بسم الله الرّحمن الرحیم
سب سے پہلے میں آپ کو خوش آمدید کہنا چاہوں گا، دوسری بات یہ ہے کہ میں ان برادر عزیز و محترم کا شکریہ ادا کروں گا جنہوں نے مائیک کے بغیر ہی گفتگو کی۔ آپ کا بیان بڑا واضح اور سلیس تھا، بڑی روانی تھی، سب بخوبی سمجھ گئے کہ آپ کیا کہنا چاہتے تھے، آپ کی آواز بھی ما شاء اللہ بھاری آواز تھی جو مائیک کے بغیر بھی حسینیہ کے ہر گوشے تک پہنچ گئی۔ ہم نے بھی سنی۔ آپ کے اس جذبہ محبت کا شکریہ، آپ بہت دور سے تشریف لائے۔ اسی طرح بقیہ خواہران و برادران گرامی جو لمبا سفر طے کرکے یہاں پہنچے اور اپنے وجود سے اس نورانی نشست کو منور کیا، آپ سب کا شکریہ۔
آج کے پروگرام میں مجھے کچھ عرض نہیں کرنا ہے۔ الحمد للہ آپ نے استفادہ کیا، سب نے سنا، آپ کی طرح ہم نے بھی سنا اور استفادہ کیا۔ بہرحال یہ ملاقاتیں، یہ اجتماعات اور یہ انتباہات ہمارے سامنے جو سفر ہے اس میں ہمیں اور آپ کو تقویت پہنچائے، ہمارے ارادے کو مستحکم رکھے، درخشاں رکھے۔ آپ دعا میں پڑھتے ہیں؛ اَللّهُمَّ ارزُقنی ... عِلماً واسِعاً ... وَ عَزماً ثاقِباً (۱) اس راہ میں پائیدار اور محکم عزم و ارادے کے مالک بنے رہیں۔ راستہ بالکل صحیح ہے، ہدف بہت بلند ہے، انقلاب کے اس بابرکت راستے اور اسلامی جمہوری نظام کے اس مبارک راستے پر آج ہمارے نوجوانوں کا سفر، آج کے عوام کا، بھائیوں اور بہنوں کا یہ سفر اللہ کا پسندیدہ سفر ہے، رضائے پروردگار کے مطابق سفر ہے۔ تاہم جو بات بہت اہم ہے اور جسے ہم سب کو مد نظر رکھنا چاہئے وہ اس راہ میں ثابت قدمی ہے، اس ڈگر پر ثبات ہے۔ قرآن میں جن جگہوں پر "اِستَقِم" (2) کا لفظ آیا ہے۔ استقامت کا مطلب ہے اس راستے پر ثابت قدمی سے ڈٹے رہنا اور گوناگوں عوامل و اسباب سے متاثر نہ ہونا۔ یہ راستہ کوئی ہموار راستہ نہیں ہے، راہ خدا، راہ خدا میں سعی و کوشش، حق و انصاف قائم کرنے کا راستہ، اسلامی تمدن تک رسائی کا راستہ، حقیقی اسلامی نظام اور حقیقی اسلامی معاشرے تک رسائی کا راستہ دشوار راستہ ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جس پر پیغمبروں نے بڑی دشواریاں برداشت کرکے اپنا سفر پورا کیا ہے اور آگے بڑھتے رہے ہیں۔
آج بحمد اللہ ملت ایران جب پیچھے مڑ کر دیکھتی ہے تو اسے بہت سی بڑی کامیابیاں نظر آتی ہیں، آگے دیکھتی ہے تو وہاں بھی یہی عالم ہے۔ مستقبل بہت امید افزا اور نیک انجام کی نوید دینے والا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ تاہم یہ راستہ کوئی ہموار راستہ نہیں ہے۔ پیچ و خم سے بھرا ہوا راستہ ہے۔ نشیب و فراز سے بھرا ہوا راستہ ہے۔ ایسا راستہ ہے کہ جس میں نا موافق حالات پیش آ جانے پر ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کا عزم و ارادہ کمزور پڑ جائے۔ آپ کی کوشش یہ ہونا چاہئے کہ اس راہ میں سفر کے دوران عزم و ارادے میں کوئی کمزوری نہ آنے پائے، بلکہ روز بروز پائے ثبات کا استحکام بڑھتا جائے۔
و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته
۱) مصباح کفعمی، صفحہ ۶۳ (قدر فرق کے ساتھ)
۲) سوره هود، آیت نمبر ۱۱۲ اور سوره شوریٰ آیت نمبر ۱۵