بسم‌ الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.​

عید سعید فطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کو، اسلامی ملکوں کے سفیروں اور نشست میں تشریف فرما مہمانوں، عظیم الشان ملت ایران اور دنیا بھر میں پھیلی عظیم ملت اسلامیہ کو۔ دعا کرتا ہوں کہ خداوند عالم اپنے الطاف اس امت کے شامل حال کرے اور یہ عید حقیقی معنی میں تمام امت اسلامیہ کے لئے بابرکت ثابت ہو۔

امر واقعہ یہ ہے کہ آج امت اسلامیہ بے شمار مشکلات سے دوچار ہے۔ اس امت کے پیکر پر کچھ زخم لگے ہیں اور لگ رہے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا زخم اختلاف کا ہے۔ دشمنان اسلام کی یہ کوشش ہے کہ مسلم گروہوں کے ما بین مختلف بہانوں سے اختلاف پیدا کریں، تفرقہ اور نفاق ڈال دیں؛ قومیت کے نام پر، مسلک کے نام پر، جغرافیائی مسائل کے نام پر، ارضی اور سرحدی مسائل کے نام پر۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ سارے بہانے دشمن کے پاس مہیا ہیں اور وہ انھیں استعمال کر رہا ہے اور ہم اسلامی حکومتوں کے عہدیداران دشمن کی اس حرکت سے غافل ہیں۔

میں سوچتا ہوں کہ جب انسان یہ سنتا ہے کہ فلاں امریکی سنیٹر جو سرے سے اسلام کا دشمن ہے، مسلم ممالک کا دشمن ہے، شیعوں کے مقابلے میں اہل سنت سماج کے لئے اپنی فکرمندی کا اظہار کرتا ہے، جب انسان اس حربے کا مشاہدہ کرتا ہے تو واقعی اسے تشویش ہونی چاہئے، بہت زیادہ محتاط ہو جانا چاہئے۔ جو دشمن سرے سے اسلام کا مخالف ہے وہ اسلامی فرقوں میں ایک کے مقابلے میں دوسرے کی پشت پناہی کر رہا ہے! یہ خباثت کے علاوہ، سازش کے علاوہ اور دشمنی کو ہوا دینے کے علاوہ کیا کچھ اور ہو سکتا ہے؟ افسوس کی بات ہے کہ یہ چیز آج موجود ہے۔ ہمیں سوچنا چاہئے، ہمیں سمجھنے کی کوشش کرنا چاہئے۔

تفرقہ سے تمام مسلم ممالک کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اتحاد ہو جائے تو سب کو فائدہ پہنچے گا۔ اسلامی ملکوں کا اتحاد، ایک دوسرے سے ان کا قریب ہو جانا، اپنی طاقت ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے سے گریز، ان تمام متحد ممالک کے فائدے میں ہوگا، تمام مسلم ممالک کے فائدے میں ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنا چاہئے۔ یہ تو حکمت خداوندی ہے یہ اسلامی حکمت کا تقاضا ہے، لیکن افسوس کہ اس پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ عالم اسلام کے اندر آج ہمیں مشکلات کا سامنا ہے، ہم خونریزی میں مبتلا ہیں، ایسے زخم ہیں کہ جن سے خون رس رہا ہے۔ اس کی ایک مثال یمن ہے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ شام کے مسائل، عراق کے مسائل، شمالی افریقا کے مسائل، اسی طرح دنیائے اسلام میں ہم گوناگوں مسائل کا مشاہدہ کر رہے ہیں، یہ سب اختلاف اور تنازعات کی علامتیں ہیں اور یہ اسلام کے لئے ضرر رساں ہے، امت اسلامیہ کے لئے زیاں بار ہے۔ ہمیں اس مشکل کو حل کرنا ہوگا۔

عالمی یوم قدس کے جلوسو‎ں کی ایک بڑی نمایاں خصوصیت یہی ہے۔ آپ دیکھئے کہ ایران کے تقریبا سارے ہی چھوٹے بڑے شہروں میں یوم قدس پر عوام روزے کے عالم میں، اور ان برسوں میں تو شدید گرمی کے موسم میں، سڑکوں پر نکل پڑتے ہیں، آپ نے تہران میں اور دیگر شہروں میں عوام کے عظیم اجتماعات دیکھے، یہ شیعہ عوام ہیں جو ان فلسطینیوں کے لئے جو اہل سنت ہیں، اس انداز سے اظہار ہمدردی اور اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ یہی اتحاد ہے، امت مسلمہ کی یکجہتی کی پابندی یہی ہے، اس کی بنیاد ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے رکھی اور عوام آج تک اسی راہ پر گامزن ہیں۔

ایک بڑا خطرہ جو آج دنيائے اسلام کو لاحق ہے؛ مسئلہ فلسطین کو کمرنگ کر دئے جانے اور فراموش کر دئے جانے کا خطرہ ہے۔ افسوس کہ یہ کام انجام دیا جا رہا ہے۔ بعض مسلم ممالک تو اس طرح کا برتاؤ کر رہے ہیں، اس طرح کے بیان دے رہے ہیں، اس طرح عمل کر رہے ہیں کہ گویا انھوں نے مسئلہ فلسطین کو پوری طرح پس پشت ڈال دیا ہے، مسئلہ فلسطین کو بھلا دیا ہے۔ یہ بہت بڑا خطرہ ہے۔ فلسطین عالم اسلام کا اولین مسئلہ ہے۔ ایک اسلامی مملکت جسے پوری طرح غصب کر لیا گیا ہے؛ یہ ایک چھوٹی سرزمین، چھوٹے شہر، یا کسی گاؤں کا قضیہ نہیں ایک مملکت کا معاملہ ہے۔ ایک قوم اپنے گھربار سے بے دخل کر دی گئی ہے اور فلسطینیوں میں سے جو لوگ آج اپنی سرزمین کے اندر زندگی بسر کر رہے ہیں وہ حد درجہ عسرت اور سختیوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ مسلسل قتل عام، تحقیر، توہین اور سختیوں کی زد پر ہیں۔ یہ چھوٹی بات ہے؟!

اسلامی فقہ کی رو سے دیکھئے؛ خواہ وہ اہل سنت کے مکاتب فکر کی فقہ ہو، شیعہ فقہ ہو یا دیگر مسالک کی فقہ ہو، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جب مسلمانوں کی سرزمین پر کوئی دشمن قبضہ کر لے تو سب کا فریضہ ہے کہ اس کے خلاف لڑیں، اس سے جہاد کریں جس طرح کا بھی جہاد ان کے امکان میں ہو۔ آج صیہونی حکومت سے جہاد دنیائے اسلام کے لئے واجب اور لازمی ہے۔ اس فریضے سے سرپیچی کیوں کی جا رہی ہے؟! بحمد اللہ ہماری قوم اس معاملے میں پوری طرح بیدار و ہوشیار ہے۔

بہرحال دنیائے اسلام کو احتیاج ہے اتحاد کی، یکجہتی کی، ہمدلی کی۔ قوموں میں تو کافی حد تک ہمدلی کا ماحول ہے۔ اب حکومتوں کا فریضہ ہے، حکومتیں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔

ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ماہ رمضان کی برکت سے، عید فطر کی برکت سے کہ جو مسلمانوں کی عید اور پیغمبر عظیم الشان کے لئے شرف و عظمت کا باعث ہے، ہمارے دلوں کو ایک دوسرے سے قریب کرے، مسلمانوں کو ایک دوسرے کے لئے مہربان بنائے۔ امت اسلامیہ کو دشمنان اسلام کے مقابلے میں لازمی قوت و اقتدار اور عزم و ارادے سے بہرہ مند فرمائے۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة الله و برکاته

 

۱) اس ملاقات کے آغاز میں جو عید سعید فطر کی مناسبت سے انجام پائی، صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے اپنی تقریر میں بعض کلیدی نکات کی جانب اشارہ کیا۔