بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدیّین المعصومین و السّلام علی شهدائنا الابرار المکرّمین.

شہیدوں کی پاکیزہ ارواح، تاریخ کے تمام شہیدوں، شہدائے اسلام، اسلامی انقلاب کے شہیدوں اور انقلاب، اسلام، حرم اہل بیت اور ملکی سرحدوں کا دفاع کرنے والے شہیدوں کی ارواح طیبہ پر اللہ تعالی، اس کے صالح بندوں اور فرشتوں کا درود و سلام ہو۔ شہدا کے اہل خانہ، ان شہیدوں کے والدین، ان کی ازواج اور بچوں کا خیر مقدم ہے۔ شہیدوں کے اہل خانہ، ماں باپ، بیوی بچوں اور بھائی بہن، ان کے سوگواروں کی قدر و منزلت اللہ کے صالح بندے جانتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ پر درود و سلام بھیجا ہے۔: اُولئکَ عَلَیهِم صَلَواتٌ مِن رَبِّهِم وَ رَحمَـة (۱) اگر اللہ کسی پر صلوات بھیجے، کسی پر درود بھیجے تو یہ بہت بڑی منزلت اور بہت اہم رتبہ ہے۔ اس لئے کہ آپ نے صبر کیا۔ اس کے لئے کہ آپ نے اولاد کی جدائی کے غم کو جو ساری دنیا میں لوگوں کے لئے سوگ کا سبب ہوتا ہے ایک عید اور ایک مبارک موقع میں تبدیل کر دیا۔ آپ نے اس بات سے اپنے دل کو تسلی دی کہ اللہ تعالی نے آپ کے نوجوان کو اپنے جوار میں جگہ دی ہے؛ «اَحیاءٌ عِندَ رَبِّهِم یُرزَقون» (۲)۔ شہدا کے اہل خانہ کے صبر کی یہ منزلت ہے۔

شہیدوں کا پیغام حقیقت میں بشارت کا پیغام ہے۔ ہمیں اپنی سماعتوں کی اصلاح کرنا چاہئے تاکہ ہم اس پیغام کو سن سکیں۔ کچھ لوگ شہیدوں کے پیغام کو سن نہیں پاتے۔ جبکہ یہ قرآن کی آیہ کریمہ ہے؛ وَ یَستَبشِرونَ بِالَّذینَ لَم یَلحَقوا بِهِم مِن خَلفِهِم اَلّا خَوفٌ عَلَیهِم وَ لا‌ هُم یَحزَنون (۳)۔ شہیدوں کا پیغام خوف و اندوہ کی نفی کا پیغام ہے۔ البتہ خوف و حزن کی نفی کے مصداق اتم تو خود وہ شہدا ہیں۔ خوف و حزن سے مملو دیار میں جہاں سارے انسان الجھے ہوئے ہیں وہ لوگ اپنے لئے بھی اور سننے والوں کے لئے بھی بشارت کا پیغام دیتے ہیں، جو راہ خدا میں شہید ہوئے یعنی آپ کے یہی نوجوان یہ پیغام دیتے ہیں جو مقدس دفاع کے دوران شہید ہوئے، یا ملکی سرحدوں کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوئے یا ملکی امن و سلامتی کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوئے یا حرم اہل بیت اطہار کی پاسبانی کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ یہ جو ہمارے بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا کہ جس ملت کے پاس شہادت ہے وہ ہر غلامی سے آزاد ہے، اس کی یہی وجہ ہے۔ جب آپ اللہ کی راہ میں قربان ہو جانے کو ایک بڑی کامیابی کی نظر سے دیکھتے ہیں تو پھر شہادت کی تمنا میں خطرات کی جانب بے جھجک جھپٹ پڑتے ہیں اور ایسی صورت میں دنیا کی کوئی بھی طاقت آپ کا راستہ نہیں روک سکتی۔

فتح اور طاقت اس ملت اور ان عوام کو حاصل ہوتی ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر اس راہ میں انھیں کوئی حطرہ در پیش ہوا، اگر شہادت اور اس دنیا سے رخصتی کا مرحلہ در پیش ہوا تو یہ ان کی فتح ہے ناکامی نہیں! جس قوم میں یہ جذبہ اور یہ عقیدہ ہو اس کے یہاں شکست کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ ایسی قوم پیشرفت حاصل کرتی ہے، چنانچہ ملت ایران تا امروز اپنے پرخطر اور صعوبتوں سے بھرے راستے پر مسلسل رواں دواں رہی ہے۔ یہ کوئی معمولی بات ہے؟ دنیا کی ساری بد عنوان، ظالم اور خبیث طاقتیں متحد ہوکر ملت ایران کے مد مقابل کھڑی ہو جائیں اور چالیس سال کی مدت میں اس کا بال بھی بیکا نہ کر پائیں اور یہ نو روئیدہ پودا ایک تناور درخت، محکم درخت، شجرہ طیبہ میں تبدیل ہو جائے جسے اس کی جگہ سے ہلایا بھی نہ جا سکے! یہ کس نے کیا؟ شہادت کے عقیدے نے اس ملک کے لئے یہ افتخار آمیز انجام رقم کیا ہے، یعنی آپ کے انھیں نوجوانوں نے۔ وہ روتا ہے، آرزو رکھتا ہے کہ راہ خدا میں شہید ہو سکے۔ اپنے والد اور اپنی والدہ سے التجائیں کرتا ہے، کہتا ہے کہ میں گیا تھا فوجی آپریشن میں لیکن چونکہ آپ لوگ راضی نہیں تھے اس لئے مجھے شہادت نصیب نہیں ہوئی! آپ راضی ہو جائيے تاکہ مجھے شہادت نصیب ہو سکے! میں نے انھیں پاسبان حرم شہیدوں میں سے کسی کے حالات زندگی میں پڑھا کہ اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ آپ راضی نہیں تھیں کہ میں شہید ہو جاؤں، اسی وجہ سے میں شہید نہیں ہو پا رہا ہوں۔ منت سماجت کرتا ہے کہ آپ رضامند ہو جائیے تاکہ مجھے شہادت نصیب ہو۔ مادی دنیا ان باتوں کے فہم و ادراک سے قاصر ہے۔ یہ جذبہ اور یہ عقیدہ ہمارے مومن و انقلابی نوجوان کو طوفان حوادث کے سامنے کسی کہسار کی مانند ثابت قدم رکھتا ہے۔ البتہ ہم بارہا یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ بعض انقلابی افراد بیچ راستے سے لوٹ آئے۔ اس درخت سے کچھ پتے گرے بھی ہیں۔ کچھ لوگ تھے جن کے دل میں دنیا کی محبت گھر کر گئی۔ صدر اسلام میں بھی ایسا ہی تھا۔ صدر اسلام میں کچھ لوگ شروع میں انقلابی تھے لیکن بعد میں عمر کے میانے یا آخری حصے میں دنیا پرست بن گئے۔ بے شک یہ بھی ہوا ہے۔ لیکن گرنے والے ان پتوں کے ساتھ ہی انقلاب کے درخت میں اس سے کئی گنا زیادہ نئے پتے نکلتے ہیں۔ یہی انقلاب کا اعجاز ہے۔ چالیس سال گزر جانے کے بعد آپ دیکھتے ہیں کہ مومن و مسلمان نوجوان جس نے نہ تو امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کو دیکھا ہے، نہ انقلاب کی تحریک کا دور دیکھا ہے، نہ مقدس دفاع کا زمانہ دیکھا ہے، نہ ان رزمیہ واقعات کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے، لیکن آج بھرپور انقلابی جذبے کے ساتھ، بالکل اوائل انقلاب کے نوجوانوں کی مانند، خرازی اور ہمت جیسی عظیم ہستیوں کی مانند جاکر بیچ میدان میں، قلبی چاہت کے ساتھ، احساس ذمہ داری کے ساتھ پوری شجاعت سے دشمن کے سامنے ڈٹ جاتا ہے۔ یہ جو میں کہتا ہوں کہ آج کے مومن نوجوان جوش و جذبے کے اعتبار سے اوائل انقلاب کے نوجوانوں سے آگے نہیں تو پیچھے بھی نہیں ہیں، اس کا یہی مطلب ہے۔ یہ شجر انقلاب کی نئی کونپلیں ہیں۔ یہ انقلاب کا اعجاز ہے، یہ اسلامی جمہوریہ کا اعجاز ہے کہ وہ اسی محکم، فولادی اور محنت کے جذبے کو آپ کے ان شہیدوں کی شکل میں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے۔ یہ باعث افتخار ہیں، یہ اس انقلاب اور اس مملکت کے ستون ہیں۔ آپ کے انھیں نوجوانوں نے اس ملک کو محفوظ رکھا ہے۔ آپ کے یہی نوجوان، اپنا خون دینے والے یہی نوجوان ہیں جنہوں نے دنیا کی استکباری طاقتوں، اس مجرم امریکہ کو طاغوتی شاہی دور کی مانند دوبارہ اس ملک پر مسلط ہونے سے روک رکھا ہے۔ وہی سد راہ بنے ہیں، آپ کے انھیں نوجوانوں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اگر یہ شہادت نہ ہوتی، اگر یہ شجاعت نہ ہوتی، اگر ماں باپ اور  شریکہ حیات کا یہ صبر نہ ہوتا تو کچھ نہیں پتا کہ اس ملک کی کیا حالت ہوتی، کچھ پتا نہیں کہ یہ ملک اس استکباری محاذ کے سامنے ٹک پاتا یا نہیں؟ ہم اس لئے ثابت قدم رہے کہ اس ملک کے پاس آپ کے ان نوجوانوں جیسا سرمایہ تھا اور آج بھی یہ نوجوان موجود ہیں اور قوم کو ان کی قدر و منزلت کا بھی ادراک ہے۔

آپ دیکھئے کہ ان پاکیزہ جنازوں، آج کے انھیں شہیدوں، سرحدوں کے محافظ شہیدوں، شہدائے پاسبان حرم اہل بیت، ملکی امن و سلامتی کے محافظ شہیدوں کی تشییع میں عوام کس طرح شامل ہوتے ہیں؟! کل کہکیلویہ و بویر احمد میں آپ نے اس عظیم عوامی سیلاب کو دیکھا جس نے ایک شہید کی تشییع جنازہ کی؟! یہ صورت حال ہے، یہ عوام شہیدوں کی قدر کرتے ہیں۔ اگر چار کج فہم، کج فکر اور مغربی مادی دنیا کی دلدادہ افراد کچھ کہتے ہیں، بے بنیاد اور بے معنی تجزئے کرتے ہیں تو کرتے رہیں! حقیقت امر اس کے برخلاف ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ اپنی روحانیت کی وجہ سے، اپنی فکر کی وجہ سے، اپنے فداکار انسانوں کی وجہ سے، اپنے ایمان کی وجہ سے، مومن ماں باپ کی وجہ سے، صاحب ایمان بیویوں اور مومن نوجوانوں کی وجہ سے توانا اور طاقتور ہے۔ جو نوجوان اپنے اہل خانہ کو چھوڑ کر، اپنی بیوی کو چھوڑ کر جس سے اس کو محبت ہے، اپنے شیریں سخن بچے کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور راہ خدا میں جہاد کرتا ہے، اپنی جان خطرے میں ڈالتا ہے، اسی کی وجہ سے یہ ملک آج محفوظ ہے، انقلاب کی ساری طاقت و توانائی ایسے ہی انسانوں اور ایسے ہی جذبہ ایمانی کی دین ہے۔ لیکن دشمن کی فہم سے یہ چیز بالاتر ہے۔

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اسلامی مملکت ایران کے مشہور دشمن غلاظتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، اخلاقی غلاظتوں میں، سیاسی کرپشن میں غرق ہیں۔ آج آپ امریکہ کے حکومتی عہدیداران کو دیکھئے، ان کا پیسے کا لالچ، ان کے ذریعے ہونے والی حق تلفی دیکھئے، انسانوں اور ملتوں کے جان و مال کے سلسلے میں ان کی بے اعتنائی دیکھئے! اس کا ایک نمونہ یمن میں ہے۔ یمن میں سعودی حکام جرائم کر رہے ہیں، لیکن ان جرائم میں امریکی پوری طرح شریک ہیں اور اس کا وہ خود بھی اقرار کرتے ہیں۔ اسپتالوں پر حملے کرتے ہیں، بازاروں کو نشانہ بناتے ہیں، تعزیتی پروگرام پر حملہ کرتے ہیں، لوگوں کے جمع ہونے والی جگہوں پر حملہ کرتے ہیں۔ یہ فوجی تنازعے کا معاملہ نہیں ہے۔ وہ تو قوموں کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ یہ جرائم  پیشہ لوگ ہیں، غلاظتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ امریکہ کا اصلی چہرہ ہے۔ ملت ایران اگر امریکہ کو اور استکبار کو جس کا مظہر امریکہ ہے صحیح طریقے سے پہچاننا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ آج کے حالات کو دیکھے، اس صدر (4) کی حرکتوں اور امریکہ کے موجودہ عمائدین کو دیکھے۔ سب کے سب ایک جیسے ہیں۔ یہ چیزیں صرف ان حکمرانوں تک محدود نہیں ہیں۔ ان افراد نے بس یہ کیا ہے کہ اس قبیح اور نفرت انگیزی چہرے کو آشکار کر دیا ہے۔ ورنہ در حقیقت سب کے سب ایسے ہی ہیں۔ ایسے لوگوں کے مد مقابل اسلامی جمہوریہ ڈٹی ہوئی ہے۔ حق تلفی کے خلاف، بے انصافی کے خلاف، اخلاقی بدعنوانی کے خلاف اور سیاسی کرپشن کے خلاف اسلامی جمہوریہ ایران لڑ رہا ہے۔ خود مختاری کی وجہ سے اور استقامت کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ کے خلاف دنیا کو ہڑپ جانے کے لئے کوشاں قوتیں سرگرم عمل ہیں۔ وہ ایران پر تسلط قائم کرنا چاہتی ہیں، ایران کو اپنے زیر نگیں کرنا چاہتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ ایران اسلامی انقلاب سے قبل والی حالت میں رہے جس کے تمام امور پر ان کا اختیار ہو، آج کے دیگر کمزور ممالک کی طرح ہو۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ ایک ملک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتی ہیں لیکن اس کا سرمایہ ہڑپ لیتی ہیں، اس کا خون چوس جانا چاہتی ہیں اور اس کے بارے میں کہتی ہیں کہ یہ تو ہماری دودھ دینے والی گائے ہے۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ باوقار مملکت ایران بھی، عظیم الشان ملک ایران بھی اور شجاع ملت ایران بھی انھیں ملکوں کی طرح بن جائے، ان کے زیر تسلط رہے۔ وہ اپنا یہ ہدف پورا نہیں کر پائے اور ہرگز پورا نہیں کر پائیں گے۔

ہمارے بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے امریکہ کو شیطان اکبر کہا تھا۔ شیطان کا کیا مطلب ہے؟ شیطان وہ موجود اور وہ عنصر ہے جس کے مد مقابل دنیا کے تمام دیندار انسانوں اور تمام یکتا پرست لوگوں کو ڈٹ جانا چاہئے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے امریکہ کو یہ نام دیکر در حقیقت دنیا بھر کے موحد افراد کو، دنیا بھر کے دیندار افراد کو اور دنیا بھر کی انصاف پسند قوموں کو امریکہ کے مد مقابل متحد کر دیا۔ یہ ہدف کافی حد تک پورا ہو چکا ہے اور اس میں مزید کامیابی حاصل ہوگی۔ دشمن کی کوشش ہے کہ کسی طرح ایران کو اس کے اس ہدف سے منحرف کر دے۔ البتہ ملت ایران کے بارے میں امریکہ کا خفیہ منصوبہ سامنے آ چکا ہے۔ اب اس کے پاس کوئی ایسا خفیہ منصوبہ نہیں ہے جس پر وہ عمل کر سکے اور ایران پر ضرب لگا سکے۔ ان سے جو بھی ہو سکا انھوں نے کیا۔ مگر ان کے مستقبل کے منصوبوں کا راز بھی کھل گیا۔ امریکہ کا حالیہ منصوبہ اور حالیہ دنوں انھوں نے جو اقدامات کئے، گزشتہ ایک دو سال کے دوران انھوں نے جو کچھ کیا اور اس میں سب سے بڑی چیز ہمہ جہتی اقتصادی پابندیاں ہیں، اس کے علاوہ بھی وہ جو اقدامات کر رہے ہیں، جو سازشیں کر رہے ہیں، ایران سے مقابلہ کرنے کے لئے جو خاص مہرے استعمال کرتے ہیں، ایران کے مختلف دشمنوں، منافقین وغیرہ کی جو مدد لیتے ہیں، ان سب کا ہدف و مقصد یہ ہے کہ پابندیوں کے ذریعے، ایران کی سیکورٹی کو نشانہ بنا کر ہمارے وطن عزیز ایران کے اندر تفرقہ، اختلاف اور خانہ جنگی شروع کروا دیں، مشکلات کھڑی کر دیں! یہ ان کا ہدف و مقصد ہے اور اسی کے تحت وہ ساری کوششیں اور سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔

انہوں نے رواں ہجری شمسی سال 1397 کے شروع میں یا اس سے ذرا قبل یعنی رواں عیسوی سال کے شروع میں اعلان کیا کہ ایران کا موسم گرما 'بہت گرم' ہوگا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ موسم گرما میں ہمارے خلاف ریشہ دوانیاں تیز کریں گے، ایران میں اپنے منصوبوں کے تحت کام کریں گے۔ یعنی یہی اختلاف، تنازعہ، لوگوں کو سڑکوں پر لانا، کسی ایک جماعت کو دوسری جماعت سے لڑوانا، ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے ٹکرانے کے لئے ترغیب دلانا، خانہ جنگی کروانا، تصادم کے حالات پیدا کر دینا، یہ ان کا منصوبہ تھا۔ مگر ان کی آنکھیں یہ دیکھ کر اندھی ہو گئیں کہ اس سال کا موسم گرما بہترین انداز میں گزرا۔ اس کے بعد انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ اپنی چالیسویں سالگرہ نہیں دیکھ پائے گی۔ یعنی اس سال موسم خزاں یا موسم سرما میں وہ اپنی سازش پر عمل کریں گے۔ ملت ایران پورے استحکام کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے۔ ان شاء اللہ گیارہ فروری کو ملت ایران اسلامی انقلاب کی چالیسویں سالگرہ گزشتہ برسوں سے بھی زیادہ پرشکوہ انداز میں منائے گی۔

ملت بیدار ہے۔ عہدیداران بھی بڑی محنت سے لگے ہوئے ہیں، کام کر رہے ہیں، کوششیں کر رہے ہیں، البتہ انھیں مزید محنت کرنا چاہئے۔ میں اپنے عزیز عوام سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اپنی اس  بیداری کو قائم رکھیں۔ یہ جو دشمنوں نے کہا کہ اس سال ہم یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے، انھوں نے اسلامی جمہوریہ کے لئے جو سازشیں تیار کی ہیں، البتہ ان کی سازش بے نقاب ہو چکی ہے، ممکن ہے کہ یہ بھی ایک فریب ہو، تا ہم ممکن ہے کہ وہ اس سال بھی کوئی ہنگامہ برپا کریں اور مثال کے طور پر آئندہ سال کے لئے کوئی منصوبہ انھوں نے تیار کیا ہو۔ تو سب اپنے حواس بجا رکھیں۔ یہ میں پوری قوم سے کہہ رہا ہوں۔ امریکہ بڑا خبیث دشمن ہے، بڑا مکار دشمن ہے۔ صیہونیوں اور علاقے کی رجعت پسند حکومتوں سے اس نے ساز باز کی ہے اور یہ سب کے سب ملت ایران کے دشمن اور اسلامی مملکت ایران کے دشمن ہیں۔ ہمیں بیدار رہنا چاہئے۔ البتہ ہم ان سے زیادہ طاقتور ہیں۔ وہ اب تک اپنے ان عزائم کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے ہیں اور آئندہ بھی وہ کچھ نہیں کر پائیں گے۔ اس میں تو کوئی شبہ ہے ہی نہیں۔ دشمن کمزور ہے۔ «اِنَّ کَیدَ الشَّیط‌ـانِ کانَ ضَعیفا» (۵) یہ قرآن کی آیت ہے۔ لیکن ہمیں بھی غافل نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں سو نہیں جانا چاہئے۔

اپنے تمام نوجوانوں سے، ملک کے مختلف طبقات سے، مختلف اصناف کے لوگوں سے، تمام سیاسی دھڑوں سے میری گزارش یہ ہے کہ بہت محتاط رہیں کہ دشمن کو کوئی فائدہ نہ پہنچا بیٹھیں۔ بہت محتاط رہیں کہ کہیں دشمن کے لئے میدان ہموار نہ کرنے لگیں، بیدار رہیں۔ اگر ہم نے غفلت برتی، اگر ہم سو گئے تو یہی کمزور دشمن اپنا کام کر گزرے گا۔ ہم سب کو بیدار رہنا چاہئے۔ آج بحمد اللہ پوری قوم بیدار ہے اور ان گزرے برسوں کے دوران بھی قوم بیدار رہی ہے۔ اس بیداری کو اسی طرح قائم رکھنا چاہئے۔ اپنے نوجوانوں کے لئے میری سفارش یہ ہے کہ سب کے سب وہ جہاں کہیں بھی ہوں ملک کے لئے کام کریں، ملک کو مضبوط کرنے کے لئے کام کریں، ملکی معیشت کو تقویت پہنچانے کے لئے کام کریں، قومی پیداوار بڑھانے کے لئے کام کریں، ہم نے رواں سال کو قومی پیدوار سے منسوب کیا اور اسی کو اس سال کا نعرہ قرار دیا۔ جو بھی جہاں بھی ہے اپنی محنت کرے۔ صنعت اور کارخانوں کے مالک اپنے انداز سے، صارفین اپنے انداز سے، پالیسی ساز اپنے انداز سے، قانون ساز اپنے طریقے سے، قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے انداز سے، حکومت اپنے طریقے سے، پارلیمنٹ اپنے طریقے سے، عدلیہ بھی اپنے طریقے سے۔ ہر ایک پوری بیداری اور ہوشیاری کے ساتھ اپنے فریضے پر عمل کرے۔ یہ عوام کو ہماری سفارش ہے۔

ہم ملکی حکام کو بھی سفارش کرنا چاہتے ہیں کہ اپنی کوششیں اور تیز کریں اور دشمن کی چرب زبانی اور دکھاوٹی اقدامات کے فریب میں نہ آئيں۔ یہ خیال رکھیں کہ جس خبیث دشمن کو انھیں نے دروازے سے باہر نکالا ہے کہیں چور دروازے سے دوبارہ داخل نہ ہو جائے۔ دشمن گوناگوں حربے اور طریقے استعمال کر رہا ہے کہ کسی طرح ڈنک مار سکے اور اپنے زہر پھیلا سکے، عہدیداران کو چاہئے کہ بہت محتاط رہیں۔ میں اقتصادی مسائل، عوام کی معیشتی مشکلات کے تعلق سے جس چیز کی انجام دہی کو ضروری سمجھتا ہوں وہ داخلی پروڈکشن کی تقویت ہے۔ میں نے حکام کو بھی سفارش کی ہے کہ داخلی پروڈکشن پر خاص توجہ دیں۔ ان شاء اللہ اگر اس سمت میں پیش قدمی ہوئی اور کام انجام دیا گیا تو عوام کی اقتصادی مشکلات کم ہوں گی۔

دنیائے اسلام میں کچھ لوگوں نے دشمن سے دوستانہ رشتے قائم کئے ہیں۔ آل سعود جو حرکتیں کر رہے ہیں، جو بھیانک جرائم ان کے ذریعے یمن میں انجام دئے جا رہے ہیں، یمن پر قبضہ کرنے کے لئے اور یمن کے مظلوم عوام کے خلاف وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے خود آل سعود کو نقصان پہنچے گا۔ یہ بات انہیں سمجھ لینا چاہئے۔ اس کا نقصان انھیں اٹھانا پڑے گا۔ آج تقریبا چار سال ہو رہے ہیں، لگ بھگ چار سال سے وہ یمن میں جرائم انجام دے رہے ہیں۔ وہ اس گمان میں تھے کہ چند دنوں یا زیادہ سے زیادہ چند ہفتوں کے اندر یمن پر قبضہ کر لیں گے اور وہاں کے امور مملکت اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔ لیکن چار سال ہو رہے ہیں اور وہ اپنا ہدف پورا نہیں کر سکے۔ وہ جتنا اس کو طول دیں گے ان کی سرنگونی اور ان پر پڑنے والی ضرب اتنی ہی سخت اور کاری ہوگی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلم قوم اور اسلامی ملک پر راج کرنے والی حکومت دشمنان اسلام کے ہاتھ کا مہرہ بن جائے؟! امریکہ کا مہرہ بن جائے؟! امریکہ کے لئے دودھ دینے والی گائے بن جائے؟! کیوں؟ خادم حرمین شریفین کو تو «اَشِدّاءُ عَلَی الکُفّار» (6) ہونا چاہئے، «اشدّاء علی المؤمنین» نہیں۔ جبکہ یہ لوگ «اشدّاء علی المؤمنین» ہیں، «اشدّاء علی الیمن» ہیں، «اشدّاء علی البحرین» ہیں۔ مومنین پر سختیاں کرتے ہیں۔ یہ بڑی احمقانہ پالیسی ہے جو اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے۔

ملت ایران کھلی آنکھوں سے اور بصیرت کے ساتھ ان حالات پر نظر رکھے اور اپنا موقف پوری مضبوطی کے ساتھ محفوظ رکھے اور یقین رکھے کہ اس علاقے اور اس دنیا کے اس طوفانی سمندر میں، ویسے طوفان اب یورپ بھی پہنچ چکا ہے، فرانس کو آپ نے دیکھا، یورپی ممالک بھی اسی طوفان کی زد میں ہیں، تو اس طوفان میں جو دنیا میں اور خاص طور پر ہمارے علاقے میں پھیلا ہوا ہے، ملت ایران اسلام کی برکت سے اہل بیت اور اسلام کی محبت کی محفوظ کشتی پر سوار ہے۔ اس بصیرت کو قائم رکھئے اور اس روش کو جاری رکھئے۔ ہم اس سفر کو پوری توانائی کے ساتھ جاری رکھیں ان شاء اللہ فتح ملت ایران کا مقدر ہے۔

اللہ کی رحمت اور درود و سلام ہو شہیدوں اور ان کے اہل خانہ پر۔ میں ایک بار پھر شہدا کے والدین، بچوں، بھائیوں اور بہنوں سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتا ہوں۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۱۵۷ کا ایک حصہ؛ «ان پر ان کے پروردگار کی جانب سے درود و رحمت ہو ...»

۲) سوره‌ آل‌ عمران، آیت نمبر ۱۶۹ کا ایک حصہ؛ «... وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کی بارگاہ میں روزی پا رہے ہیں۔»

۳) سوره‌ آل ‌عمران، آیت نمبر ۱۷۰ کا ایک حصہ؛ «...ان لوگوں کے لئے جو ان کی راہ پر گامزن ہیں مگر ہنوز ان سے ملحق نہیں ہوئے خوشی کا پیغام دیتے ہیں کہ نہ انھیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی حزن۔»

۴) ڈونالڈ ٹرمپ

۵) سوره‌ نساء، آیت نمبر ۷۶ کا ایک حصہ؛ «...شیطان کا نیرنگ آخرکار کمزور پڑ جاتا ہے۔»

6) سوره‌ فتح، آیت نمبر ۲۹ کا ایک حصہ؛ «...کفار کے سلسلے میں سختی برتتے ہیں۔...»