بسم اللہ الرحمن الرحیم

 الحمد للہ رب العالمین۔ الحمد بجمیع محامدہ کلھا علی جمیع نعمہ کلھا الحمد علی حلمہ بعد علمہ و الحمد علی عفوہ بعد قدرتہ و الحمد للہ علی طول اناتہ فی غضبہ وھو قادر علی ما یرید و نحمدہ و نستعینہ و نستھدیہ و نومن بہ و نتوکل علیہ و نصلی و نسلم علی حبیبہ و نجیبہ و خیرتہ فی خلقہ و حافظ سرّہ  و مبلغ رسالاتہ سیدنا و نبینا و حبیبنا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین و صل علی آئمۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المومنین اوصیکم عباد اللہ بتقوی اللہ قال اللہ تبارک  و تعالی: یا ایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم۔

 خدوند عالم سے دعا ہے کہ یہ مہینہ جو ضیافت الہی کا مہینہ ہے پوری امت اسلامیہ، بالخصوص عزیز ایرانی قوم مخصوصا آپ نمازیوں کے لئے مبارک ہو۔ جس آیہ کریمہ کی میں نے تلاوت کی اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ روزہ اسلام سے پہلے کی امتوں پر بھی واجب قرار دیا گیا تھا۔ مختلف ادوار میں جن فرائض اور واجبات کی انسانوں کو ضرورت رہی ہے ان میں سے ایک روزہ ہے۔ نماز اور ذکر خدا بھی ایسا ہی ہے۔ تمام ادوار میں، تمام احوال میں، ہر تہذیب و تمدن میں، حیات بشری کے ہر دور میں اور ہر حال میں اپنی بشری خصوصیات کی وجہ سے انسان کو جن اعمال اور فرائض کی ضرورت ہے ان میں  روزہ بھی شامل ہے۔ آج میں پہلے خطبے میں روزے کے بارے میں چند جملے عرض کروں گا اور دوسرے خطبے میں اپنے ملک اور معاشرے کے بعض مسائل پر گفتگو کروں گا۔

  روزہ جس کو ہم ایک فریضہ الہی کہتے ہیں، درحقیقت خدا کا عطا کردہ ایک شرف ہے، ایک نعمت خداوندی ہے اور جنہیں روزہ رکھنے کی توفیق ہوتی ہے ان کے لئے ایک بہت ہی قیمتی موقع ہے البتہ اس میں سختیاں بھی ہیں۔ ہر مبارک اور مفید کام میں سختی ہوتی ہے۔ انسان سختیاں برداشت کئے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ تھوڑی سی سختی جو روزہ رکھنے میں برداشت کرنی پڑتی ہے، اس اجر کے مقابلے میں بہت کم اور معمولی ہے جو اس کے بدلے میں انسان کو حاصل ہوتا ہے۔  روزے میں بہت تھوڑا سا سرمایہ خرچ کرکے بہت زیادہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ روزے کے لئے تین مراحل کا ذکر کیا گیا ہے۔ تینوں مرحلے ان لوگوں کے لئے مفید ہیں جو اس کے اہل ہوں۔ ایک مرحلہ روزے  کا یہی عمومی مرحلہ ہے یعنی کھانے پینے اور تمام حرام کاموں سے پرہیز۔ اگر روزے میں سب کچھ یہی امساک ( یعنی کھانے پینے اور حرام کاموں سے پرہیز) ہو تب بھی یہ فائدہ بہت زیادہ ہے۔ روزے میں ہم کو آزمایا بھی جاتا ہے اور ہم کو سکھایا بھی جاتا ہے۔ روزے میں ہمارے لئے درس بھی ہے اور زندگی کے لئے آزمائش بھی ہے۔ اس میں مشق اور ورزش بھی ہے اور یہ ورزش جسمانی ورزش سے زیادہ اہم ہے۔

ائمہ اطہار علیہم السلام سے روزے کے اس پہلو کے بارے میں بعض روایات منقول ہیں۔ ایک روایت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ "لیستوی بہ الغنی و الفقیر" یعنی خداوند عالم نے روہ اس لئے واجب کیا ہے کہ ان گھڑیوں اور ان ایام میں امیر اور غریب برابر ہو جائيں۔ ایک غریب اور تہی دست انسان دن میں جو بھی کھانا پینا چاہے نہیں کھا پی سکتا لیکن امیر لوگ جو بھی ان کا دل چاہے، ان کے لئے فراہم ہو جاتا ہے۔ امیر کا جو بھی دل چاہے وہ مل جاتا ہے، اس لئے وہ کسی غریب انسان کی بھوک اور تہی دستی کو محسوس نہیں کرتا۔ لیکن روزے کے عالم میں امیر اور غریب دونوں ہی اپنے اختیار سے خود کو خواہشات کی تکمیل سے محروم کر لیتے ہیں۔

ایک اور روایت میں جو حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے منقول ہے، ایک اور نکتے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس روایت میں فرمایا گیا ہے کہ "لکی یعرفوا الم الجوع و العطش و یستدلوا علی فقر الاخرۃ" اس روایت میں یوم قیامت کی بھوک پیاس اور تہی دستی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ قیامت کے دن انسان جن مصیبتوں میں مبتلا ہوگا ان میں سے ایک بھوک اور پیاس ہے اور اسی حالت میں اس کو خدا کے سوال و جواب کا سامنا ہوگا۔ انسان کو روزے کی بھوک اور پیاس کے عالم میں قیامت کی اس حالت اور انتہائی سخت اور دشوار لمحے پر توجہ دینا چاہئے۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے منقول ایک اور روایت میں روزے کی بھوک اور پیاس کے ایک دوسرے پہلو پر توجہ دی گئی ہے۔ اس روایت میں فرمایا گیا ہے کہ" صابرا علی ما اصابہ من الجوع والعطش" یعنی انسان کو ایسی قوت صبر دی جاتی ہے کہ وہ بھوک اور پیاس کو برداشت کر سکے۔ جن لوگوں نے بھوک اور پیاس نہ دیکھی ہو، ان کے اندر صبر و تحمل کی طاقت بھی نہیں ہوتی۔ بہت سے میدانوں میں مشکلات کا سامنا ہونے پر ان کے پیر اکھڑ جاتے ہیں اور زںدگی کے گوناگون امتحان انہیں کچل ڈالتے ہیں۔ جس نے بھوک اور پیاس کا مزہ چکھا ہو، وہ ان باتوں کو سمجھتا ہے اور دشواریوں کا سامنا ہونے پر اس کے اندر صبر و تحمل کی طاقت ہوتی ہے۔ ماہ رمضان سبھی کو یہ قوت صبر و تحمل عطا کرتا ہے۔

اس سلسلے میں ایک اور روایت بیان کرتا ہوں۔ یہ روایت بھی حضرت امام علی رضا علیہ الصلواۃ و السلام سے منقول ہے۔ اس روایت میں فرمایا گیا ہے کہ " و رائضا لھم علی اداء ما کلّفھم"؛  یعنی رمضان میں بھوک اور پیاس کا تحمل اور خواہشات نفسانی سے پرہیز ایک طرح کی ریاضت ہے جو انسان کو زندگی کی گوناگوں ذمہ داریوں کی ادائیگی پر قادر بنا دیتی ہے۔ البتہ اس ریاضت سے مراد ریاضت شرعی، ریاضت الہی اور ریاضت اختیاری ہے۔  جو چیزیں انسان کو طاقتور بناتی ہیں اور زندگی کی سخت اور دشوار راہیں طے کرنے کی توانائی عطا کرتی ہيں ان میں سے ایک ریاضت ہے، جس کا بہت سے لوگ سہارا لیتے ہیں۔ یہ ایک شرعی ریاضت ہے۔

بنابریں انہیں چند حدیثوں میں جو بیان کی گئيں، آپ دیکھیں کہ روزے کا یہی مرحلہ، یعنی بھوک اور پیاس برداشت کرنے کا مرحلہ، امیروں میں غریبوں کی برابری کا احساس پیدا کرتا ہے۔ یوم قیامت کی بھوک کا احساس پیدا کرتا ہے۔ انسان کے اندر سختیوں پر صبر و تحمل کی توانائی عطا کرتا ہے۔ ریاضت الہی کے عنوان سے فرائض کی ادائیگی میں سختیاں برداشت کرنے کی قوت دیتا ہے۔ یہ سارے فوائد اسی ایک مرحلے میں ہیں۔ اس کے علاوہ کھانے پینے کی چیزوں سے پیٹ کے خالی ہونے اور مباح کاموں سے بھی  پرہیز کرنے کی وجہ سے انسان کے اندر پاکیزگی، لطافت اور نورانیت پیدا ہوتی ہے جو بہت زیادہ اہم اور قیمتی ہے۔

روزے کا دوسرا مرحلہ گناہوں سے پرہیز یعنی آنکھ، کان، زبان اور دل حتی بعض روایات میں ہے کہ قیافہ انسانی، جسم کی جلد اور بال کو بھی گناہ سے بچانا ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہے کہ "الصیام اجتناب بالمحارم کما یمتنع الرجل من الطعام و الشراب" یعنی جس طرح کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے پرہیز کرتے ہو، اسی طرح گناہوں سے بھی پرہیز کرو۔ یہ روزے دار کے لئے اعلی تر مرحلہ ہے۔ رمضان المبارک میں روزہ انسان کو گناہوں سے بچنے کی مشق کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ بہت سے نوجوان، میرے پاس آتے ہیں اور دعا کی درخواست کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دعا کریں کہ ہم گناہ نہ کریں۔ دعا کرنا بہت اچھا اور ضروری ہے اور ہم دعا کرتے ہیں، لیکن گناہ نہ کرنے کا تعلق انسان کے ارادے سے ہے۔ فیصلہ کریں کہ گناہ نہیں کریں گے اور جب فیصلہ کر لیں تو یہ کام بہت آ‎سان ہو جاتا ہے۔ گناہوں سے اجتناب، انسان کو پہاڑ جیسا بھاری اور بڑا لگتا ہے۔ لیکن فیصلہ کر لینے سے ایک ہموار زمین کی مانند ہو جاتا ہے۔ رمضان المبارک ان کاموں کی مشق کے لئے بہترین موقع ہے۔

ایک اور روایت میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ"ما یصنع الصائم بصیامہ اذا لم یصن لسانہ و سمعہ و بصرہ و جوارحہ " یعنی اگر انسان اپنی زبان، آنکھ اور اعضا و جوارح کو گناہوں سے نہ روکے تو روزے سے کیا فائدہ حاصل کر پائے گا؟ ایک روایت میں ہے کہ کسی عورت نے اپنی خادمہ کی توہین کی۔ بظاہر یہ دونوں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے پڑوس میں تھیں یا کسی سفر میں آپ کے ساتھ تھیں۔ پیغمبر کے دست مبارک میں کھانے کی کوئی چیز تھی ، آپ نے اس عورت کی طرف بڑھائی اور فرمایا کہ لو کھاؤ، اس عورت نے کہا میں روزہ ہوں۔ روایت میں ہے کہ پیغمبر نے فرمایا کہ "کیف تکونین صائمۃ وق دسببت جاریتک" تم کیسے روزہ ہو جبکہ تم نے اپنی خادمہ کو دشنام دیا ہے؟ "ان الصیام لیس من الطعام و الشراب" روزہ صرف کھانے پینے سے ہی پرہیز نہیں ہے۔ "وانما جعل اللہ ذلک حجابا عن سواھما من الفواحش من الفعل و القول" یعنی خدانے روزے دار انسان سے چاہا ہے کہ گناہوں اور آلودگیوں کی طرف نہ جائے۔ جملہ گناہوں میں گناہ زبان بھی ہے، دوسروں کو برا بھلا کہنا اور ان کی توہین کرنا بھی ہے۔ جملہ گناہوں میں گناہ دل یعنی دل میں دوسروں کے لئے کینہ اور دشمنی رکھنا بھی ہے۔  بعض گناہ وہ ہیں جو شرعی اصطلاح کے مطابق گناہ ہوتے ہیں۔ بعض گناہ اخلاقی ہیں۔ گناہوں کے مختلف مراتب ہیں۔ لہذا روزے داری کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ انسان خود کو گناہوں سے دور رکھے۔ خاص طور پر آپ عزیز نوجوانوں کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ آپ نوجوان ہیں۔ نوجوانوں میں طاقت و توانائی بھی ہوتی ہے اور دل میں پاکیزگی اور نورانیت بھی پائی جاتی ہے۔ رمضان المبارک میں اس موقع سے فائدہ اٹھائيں اور  گناہوں سے پرہیز کریں۔ یہ روزے داری کا دوسرا مرحلہ ہے۔  مشق کریں۔

روزے داری کا تیسرا مرحلہ، ہر اس چیز سے  پرہیز ہے جو انسان کے ضمیر اور ذہن کو یاد خدا سے غافل کر دے۔ یہ روزےداری کا وہ اعلی مرحلہ ہے جس کے تعلق سے حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خداوند عالم سے فرماتے ہیں: "یا رب و ما میراث الصوم"  پالنے والے روزے کا فائدہ کیا ہے؟ خداوند عالم نے فرمایا" الصوم یورث الحکمۃ و الحکمۃ تورث المعرفۃ والمعرفۃ تورث الیقین فاذا استیقن العبد لا یبالی کیف اصبح بعسر ام بیسر" یعنی روزہ دل میں حکمت کے چشمے جاری کر دیتا ہے۔ جب دل پر حکمت کی حکمرانی قائم ہو جائے تو معرفت پیدا ہوتی ہے اور معرفت وہ یقین پیدا کر دیتی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا سے طلب کرتے تھے۔ جس انسان کے اندر یقین پیدا ہو جائے زندگی کی سبھی مشکلات اور دشواریاں اس کے لئے آسان ہو جاتی ہیں اور وہ انسان حوادث کے مقابلے میں نا قابل شکست ہو جاتا ہے۔ دیکھئے کتنی اہمیت ہے اس کی؟! یہ انسان جو اپنی عمر ترقی اور تکامل کی راہیں طے کرنے میں گزارنا چاہتا ہے، زندگی کی مشکلات، حوادث اور دشواریوں کے مقابلے میں ناقابل شکست ہو جاتا ہے۔ یقین انسان کے اندر یہ حالت پیدا کر دیتا ہے۔ یہ روزے کا نتیجہ ہے۔ جب روزے سے دل میں یاد خدا زندہ ہو جائے، دل میں معرفت خدا کو فروغ حاصل ہو اور دل منور ہو جائے تو یہ چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔ ہر وہ چیز جو انسان کو یاد خدا سے غافل کر دے، روزے کے اس مرحلے کے لئے مضر ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو خود کو اس مرحلے تک پہنچا سکیں۔ البتہ ہمیں روزے کے اس مرحلے تک پہنچنے کے لئے آرزو کرنی چاہئے، خدا سے مدد مانگنی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے۔

پالنے والے! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ ہے ہمیں حقیقی روزے داروں میں قرار دے۔ پالنے والے! ہمیں روزے داری کے اعلی درجات تک پہنچنے کی توفیق عنایت فرما۔ اس فریضہ الہی کی تمام برکات سے ہمیں بہرہ مند فرما۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قل ھو اللہ احد اللہ الصمد لم یلد و لم یولد و لم یکن لہ کفوا احد

٭٭٭٭٭٭٭

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابی القاسم المصطقی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما علی امیر المومنین و الصدیقۃ الطاھرۃ سیدۃ نساء العالمین و الحسن و الحسین سّیدی شباب اھل الجنۃ و علی بن الحسین و محمد بن علی و جعفر بن محمد و موسی بن جعفر و علی بن موسی و محمد بن علی و علی بن محمد و الحسن بن علی و الخلف القائم المھدی حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک و صلّ علی ائمۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المومنین و استغفر اللہ لی و لکم۔ اوصیکم و نفسی بتقوی اللہ۔

سبھی نمازی بہنوں اور بھائیوں اور اپنے نفس کو تقوا و پرہیزگاری کی پابندی کی سفارش اور نصیحت کرتا ہوں کیونکہ اس مہینے میں روزے کا سب سے ممتاز اثر تقوا ہے۔

بہت سے مسائل قابل بیان ہیں۔ میں آج کی ایک مناسبت یعنی آیت اللہ مفتح کی شہادت کے بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ اس کے بعد اس مسئلے اور موضوع پر گفتگو کروں گا جو میری نظر میں ملک کو در پیش اہم ترین مسائل میں ہے۔ 

آیت اللہ شہید مفتح مرحوم ایک ممتاز، فداکار، زمانے کی ضرورت سے باخبر اور لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرنے والے عالم دین تھے۔ اس کے علاوہ ان کے اندر ایک خصوصیت ایسی تھی جو اس دور کے بہت کم علما اور فضلا میں پائی جاتی تھی، ان کی یہ ممتاز خصوصیت نوجوان نسل، یونیورسٹی کے طلبا اور ان لوگوں سے رابطہ پیدا کرنے کی صلاحیت تھی جو پیغام دین کو ایک عالم دین کی زبان سے سننا چاہتے تھے۔ لہذا انقلاب آنے سے پہلے بھی اور انقلاب کے بعد بھی اس ممتاز عالم دین کی سرگرمیوں کا مرکز زیادہ تر نوجوانوں بالخصوص یونیورسٹی طلبا کا حلقہ ہوا کرتا تھا۔ جن مساجد میں وہ جایا کرتے تھے اور جہاں وہ تقاریر کیا کرتے تھے (وہاں یونیورسٹی طلبا اور نوجوان زیادہ ہوا کرتے تھے)۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ان کی شہادت، یوم اتحاد یونیورسٹی و حوزہ علمیہ یا دینی مدارس اور یونیورسٹیوں کے طلبا کے اتحاد کے دن واقع ہوئی۔ حق یہ ہے کہ وہ یونیورسٹی اور حوزہ علمیہ کا حلقہ اتصال تھے جو ان کی اس ممتاز خصوصیت سے مناسبت رکھتا تھا۔ خداوند عالم نے انہیں انعام میں شہادت عطا کی۔ شہادت بہت بڑا انعام اور اجر عظیم ہے اور خداوند عالم نے اپنے صالح بندوں منجملہ اس بندہ صالح کو اس اجر سے محروم نہیں کیا۔ ہماری دعا ہے کہ ان کے درجات میں روز افزوں اضافہ ہو۔

اب اس بات کی طرف آتا ہوں جس سے  میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے موجودہ حالات میں رائے عامہ کی واقفیت ضروری ہے۔  وہ بات یہ ہے کہ ایک زندہ اور ترقی پذیر قوم کو اپنے تعمیری کاموں، ترقی و پیشرفت اور بڑے کاموں کی انجام دہی کے ساتھ ہی ہر مرحلے میں دشمن کے اہداف کی طرف سے غفلت نہیں برتنی چاہئے۔ یہ قوم کے زندہ ہونے کی علامت اور زندہ قوم کی خصوصیت ہے۔ ایسی کوئی قوم تصور نہیں کی جا سکتی جس کی امنگیں عظیم ہوں اور جو بڑے کام کرنا چاہتی ہو لیکن اس کا کوئی دشمن نہ ہو۔ جی ہاں، ہیں ایسی اقوام جو ایک گوشے میں پڑی ہوئی ہیں، انہیں اپنے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے، اغیار ان پر مسلط ہیں، وہ بھیڑ بکریوں کی طرح چرنے میں مصروف ہیں اور اغیار گلہ بان کی طرح انہیں جدھر چاہتے ہیں لے جاتے ہیں اور ان سے جو فائدہ چاہتے ہیں اٹھاتے ہیں۔ اغیار جس طرح چاہتے ہیں یہ اقوام اسی طرح زندگی گزارتی ہیں وہ اس کے بارے میں سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں اس لئے کہ ان کے لئے مستقبل کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ البتہ آج کی دنیا میں ایسی اقوام کم ملتی ہیں۔ اگر ہیں بھی تو بہت کم ہیں۔ آخر کار اقوام بیدار ہو چکی ہیں۔ بہرحال ایرانی قوم نے اغیار کی مداخلت کے خلاف قیام کیا ہے، اغیار کا تسلط ختم کیا ہے، اپنے ملک میں اغیار کی مداخلت ختم کر دی ہے، یہ معمولی کام نہیں ہیں، ایسی قوم کے دشمن ہوتے ہیں۔ ایرانی قوم نے اپنے تیل کے ذخائر اور مختلف مادی ذخائر کی بیرونی طاقتوں کے ذریعے لوٹ مار اور غارتگری کا خاتمہ کر دیا ہے اور اس حکومت کو اکھاڑ پھینکا ہے جو بیرونی طاقتوں کے مفاد میں کام کرتی تھی۔ ان خصوصیات کی مالک قوم کے دشمن ہوتے ہیں، ایسی قوم بغیر دشمن کے نہیں ہو سکتی۔

آج بھی یہ امنگوں والی قوم ہے جو ظلم، زور زبردستی ، تسلط پسندی اور امتیازی سلوک کی مخالف ہے۔ وہ سب جو ظلم کرتے ہیں، وہ سب جو امتیازی سلوک کرتے ہیں، وہ سب جو زور زبردستی سے کام لیتے ہیں، وہ سب جو لوٹ مار کرتے ہیں، فطری طور پر اس قوم سے ان کا رابطہ اچھا نہیں ہوگا۔ البتہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ہمیں بدگمانی ہے، یہ ہمارے خلاف شازش ہے، دشمن ہے! بہت اچھا جن لوگوں کا دل چاہتا ہے کہ اپنی آنکھیں بند رکھیں اور کہیں کہ کوئی دشمن نہیں ہے وہ اپنی آنکھیں بند رکھیں لیکن اس سے حقیقت تو نہیں بدل سکتی۔ ہمارے خواب غفلت میں چلے جانے سے دشمن کا وجود تو ختم نہیں ہو جائےگا۔ اگر دشمن ضرب لگانے کے لئے موقع کے انتظار میں گھات لگائے بیٹھا ہے تو چاہے ہم  جانیں یا نہ جانیں۔ یہ فرض کر لیں کہ کوئی دشمن نہیں ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ دشمن ہے وہ دشمنی تو کرے گا۔ ہمارے نہ جاننے سے یا یہ ظاہر کرنے سے کہ ہم نہیں جانتے، دشمن اپنی دشمنی سے تو دست بردار نہیں ہوگا۔ کچھ لوگ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایرانی قوم کا کوئی دشمن نہیں ہے! اطمینان کے ساتھ اپنا کام کرو اور مطمئن رہو کہ ہر جگہ امن و امان ہے! جی نہیں؛ یہ باتیں صحیح نہیں ہیں۔ کوئی زندہ قوم اس طرح نہیں سوچ سکتی۔ ہم ایسی اقوام اور حکومتوں سے بھی واقف ہیں کہ جو اس دور میں بھی جب ان کے دشمن زیادہ خطرناک نہیں تھے یا ان کے دشمن ان کے زیادہ نزدیک نہیں تھے، یہ ظاہر کرتی تھیں کہ ان کے دشمن ان کے گھر میں گھس آئے ہیں۔ یہ اس لئے ظاہر کرتی تھیں کہ اپنا اچھی طرح دفاع کر سکیں! مشرق اور مغرب کی سرد جنگ کے طولانی برسوں میں اکثر مغربی ملکوں اور زیادہ تر امریکا میں اسی طرح تھا۔ وہ حتی تصوراتی دشمن بھی بنا لیا کرتے تھے۔ وہ ان کو بھی دشمن فرض کرتے تھے جو دشمنی سے زیادہ قریب نہیں تھے، وہ عوام میں دشمن کے نزدیک ہونے کا پروپیگنڈہ کرتے تھے تاکہ جو بڑے کام اور اقدامات ان کے مد نظر تھے وہ انجام دے سکیں ۔ یہ ان کی بات ہے جن کے دشمن ان کے زیادہ نزدیک نہیں ہیں۔ تو پھر ایران جیسا ملک جس کے خلاف سازشیں اور دشمنیاں اتنی آشکارا ہیں، جو کچھ ہم اپنے ملک کے اندر دیکھ رہے ہیں، جو اپنے ملک کے اطراف میں دیکھ رہے ہیں کہ مستقل طور پر ہمارے خلاف سازش اور دشمنی کی جا رہی ہے، یہ دانشمندی نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ "نہیں جناب ہمارا کوئی دشمن نہیں ہے، ہمارے دشمن دشمن نہیں ہیں وہ ہمارے خلاف سازش کی فکر میں نہیں ہیں۔" یہ باتیں قابل اعتماد نہیں ہیں ۔ لہذا جو لوگ حماقت کا ارتکاب نہیں کرنا چاہتے اور یہ نہیں کہنا چاہتے کہ ہمارا کوئی دشمن نہیں ہے، ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ دشمنوں کے اہداف کی شناخت حاصل کریں اور یہ جانیں کہ دشمن کس بات کی فکر میں ہے۔

محاذ پر  اچھا کمانڈر وہ  ہوتا ہے جو یہ سمجھ سکے کہ دشمن کہاں حملہ کرنا چاہتا ہے اور یہ بات اپنے فوجیوں کو سمجھا سکے۔ مسلط کردہ جنگ کے دوران جو نوجوان اس دور میں میدان جنگ میں تھے، اس نکتے سے اچھی طرح واقف تھے۔ آپ جہاں بھی ہیں اگر یہ سمجھ سکیں کہ دشمن کس فکر میں ہے تو بہت حد تک اس کے حملے کا تدارک اور خود کو محفوظ کر لیں گے اور جن کاموں کی انجام دہی آپ کے لئے ضروری ہوگی، انجام دیں گے۔ البتہ اس وقت ہم دشمن کو متعارف کرانا نہیں چاہتے۔  ایرانی عوام اپنے عالمی اور بین الاقوامی دشمنوں کو پہچانتے ہیں۔ لیکن اس مرحلے میں دشمن کے اہداف کیا ہیں؟ اگر مجھ سے یہ سوال کیا جائے تو میں اس ملک اور قوم کے لئے اس زمانے اور دور میں دشمن کے دو تین اہداف کا نام لے سکتا ہوں۔ البتہ دشمن کے ریڈیو کے پروپیگنڈوں کے برخلاف میں یہ دعوا نہیں کرتا کہ جو میں سمجھتا ہوں وہ عین حقیقت ہے اور اس میں کوئی خامی نہیں ہے اور میں اپنی اس سوچ ميں معصوم ہوں۔ نہیں یہ میری سمجھ ہے؛ یہ وہ چیز ہے جو میں اس خدمتگزار کے عنوان سے جو اگرچہ بہت زیادہ حقیر بندہ ہے لیکن خداوند عالم نے اس کے کندھوں پر یہ سنگین ذمہ داری ڈالی ہے، احساس کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں اور لوگوں کے اذہان تک پہنچانا اور انھیں بتانا چاہتا ہوں۔ البتہ اگر کسی کے پاس زیادہ اطلاعات و معلومات ہیں، مسائل کو بہتر سمجھنے کی صلاحیت ہے اور اس بات کو دوسرے طریقے سے سمجھتا ہے تو اس کا فہم و ادراک اس کے لئے معتبر ہے لیکن جو میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے۔

اس دور میں دشمن تین اہداف کے در پے ہے اور ان کے لئے کام کر رہا ہے۔ پہلا ہدف، وحدت ملی کا خاتمہ ہے۔ دشمن ایرانی عوام کے اتحاد و یکجہتی کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ دوسرا ہدف، عوام کے اس قلبی یقین کو ختم کرنا ہے جو کارساز ہے۔ یعنی دشمن عوام کے اس ایمان، یقین اور اعتقاد کو ختم کر دینا چاہتا ہے جس نے ایک پسماندہ قوم کو دنیا میں پیشرفتہ، شجاع اور میدان سر کر لینے والی کامیاب قوم میں تبدیل کر دیا۔ یہ تحریک ایمان اور اعتقاد کے ساتھ انجام پائی ہے۔ ایمان اور یقین کے بغیر نہ یہ تحریک چل سکتی تھی اور نہ ہی قوم آگے بڑھ سکتی تھی۔ دشمن ہماری قوم کے اس یقین اور ایمان کو ختم کر دینا چاہتا ہے۔ تیسرا ہدف عوام کے ذہن میں روشن مستقبل کی امید اور جذبے کو ختم کرنا ہے۔ لہذا تین تخریبیں دشمن کے مد نظر ہیں: وحدت ملی کی تخریب، استقامت پیدا کرنے والے کارساز ایمان اور یقین کی تخریب اور جذبہ امید کی تخریب۔ ان تخریبوں کا نام اصلاح رکھا ہے! میں غفلت کے شکار اپنوں اور دوستوں کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ میں دشمن کے بارے میں بات کر رہا ہوں جو ان سرحدوں کے باہر سے یہ تحریک چلا رہا ہے۔ ملک کے اندر بھی بنیادی کام وہ لوگ کر رہے ہیں جو دشمنوں میں شامل ہیں جیسے محاذ قاسطین ہے۔ میں نے گزشتہ سال امیر المومنین علیہ السلام کے بارے میں عرض کیا تھا کہ حکومت علوی کے سامنے تین محاذ تھے۔ قاسطین، مارقین اور ناکثین۔ مارقین اور ناکثین کے محاذ اپنے لوگوں، اندر کے لوگوں پر مشتمل تھا البتہ یہ وہ اپنے لوگ تھے جو یا دشمن کے دام فریب میں آ گئے تھے، یا دولت و ثروت، جاہ طلبی اور نفسانی خواہشات  کے جال میں پھنس گئے تھے یا اپنی حماقتوں، جہالتوں اور تعصبات کا شکار تھے۔ لیکن محاذ قاسطین دشمن کا محاذ تھا۔ یہ وہ محاذ تھا جس کو علی سے صلح و آشتی منظور نہیں تھی۔ قاسطین نے آکے حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے کہا کہ "یا امیر المومنین کچھ دن جناب معاویہ کو حکومت میں باقی رہنے دیں۔" لیکن امیر المومنین نے فرمایا کہ نہیں، اگر میں حاکم ہوں تو وہ گورنر نہیں رہ سکتا، اس کو برطرف ہونا ہے۔ انھوں نے امیر المومنین علیہ السلام کو خطاکار قرار دیا اور کہا کہ سیاست سے کام نہیں لیا! لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خود سیاست نہیں جانتے تھے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے بہت پختہ عمل کیا تھا۔ اس لئے کہ معاویہ ابن ابی سفیان طلحہ اور زبیر نہیں تھا کہ جو امتیاز وہ چاہتا تھا وہ اس کو دے دیا جاتا تو خاموش بیٹھ جاتا۔ نہیں۔ یہ قاسطین کا محاذ تھا۔ یہ وہ محاذ تھا جو علوی محاذ سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ یہ محاذ کسی بھی حال میں محاذ علوی کے موافق نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ محاذ جتنا پیچھے ہٹتا تھا یہ اتنا ہی اگے بڑھتا تھا اور  میدان جنگ کے علاوہ ان کے ملنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ امیر المومنین علیہ السلام اس کو جانتے تھے لہذا جب تک آپ حکومت ميں رہے قاسطین کا محاذ کچھ نہیں کر سکا، ہمیشہ شکست کھائی۔ لیکن جب امیر المومنین علیہ السلام شہید ہو گئے – امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو اپنوں سے الگ ہونے والے متعصب کج فہم اور کینہ پرور لوگوں کے گروہ نے شہید کیا تھا ،اغیار نے نہیں- آپ کی شہادت کے بعد اغیار، قاسطین نے حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی اور چند سال گزرنے کے بعد ثابت کر دیا کہ حکومت میں ان کا آئیڈیل کیا ہے! حجاج ابن یوسف کی حکومت اسی کوفے میں قائم ہوئی۔ یوسف بن عمر ثقفی کی حکومت قائم ہوئی، یزید ابن معاویہ کی حکومت قائم ہوئی! معلوم ہوا کہ وہ گروہ اور محاذ ایسا نہیں تھا جو علوی محاذ کے ساتھ کہیں مل سکتا۔

آج بھی بالکل وہی صورت حال ہے۔ اپنوں میں شامل، غفلت کا شکار فرد دشمن نہیں ہے، دشمن کوئی اور ہے لیکن وہ (غافل انسان) بیچارہ غفلت، غلطی اور فریب کا شکار ہے۔ کسی حادثے اور واقعے کے نتیجے میں اس کے دل میں کینہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ نظام کے مقابلے پر آ کھڑا ہوتا ہے۔ حق بات کے مقابلے پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اور راہ امام کے مقابلے پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہ اصلی دشمن نہیں ہے۔ ایک فریب خوردہ انسان ہے۔ وہ قابل رحم انسان ہے۔ اصلی دشمن وہ ہے جو اس کی پیٹھ پر ہے اور خود کو ظاہر نہیں کرتا۔ ملک کے اندر سامنے نہیں آتا، لیکن ملک سے باہر سامنے آتا ہے۔  عالمی اور بین الاقوامی محاذ پر امریکا کی جاسوسی تنظیم سی آئی اے اور صیہونیوں کی جاسوسی کی تنظیم موساد کے وفادار کی حیثیت سے سامنے آتا ہے۔ اس کا چہرہ سامنے اور آشکارا ہے۔ بولتا بھی ہے حقائق بھی بیان کرتا ہے۔ اسلام اور مسلمین کے خلاف مہم کے محرکات بھی بیان کرتا ہے۔ لیکن ملک کے اندر موجود اس کے دم چھلے سامنے نہیں آتے، حکومت کے سامنے نہیں آتے، کیونکہ جانتے ہیں  کہ یہ طاقتور اور توانا حکومت ہے، یہ حکومت عوام کے ووٹوں پر استوار ہے۔ عوام کی محبت اور ان کا ایمان اس حکومت کی بنیاد ہے۔ اس لئے وہ اس حکومت سے ڈرتے ہیں اور خود کو سامنے نہیں لاتے۔ اپنی بات ایک دو اور تین واسطوں سے غافل لوگوں کی زبان پر جاری کرواتے ہیں۔ کبھی آپ دیکھیں گے کہ بولنے والا عالم دین ہے لیکن غافل، فریب خوردہ اور بے خبر انسان ہے۔ یا کوئی طالب علم ہے، لیکن اپنے جذبات کا اسیر ہو گیا ہے، سوچتا نہیں ہے۔ یا کوئی معمولی انسان یا انقلابی شخص ہے لیکن وقت کی شناخت نہیں رکھتا، دشمن کو نہیں پہچانتا، یا اس کے اندر بغض اور کینہ پیدا ہو گیا ہے۔ بات اس کی زبان سے نکلتی ہے لیکن یہ بات اس کی اپنی نہیں ہوتی۔ یہ بات دشمن کی ہوتی ہے! ہمارا دشمن وہ ہے جس نے نہ صرف یہ کہ اس انقلاب کے لئے اپنا دل نہیں جلایا ہے بلکہ کسی زمانے میں اس انقلاب کا مقابلہ کیا ہے۔ اس کے مقابلے پر کھڑا ہوا ہے۔ بعض پہلوی دور حکومت میں اس انقلاب کے مقابلے پر کھڑے ہوئے اور بعض نے اسلامی  نظام قائم ہونے کے بعد تخریبی کارروائياں انجام دی ہیں۔ بعض کچھ عرصے تک ڈرتے رہے، کونے میں چلے گئے اور پوشیدہ ہو گئے۔ بعد میں جب ان کو موقع ملا تو اپنے خول سے باہر نکلے ہیں! سمجھتے ہیں کہ اب ان کے لئے موقع ہے۔

" گفت این مار است، او کی مردہ است از پی بی آلتی افسردہ است!" کہا کہ یہ سانپ ہے یہ مرا تھوڑی ہے بلکہ ناتوانی کی وجہ سے افسردہ ہے۔

یہ اپنی ناتوانی کی وجہ سے افسردہ تھے، اب سورج کی گرمی پہنچی ہے تو سمجھ رہے ہیں کہ اب وہ ڈسنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ میدان ميں آ رہے ہیں لیکن سانپ کی طرح!  ان کا مقصد وحدت ملی کی تخریب اور عوام کا اتحاد ختم کرنا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہماری عظیم قوم میں اختلاف کے عوامل ختم نہیں ہوئے ہیں۔ جغرافیائی اور لسانی اختلاف اور تنوع  پایا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے عوام نے انقلاب آنے سے پہلے سے اور انقلاب کے دور سے آج تک اتحاد و یکجہتی کو تفرقے کے تمام عوامل پر ترجیح دی ہے اور دشمن کی خواہش کے برخلاف تمام میدانوں میں اپنے اتحاد و یکجہتی کو محفوظ رکھا ہے۔ اسی اتحاد و یکجہتی کی بدولت ہماری قوم جںگ میں کامیاب ہوئی۔ ہماری حکومتوں نے جو کام بھی کئے ہیں الحمد للہ آج تک تعمیری میدانوں میں جو پیشرفت کی ہے، اس کا بنیادی عامل عوام کا یہی اتحاد رہا ہے۔ دشمن اس کو نہیں دیکھ سکتا۔ عوام کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے کے مقابلے پر لانا دشمن کی آرزو ہے۔ علمائے کرام کو، یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کو، تاجروں کو، محنت کشوں کو، کسانوں کو، نوجوانوں کو، پختہ  اور ادھیڑ عمر کے لوگوں کو سب کو خاص نعروں اور محرکات میں الجھا دے،  ایک دوسرے سے بدظن اور بدگمان کر دے۔ اگر معاشرے میں سلامتی کے ایسے مراکز ہوں جن پر عوام اعتماد کرتے ہیں اور اختلافات اور تنازعات میں ان سے رجوع کرتے ہیں اور وہ مراکز اختلافات و تناز‏عات برطرف کر دیتے ہیں تو ان مراکز پر بمباری کرکے ان کو ختم کر دے۔ دشمن یہ چاہتا ہے۔

آپ دیکھیں کہ آج دشمن کے کارندے اپنے پروپیگنڈوں میں بیرونی ریڈیو اسٹیشنوں اور ملک کے اندر ان کے تشہیراتی مراکز اور بعض اندرونی ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈوں میں ایسی باتیں کی جاتی ہیں کہ جن سے یہ احساس ہو کہ ملک کے اندر بہت بڑی سیاسی کشیدگی موجود ہے۔ جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ آپ ان میں بعض ذرائع ابلاغ کو دیکھیں! البتہ ان میں سے سبھی اغیار کے ذرائع ابلاغ نہیں ہیں لیکن بعض کیوں نہں، بعض دشمنوں کے ہیں۔ البتہ آپ انہیں پہچانتے ہیں؛ سب شور مچا رہے ہیں کہ گھٹن ہے۔ لیکن نہیں سمجھ رہے ہیں کہ  یہی ان کا شور شرابا گھٹن ہے۔ یہ بات انہیں زیادہ رسوا کر رہی ہے۔ اس لئے کہ وہ روزانہ وہ جھوٹ، حقیقت کے برعکس اور کشیدگی پھیلانے والی باتیں نشر کرتے ہیں؛ متعلقہ ادارے بھی ان کو دیکھ رہے ہیں۔ جب تک وہ کسی کھلے جرم کا ارتکاب نہیں کرتے، ان سے کسی کو کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔ اپنی باتیں کرتے ہیں اور درحقیقت وہ خود کو جھوٹا اور خطاکار ثابت کرتے ہیں۔ لیکن وہ مسلسل فضا کو مکدر، آشفتہ اور کشیدہ بناکے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ ایسی بات نہیں ہے۔ یونیورسٹیوں میں طلبا اپنے ماحول پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ کلاسیں چل رہی ہیں۔ تجربہ گاہیں کام کر رہی ہیں۔ امتحانات وقت پر ہو رہے ہیں۔ تاجر اپنے کاروبار کی جگہ پر نظر دوڑاتا ہے، محنت کش اپنے کارخانے کو دیکھتا ہے، عالم دین اپنے مدرسے اور اپنے کام کی جگہوں پر نظر دوڑاتا ہے، دیکھتا ہے کہ ہر چیز اپنی جگہ پر ہے۔ لیکن جب فلاں اخبار کی سرخی پر نظر ڈالتا ہے تو اس میں لکھا ہوتا ہے کہ یہاں کشیدگی ہے! یہ بیرونی ماہرین بیچارے انھیں سرخیوں کو دیکھتے ہیں تو لالچ میں پڑجاتے ہیں اور یقین کر لیتے ہیں۔ وہ نزدیک تو نہیں ہیں کہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ حقیقت کیا ہے۔ آج دشمن کا ایک ہدف یہ بھی ہے کہ انہیں تشہیراتی روشوں اور زرخرید ریڈیواسٹیشنوں کے ذریعے امریکا، برطانیہ، اور صیہونیوں کے ریڈیو اسٹیشنوں اور ملک کے اندر موجود ان کے بے اہمیت دم چھلوں کے ذریعے ان کا کام ہوتا رہے۔

دشمن کا دوسرا ہدف یقین اور اعتقادات کی تخریب ہے۔ میرے عزیزوا! ہر انسان، کسی بھی مرحلے میں جو بھی فعالیت اور جسمانی و ذہنی کام کرتا ہے، اس کی بنیاد اور اساس یقین ہوتا ہے۔ فوجی جو میدان جنگ میں دشمن سے جنگ میں مصروف ہوتا ہے، اس کے اس کام کا باعث اس کا یقین ہوتا ہے۔ اگر اس کے اعتقاد اور یقین کو اس سے سلب کر لیں تو وہی فوجی جو ہمیشہ دشمن کے سینے پر آگ کے گولے کی طرح ٹکراتا تھا، ٹھنڈا ہوکے کسی گوشے میں پڑ جائے گا۔ یقین اور اعتقادات کی یہ حیثیت ہے۔ اسلامی اعتقادات، خدا کے انعام پر یقین، جارح دشمن اور امریکا کے مقابلے میں ایرانی قوم کی حقانیت کا یقین، یہ وہ عناصر تھے جنہوں نے اس قوم کو متحرک کیا۔ ظالم اور فاسد پہلوی حکومت کو اکھاڑ پھینکا۔ اسلامی نظام قائم کیا اور دشمن کے تسلط کو ختم کر دیا۔ انہیں اعتقادات اور یقین کی وجہ سے بیس سال سے یہ قوم دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کر سکی ہے۔ دشمن کا ہدف کیا ہے؟  دشمن کا ہدف یہ ہے کہ اس یقین اور اعتقادات کو عوام سے سلب کر لے۔ اگرچہ یہ کام آسان نہیں ہے۔  کچھ رنج و الم اور غم وغصے ہیں لیکن خدا کی بشارتیں بہت زیادہ ہیں اور میں آخر میں ان خدائی بشارتوں کے بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ وہ غلطی کر رہے ہیں، سمجھتے ہیں کہ وہ یہ کام کر سکیں گے۔ نہیں۔ یہ وہ قوم ہے کہ تمام مسلم اقوام میں صدیوں اسلامی تعلیمات، فقہ اسلامی، حدیث اسلامی، فلسفہ اسلامی اور عرفان و تفسیر کی علمبردار رہی ہے۔  یہ ہماری قوم کی تاریخ اور حقائق ہیں۔ ہماری قوم وہ قوم ہے کہ پہلوی دور حکومت میں پچاس سالہ منصوبہ بند دین کی مخالفت، اس کو دین سے جدا نہ کر سکی۔ جب وہ سمجمھ رہے تھے کہ اس قوم کی نوجوان نسل کو فاسد، برباد اور بے دین کر دیا گيا ہے تو یہی نوجوان نسل، ایک مرجع تقلید اور سخنور، پارسا، اور خدا پر توکل کرنے والے عالم دین کی اقتدا میں اٹھ کھڑی ہوئی اور دشمنوں کی بساط لپیٹ دی۔ وہ سوچتے ہیں لیکن کوشش بھی کرتے ہیں۔ اگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ صیہونیوں کے تعلق سے اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کے بارے میں اتنی کوششیں وہ کر رہے ہیں تو یہ اس لئے ہے کہ وہ حقیقت سے انکار کرنا چاہتے ہیں۔ میں صیہونزم، صیہونی دشمن اور اپنے موقف کے بارے میں اگر موقع رہا تو کسی اور دن تفصیل سے گفتگو کروں گا۔ میں اس قضیے کو چھوڑنے والا نہیں ہوں۔ یہ ان کا خیال خام ہے کہ انھوں نے چند نام نہاد اخباروں میں چند سرخیاں لگا دیں تو قضیہ ختم ہو جائے گا۔ فلسطینی قوم اور اسلام سے خیانت کرنے والوں کا گریبان یہ قوم پکڑے گی۔ امریکی بیس سال سے اس قوم کے خلاف بول رہے ہیں ، اقدام کر رہے ہیں، کام کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم اس نظام، اس دین اور اس موقف کے مخالف ہیں کیونکہ اس سے خطے میں ہمارے مفادات خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ ہمارے مفادات، یعنی کیا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دن اس ملک میں ہر چیز ہمارے اختیار میں تھی، لیکن یہ اسلامی نظام، یہ مسلم نوجوان اور یہ مسلم علما آئے اور انھوں نے تیل، قدرتی ذخائر اور فوج وغیرہ ، ہر جگہ سے ہمارا نفوذ ختم کر دیا۔ ہم اس لئے ان کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انہیں یہ کہنے میں بھی شرم نہیں آتی کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم ایران میں اپنے مفادات دوبارہ حاصل کریں! کسی قوم کے خلاف اس سے زیادہ واضح اور بڑی دشمنی ہو سکتی ہے؟ اب کوئی اپنا ناقص قلم اٹھائے اور یہ لکھے کہ نہیں جناب! امریکا ایرانی قوم کا دشمن نہیں ہے۔ ایرانی قوم کے مفادات کا دشمن نہیں ہے۔ ہمارا دشمن نہیں ہے۔ ہم کو بھی دنیا کی دیگر حکومتوں کی طرح جو امریکا کی طاقت کے سامنے سر تسلیم خم کر چکی ہیں اور امریکی چوکھٹ پر جبہہ سائی کرتی ہیں، امریکا کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرنا چاہئے! کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایرانی قوم ان چیزوں کو چھوڑ دے گی؟ کیا یہ فکر جو اس قوم پر حکمفرما ہے، ایک سطحی فکر ہے؟

 اس نکتے پر سبھی توجہ دیں! ہمارے دشمن بھی اس نکتے پر توجہ دیں! میرا یہ خطاب دنیا کے اطراف و اکناف میں موجود اپنے دشمنوں سے ہے۔ وہ فکر جس نے اس قوم میں سمندروں کا طوفان پیدا کر دیا ہے، جس کی وجہ سے یہ قوم کامیابی کے لئے بیس سال سے جدوجہد کر رہی ہے، اپنی اس بیس سالہ استقامت کی اساس پر اپنے لاکھوں نوجوانوں کو اس راہ میں قربان کر دیتی ہے، جس فکر نے اس قوم میں اتنی گہرائیاں پیدا کر دی ہیں، کیا یہ ایسی چیز ہے جس کو تم آسانی کے ساتھ اس قوم سے سلب کر لوگے؟ تمہارے انٹیلیجنس ماہرین اتنے سادہ لوح اور اتنے احمق ہیں؟! جب اس قوم کی ہر چیز پر تمہیں تسلط حاصل تھا، یونیورسٹیاں تمھارے اختیار میں تھیں، حکومت تمھارے  اختیار میں تھی، شاہ تمھارے تسلط میں تھا، حکومت، وزیر اعظم، وزرا سبھی تمھارے اختیار میں تھے، اس مملکت میں تم جو چاہتے تھے وہی اخبارات میں لکھا جاتا تھا، جو پالیسی تم چاہتے تھے وہی اپنائی جاتی تھی، کسی بھی عالم دین میں یہ ہمت نہیں تھی کہ کسی مسجد میں امریکا کے خلاف ایک لفظ بول دے، جو بولتا تھا اس کو جیل میں بند کر دیتے تھے، البتہ علما ہمت کرتے تھے، بولتے تھے اور یہ سلسلہ جاری رکھتے تھے، لیکن گھٹن بہت زیادہ تھی – اس دور میں یہی دین، انھیں علما، انھیں مسلمان عوام اور انھیں مومن نوجوانوں نے  تم امریکیوں کو ایسے دردناک عذاب میں مبتلا کیا اور اس عظیم ملک کو تمھارے چنگل سے نکال لیا! آج تو اقتدار اسلام کے پاس ہے۔ ان نوجوانوں کے پاس ہے۔ ہر چیز اسلام کے اختیار میں ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ اس ایمان اور اس دین کو عوام سے سلب کر سکتے ہو؟! یہ خیال خام ہے! یہ سوچ کی غلطی ہے! یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے دشمنوں نے ہمیشہ اپنی غلطیوں کا نتیجہ دیکھا ہے۔ اس بار بھی اپنی غلطی کا نتیجہ دیکھیں گے۔ لیکں ہمیں اور آپ کو اپنے حواس جمع رکھنے چاہئیں اور غفلت نہیں کرنی چاہئے۔ میری سفارش صرف یہ ہے کہ غفلت نہ کریں۔ دشمنوں کی سازشوں کی طرف سے ہمارے نوجوان غفلت نہ کریں۔ ہمارے علما غفلت نہ کریں۔ ہمارے بزرگ غفلت نہ کریں۔ ہمارے چھوٹے غفلت نہ کریں۔ مختلف طبقات غفلت نہ کریں۔ غفلت نہ ہو تو خداوند عالم ہدایت کرے گا اور راستہ واضح ہو جائے گا اور راستہ واضح ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حقیقت کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ کچھ  غم وغصہ بھی ہے۔ میں غم وغصے بیان کرنا نہیں چاہتا۔ اس لئے کہ غم ہے تو غمگسار بھی ہیں۔ خداوند عالم اور اس کے اولیا بہترین غمگسار ہیں۔ زندگی کے سبھی  مراحل میں یہی رہا ہے اور آج بھی یہی ہے۔ لیکن اگر میں اشارتا عرض کرنا چاہوں تو سب سے بڑآ غم یہ ہے کہ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا، بعض عناصر جن کا اس ملک پر امریکا کے تسلط میں کوئی فائدہ نہیں ہے، غفلت، غلطی، کمزوری اور کینے کی وجہ سے اس ملک پر امریکی تسلط کے لئے کام کر رہے ہیں! اشخاص مختلف ہیں۔ بعض بغض اور کینہ رکھتے ہیں، بعض کو کسی سے کوئی شکایت ہے، معمولی مقصد کے لئے سب کچھ برباد کرنے پر تیار ہیں، ذاتی دشمنی اور کینے کی وجہ سے، کوئی عہدہ نہ ملنے کی وجہ سے، مثال کے طور پر وہ چاہتے تھے کہ کوئی ذمہ داری اور عہدہ انہیں دیا جائے لیکن نہیں دیا گیا اور سمجھنے میں غلطی کی وجہ سے بولتے ہیں، اقدام کرتے ہیں، موقف اختیار کرتے ہیں، ایسا کام کرتے ہیں جس سے نقصان پہنچتا ہے اور دشمن کی خدمت کرتے ہیں! آپ جان لیں کہ یہ اغیار کے ریڈیو اسٹیشن دسیوں لاکھ ڈالر کے خرچ سے چلتے ہیں۔ یہ خاص مقصد کے تحت پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ یہ اپنے سامعین، جن ملکوں کے لئے پروگرام نشر کرتے ہیں، ان کے عوام پر اثرانداز ہونا چاہتے ہیں۔ یہ بلا وجہ کسی فرد، کسی بات یا کسی تحریک کا دفاع نہیں کرتے! ہر عاقل انسان جب دیکھے کہ دشمن اس کی تعریف کر رہا ہے تو اس کو سوچنا چاہئے کہ اس سے کیا غلطی ہوئی ہے؟ میں نے کیا کیا ہے کہ دشمن تعریف کر رہا ہے؟! اس کو ہوشیار ہو جانا چاہئے۔ بعض لوگ دشمن کی تعریف پر خوش ہو جاتے ہیں جبکہ یہ فکر کا مقام ہے۔ اگر فٹبال کے کھیل میں ہمارا کھلاڑی غلطی سے اپنے ہی پوسٹ میں گول مار دے تو کون تالیاں بجائےگا؟ مخالفین اور دوسری ٹیم کے طرفدار۔ اب جب آپ دیکھیں کہ دشمن آپ کے لئے تالیاں بجا رہا ہے تو آپ کو جان لینا چاہئے کہ آپ نے اپنے ہی پوسٹ میں گول مار دیا ہے۔ تو دیکھئے کہ یہ گول کیوں مار دیا؟ یہ کیسے کر دیا؟ سوچئے کہ آپ سے کیا غلطی ہوئی؟ دیکھئے کہ پرابلم کہاں ہے؟ غور کیجئے، اپنی غلطی کو سمجھئے اور توبہ کیجئے۔ میں اس ماہ رمضان میں ان تمام لوگوں سے جنہوں نے ایرانی قوم کے خلاف یہ غلطی کی ہے، چاہتا ہوں کہ خدا کے سامنے اور اسلام کے سامنے توبہ کریں۔ یہ نہ سمجھیں کہ یہ غلطی مجھ حقیر بندے کے سامنے ہوئی ہے۔ میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ میری کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس کو جان لیں۔ میں کوئی دعوی نہیں کرتا ہوں۔ کسی عہدے اور اقتدار سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ البتہ جو بھی عوام کی خدمت کر سکے، یہ خدمت اس کے لئے باعث افتخار ہے لیکن اس سے وابستگی نہیں ہے۔ جن کو جاننا چاہئے وہ جانتے ہیں۔ انسان غمگین ہو جاتا ہے اور اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے جب دیکھتا ہے کہ بعض وہ لوگ جنہوں نے انقلاب کی روٹیاں کھائيں، اسلام کی روٹیاں کھائيں، امام زمانہ کی روٹیاں کھائیں، امام زمانہ کا دم بھرا، ائمہ معصومین کا دم بھرا، اب انھوں نے ایسی روش اپنائی ہے کہ امریکا، اسرائیل، سی آئی اے اور دنیا کے گوشہ و کنار میں جتنے بھی اسلام کے دشمن ہیں، وہ سب ان کے لئے تالیاں بجاتے ہیں۔ اس سے دکھ ہوتا ہے۔ لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ خدا کی بشارتیں اتنی زیادہ ہیں کہ وہ دل سے ہر غم کو دور کر دیتی ہیں۔ خدا کی بشارتیں بہت زیادہ ہیں۔ یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ چار انقلابی، کاروان انقلاب سے الگ ہو گئے تو انقلاب تنہا رہ گیا۔ نہیں جناب، سبھی انقلابات، سبھی افکار اور مختلف قسم کی سبھی تحریکوں میں سے کچھ لوگ نکلتے ہیں تو کچھ شامل ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ کم ہوتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی کچھ لوگ بڑھتے بھی ہیں۔

آپ صدر اسلام پر نظر ڈالیں۔ دیکھیں کہ اسلام کی تنہائی کے دور میں، علی کی تنہائی کے دور میں، جن لوگوں نے امیر المومنین کا دفاع کیا وہ کون تھے؟ یہ سابق الاسلام نہیں تھے۔ پرانے مسلمان، طلحہ، زبیر، سعد ابن ابی وقاص جیسے لوگ تھے۔ سابق الاسلام لوگوں میں سے بعض نے علی کو اکیلا چھوڑ دیا۔ ان میں بعض علی کے مقابلے پر آ گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو کم ہوئے۔ بڑھے کون لوگ؟ عبد اللہ ابن عباس، محمد ابن ابی بکر، مالک اشتر، میثم تمار۔ یہ نئے ابھر کے سامنے آنے والے لوگ ہیں۔ یہ پیغمبر کے زمانے میں تو نہیں تھے۔ یہ اسلام کی تنہائی کے دور میں سامنے آئے ہیں۔ یہ نو نہالان اسلام ہیں ۔ آپ دیکھیں کہ ایک مالک اشتر پوری تاریخ اسلام میں کتنا موثر ہے۔  جی ہاں، ممکن ہے کہ کچھ لوگ کم ہوجائيں۔ البتہ یہ بھی افسوس کا مقام ہے۔ جب امیر المومنین کے سامنے زبیر کی شمشیر پیش کی گئی تو آپ نے گریہ فرمایا۔ جیسا کہ میں نے کہا، دکھ ہوتا ہے۔ جو لوگ انقلاب کے دسترخوان پر، اسلام اور قرآن کے دسترخوان پر بیٹھ چکے ہیں اسلام کا نمک کھایا ہے ان میں سے کچھ لوگ کم ہو جائيں، نکل جائيں تو غم تو ہوگا، لیکن جہاں کچھ لوگ کم ہو گئے، نکل گئے وہیں، عبداللہ ابن عباس اور مالک اشتر جیسی ہستیاں بھی ہیں جن کا اضافہ ہوا ہے۔  جنگ کے میدانوں میں جب بھی امیر المومنین کو بولنے والے کی ضرورت ہوتی تھی تو عبداللہ ابن عباس امیر المومنین کی مدد کو پہنچ جاتے تھے اور جہاں شمشیر کی ضرروت ہوتی تھی وہاں مالک اشتر ہوتے تھے۔ مالک اشتر، عبداللہ ابن عباس اور محمد ابن ابی بکر جیسی ہستیاں، ایک دو، دس بیس اور ہزار نہیں بلکہ ہزاروں تھیں۔ چار آدمی راستے سے واپس ہو گئے، ان کی طاقت ختم ہو گئی  تو آپ یہ نہ سمجھیں کہ اس مرکز کی طاقت ختم ہو گئی ہے۔ نہیں جناب! بعض لوگوں کی طاقت بیچ راستے میں ختم ہو جاتی ہے، جی ہاں، کمزور لوگوں کی طاقت بیچ راستے میں ہی ختم ہو جاتی ہے۔ ایک شخص مشہد سے کارواں کے ساتھ کربلا جانے کے لئے نکلا۔ خواجہ اباصلت تک پہنچا، جو لوگ مشہد گئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ خواجہ ابا صلت کہاں ہے، جب وہ اس جگہ پہنچا تو کہا کہ ہمارا زاد راہ ختم ہو گیا۔ بعض کا زاد راہ خواجہ اباصلت ( ابتدائے راہ ) میں ہی ختم ہو جاتا ہے، بعض کا بیچ راستے میں، بعض دو تین کلومیٹر آگے جاتے ہیں تو زاد راہ ختم ہو جاتا ہے! یہ وہی واپسی اور رجعت پسندی ہے۔ یہ قابل فخر نہیں بلکہ ننگ اور عار ہے۔ یہ کٹ جانا ہے۔ یہ راستے پر آگے بڑھنے سے رہ جانا ہے۔ لیکن "الم تر کیف ضرب اللہ مثلا کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء" جڑ مضبوط اور محکم ہے شاخیں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔ "توتی اکلھا کل حین باذن ربھا" نیا فروغ ہے۔ اس کمی اور فروغ کے بارے میں سماجی، نفسیاتی اور تاریخی نقطہ نگاہ سے بحث اور تحقیق کی ضرورت ہے۔ یہ بحثیں بہت مفید ہیں لیکن افسوس کہ میرے پاس وقت نہیں ہے۔

میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ آج اس ملک کی حیاتی اہمیت کی قوتیں اور صلاحیتیں انقلاب اور اسلام کے لئے کام کر رہی ہیں۔ اس ملک میں طاقت کے بنیادی ستون عوام ہیں جو اسلام، انقلاب، راہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اور خدائی و اسلامی اقدار سے قلبی لگاؤ اور وابستگی رکھتے ہیں۔ ہمارے نوجوان، ہمارے یونیورسٹیوں کے طلبا،  دوسرے طبقات، علما، کاروباری لوگ، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے، محنت کش، عوام کے مختلف طبقات کی اکثریت ایسی ہی ہے۔ ملک کو چلانے والے ادارے ایسے ہی ہیں۔ امور مملکت چلانے والے سربراہان ایسے ہی ہیں۔ الحمد للہ ملک کے تینوں شعبوں (مقننہ، مجریہ اور عدلیہ) کے سربراہان، اسلام کے خدمتگزار ہیں اور اسلام کے لئے کام کرتے ہیں۔ واقعی بعض لوگ بہت سی چیزیں نہیں جانتے ہیں۔ دشمن بھی چیزوں کو دوسری طرح سے پیش کرتے ہیں۔ بہتر ہے کہ سبھی ان باتوں کو جانیں۔ اب سے دو سال قبل، بائیس مئی کو صدارتی الیکشن میں عوام نے بہت بڑا  کارنامہ رقم کیا۔ تیس ملین، تین کروڑ لوگوں نے ووٹنگ میں حصہ لیا۔ الیکشن ہونے والے دن سے پہلے تک اغیار کے ریڈیو اسٹیشن جتنا بول سکتے تھے، انتخابات کے خلاف بولے۔ مسلسل کہا کہ دھاندلی ہوگی۔  لوگوں میں مایوسی پھیلانے کے لئے مسلسل کہا کہ یہ ہوگا، وہ ہوگا۔ ان کا مقصد لوگوں کو الیکشن سے ناامید کرنا تھا۔ اگر آپ بائيس مئی کے الیکشن سے پہلے اغیار کے ریڈیواسٹیشنوں کی تین چار مہینے کی خبروں کا جائزہ لیں تو بہت سے حقائق واضح ہو جائيں گے۔ اس طرح بولتے تھے کہ لوگوں میں ناامیدی پھیلے اور وہ ووٹ دینے نہ جائيں۔ لیکن عوام نے اپنے ہمدردوں کی باتیں سنیں۔ میدان میں آئے اور تیس ملین لوگوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ واقعی یہ بہت بڑا کارنامہ تھا۔ ایران کی عظیم قوم اور اسلامی جمہوریہ کی بہت بڑی کامیابی تھی۔  جیسے ہی الیکشن ختم ہوا اور معلوم ہوا کہ بہت زیادہ لوگوں نے ووٹنگ میں حصہ لیا اور صدر مملکت کا انتخاب عمل میں آیا تو اغیار کے ریڈیو اسٹیشنوں نے اس طرح اپنا لہجہ بدلا کہ جیسے بائیس مئی کا کارنامہ انھوں نے انجام دیا ہے۔ گویا بائيس مئی کا یہ کارنامہ ان کا ہے! اب تک بولتے چلے گئے ہیں۔ تقریبا ڈھائی سال گزر جانے کے بعد بھی اب تک ان کی تحریک اور پروپیگنڈہ چلا ہے۔ اب تک ہمارے محترم صدر کے بارے میں بولے ہیں اور باتیں کی ہیں۔

میں یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ انتخابات کے پہلے دوسرے ہی دن ہمارے عزیز صدر مملکت جناب خاتمی صاحب نے مجھ سے ملاقات کا وقت مانگا، آئے اور ملاقات کی۔ میں نے ان سے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ ان چند دنوں کے دوران جب آپ انتخابات میں مصروف تھے، اغیار کے ریڈیو سننے کا وقت آپ کو ملا یا نہیں؟ لیکن میں نے سنا ہے۔ یہ ریڈیو اسٹیشن یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بائیس مئی کا الیکشن انقلاب کے خلاف، امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے خلاف اور اسلام کے خلاف تھا! یہ تشہیراتی روشیں ہیں اس طرح پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنی پہلی ہی تقریر میں ان کو دنداں شکن جواب دیں اور بتا دیں کہ ایسا نہیں ہے۔ ہمارا راستہ وہی امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اور اسلام کا ہی راستہ ہے۔ تین چار دن کے بعد ان کی پریس کانفرنس تھی۔ اس کے بعد انھوں نے مجھ سے دوبارہ ملاقات کی اور کہا کہ میں نے اس پریس کانفرنس کے لئے کچھ  چیزیں تیار کی تھیں کہ کہوں گا لیکن سب بھول گیا صرف آپ کی بات یاد تھی کہ انہیں منہ توڑ جواب دیں۔ انھوں نے اس پریس کانفرنس میں ان کو دنداں شکن جواب دیا۔ آج تک الحمد للہ صدر مملکت، پارلیمنٹ کے اسپیکر اور عدلیہ کے سربراہ اور ملک کے حکام کا موقف وہی انقلاب، امام اور اسلام کا موقف ہے۔ اسلامی اقدار کی پابندی کا ہر روز اعادہ کرتے ہیں۔ یہ باعث افتخار ہے۔ یہ بذات خود وحدت و اتحاد کا وسیلہ ہے۔ جو عوامل ملکی سطح پر دلوں کو ایک دوسرے سے نزدیک کر سکتے ہیں، ان میں سے ایک یہی ہے۔ اسی لئے میں مسلسل عرض کرتا ہوں کہ دلوں میں انس و محبت پیدا ہو، وفاق پیدا ہو اور سیاسی دھڑے ایک دوسرے سے نزدیک ہوں۔

انتخابات سامنے ہیں۔ میں ان شاء اللہ انتخابات کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کروں گا۔ اس وقت میں انتخابات کے بارے میں صرف یہ عرض کروں گا کہ ان انتخابات کو بھی بائیس مئی کے الیکشن کی طرح قوم کے لئے باعث افتخار و سربلندی ہونا چاہئے۔ عوام پولنگ اسٹیشنوں پر جاکر دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا دیں۔

خداوند عالم کا شکر گزار ہوں کہ اس کے الطاف، اس کا فضل، اس کی رحمت، اور اس کی نصرت عوام کے ساتھ ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا ملک کے حکام، عوام، امت حزب اللہ، یہ مومن نوجوان، یہ بسیجی (رضاکار) سپاہی، یہ مختلف طبقات کے لوگ، یہ سب اسلام کے خدمتگزار ہیں، اسلام اور مسلمین کی ضرورتوں پر ان کی نگاہیں ہیں، یہ وقت کے منتظر ہیں جیسے ہی ضرورت محسوس کریں گے میدان میں موجود ہوں گے۔ الحمد للہ آج اسلام اور اسلامی نظام کی توانائی فطری طور پر پہلے سے زیادہ ہے۔ یہ اسلامی نظام عوام کی توجہات، عوام کی محبت، عوام کی حمایت، عوام کی فکر اور عوام کے ووٹوں پر استوار ہے۔ خداوند عالم عوام کے لئے  اس لطف و رحمت کو ان شاء اللہ جاری رکھے گا۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اذا جاء نصر اللہ و الفتح و رایت النّاس یدخلون فی دین اللہ افواجا فسبّح بحمد ربّک و استغفرہ انّہ کان توّابا۔

 

و السلام علیکم و رحمت اللہ وب رکاتہ