بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

برادران عزیز، خواہران گرامی، عزیز نوجوانو، میرے پیارے بچو! خوش آمدید! خداوند عالم آپ سب کو توفیق دے اور اپنے الطاف سے اور اپنی رہنمائی سے آپ کے پاکیزہ اور نورانی قلوب کو راہ حق پر اور صراط مستقیم پر قائم و دائم رکھے۔

اس سال اربعین امام حسین علیہ السلام کے ایام کی آمد تیرہ آبان کے ایام کے ساتھ ہوئی ہے۔ چند باتیں اربعین کے تعلق سے عرض کرنا چاہوں گا۔ پہلی بات تو یہ کہ جن لوگوں کو توفیق ہوئی کہ اس سال بھی جوش و جذبے اور عشق و اخلاص کے ساتھ اس سفر پر گئے، اس مسافت کو طے کیا اور اس سفر کو پورا کیا انھیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ یہ بہت بڑی توفیق ہے، آپ خوش قسمت ہیں! خدا کرے کہ یہ توفیق ان تمام لوگوں کے شامل حال ہو جو اس سے لگاؤ رکھتے ہیں اور جنہیں اس راستے سے قلبی وابستگی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں ملت عراق کا، عراق کے عوام، عراق کی حکومت کا، عراق کی سیاسی و اہل نظر شخصیات کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس سلسلے میں مدد کی، واقعی انھوں نے بڑی محنت کی، اپنے عوام کے لئے اور دیگر ملکوں کے عوام کے لئے جو وہاں پہنچے، خاص طور پر ہمارے ملک کے زائرین کے لئے جن کی تعداد بظاہر بیس لاکھ سے زیادہ پہنچ گئی، ہر طرح کی سہولیات فراہم کیں۔ ان تمام افراد کا جنہوں نے میزبانی کی، پذیرائی کی، مدد کی، تمام عزیز عراقی بھائیوں کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔

اربعین کا پورا پروگرام ناقابل توصیف ہے۔ واقعی بے نظیر ہے۔ یہ غیر معمولی عمل ایک عظیم اور حیرت انگیز چیز ہے۔ ان ایام میں بجا طور پر بار بار کہا گیا کہ دنیا میں اس کی کوئی اور مثال نہیں ہے۔ اہل مغرب بھی اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ کیا چیز ہے، یہ عمل کیسے انجام پاتا ہے؟ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ ان کے تشہیراتی ادارے پہلے تو چند سال خاموشی اختیار کرتے ہیں، سازش آمیز خاموشی۔ حالانکہ یہی ادارے دنیا میں رونما ہونے والے معمولی واقعات کو بھی کوریج دیتے ہیں، مگر کئی سال تک انھوں نے اس عظیم عمل کا نام تک نہیں لیا، اس کی جانب اشارہ تک نہیں کیا، اس کی کوئی تصویر نشر نہیں کی۔ اس سال کسی حد تک اس پر توجہ دی تو اس کے بارے میں غلط اور معاندانہ تجزئے پیش کئے، اس راہ پر عقیدہ رکھنے والوں کی نظر میں ان کے یہ تجزئے احمقانہ ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے اور اس کی مانند دیگر اداروں نے معاندانہ تجزیہ کیا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس فیض بخش چشمے کی بوچھار نے انھیں سراسیمگی میں مبتلا کر دیا ہے۔ وہ اس کا تجزیہ نہیں کر پا رہے ہیں۔ کبھی کہا کہ یہ سلسلہ حکومت کے افراد نے شروع کیا ہے! کون سی حکومت ایک کروڑ، ڈیڑھ کروڑ افراد کو، جن میں مرد عورت، بچے بوڑھے، مختلف طبقات کے افراد شامل ہیں، اس طرح باہر لا سکتی ہے، انھیں ایک شہر سے دوسرے شہر تک کم از کم اسی کلومیٹر کا فیصلہ پیدل طے کرنے پر آمادہ کر سکتی ہے؟ کون سی حکومت یہ کام کر سکتی ہے؟ بہ فرض محال اگر اسلامی جمہوریہ اور عراق کی حکومت یہ کام انجام دینے میں کامیاب ہوئی تو یہ اپنے آپ میں ایک حکومتی معجزہ ہے، آپ کے بس میں ہے تو آپ بھی کیجئے! اگر آپ میں اتنی توانائی ہے تو آپ بھی یہ کام انجام دیجئے۔ جی نہیں، عشق کے بغیر، ایمان کے بغیر، عالی مرتبت شہیدوں کے خون کے بغیر کوئی بھی شئے یہ کارنامہ انجام دینے کی طاقت نہیں حاصل کر سکتی۔ بہت بڑا کام انجام پایا ہے اور روز بروز اس میں زیادہ پختگی، بہتری، استحکام اور عمق پیدا ہوتا جا رہا ہے۔ ہر سال گزشتہ سال سے بہتر انداز میں یہ عمل انجام پاتا ہے۔ آئندہ بھی یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ اہل مغرب بس تماشائی بنے رہیں گے اور اس کا صحیح تجزیہ نہیں کر پائیں گے، اس کا ادراک نہیں کر پائیں گے، چنانچہ اس کی ضرب بھی وہ کھائیں گے۔

آج کی اس ملاقات کی مناسبت تیرہ آبان (مطابق چار جون) کی تاریخ ہے جو کل ہے۔ جیسا کہ آپ آگاہ ہیں اس دن تین اہم واقعات رونما ہوئے اور یہ تینوں واقعات کسی نہ کسی طرح امریکہ سے ربط رکھتے ہیں۔ پہلا واقعہ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی جلا وطنی ہے جو کیپیچولیشن قانون کی وجہ سے ہوئی۔ ایران میں امریکی مشیروں کو عدالتی استثنا دئے جانے کے قانون کی وجہ سے۔ امام خمینی نے 1964 میں وہ طوفانی تقریر کی جس کے بعد آپ کو جلا وطن کر دیا گیا۔ یہ پہلا واقعہ تھا جس کا تعلق امریکہ سے تھا۔

دوسرا واقعہ 1978 میں طلبہ کا قتل عام تھا جو یونیورسٹی کے سامنے، یہیں تہران یونیورسٹی کے سامنے امریکی فوجیوں کے ہاتھوں تو نہیں لیکن امریکہ کی پٹھو شاہی حکومت کے ہاتھوں انجام پایا، طاغوتی حکومت، پہلوی حکومت کے ہاتھوں۔ تو یہ بھی ایک طرح سے امریکہ سے نسبت رکھتا ہے۔ یعنی امریکیوں اور ان کے پٹھو حکمرانوں نے اپنے شیطانی اہداف کی تکمیل کے لئے یہ بھیانک جرم انجام دیا۔ آپ آج بھی دنیا میں اس طرح کے واقعات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ یمن کے واقعات، بحرین کے واقعات، دنیا کے مختلف علاقوں میں رونما ہونے والے واقعات اسی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہاں بھی یہی سب کچھ کیا گيا۔ طلبہ کو، نوجوانوں کو گولیوں کی بوچھار کرکے خون میں نہلا دیا گیا۔ یہ دوسرا واقعہ تھا۔

تیسرا واقعہ سفارت خانے کا واقعہ ہے۔ امریکہ کے جاسوسی کے مرکز کا واقعہ۔ یہ ایران کی طرف سے امریکہ پر پڑنے والا جوابی طمانچہ تھا۔ یعنی انقلاب نے ملت ایران کو یہ طاقت عطا کی کہ امریکیوں کی ریشہ دوانیوں کے مقابلے میں، ان کے حملوں کے جواب میں اس طرح انھیں تھپڑ لگائے اور امریکہ کو رسوا کر دے۔

یہ تینوں واقعات ایران اور امریکہ کے درمیان ایک تصادم کی نشاندہی کرتے ہیں اور یہ تصادم آج تک جاری ہے۔ چالیس سال سے یہ تصادم اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکہ کے درمیان جاری ہے۔ اس چالیس سال میں دشمن کی جانب سے انواع و اقسام کی کارروائیاں انجام دی گئیں۔ آپ میں سے بیشتر افراد ان واقعات کے زمانے میں نہیں تھے، آپ موجود نہیں تھے، آپ نے ان کا مشاہدہ نہیں کیا تاہم آپ نے سنا ہوگا یا پڑھا ہوگا۔ میں اس وقت صرف اشارہ کرکے گزر جاؤں گا۔ مثال کے طور پر فوجی کارروائی، فوجی حملہ اس مدت میں امریکہ کی جانب سے انجام دیا گیا الگ الگ شکلوں میں۔ اس کی سب سے بدترین شکل ایران پر حملہ کرنے کے لئے صدام کو ترغیب دلانا تھا۔ اسے ترغیب دلائی، اس سے وعدہ کیا، مدد کا وعدہ کیا اور مدد بھی کی۔ آٹھ سال تک وطن عزیز کو جنگ میں الجھا دیا۔ یہ ایک مثال ہے۔ البتہ انہیں منہ کی کھانی پڑی، شکست اٹھانی پڑی، پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ اسی طرح مثال کے طور پر مسافر بردار طیارے پر حملہ، طبس کا حملہ، ہماری تیل کی جیٹی پر حملہ، یہ ایسی کارروائیاں ہیں جو امریکیوں نے ہمارے خلاف انجام دیں۔

اس چالیس سالہ تصادم کے دوران اقتصادی جنگ بھی جاری تھی۔ یہ آج کی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اب امریکی خود کو یا اپنے عوام کو فریب دے رہے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک نیا حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ جی نہیں، یہ نئی چیز نہیں ہے۔ چالیس سال سے انھوں نے الگ الگ شکلوں میں ہمارے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ کبھی تیل پر پابندی، کبھی سودا کرنے پر پابندی، کبھی تجارت پر پابندی، کبھی سرمایہ کاری پر پابندی، انواع و اقسام کی پابندیاں انھوں نے لگائیں۔ تو اقتصادی جنگ اور اقتصادی تصادم کا یہ قضیہ ہے۔ انھوں نے تشہیراتی جنگ بھی جاری رکھی۔ انقلاب کے آغاز سے اب تک امریکہ ہمارے خلاف تشہیراتی جنگ میں مصروف رہا ہے۔ یعنی جھوٹی خبریں پھیلانا، لوگوں کو ورغلانا، فتنہ انگیزی کرنا، انتشار پیدا کرنا، لوگوں کو مشتعل کرنا، یہ آج کی چیزیں نہیں ہیں۔ البتہ اس وقت یہی کام جدید طریقوں سے، سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعے انجام دیا جا رہا ہے۔ جس زمانے میں یہ وسائل نہیں تھے، ٹی وی چینلوں کے ذریعے، ریڈیو نشریات کے ذریعے، سیٹیلائٹ چینلوں کے ذریعے وہ ہمیشہ اس میں مصروف رہے۔ یعنی چالیس سال سے ہمارے اور امریکہ کے درمیان یہ مقابلہ آرائی چلتی آ رہی ہے۔

اس معاملے میں ایک اہم حقیقت ہے جو بہت سے افراد کی نظروں سے پنہاں رہ جاتی ہے۔ حد درجہ واضح ہونے کی وجہ سے نظرانداز ہو جاتی ہے۔ یہ ایک درخشاں حقیقت ہے، درخشاں حقیقت یہ ہے کہ اس چالیس سالہ مقابلہ آرائی میں جو فریق مغلوب ہوا وہ امریکہ ہے اور فاتح فریق اسلامی جمہوریہ ہے۔ یہ بڑی اہم حقیقت ہے۔ امریکہ مغلوب ہو گیا اس کا کیا ثبوت ہے؟ ثبوت یہ ہے کہ حملے کا آغاز اس نے کیا، فتنہ و فساد پھیلانے والے اقدامات اس نے کئے، پابندیاں اس نے عائد کیں، فوجی حملہ در حقیقت اس نے کیا، لیکن وہ اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکا۔ یہ امریکہ کی شکست کا ثبوت ہے۔ ان تمام اقدامات اور منصوبوں میں امریکہ کے پیش نظر یہی ہدف تھا کہ ایران پر طاغوتی شاہی حکومت کے دور والا تسلط اسے دوبارہ حاصل ہو جائے۔ وہ دوبارہ ایران پر اسی طرح مسلط ہو جائے۔ انقلاب کی وجہ سے وہ تسلط ختم ہو گیا تھا۔ ایران امریکہ کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ جنگ مسلط کرنے، پابندیاں عائد کرنے اور سیاسی و اقتصادی دباؤ ڈالنے کا مقصد اسی سابقہ تسلط کو بحال کرنا تھا، مگر وہ نہیں کر سکا۔ چالیس سال سے وہ زور لگا رہا ہے مگر اس کی کوششیں لا حاصل ہیں۔ آج آپ دیکھئے کہ وہ ملک جس کے فیصلوں اور پالیسیوں میں رتی بھر امریکہ کا دخل نہیں ہے وہ اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ امریکہ کی شکست ہے۔ اس سے زیادہ واضح شکست نہیں ہو سکتی۔ جنگ مسلط کرنے کا مقصد یہ تھا کہ صدام کے ساتھ جنگ میں اسلامی جمہوریہ کو شکست ہو جائے، اس کی رسوائی ہو جائے تاکہ امریکہ یہ کہہ سکے کہ دیکھئے اسلامی جمہوریہ اور اسلامی نظام کی وجہ سے ایران کو شکست کھانی پڑی! مگر ہوا اس کے بالکل برعکس۔ گزشتہ دو سو سال میں جب بھی کسی ملک سے ایران کی جنگ ہوئی ہے، ایران کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ آٹھ سالہ جنگ پہلی جنگ تھی جس میں ایران نے فریق مقابل کو شکست دی، خود شکست نہیں کھائی۔ ملک کی ایک انچ زمین بھی کسی غیر کے قبضے میں نہیں گئی۔ یہ ایسی پہلی جنگ ہے۔ امریکی جو چاہتے تھے اس کے بالکل الٹ نتیجہ نکلا۔

پابندیوں کا مقصد ملک کو مفلوج اور پسماندگی میں مبتلا کرنا تھا۔ پابنیاں اس لئے لگائیں کہ معیشت کو مفلوج کر دیں، ملک کو مفلوج کر دیں، پیشرفت نہ کرنے دیں، مگر نتیجہ کیا نکلا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے اندر خود کفائی کا عمل تیز ہو گيا۔ ہماری عادت ہو گئی تھی، برسوں سے ملت ایران کی یہ عادت پڑ گئی تھی کہ ہر چیز کو امپورٹ کرے۔ ہم پر پابندیاں عائد ہوئیں تو اب ہماری یہ عادت ہو گئی کہ سب سے پہلے ہم ضرورت کی چیز کو بنانے اور اس کی پیداوار کی کوشش کرتے ہیں۔ میں بعد میں اس کا ذکر کروں گا۔ آج سیکڑوں ٹیمیں، اچھی فکر کے مالک نوجوانوں کی ٹیمیں، جن میں یونیورسٹی طلبہ اور اسکولی طلبہ بھی شامل ہیں، ملکی سطح پر بہت اہم کاموں میں مصروف ہیں، میں نے کہا کہ بعد میں اس کی طرف بھی اشارہ کروں گا کہ وہ کیا کام انجام دے رہی ہیں۔ یہ پابندیوں کا نتیجہ ہے۔ چونکہ ہمارے خلاف پابندیاں عائد ہوئیں اس لئے ہم اپنی ضرورتیں خود پوری کرنے کی فکر میں پڑ گئے۔ اس طرح پابندیاں ہمارے فائدے میں رہیں۔ یعنی اس محاذ پر بھی امریکہ کو شکست ہوئی۔ آپ دیکھئے کہ یہ امریکہ کی پے در پے شکستیں ہیں۔

میرا دل چاہتا ہے کہ آپ عزیز نوجوان اس نکتے پر بخوبی توجہ دیں۔ اس لئے کہ ملک کے مستقبل کے امور آپ کے ہاتھوں میں ہوں گے۔ ان چیزوں پر آپ توجہ دیجئے۔ ہم ایران اور امریکہ کی مقابلہ آرائی کی بحث کو کنارے رکھتے ہیں اور ایک وسیع تر زاویہ فکر کے ساتھ جب ہم امریکہ کی حالت کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ نظر آتا ہے کہ دنیا میں امریکہ کی قوت اور اس کا تسلط رو بہ زوال اور رو بہ انحطاط ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ چالیس سال قبل جب انقلاب کامیاب ہوا تھا اس وقت کے امریکہ کے مقابلے میں آج کا امریکہ کئی گنا کمزور ہو چکا ہے۔ امریکہ کی قوت پر زوال آ رہا ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے۔

دنیا کے بہت سے معتبر سیاسی مفکر اور معتبر ماہرین عمرانیات یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کا 'سافٹ پاور'  فرسودہ ہو چکا ہے، ختم ہو رہا ہے۔ سافٹ پاور کیا چیز ہے؟ سافٹ پاور یہ ہے کہ ایک حکومت اپنی مرضی، اپنا نظریہ اور اپنا موقف دوسروں سے بھی قبول کروا لے، انھیں اپنے سوچ سے مطمئن کر دے۔ آج امریکہ کی یہ توانائی مختلف میدانوں میں پوری طرح کمزور اور فرسودہ ہو گئی ہے۔ اوباما کی حکومت کے دور میں بھی یہی صورت حال تھی تاہم آجکل ان حضرت کے زمانے میں تو کھل کر مخالفت ہونے لگی ہے۔ مختلف مسائل کے بارے میں وہ جو فیصلہ کرتے ہیں دنیا میں اس کی مخالفت ہوتی ہے۔ یہ صرف عوامی مخالفت نہیں ہے، عوامی مخالفت کا تو یہ عالم ہے کہ اگر دنیا میں کسی بھی ملک کے عوام سے پوچھا جائے تو وہ یقینا مخالفت کریں گے، اب تو حکومتیں بھی جو امریکہ کے سلسلے میں رواداری برتتی تھیں، اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔ چین مخالفت کر رہا ہے۔ یورپ مخالفت کر رہا ہے۔ روس مخالفت کر رہا ہے۔ ہندوستان مخالفت کر رہا ہے۔ افریقا مخالفت کر رہا ہے۔ لاطینی امریکہ مخالفت کر رہا ہے۔ امریکہ کا سافٹ پاور رو بہ زوال ہے، سقوط کی جانب گامزن ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں، یہ ایسی باتیں ہیں جو دنیا کے معتبر ماہرین عمرانیات کہہ رہے ہیں۔ امریکہ کا فکری اثر و رسوخ اور سافٹ پاور ہی زوال پذیر نہیں ہے بلکہ نوبت یہ آ گئی ہے کہ لبرل ڈیموکریسی جو مغربی تمدن کی بنیاد و اساس ہے اسے بھی انھوں نے رسوا کر دیا ہے، اس کی بھی یہ لوگ بدنامی کروا رہے ہیں۔ چند سال قبل کی بات ہے دنیا کے ایک معروف ماہر عمرانیات نے کہا کہ امریکہ کی موجودہ صورت حال انسانیت کے تکامل کے عمل کا نقطہ عروج ہے، اب انسان اس سے زیادہ بلندی پر نہیں جا سکتا۔ آج اسی شخص نے اپنی یہ بات واپس لے لی ہے۔ وہ بھی کہہ رہا ہے کہ 'نہیں' وہ بھی کچھ اور چیزوں کی تمنا کر رہا ہے۔ اب ممکن ہے کہ یہ بات وہ صریحی الفاظ میں نہ کہے کہ مجھ سے غلطی ہوئی لیکن وہ اب دوسری طرح کی باتیں کر رہا ہے۔ اپنے سابقہ بیان کے بالکل برعکس باتیں۔ تو یہ امریکہ کی حالت ہے۔

البتہ لبرل ڈیموکریسی نے میں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ مغربی اقوام کو جن کی حکومت اور سماجی نظام کی بنیاد لبرل ڈیموکریسی ہی ہے، بدبخت و سیاہ بخت بنا کر رکھ دیا ہے۔ آج مغرب میں جو لبرل ڈیموکریسی رائج ہے اس نے خود مغرب کو تباہ کر دیا ہے۔ سماجی خلیج، سماجی مساوات کا فقدان، کنبوں کا بکھر جانا، ہمہ گیر اخلاقیاتی بے راہروی، انتہا پسندی کی حد تک بڑھ جانے والا Individualism ان سماجوں کے لئے مصیبت بن گیا ہے۔ اب یہ صاحب جو آئے ہیں، یہ امریکہ کے عجیب و غریب موجودہ صدر انھوں نے تو سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، انھوں نے تو امریکہ کی بھی اور لبرل ڈیموکریسی کی بھی رہی سہی عزت آبرو بھی نیلام کر دی ہے۔ تو کچھ باتیں امریکہ کے سافٹ پاور اور فکری و نظریاتی اثر و رسوخ کے بارے میں تھیں۔

میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ امریکہ کے ہاڑڈ پاور کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔ ہارڈ پاور سے مراد ہے امریکہ کی عسکری قوت، اقتصادی قوت۔ یہ ہارڈ پاور ہے۔ بے شک اس کے پاس فوجی وسائل ہیں لیکن امریکہ کی عسکری افرادی قوت ڈپریشن، اضطراب اور شک و تردد میں مبتلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ملکوں میں جہاں امریکہ موجود ہے اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے بلیک واٹر وغیرہ جیسی جرائم پیشہ ایجنسیوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ یعنی امریکی فوجی در حقیقت امریکہ کے منصوبے کو جامہ عمل پہنانے پر قادر نہیں ہیں۔ یہ ان کی افرادی قوت کی حالت ہے۔

ان کی معیشت کا بھی یہی حال ہے۔ آج امریکہ پندرہ ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے۔ یہ رقم بالکل افسانوی معلوم ہوتی ہے۔ پندرہ ٹریلین ڈالر امریکہ پر قرضہ ہے۔ اسی رواں سال میں تقریبا آٹھ سو ارب ڈالر کا بجٹ خسارہ ہے۔ یعنی در حقیقت یہ اقتصادی پسماندگی ہے۔ بس یہ ہے کہ زرق و برق کی مدد سے، گوناگوں نعروں اور باتوں کی مدد سے اور ظاہری رنگ و روغن کرکے ان حقائق پر پردہ ڈالا جاتا ہے جبکہ امریکہ کی حقیقت یہی ہے۔ تو یہ امریکہ کے ہارڈ پاور کی حالت ہے۔

بنابریں امریکہ رو بہ زوال ہے۔ یہ بات سب جان لیں۔ وہ لوگ بھی جو امریکہ کی پشت پناہی سے اس علاقے میں مسئلہ فلسطین کو پوری طرح فراموش کر دینا چاہتے ہیں، یہ جان لیں کہ امریکہ سقوط کی جانب جا رہا ہے۔ زندہ رہیں گی علاقے کی اقوام، زندہ رہیں گی یہ حقیقتیں جو اس علاقے میں موجود ہیں۔ امریکہ جب خود اپنے علاقے میں زوال کی جانب بڑھ رہا ہے تو ہمارے اس علاقے کا ذکر ہی کیا ہے۔

امریکہ کی شکست کی ایک نشانی یہ ہے کہ ہماری ملت اور ہمارے نوجوانوں کے خود مختاری کے جذبے کو دبا نہیں سکا۔ آپ دیکھئے کہ آج ملک بھر میں ہمارے عزیز نوجوانوں کے جذبات و احساسات خود مختاری کے جذبات ہیں۔ بعض افراد جو زیادہ دیندار بھی نہیں ہیں وہ بھی اغیار کے تسلط کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اتنا پروپیگنڈا کرنے کے باوجود، اتنی کوششیں انجام دینے کے باوجود، دنیا میں وسیع تشہیراتی سامراج پھیلانے کے باوجود ہمارے ملک کی نوجوان نسل کی فکر پر اثر انداز نہیں ہو سکا، ان کے جذبہ خود مختاری اور جذبہ استقامت کو کمزور نہیں کر سکا، ختم نہیں کر سکا۔ میں یہ بات بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہا ہوں اس لئے کہ میں اس کا مشاہدہ کرتا ہوں کہ ہمارے آج کے نوجوان استقامت و پائیداری کے جذبے کے اعتبار سے اگر اوائل انقلاب کی نوجوان نسل سے آگے نہیں ہیں تو پیچھے بھی نہیں ہیں۔ آج انسان اس چیز کا بخوبی مشاہدہ کر سکتا ہے۔ یہ صرف ہمارے نوجوانوں سے مختص نہیں ہے۔ جہاں تک ہمیں اطلاع ہے دیگر ملکوں کے نوجوانوں میں بھی یہ جذبہ رفتہ رفتہ پھیل چکا ہے۔ خاص طور پر ہمارے ہمسایہ ممالک کے نوجوانوں میں۔ ہمارے قریب واقع ممالک اور ہمارے ہمسایہ ممالک کے عزیز مومن نوجوان جن کے اقدامات، پیغامات اور ان کی باتوں کو ہم دیکھتے ہیں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اندر خود مختار رہنے کا جذبہ بھرا ہوا ہے۔ البتہ دشمن، یہی امریکی ان چیزوں کے لئے ہمیں ذمہ دار مانتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ صورت حال ایرانی نوجوانوں کے طرز عمل کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ ہمیں دھمکیاں بھی دیتے ہیں۔ دھمکی دیتے ہیں کہ فلاں ملک کے نوجوانوں نے امریکی فوجیوں پر کیوں حملہ کر دیا؟ یہ واقعی حد درجہ عجیب و غریب بات ہے۔ پیغام بھجواتے ہیں کہ اگر آپ کے فلاں ہمسایہ ملک کے نوجوانوں نے ہمارے فوجیوں پر حملہ کیا یا ہمارے حامی افراد کو نشانہ بنایا تو اس کے لئے ہم آپ کو قصوروار سمجھیں گے! یہ آپ کی حماقت ہے کہ آپ ہمیں قصوروار سمجھتے ہیں۔ عراق کے عوام آپ سے متنفر ہیں۔ عراق کے نوجوان آپ سے نفرت کرتے ہیں۔ شام کے نوجوان آپ سے نفرت کرتے ہیں۔ لبنان کے نوجوان آپ سے نفرت کرتے ہیں۔ ادھر مشرق میں افغانستان کے نوجوان آپ امریکیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ پاکستان کے نوجوان آپ امریکیوں سے متنفر ہیں۔ اس کا ہم سے کیا مطلب ہے؟! آپ سے وہ متنفر ہیں تو ہو سکتا ہے کہ آپ کے خلاف کوئی کارروائی بھی انجام دیں! جی ہاں، یہ ایک حقیقت ہے۔ اسے امریکی کیوں نہیں سمجھ رہے ہیں؟ وہ اپنے خلاف قوموں کے دلوں میں موجود نفرت کو محسوس کیوں نہیں کر پاتے؟! اس کا انھیں ادراک کیوں نہیں ہے؟! آپ نے ان سے برا سلوک کیا ہے، بڑی پست حرکتیں کی ہیں، ان ملکوں پر تسلط قائم کرنے کی کوشش کی ہے، ان عوام کی توہین کی ہے، اس لئے وہ آپ سے متنفر ہیں۔ عراق کے عوام کو آپ سے نفرت کرنے کا پورا حق ہے۔ شام کے عوام آپ سے نفرت کرنے میں حق بجانب ہیں۔ اسی طرح دوسرے ممالک کے عوام کو بھی متنفر رہنے کا حق ہے۔ امریکہ زوال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ بات سب جان لیں۔ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ہم جاکر امریکیوں سے مفاہمت کر لیں وہ بلا وجہ ہی بے بنیاد خیالی قلعہ تعمیر کر رہے ہیں۔ امریکہ زوال پذیر ہے۔ امریکہ کے زوال و انحطاط کی وجوہات آج اور کل کی نہیں ہیں کہ کوئی یہ سوچے کہ ان کا فوری طور پر کوئی علاج کر لیا جائے گا، یہ پوری تاریخ پر محیط علل و اسباب ہیں۔ امریکیوں کی موجودہ حالت کی وجہ دراز مدتی ہے۔ انھوں نے تاریخ میں ایسے حالات پیدا کئے ہیں کہ ان کا نتیجہ آج امریکہ کی موجودہ حالت کی شکل میں سامنے آیا ہے اور اس کا آسانی سے کوئی علاج بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ سنت خداوندی ہے۔ زوال ان کا مقدر ہے۔ تنزل ان کا مقدر ہے۔ دنیا کے طاقت کے نقشے سے انھیں مٹ جانا ہے۔

اس کے مد مقابل اسلامی جمہوریہ ہے۔ میں بلا وجہ تعریف نہیں کرنا چاہتا، مبالغہ نہیں کرنا چاہتا۔ ہم نے صفر سے شروعات کی تھی۔ جو راستہ دوسروں نے سو سال یا ڈیڑھ سو سال میں طے کیا ہے اس کے بارے میں میرا یہ دعوی نہیں ہے کہ ہم نے چالیس سال میں طے کر لیا ہے لیکن میں یہ دعوی تو ضرور کروں گا کہ اس چالیس سال میں ہم مسلسل آگے بڑھتے رہے ہیں، لگاتار پیش قدمی کرتے رہے ہیں، مسلسل ہماری قوت میں اضافہ ہوا ہے، اسلامی جمہوریہ کا چالیس سال کا سفر اس چیز کو بخوبی ثابت کر سکتا ہے۔ ہم وطن عزیز کے اندر سیاسی خود مختاری اور صنعتی خود مختاری کے لئے سنجیدہ اقدامات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ میں نے نوجوانوں کی سیکڑوں ٹیموں کی جو بات کہی وہ عین  حقیقت ہے۔ میں ان میں بعض کو قریب سے جانتا ہوں اور بعض سے دور کی آشنائی ہے۔ محنتی، سنجیدہ، صاحب استعداد، خلاقانہ صلاحیت کے مالک، بلند ہمت نوجوان مصروف عمل ہیں، مختلف میدانوں میں محنت کر رہے ہیں۔ فکری میدانوں میں، عملی میدانوں میں، علمی میدانوں میں، ٹیکنالوجی کے میدان میں۔ نہ انہیں بڑا عہدیدار بننے کی فکر ہے، نہ ڈائریکٹر بننے کا لالچ ہے، نہ وزیر بننا چاہتے ہیں اور نہ کوئی بڑا مقام و مرتبہ چاہتے ہیں۔ محنت کر رہے ہیں۔ آج یہ صورت حال ہے۔ ہمارے ملک میں آج یہ بڑی با برکت چیز سامنے آئی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

میں آپ عزیز نوجوانوں سے کچھ سفارشات کرنا چاہوں گا۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو ملک کے مستقبل کے لئے ضروری ہیں۔ پہلی سفارش؛ امریکہ سے دشمنی کو ہرگز فراموش نہ کیجئے۔ دشمن کی جھوٹی و شرمناک مسکراہٹوں کے فریب میں نہ آئیے۔ وہ کبھی کہتے ہیں کہ ہمیں ملت ایران سے کوئی مشکل نہیں ہے، ہمارا سارا جھگڑا اسلامی جمہوریہ کی حکومت سے ہے۔ سراسر جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس قوم کی پشت پناہی نہ ہو تو اسلامی جمہوریہ کی حکومت کچھ کر ہی نہیں سکتی۔ وہ ملت ایران کے دشمن ہیں۔ وہ اس قوم کے دشمن ہیں جو اس چالیس سال میں اپنی قوت، اپنی موجودگی اور اپنے ارادے کو قائم رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ پابندیاں عوام کے خلاف لگائی گئی ہیں۔ امریکہ سے دشمنی کو کبھی فراموش نہ کیجئے۔ انقلاب سے پہلے بھی  امریکہ ملت ایران سے دشمنی رکھتا تھا لیکن اس وقت چونکہ خود اس کے مہرے یہاں اقتدار میں تھے اس لئے جو چاہتا تھا خاموشی سے کر لیتا تھا۔ جس طرح دل چاہتا تھا عمل کرتا تھا اور طاغوتی پہلوی حکومت اس کی فرماں برداری کرتی تھی۔ اسلامی جمہوریہ امریکہ کے مد مقابل پوری مضبوطی سے ڈٹ گئی ہے۔ اس لئے امریکیوں کی دشمنی بھی واضح ہو گئی۔ وہ مختلف پہلوؤں سے دشمنی کا برتاؤ کرتے ہیں۔ ان کی جھوٹی باتوں پر نہ جائیے!

سوال یہ ہے کہ یہ دشمنی کب تک چلے گی؟ امریکہ سے کب تک دشمنی جاری رہے گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت تک جب تک امریکہ اپنی تسلط پسندی نہیں چھوڑ دیتا۔ اگر امریکہ نے تسلط  پسندی کی پالیسی ترک کر دی تو دیگر ممالک کی طرح اس کے ساتھ بھی تعلقات رکھے جا سکتے ہیں، اس سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ البتہ یہ چیز بہت بعید ہے۔ کیونکہ استکبار کی ذات اور ماہیت، یہاں ہمارے ایک برادر عزیز نے کہا بھی، کہ تسلط پسندی اور توسیع پسندی کی ماہیت ہے۔ جب تک یہ سلسلہ رہے گا دشمنی بھی رہے گی۔ اگر امریکہ نے اس عادت کو چھوڑ دیا تو دشمنی، ناراضگی، قطع تعلق اس طرح کی تمام چیزیں ختم ہو جائیں گی۔ مگر یہ چیز ہونے والی نہیں ہے۔

دوسری سفارش؛ مضبوط دشمن کے مقابلے میں استقامت و پائيداری کے نظرئے کی تبلیغ اور ترویج کیجئے۔ کوئی یہ نہ سوچے کہ جب دشمن کے پاس بم ہے، میزائل ہے، تشہیراتی ادارے اور دیگر وسائل ہیں تو ہمیں پسپائی اختیار کر لینا چاہئے۔ جی نہیں، استقامت و مزاحمت کا نظریہ ایک صحیح اور اصلی نظریہ ہے۔ فکر و نظر کی سطح پر بھی اور عمل کے مقام میں بھی۔ اس کی فکری  اور عملی دونوں پہلؤوں سے تبلیغ کی جانی چاہئے۔ آپ اس مفہوم کی ترویج کیجئے۔ آپ نوجوان بڑی خوش اسلوبی سے استقامت و مزاحمت کے نظرئے کی  تبلیغ کر سکتے ہیں اپنے درمیان بھی اور اس ماحول میں بھی جو آپ کے ارد گرد ہے۔ یہی نہیں بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی اور دوسرے نوجوانوں کے درمیان بھی۔ استقامت و مزاحمت کے نظرئے کی تبلیغ کیجئے۔ یہ بتائيے کہ استکبار کا اصلی مقصد تسلط قائم کرنا ہے، سامراج کا اصلی مقصد غلبہ حاصل کرنا ہے، قوموں کو اپنے کنٹرول میں لینا ہے۔ یہ بات سب کو بتائیے سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ استکبار کا ہدف یہ ہے۔

عملی تبلیغ کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں چاہئے کہ استقامت و مزاحمت کو نوجوانوں کا مسلمہ حق مانیں۔ عراق کے نوجوان، شام کے نوجوان، لبنان کے نوجوان، شمالی افریقا کے نوجوان، بر صغیر کے علاقوں کے نوجوان ایسے نوجوان ہیں جو امریکہ کے مقابلے میں مزاحمت کرتے ہیں، ثابت قدمی سے ڈٹے ہوئے ہیں، یہ ان کا حق ہے۔ ہم اسے ان کا حق مانتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو تقویت پہنچانے کا مطلب ہے استقامت کے نظرئے کو مستحکم بنانا۔

تیسرا نکتہ؛ ملک کی پیشرفت کے سلسلے میں آپ اپنے نوجوانوں کو ذمہ دار سمجھئے۔ پیشرفت کا پروگرام بالکل واضح اور طے شدہ ہے۔ ایسا پروگرام ہے جس پر غور ہو چکا ہے۔ آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ ایرانی اسلامی پیشرفت کا نمونہ آئندہ پچاس سال تک مختلف شعبوں میں اس ملک کی پیش قدمی کا سانچہ اور فریم ورک قرار پا سکتا ہے۔ اسے بیان کر دیا گيا ہے، معین کر دیا گيا ہے، آمادہ کر دیا گيا ہے، یہ اہل نظر افراد کے پاس ہے کہ اسے مزید سنواریں اور کامل کریں۔ آپ خود کو اس وسیع البنیاد پروگرام کا جز سمجھئے اور اس کے لئے خود کو آمادہ کیجئے۔ یہ آمادگی کبھی تو درس پڑھنے کی شکل میں ہوگی، کبھی تحقیق کے ذریعے ہوگی، کبھی تعمیری کاموں کے ذریعے ہوگی، کبھی محنت و مشقت انجام دیکر ہوگی، کبھی صحیح سیاسی موقف اختیار کرنے کی شکل میں ہوگی، کبھی سیاست کے میدان میں قدم رکھنے سے ہوگی۔ آپ کی زندگی کا ہر دن اور ہر دور ان میں سے کسی نہ کسی تقاضے کا حامل ہوگا۔ آپ تمام حالات میں خود کو ملک کی پیشرفت کے سلسلے میں ذمہ دار سمجھئے اور خود کو اس عمل میں حصہ دار اور شریک مانئے۔

ملک کے اقتصادی مسائل کے سلسلے میں اور وطن عزیز کے مستقبل کے سلسلے میں ایک بنیادی کام جو ہمیں انجام دینا ہے وہ تیل پر ملکی معیشت کے انحصار کو ختم کرنا ہے۔ تمام ذی فہم اور تجربہ کار ماہرین اقتصادیات، صرف آج نہیں بلکہ کئی بار اور برسوں سے تاکید کرتے رہے ہیں اور بار بار اس کا اعادہ کرتے ہیں۔ یہ مسلم الثبوت حقیقت ہے۔ ہم نے بھی ہمیشہ ملک کے حکام سے یہ کہا کہ آپ کوشش کیجئے کہ جہاں تک ممکن ہو ہم اپنی معیشت کو خام تیل کی فروخت پر انحصار سے الگ کر لیں۔ ہم جب خام تیل بیچ رہے ہیں تو در حقیقت اپنی ثروت اور اپنے سرمائے کو جو 'ری نیوایبل' بھی نہیں ہے، ایک دن ختم ہو جانے والا ہے، زمین کے نیچے سے نکالتے ہیں اور بیچتے ہیں، اس سے پیسہ حاصل کرتے ہیں اور اس پیسے کو ملک چلانے پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ اس سرمائے کو اس طرح استعمال کرنا چاہئے، اس طرح بروئے کار لانا چاہئے، اس طرح خرچ کرنا چاہئے کہ اس سے ویلیو ایڈڈ آمدنی حاصل ہو۔ ہمیں تیل کا درست استعمال کرنا چاہئے۔ ہماری معیشت کی ایک بڑی خامی اس کا انحصار ہے۔ ہمارے نوجوان، وہ لوگ جو اہل نظر ہیں، جو اہل عمل ہیں، بیٹھیں اور ایسے راستے تلاش کریں کہ وطن عزیز اس انحصار سے خود کو باہر نکال سکے۔ البتہ اس کے لئے پالیسی وضع کی جا چکی ہے۔ ہم نے کلی پالیسیوں میں قومی ترقیاتی فنڈ تشکیل دیا ہے اور اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا ہے وہ اسی لئے ہے کہ تیل کی آمدنی پر انحصار سے ہم خود کو باہر نکال سکیں۔

یہ بھی عرض کر دوں کہ ترقی کا ماڈل ہم مغرب سے نہیں لیں گے۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ ہم اس عمل کا نام پیشرفت رکھیں گے، ان کی طرح ہم اس کا نام ڈیولپمنٹ نہیں رکھیں گے۔ ملک کی پیشرفت کا ماڈل ہم مغرب سے نہیں لیں گے۔ مغرب والوں نے اس روش اور اس ماڈل کے ذریعے خود کو تباہ کر لیا ہے، اپنے لئے بے پناہ مشکلات پیدا کر لی ہیں، زرق و برق تو ہے لیکن اس کا باطن بالکل کھوکھلا اور بوسیدہ ہے، ان سے ہم یہ نمونہ نہیں لیں گے۔ بے شک جدید سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کو بھرپور انداز میں استعمال کریں گے۔ ہم پیشرفت کو قوم کی خوش بختی کا بھی ضامن مانتے ہیں، ملت کے افتخار کا ذریعہ بھی سمجھتے ہیں اور ملک کی سلامتی کا راستہ بھی مانتے ہیں۔ ہم اپنے ملک کی پیشرفت کے لئے محنت کریں گے۔ ہمارے نوجوانوں، ہمارے ان عزیزوں کو چاہئے کہ ان میدانوں میں خود کو ذمہ دار سمجھیں، اپنا فریضہ محسوس کریں، اپنی ذمہ داری کا احساس کریں۔

ملک کی اصلی ضرورت ہے آپ کی بلند ہمتی۔ آپ نوجوانوں کو چاہئے کہ بلند ہمتی کا مظاہرہ کیجئے، اپنے حوصلے بلند رکھئے، محنت کیجئے، کام کیجئے، خوف کو خود سے دور کیجئے، تساہلی کو خیرباد کہئے، جدت عملی کو اپنا ہدف و مقصد قرار دیجئے، نئی تبدیلیوں کو اپنا سب سے بڑا فریضہ سمجھئے۔ البتہ غیرت قومی، حمیت ملی کے جذبے کو قائم رکھتے ہوئے۔ یہ چیزیں ہمارے ملک کے لئے اور  ہمارے نوجوانوں کے لئے ضروری  ہیں۔ تمام میدانوں میں جوش و جذبے اور محنت و لگن سے آراستہ ٹیمیں موجود ہوں۔

یہ چند سفارشات نوجوانوں کے لئے تھیں اب یہ سفارش عہدیداران سے ہے۔ عہدیداران ان باتوں پر سنجیدگی سے توجہ دیں، نوجوانوں پر سنجیدگی سے توجہ دیں۔ آج کی نوجوان نسل کا جو واقعی جوش و جذبے سے بھری ہوئی ہے حقیقی معنی میں خیر مقدم کریں، نوجوان نسل کی مدد کریں۔ میں ایسی مثالیں دیکھتا ہوں کہ نوجوانوں کا ایک گروہ کوئی بہت اہم، بہت نمایاں اور نئے راستے کھولنے والا کام انجام دیتا ہے لیکن اس کام سے مربوط ادارہ ان کی مدد نہیں کرتا۔ یہ ہماری ایک خامی ہے۔ عہدیداران نوجوانوں پر سنجیدگی سے توجہ دیں، ان کے کاموں پر توجہ دیں، ان پر دھیان دیں۔

میں اپنی گفتگو کے آخر میں بس یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ عزیز نوجوانو! جیسا کہ میں نے عرض کیا، آپ یقین رکھئے کہ اس ملک کا مستقبل، اسلامی مملکت ایران کا مستقبل ماضی سے بدرجہا بہتر اور زیادہ تابناک ہے۔ آپ یقین جانئے کہ اس جذبے کے ساتھ جو آپ کے اندر ہے اور جس کا مظاہرہ آج آپ نے کیا، یہ ملت اگر آگے بڑھے، قدم بڑھائے تو یقینا مستقبل قریب میں دنیا میں ایسی بلندی پر پہنچ جائے گی کہ عالمی معاملات میں ہمشیہ مستحکم پوزیشن میں رہے گی اور اپنے اہداف پورے کرے گی۔ یہ چیز بالکل طے شدہ اور یقینی ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ آپ نوجوان ان شاء اللہ اپنی آنکھ سے وہ دن دیکھیں گے جب اسلام کی برکت سے اور اسلامی انقلاب کی برکت سے ملک میں عظیم پیشرفت ہو چکی ہوگی۔

اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارے عزیز شہیدوں کی روح مطہرہ کو جنہوں نے ہمارے لئے یہ راستہ کھولا ہے، ملک کے لئے یہ پرامن فضا تعمیر کی، صدر اسلام کے شہیدوں اور کربلا کے شہیدوں کے ساتھ محشور فرمائے۔ حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کے قلب مقدس کو، ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی روح مطہرہ کو ہم سب سے راضی و خوش رکھے، ہمیں ہمارے فرائض سے آگاہ اور ان پر عمل آوری میں ہم سب کو کامیاب کرے۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة الله و‌ برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں اسکولی طلبہ اور یونیورسٹی طلبہ کے نمائندوں محمد صابر باغخانی اور مرتضی عزیزی نے تقریر کی۔