رہبر انقلاب اسلامی نے نماز کے بعد پہلے خطبے میں امت مسلمہ اور ایرانی قوم کو عید فطر کی مبارکباد پیش کی اور رمضان المبارک کے معنوی ذخیرے کی حفاظت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ خداوند عالم کے فضل و کرم سے معاشرے کے نوجوان دینداری کی طرف مائل ہیں اور یہ ملک کے لیے ایک بڑا موقع ہے۔  
رہبر انقلاب اسلامی نے نماز کے دوسرے خطبے میں غزہ کے خونیں واقعات کو ماہ رمضان میں مسلم اقوام کے لیے تلخی کا سبب بتایا اور اس مبارک مہینے میں صیہونی حکومت کے جرائم کے جاری رہنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ یہ خبیث حکومت مزاحمت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اس لیے وہ ماں کی آغوش میں بچے اور اسپتالوں میں بیماروں کو قتل کرتی ہے اور بڑی ڈھٹائي سے پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے تیس ہزار سے زائد عورتوں، بچوں اور جوانوں کو شہید کرتی ہے۔ 
انھوں نے مغربی حکومتوں خاص طور پر امریکا اور برطانیہ کی جانب سے صیہونی مجرموں کی فوجی، سیاسی اور معاشی حمایت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان حکومتوں نے غزہ کے واقعے میں مغربی تمدن کے خبث باطن کو دنیا کے سامنے عیاں کر دیا۔ 
آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے کہا کہ ہم نے اور مغربی تمدن پر تنقید کرنے والوں نے اس سے پہلے بارہا کہا تھا کہ اس تمدن کی فطرت، معنوی و انسانی فضائل و اقدار سے دشمنی اور عناد کی ہے اور جعلی صیہونی حکومت کی حامی حکومتوں کی کارکردگي نے غزہ کے چھے مہینے کے واقعات میں اس حقیقت کو برملا کر دیا ہے۔ 
انھوں نے مغربی دعویداروں کی طرف سے انسانی حقوق کے دفاع کے نعروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا تیس ہزار سے زائد بے قصور اور نہتے شہید، انسان نہیں ہیں؟! تو پھر مغرب والوں کی کوئي آواز کیوں سنائی نہیں دیتی؟ 
رہبر انقلاب اسلامی نے دمشق میں ایران کے قونصل خانے پر خبیث صیہونی حکومت کے حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے  کہا کہ جب وہ ہمارے قونصل خانے پر حملہ کرتے ہیں تو یہ ایسا ہی ہے جیسے انھوں نے ہماری سرزمین پر حملہ کیا ہے اور دنیا میں یہی سوچ رائج ہے۔ خبیث حکومت نے اس معاملے میں غلطی کی ہے جس کی اسے سزا ملنی چاہیے اور اسے سزا ملے گي۔ 
انھوں نے کہا کہ صیہونی حکومت کے حملے میں شہید ہونے والوں اور اسی طرح صوبہ سیستان و بلوچستان میں سیکورٹی کے فریضے کی ادائیگی کے دوران شہید ہونے والوں کے لئے ملت ایران سوگوار ہے۔  
رہبر انقلاب نے آخر میں خداوند عالم سے بڑے قومی امتحانوں میں ایرانی قوم کی سربلندی کی دعا کی۔