسلامی کی بقا، راہ خدا کی بقا، خدا کے بندوں کی جانب سے اس راہ پر چلتے رہنے پر منحصر ہے، اس راہ نے حسین ابن علی علیہ السلام اور زینب کبریٰ کے کام سے مدد اور توانائي حاصل کی ہے۔
8 فروری 2010
یہ نظریہ بالکل درست ہے کہ سید الشہدا کے قیام نے اسلام کو محفوظ کر لیا۔ آج (امام حسین کی عزاداری کا) یہ پروگرام سو سال قبل کی نسبت زیادہ جوش و خروش کے ساتھ، زیادہ وسیع پیمانے پر انجام پا رہا ہے۔ یہ ایک تحریک کی نشانی ہے جو حسین ابن علی علیہ السلام کی قیادت میں ساری دنیا میں آگے بڑھ رہی ہے، ان شاء اللہ آگے بڑھتی رہے گی، مشکلات کو حل کرے گی، قوموں کے مسائل کا ازالہ کرے گی۔
امام خامنہ ای
21 ستمبر 2017
جب کربلا کا واقعہ رونما ہو گیا اور اس مقام پر امام حسین علیہ السلام، آپ کے اصحاب و اقربا نے بے مثال فداکاری و ایثار کا مظاہرہ کر دیا تو اب باری تھی اسیروں کی کہ وہ پیغام کو عام کریں۔
امام خامنہ ای
امام حسین کی زیارت کے لیے آنے اور جانے میں جو دن لگتے ہیں، وہ خداوند عالم کی جانب سے انسان کی مقرر کردہ عمر میں نہیں جوڑے جاتے، یہ اس کی عمر کے اضافی دن ہیں۔
امام خامنہ ای
امام حسین علیہ السلام کے دشمنوں کا ہدف یہ تھا کہ اسلام اور پیغمبر کی یادگاروں کو روئے زمین سے محو کر دیں۔ انھیں شکست ہوئي کیونکہ ایسا نہیں ہو سکا۔ امام حسین علیہ السلام کا ہدف یہ تھا کہ اسلام کے دشمنوں کی اس سوچی سمجھی سازش کو، جنھوں نے ہر جگہ کو اپنے رنگ میں رنگ لیا تھا یا رنگنا چاہتے تھے، ناکام بنا دیا جائے۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی شب شہادت پر منعقد ہونے والی مجلس عزا میں رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای اور بڑی تعداد میں عزاداران حسینی نے شرکت کی۔
یہ بچہ جب یہ سمجھ گيا کہ اس کا چچا میدان جنگ میں زمین پر گرا ہوا ہے تو وہ بڑی تیزی سے سید الشہدا کے قریب پہنچا۔ ابن زیاد کے ایک خبیث اور بے رحم سپاہی نے تلوار اٹھا رکھی تھی کہ امام حسین کے زخمی جسم پر وار کرے، وہ بچہ تڑپ اٹھا، اس نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو بے اختیار تلوار کے سامنے کر دیا لیکن اس جانور نے اس کے باوجود وار کر دیا، بچے کے ہاتھ کٹ گئے۔
امام خامنہ ای
حضرت علی اکبر نے اپنے والد سے رن کی اجازت چاہی۔ امام حسین نے فورا اجازت دے دی اور کہا کہ جاؤ۔ "ثم نظر الیہ نظر یائس منہ" اس جوان کو آپ نے حسرت و مایوسی سے دیکھا کہ یہ رن میں جا رہا ہے، اب واپس نہ آئے گا اور نظریں جھکا کر آنسو بہانے لگے۔
امام خامنہ ای
امام حسین کے خیموں کی طرف سے ایک نوخیز بچہ باہر آيا، اس کا چہرہ چاند کے ٹکڑے کی طرح دمک رہا تھا وہ آيا اور جنگ کرنے لگا۔ ابن فضیل ازدی نے اس بچے کے سر کو دوپارہ کر دیا۔ بچہ منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔ اس کی آواز بلند ہوئي: اے چچا جان!
کیا ہوا کہ امت اسلامیہ، جو اسلامی احکام کی جزئیات پر، قرآن کی آیات پر اتنی توجہ دیتی تھی، اتنے واضح مسئلے میں، اس طرح غفلت کا شکار ہو گئی کہ اتنا بڑا المیہ رونما ہو گیا؟
امام خامنہ ای
9 جون 1996
آپ کے پاسبان حرم شہدا کی قربانی جو اس دور میں ملک سے باہر جاکر شہید ہوئے، در حقیقت ان افراد کی قربانی جیسی ہے جنہوں نے اپنی جانیں دیکر امام حسین کی قبر کی حفاظت کی۔ جاکر قربانیاں دینے کا یہی عمل تھا کہ جو اربعین کے دو کروڑ پیدل زائرین کے نتیجے تک پہنچا۔ اگر اس وقت ان افراد نے قربانیاں نہ دی ہوتیں تو آج امام حسین علیہ السلام کا عشق اس انداز سے دنیا پر محیط نہ ہوتا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ اربعین کے مارچ میں مختلف ملکوں سے، فارس، ترک، اردو زبان بولنے والے، یورپی ممالک یہاں تک کہ امریکہ سے لوگ اس میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ کارنامہ کس نے انجام دیا؟ اس کا پہلا سنگ بنیاد اور بنیادی کام انھیں افراد نے کیا کہ جنہوں نے در حقیقت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے اپنی جان کی بھی قربانی دی۔
امام خامنہ ای
12/10/2018
ہر سال اربعین کا یہ مارچ جو بنیادی طور پر نجف و کربلا کے درمیان انجام پاتا ہے بین الاقوامی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ دنیا کے انسانوں کی نگاہیں اس مارچ پر لگی رہتی ہیں۔ اس عظیم بین الاقوامی عوامی عمل کی برکت سے حسینی معرفت آفاقی و بین الاقوامی بن گئی۔
امام lخامنہ ای
18 ستمبر 2019
آج کی اس پیچیدہ اور تشہیراتی ہنگامے سے بھری دنیا میں اربعین کا پروگرام ایک عدیم المثال میڈیا اور دور دور تک پہنچنے والی آواز ہے۔ دنیا میں اس کی کوئی نظیر نہیں ہے: یہ کہ دسیوں لاکھ افراد چل پڑتے ہیں۔ مختلف ملکوں سے، مختلف اسلامی فرقوں یہاں تک کہ دیگر ادیان سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی۔ یہ حسینی اتحاد ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے «الحسین یجمعنا» (ہمیں ایک دھاگے میں پرو دینے والے حسین ہیں)۔
امام خامنہ ای
13 اکتوبر 2019
شیعہ فرقے کے پیکر میں روز عاشورہ کی تپش نمایاں ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر جگہ شیعوں میں نظر آنے والی یہ حرارت ان شعلوں سے نکلی ہے جس کی لپٹیں اس مقدس روح اور گراں قدر تربت سے اٹھ رہی ہیں، یہ لوگوں کی روحوں میں سما جاتی ہیں اور انسانوں کو شعلہ ور گولیوں میں تبدیل کرکے دشمن کے قلب میں پیوست کر رہی ہیں۔
امام خامنہ ای
17 مارچ 1974
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے قیام کیا تھا اور کچھ کہتے ہیں کہ انھوں نے شہید ہونے کے لیے قیام کیا تھا جبکہ یہ دونوں باتیں صحیح نہیں ہیں۔
اگر وہ 72 لوگ بھی امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ نہ ہوتے تب بھی امام حسین کا قیام رکنے والا نہیں تھا۔ یہ ایک سبق ہے۔ امام حسین سے ہمیں یہ سبق لینا چاہئے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کو سختیوں اور بے کسی کے سبب چھوڑنا نہیں چاہئے۔ اس فریضے اور اس واجب کو تنہا پڑ جانے، کم تعداد، غریب الوطنی، ساتھیوں کی کمی اور دشمن سامنے موجود ہونے کے سبب چھوڑنا نہیں چاہئے۔
امام خامنہ ای
13 اگست 1988