5 فروری 2020 کے اپنے اس خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے سینچری ڈیل سے موسوم امریکی منصوبے کو احمقانہ، خبیثانہ اور شکست خوردہ منصوبہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس منصوبے کا مقابلہ کرنے کا راستہ فلسطینی قوم اور گروہوں کی شجاعانہ استقامت و جہاد اور عالم اسلام کی طرف سے فلسطینیوں کی بھرپور حمایت ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیّین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین.

برادران و خواہران عزیز! آپ نے اپنی معنویت اور اپنے اخلاص سے ہماری نشست اور ہماری امام بارگاہ کے ماحول کو معطر اور منور کر دیا۔ خاص طور پر ان عزیزوں نے جو دور دراز سے تشریف لائے ہیں، دور دراز کے شہروں سے آئے ہیں۔ ان بچوں نے جو ترانہ پڑھا، جو بہت اچھا تھا اور بڑی فنکاری سے تیار کیا گيا تھا، اس کے لیے بھی ہم شکر گزار ہیں۔ محترم قاری نے بھی بہت ہی اچھی تلاوت کی، ہم ان کے بھی شکر گزار ہیں۔

عزیز بھائيو اور بہنو! عشرۂ فجر(1) کے ایام ہمارے ملک کے لیے ایک بے نظیر اور بے مثال دورانیہ ہے۔ عشرۂ فجر قومی طاقت اور قومی عزم کا مظہر ہے، کیوں؟ اس لیے کہ اسی عشرۂ فجر میں ہی ایرانی قوم نے میدان میں اپنی استقامت کے ذریعے، اپنے ٹھوس عزم کے ذریعے کئي ہزار سال پرانی ایک کھوکھلی اور بری عمارت کو الٹ دیا تھا۔ ہزاروں سال سے اس ملک کو اس طرح چلایا گيا تھا کہ اس میں عوام کا کوئي کردار نہیں تھا، سلطنتیں، حملہ آور طاقتیں اور باہری طاقتیں، حکمرانی کر رہی تھیں۔ یہاں تک کہ عہد اسلام میں بھی، جو رحمت کا مظہر ہے، خلفاء کی طرف سے ایران آنے والے حکام کا رویہ انتہائي سخت، آمرانہ، شاہانہ اور عام سلطانوں جیسا تھا۔ ملک چلانے میں عوام کا کوئي کردار نہیں تھا، ہمارا ملک ہزاروں سال تک ایسے ہی چلتا رہا۔ اس آخری عہد میں جو پہلوی دور تھا اور اس سے تھوڑا سا پہلے عہد قاجار میں تو صورتحال اس سے بھی بدتر تھی یعنی نہ صرف یہ کہ عوام کا کوئي کردار نہیں تھا بلکہ انھیں پامال بھی کیا جا رہا تھا۔ ملک کی دولت لوٹی جا رہی تھی، اغیار کی جیبوں میں جا رہی تھی اور بدعنوانی نے حکومت چلانے والوں کو از سر تا پا اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، یہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے کی صورتحال تھی۔

ایرانی قوم نے امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کی قیادت میں، جن کا کردار ایسا ہے جس کا ہماری طویل تاریخ کے کسی بھی لیڈر سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا اور میری نظر میں یہ کردار دنیا میں بے مثال ہے، ان کے نقش پا پر چلتے ہوئے، عزم کیا، فیصلہ کیا، گولیوں سے نہیں ڈری، پہلوی حکومت کی ظاہری طاقت سے نہیں ڈری اور میدان کے درمیان میں آ گئي اور اس عمارت کو تباہ کر دیا، اس کی جگہ جمہوریت کی عمارت قائم کی اور ملک، جمہوری بن گيا۔ جمہوری کا مطلب کیا ہے؟ مطلب یہ کہ شروع ہی سے، ملک کے حکومتی نظام کا تعین عوام کے ووٹوں سے، ان لوگوں کا تعین عوام کے ووٹوں سے جنھیں ملک کا آئين تیار کرنا تھا یعنی آئين کے ماہرین کا تعین عوام کے ووٹوں سے، پھر جب عوام کے منتخب افراد کے ذریعے آئين تیار ہو گيا تو خود آئين کے بارے میں عوام نے ووٹ دیے، مقننہ، انتظامیہ، مختلف کونسلیں، خود رہبر انقلاب عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے، ماہرین کی اسمبلی یا 'مجلس خبرگان رہبری' کو عوام منتخب کرتے ہیں اور وہ لوگ رہبر کو منتخب کرتے ہیں، مطلب یہ کہ ہر چیز کی بنیاد عوام کے ووٹ ہیں۔ اس طرح سے ملک چلانے کا مطلب عوامی حکومت ہے۔ بنابریں یہ عشرہ، ایک ایسا عشرہ ہے جس کا سال کے دیگر ایام سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ عشرۂ فجر، قومی عزم کا مظہر ہے۔

البتہ اسلامی نظام، عوامی ہے لیکن اس کی خصوصیت صرف عوامی ہونا نہیں ہے۔ ہمارا نظام، ایمانی نظام ہے، دینی نظام ہے، اسلامی جمہوریت ہے۔ "اسلامی" ہے جبھی تو شہید سلیمانی جیسے افراد کی پرورش کرتا ہے، "اسلامی" ہے، جبھی تو مقدس دفاع کے دوران گھرانوں کو ترغیب دلاتا ہے کہ وہ اپنے نوجوان اور جگر کے ٹکڑے، اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے بھیجیں اور اس پر فخر بھی کریں۔ دنیا میں کہاں ایسا ہوتا ہے کہ ایک ماں اپنے تین یا چار نوجوان بیٹے راہ خدا میں دے دے، اس پر فخر کرے اور کسی سے کوئي شکایت نہ کرے؟ کہیں نہیں ہوتا۔ ہم نے دوسرے ملکوں کے حالات کے بارے میں پڑھا ہے، سنا ہے، انھوں نے بھی جنگیں کی ہیں، ان کے یہاں بھی لوگ مارے گئے ہیں لیکن یہاں جو کچھ ہوا ہے، اس سے اس کا بالکل بھی موازنہ نہیں کیا جا سکتا، یہ ایمان کی وجہ سے ہے۔

آپ دیکھیے کہ یہی کچھ سات آٹھ مہینے پہلے، رواں (ہجری شمسی) سال کے اوائل میں، امریکا کے انسٹی ٹیوٹس میں، تھنک ٹینکس میں بیٹھ کر جنرل قاسم سلیمانی کے بارے میں تفصیل سے بحث کی گئي، جائزہ لیا گيا اور اس کی رپورٹ کافی مدت کے بعد بہت محدود پیمانے پر جاری کی گئي جو ہم تک بھی پہنچی۔ ان لوگوں نے قاسم سلیمانی کے بارے میں کچھ باتوں کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ شخص، امریکا کے اہداف کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کی جن خصوصیات کا وہ لوگ ذکر کرتے ہیں، جیسے کہتے ہیں کہ بہادر ہیں، خطروں سے کھیلتے ہیں، ایسے ہیں، ویسے ہیں، انھی خصوصیات کے ذیل میں وہ کہتے ہیں کہ یہ دیندار ہیں، با ایمان ہیں؛ یعنی ان کی دینداری ان خصوصیات میں سے ایک ہے۔ ایمان والے لوگ جب اپنے ایمان کو عمل صالح کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں اور جب جہادی کام کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں اس طرح کی شخصیات سامنے آتی ہیں جن کی تعریف بڑی طاقتیں بھی کرتی ہیں، یہاں تک کہ ان کے دشمن بھی انھیں سراہتے ہیں۔

آج میں دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی عوامی شرکت اور موجودگي کی ہے جس کے لیے ہمارے سامنے دو امتحانات ہیں: ایک، بائيس بہمن (گيارہ فروری) کی ریلی ہے اور دوسرے، انتخابات۔ دوسری بات میں مسئلۂ فلسطین کے سلسلے میں عرض کرنا چاہتا ہوں اور اس کے بارے میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا، البتہ ہمارا موقف واضح ہے لیکن میں تاکید کے طور پر اس بات کو پھر دوہرانا چاہتا ہوں۔

بائيس بہمن کی ریلی کے بارے میں عرض کروں کہ ہماری قوم نے واقعی بہت حوصلہ دکھایا ہے، یہ کوئي مذاق کی بات نہیں ہے کہ سردیوں میں چالیس سال، ٹھنڈ میں، برفباری میں، یخ بستہ موسم میں، ملک کے مختلف شہروں میں یعنی ملک کے تمام حصوں میں لوگ اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ کے موقع پر اپنے گھروں سے باہر نکلے اور انھوں نے دشمن کے سامنے اپنی موجودگي اور عظیم الشان اجتماع کا مظاہرہ کیا۔ آپ ملکوں کے قومی جشنوں کی سالگرہ پر ایک نظر ڈالیے، چار لوگ آکر ایک جگہ کھڑے ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگ ان کے سامنے پریڈ کرتے ہیں اور بس۔ ہمارے ملک میں عوامی موجودگي، اور وہ بھی اتنی عظیم الشان، اور وہ بھی چالیس سال سے لگاتار، اور وہ بھی دشمنوں کی جانب سے کیے جانے والے مسلسل تخریبی پروپیگنڈوں کے باوجود جنھوں نے ہر سال ایک نئے طریقے سے بات کرنے کی کوشش کی کہ شاید اس موجودگي کو کمزور کر سکیں، لیکن نہیں کر سکے۔ میں تو واقعی ایرانی قوم کا شکریہ ادا کرنے کے بھی قابل نہیں ہوں لیکن حق تو یہی ہے کہ انسان اپنے پورے وجود کے ساتھ ایران کی عزیز قوم کا شکریہ ادا کرے۔ البتہ اس سال بائيس بہمن (کی ریلی) ہمارے شہید عزیز کے چالیسویں کے ساتھ ہے، شہید سلیمانی کے چالیسویں کے ایام ہیں اور عوام میں شرکت کا جذبہ دوگنا ہے اور ان شاء اللہ ہمارے دشمن چوراہوں اور سڑکوں پر عوام کی عظیم الشان موجودگی کوخود ہی دیکھیں گے، ہم اس سلسلے میں زیادہ بات نہیں کریں گے، ان شاء اللہ ایران کے عوام اپنی اسی موجودگي سے دشمن کی پالیسیوں پر کاری ضرب لگائیں گے۔

جہاں تک انتخابات کی بات ہے تو میرے عزیزو! الیکشن ملک اور قوم کے لیے ایک موقع ہے جبکہ ہمارے دشمنوں کے لیے ایک خطرہ ہے؛ انتخابات کی اہمیت کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ کچھ لوگ انتخابات کے بارے میں بات کرتے ہیں، جو کچھ ان کے دل میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں، عوام کے جذبے پر ٹھنڈا پانی ڈالنا چاہتے ہیں، ان سب باتوں کو سرسری طور پر نہیں دیکھنا چاہیے، الیکشن ہمارے ملک کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے: پہلی بات تو یہ کہ اگر انتخابات شاندار طریقے سے انجام پائيں اور لوگ بھرپور طریقے سے پولنگ اسٹیشن پہنچیں تو اس سے ملک کی سیکورٹی یقینی بنتی ہے؟ وہ کیسے؟ وہ اس طرح سے کہ جو دشمن ملک کو اور قوم کو دھمکاتے ہیں، وہ ہمارے ہتھیاروں اور فوجی وسائل کے مقابلے میں عوامی پشت پناہی سے زیادہ خوفزدہ ہوتے ہیں، یہ ٹھیک ہے کہ وہ ہمارے میزائل سے بھی ڈرتے ہیں لیکن ملکی نظام کے تئيں عوامی پشت پناہی سے وہ زیادہ ہراساں ہوتے ہیں۔ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ شرکت، نظام کے تئیں عوامی پشت پناہی کی عکاس ہے، اسی وجہ سے یہ سیکورٹی کا سبب ہے۔

دوسری بات یہ کہ یہ ایرانی قوم کے عزم اور طاقت کو نمایاں کرتی ہے۔ دیکھیے ملک میں کچھ مسائل اور مشکلات ہیں، وہ خود بھی جانتے ہیں۔ ان کی ان پابندیوں اور ان کے ساتھ ہی کچھ کمیوں نے، جو ہماری طرف سے ہیں، عوام کے لیے مسائل پیدا کر دیے ہیں، عوام کو شکایتیں ہیں لیکن اس کے باوجود چونکہ بات انتخابات کی ہے، چونکہ بات ملکی نظام کی عزت کی ہے، چونکہ بات ملک کی سیکورٹی کی ہے، اس لیے لوگ میدان میں آئيں گے، یہ چیز قومی عزم، قومی طاقت اور قومی بصیرت کی عکاس ہے، یہ دوسری بات تھی۔

یہ بھی عرض کروں کہ خود انتخابات ہمارے بہت سے عالمی مسائل کو حل کرتے ہیں۔ جو عالمی مبصر ہوتے ہیں، ملکوں کے سلسلے میں ان کے فیصلے اور ان ملکوں کے سلسلے میں روا رکھے جانے والے ان کے رویے ان چیزوں پر بہت منحصر ہوتے ہیں۔ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ اس ملک کی پارلیمنٹ، اگر اس ملک میں پارلیمنٹ ہو تو، اس ملک کے سربراہ، کس طرح منتخب ہوتے ہیں؟ کن لوگوں کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں؟ کتنی عوامی پشت پناہی سے منتخب ہوتے ہیں؟ یہ ساری باتیں مؤثر  ہیں۔

اس کے علاوہ صدارتی الیکشن اور مجلس شورائے اسلامی کے انتخابات یعنی پارلیمانی الیکشن، ملک کے فیصلہ کرنے والے، پالیسیاں بنانے والے اور پالیسیاں اختیار کرنے والے ڈھانچے میں نئے افکار اور نئی راہوں کے داخلے کا ایک موقع ہے۔ نئے نئے افکار سامنے آتے ہیں، خاص طور پر اگر ہمیں صحیح اور کام کے لوگ مل جائيں اور ہم انھیں منتخب کر لیں تو اس کا کافی اثر ہوتا ہے اور نئي باتیں اور نئے افکار ملک میں پالیسیاں تیار کرنے اور فیصلے کرنے کے عمل میں شامل ہوں گے جو ملک کے مسائل کے حل کے لیے نئے راستے پیش کر سکتے ہیں، چارہ جوئی کر سکتے ہیں اور ماہرانہ باتیں پیش کر سکتے ہیں، ان شاء اللہ اس کے بارے میں بعد میں عرض کروں گا۔ معیشت کا مسئلہ بھی بہت اہم جسے میں نے ہمیشہ دوہرایا ہے، ثقافت کا مسئلہ بہت اہم ہے، سائنسی پیشرفت اور اسے مستحکم بنانے کا معاملہ بہت اہم ہے لیکن ان سب کی بنیاد، انتخابات کا مسئلہ ہے۔ اگر ہمارے انتخابات، مضبوط، صحیح اور ہمہ گیر ہوں تو میری نظر میں یہ تمام مسائل بتدریج حل ہو جائیں گے۔ اس سے انتخابات کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔

بنابریں الیکشن، ملک کا سب سے بنیادی معاملہ ہے۔ اس بنیادی معاملے کی اہمیت کو ادھر ادھر کی باتوں سے، مختلف طرح کے بیانوں سے اور ناامید کرنے والی باتوں سے کم نہیں کرنا چاہیے لیکن افسوس کہ اس طرح کی باتیں ہوتی ہیں۔ دشمن تو سرگرم ہے ہی، اس میں کوئي نئي بات نہیں ہے، دشمن، (اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کے) ابتدائي برسوں سے ہی ہمارے انتخابات پر سوالیہ نشان لگاتے رہے ہیں۔ کبھی وہ کہتے تھے کہ ان انتخابات میں دھاندلی ہوئي ہے، کبھی کہتے تھے کہ نتائج پہلے سے طے شدہ ہیں، غیر ملکی مسلسل اس طرح کی باتیں کرتے تھے جن کا کوئي خاص اثر نہیں تھا، عوام میں ان کا کوئي اثر نہیں ہے۔ عوام، فلاں خیانت کار ریڈیو پر یقین نہیں کرتے، اعتماد نہیں کرتے، جو دسیوں لاکھ کے عظیم اجتماع کو کچھ ہزار لوگ کہتا ہے لیکن اگر دو سو لوگ سڑک پر تخریب کاری کر رہے ہوں تو کہتا ہے، ایرانی قوم! عوام اسے اہمیت نہیں دیتے لیکن یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ایسی باتوں کو ملک کے اندر سے ہوا نہ دی جائے۔ میری تاکید اس بات پر ہے۔ وہ لوگ اس بات پر توجہ دیں جن کے پاس کوئي پلیٹ فارم ہے، کوئي اسٹیج ہے، جو بات کر سکتے ہیں، چاہے میڈیا میں یا سوشل میڈیا میں، اس طرح باتیں نہ کریں کہ دشمن ان سے غلط فائدہ اٹھائے اور ان کے حوالے سے اس بات کو کئي گنا بڑا بنا کر پیش کرے جو انتخابات میں عوام کی مایوسی کا سبب بنے۔ جب آپ يہ کہیں گے کہ یہ انتخابات طے شدہ ہیں تو لوگ ناامید ہوں گے۔ جب آپ یہ کہیں گے کہ یہاں جمہوریت نہیں ہے، یہ الیکشن نہیں، سلیکشن ہے تو عوام کی حوصلہ شکنی ہوگی، جب کہ یہ جھوٹ ہے، ایسا نہیں ہے۔

ایران میں ہونے والے انتخابات، دنیا میں ہونے والے سب سے صحیح و سالم اور شفاف انتخابات میں سے ہیں۔ دنیا کے کئي ممالک میں اچھے انتخابات ہوتے ہیں لیکن وہ ہمارے انتخابات سے بہتر نہیں ہیں، ہمارے انتخابات سے زیادہ صحیح و سالم نہیں ہیں۔ بعض ممالک میں تو دھڑلے سے دھاندلی ہی رائج ہے۔ بعض ممالک تو ایسے بھی ہیں جن کے قوانین اس طرح کے ہیں کہ وہاں صحیح اور مکمل معنی میں جمہوریت ہی نہیں ہے، جیسے خود امریکا۔ امریکا، جسے جمہوریت کا مرکز کہا جاتا ہے، اس بات سے قطع نظر کہ عوامی ووٹوں کے راستے کو پیسے اور سرمائے کی طاقت سے بدل دیا جاتا ہے اور فی الحال ہم اس پر بات نہیں کرنا چاہتے، اس ملک کا قانون اس طرح کا ہے کہ ایک شخص زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے لیکن جس شخص کو کم ووٹ ملے ہیں وہ صدر بن جاتا ہے۔ ان کا قانون یہ ہے(2)۔ دو تین سال پہلے اقتدار میں آنے والے امریکا کے اسی موجودہ صدر کی حریف کو بظاہر دسیوں لاکھ ووٹ زیادہ ملے تھے لیکن ان کے قوانین ایسے ہیں کہ یہ شخص صدر بن گیا، تو کیا یہ جمہوریت ہے؟ یہ اکثریت کی رائے ہے؟ یہاں ایسا نہیں ہے، یہاں بہت دقیق (قانون) ہے؛ جو بھی پچاس فیصد عوامی ووٹوں سے، البتہ جہاں پچاس فیصد کا معیار ہو،(3) کچھ ووٹ بھی زیادہ حاصل کر لیتا ہے تو وہ صدر بن جاتا ہے۔ ہم نے ان برسوں میں اس طرح سے عمل کیا ہے۔ ان برسوں میں پارلیمانی انتخابات کے دوران مختلف لوگوں نے مجھے خط لکھا کہ جناب دھاندلی ہوئي ہے اور ہمیں اعتراض ہے، ٹھیک ہے، ہم نے ٹیم تشکیل دی، انھوں نے وہ معاملہ دیکھا، تفتیش کی، پوری گہرائي سے چھان بین کی اور یہ پایا کہ نہیں، جس نے رپورٹ دی تھی، اس سے غلطی ہوئي ہے، اسے بعض چیزوں کا علم نہیں تھا۔

ہمارے ملک میں انتخابات شفاف اور آزادانہ ہوتے ہیں۔ مجھے تعجب ہوتا ہے ایسے لوگوں پر جو انتخابات کے ہی ذریعے کسی مقام تک پہنچے ہیں اور وہی انتخابات پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ جب انتخابات کا نتیجہ آپ کے حق میں تھا تب انتخابات بالکل صحیح اور قابل اعتماد تھے اور جب انتخابات آپ کے فائدے میں نہیں ہیں تو انتخابات میں آپ کو خرابی نظر آنے لگتی ہے؟ وَ اِن یَکُن لَهُمُ الحَقُّ یَأتوا اِلَیهِ مُذعِنین؛(4) قرآن کہتا ہے کہ اگر فیصلہ  ان کے حق میں ہوا تب تو وہ فیصلے کو قبول کرتے ہیں اور اگر ان کے حق میں نہ ہوا تو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: «اَ فی قُلوبِهِم مَرَض»؟ (5) کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے؟

دشمن سے ہمیں کوئی شکوہ نہیں ہے۔ دشمن تو دشمنی ہی کرے گا، اس کا کام ہی یہی ہے۔ لیکن دوستوں سے، ان لوگوں سے جو ملک کے اندر ہیں، خواہ وہ اخبارات میں لکھنے والے قلمکار ہوں، یا سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر سرگرم ہوں یا پارلیمنٹ کے رکن ہوں یا کسی اہم سرکاری عہدے پر ہوں، (ہماری کچھ توقعات ہیں)۔ سب کو چاہئے کہ اس کا خیال رکھیں۔ یہ نہیں کہ ہم عوام سے تو زبانی کہیں کہ آپ انتخابات میں شرکت کیجئے لیکن اس انداز سے اپنی بات کہیں کہ لوگوں میں انتخابات کے تعلق سے سردمہری پیدا ہو۔ یہ مناسب نہیں ہے، یہ غلط ہے۔

اس سلسلے میں ایک بہت غلط بات نگراں کونسل پر حملے کرنا ہے۔ نگراں کونسل ایک قابل اعتماد ادارہ ہے۔ آئين میں نگراں کونسل کے لئے کچھ ذمہ داریاں طے کی گئی ہیں، معین کی گئی ہیں۔ نگراں کونسل میں چھے عادل فقیہ اور چھے ماہرین قانون ہوتے ہیں جو پارلیمنٹ کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔ کتنی آسانی سے نگراں کونسل پر الزام لگا دیا جاتا ہے کہ فلاں امیدوار کو بے بنیاد طریقے سے انتخابات کے لئے نااہل یا اہل قرار دیا ہے؟ یہ تو تہمت لگانا ہے۔ تہمت لگانا گناہ کبیرہ ہے۔ اس پر توبہ ضروری ہے۔ انھیں توبہ کرنا چاہئے۔

انتخابات بہت اہم ہیں۔ میں نے چندہ ہفتے قبل (6) نماز جمعہ میں ملت ایران سے عرض کیا کہ طاقتور اور بے رحم عالمی دشمنوں کی وجہ سے جاری ہماری مشکلات کا حل یہ ہے کہ ہم خود کو طاقتور بنائیں۔ طاقتور بننے کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ ہمارے پاس طاقتور پارلیمنٹ ہو۔ مجلس شورائے اسلامی (پارلیمنٹ) جو قانون سازی کی جگہ ہے اسے طاقتور ہونا چاہئے۔ پارلیمنٹ کب طاقتور ہوگی؟ تب طاقتور ہوگی جب بڑے پیمانے پر ووٹنگ کے نتیجے میں پارلیمنٹ کی تشکیل عمل میں آئے گی۔ پارلیمنٹ ایسی صورت میں طاقتور ہوگی۔ اس کے پاس مینڈیٹ کا مضبوط سرمایہ ہوگا۔

عوام کی شکایات اپنی جگہ پر ہیں لیکن انتخابات سے ان کا کوئی ربط نہیں ہے۔ عوام کو معیشتی امور کے بارے میں شکایتیں ہیں، ان میں کچھ مسائل کا تعلق ہمارے بعض قوانین سے ہے، کچھ مسائل کا تعلق ہمارے بعض اجرائی عہدیداران سے ہے جس کی وجہ سے عوام کو شکایتیں ہیں۔ وہ حق بجانب ہیں۔ بیشتر معاملات میں عوام کی شکایات بالکل بجا ہیں۔ لیکن ان کا انتخابات سے کوئی ربط نہیں ہے۔ عوام دوسرے افراد سے اپنے گلے شکوے کا اظہار کرتے ہیں لیکن پارلیمنٹ کی اہمیت انھیں بخوبی معلوم ہے جو اسلامی نظام کا ادارہ ہے، ملک کا ادارہ ہے، ملت ایران کا ادارہ ہے۔ ان شاء اللہ پارلیمنٹ کی تشکیل میں ان شاء اللہ ان کی شرکت بھرپور انداز میں ہوگی۔

میرا یہ کہنا ہے کہ جسے بھی ایران سے لگاؤ ہے وہ ووٹ ضرور دے۔ ہم پہلے بھی یہ بات عرض کر چکے ہیں اور اب اسی بات کو دوہرانا چاہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ کسی کو یہ حقیر پسند نہ ہو، اگر پسند نہیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اسے ایران سے، اپنے ملک سے محبت ہے یا نہیں؟ ہے تو اسے انتخابات میں شرکت کرنا چاہئے۔ جو بھی ملکی امن و سلامتی سے دلچسپی رکھتا ہے، جسے بھی ملکی مشکلات کے ازالے سے دلچسپی ہے، جسے ملک کے اندر درست 'سرکولیشن آف الیٹ' سے دلچسپی ہے اسے چاہئے کہ انتخابات میں شرکت کرے۔ سب کو شرکت کرنا چاہئے۔ البتہ مجھے یقین ہے کہ مومن، انقلابی اور انقلاب کے مستقبل سے لگاؤ رکھنے والے افراد زیادہ جوش و خروش  کے ساتھ شرکت کریں گے۔ لیکن وہ لوگ بھی جن کے اندر انقلابی جذبہ نہیں ہے، دینی جذبہ نہیں ہے، وہ بھی اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں۔ انھیں بھی چاہئے کہ انتخابات میں شرکت کریں۔ یہ تو خود انتخابات کے بارے میں کچھ باتیں تھیں۔

جہاں تک انتخاب کی نوعیت کا تعلق اور جہاں تک یہ سوال ہے کہ کسے منتخب کرنا چاہئے؟ تو ظاہر ہے کہ ہم کسی شخص کا نام نہیں لیں گے۔ میں نے کبھی بھی کسی بھی الیکشن میں یہ نہیں کیا۔ کسی کے بارے میں اشارہ تک نہیں کیا کہ اسے منتخب کیا جائے۔ لیکن میری نظر میں چند خصوصیات ہیں جو منتخب ہونے والے امیدوار میں موجود ہونا چاہئیں۔ پہلی چیز یہ کہ مومن ہو۔ ایسے افراد کو منتخب کیجئے جو صاحب ایمان ہوں۔ ایمان ہی انسان کو کج روی، انحراف، غلط قدم اٹھانے اور غلط کاموں سے روکتا ہے۔ ایمان انسان کو وسوسے کے اثر سے محفوظ رکھتا ہے۔ بعض لوگ شروع میں تو بہت اچھے ہوتے ہیں، لیکن جب خاص میدانوں میں پہنچ جاتے ہیں تو وسوسے انھیں کبھی کسی سمت تو کبھی کسی طرف کھینچتے ہیں۔ اگر ایمان محکم ہو تو انسان انحرافات سے محفوظ رہتا ہے۔ تو مومن ہونا چاہئے۔

اس کے علاوہ انقلابی ہوں۔ حقیقی معنی میں انقلاب کو دل سے چاہنے والے ہوں، انھوں نے انقلاب کو حقیقی معنی میں دل سے قبول کیا ہو۔ ایسے لوگوں کو منتخب کیجئے۔ شجاع ہوں۔ جو رکن پارلیمنٹ کسی بیرونی طاقت کے خلاف بیان دینے سے ڈرے وہ ملت ایرانی جیسی با وقار اور شجاع قوم کی نمائندگی کا حق نہیں رکھتا۔ بے شک موجودہ ارکان پارلیمنٹ نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ حالیہ دنوں شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد امریکہ کے خلاف بہت اچھا اقدام کیا (7)۔ شجاعت سے کام لینا چاہئے۔ کیونکہ ڈرنے، گھبرانے، خوفزدہ اور ہراساں ہو جانے کی صورت میں کوئی کام آگے نہیں بڑھے گا۔ شجاعانہ تاہم مدبرانہ اور عاقلانہ انداز میں کام کرنا چاہئے۔

جہاد کا جذبہ رکھنے والے ہوں۔ کام کی بات ہو تو نہ دن دیکھیں نہ رات۔ کارآمد ہوں۔ حقیقی معنی میں انصاف کے حامی ہوں۔ ہمارے ملک کو عدل و انصاف کی بڑی ضرورت ہے۔ ساری انسانیت کو عدل و انصاف کی ضرورت ہے۔ تاہم دنیا میں عدل و انصاف متروک اور نا آشنا شئے بن چکا ہے۔ اسلامی جمہوریہ نے عدل و انصاف کا پرچم بلند کیا ہے۔ یہ پرچم گرنے نہیں دینا چاہئے۔ حقیقی معنی میں ہمیں انصاف کے لئے کوشاں رہنا چاہئے۔ اقتصادی انصاف بھی، قانونی انصاف بھی، سیاسی انصاف بھی، تمام میدانوں میں انصاف موجود ہونا ضروری ہے۔

اگر ہماری نظر میں ان صفات کے حامل افراد ہیں تو ہم انھیں ووٹ دیں۔ اگر ہم نہیں پہچانتے تو صاحب بصیرت اور معتمد افراد سے مشورہ کر لیں۔ کوئی یہ نہ کہے کہ ٹھیک ہے، انتخاب کی یہ شرطیں ہیں، لیکن ہم ان صفات کے حامل فرد کو نہیں پہچانتے، نہیں جانتے تو بہتر ہے کہ ووٹ ہی نہ دیں۔ نہیں۔ ووٹ ضرور دیجئے، البتہ صاحب بصیرت افراد، معتمد افراد، قابل اطمینان افراد سے رجوع کیجئے۔ ان سے سوال کیجئے، ان سے پوچھئے۔ اگر انہوں نے کوئی رہنمائی کی تو ان کی رہنمائی کو قبول کیجئے۔ تاکہ ان شاء اللہ سارے عوام خالص نیت کے ساتھ اور اللہ تعالی پر تکیہ کرکے میدان میں اتریں۔

اور اب مسئلہ فلسطین۔ آپ نے سنا ہی ہے۔ ساری دنیا نے سنا کہ امریکہ کے جابر اور غنڈہ صفت حکام نے حال ہی میں ایک منصوبے کی رونمائی کی ہے۔ اس کا نام رکھا ہے 'ڈیل آف سینچری'۔ بغلیں بجا رہے ہیں کہ انھوں نے اس کا ایک بھاری بھرکم نام رکھ دیا ہے تو شاید کام کر جائے، شاید کامیاب ہو جائے۔ میری نظر میں جو کام انھوں نے کیا ہے وہ ایک تو احمقانہ ہے، دوسرے خیانت کی علامت ہے اور تیسرے ابھی سے اس نے خود انھیں نقصان پہنچانا شروع کر دیا ہے (8)۔ یہ کس طرح احمقانہ ہے قبل اس کے کہ میں اس کی تشریح کروں آپ نے نعرہ تکبیر لگایا جس سے یہ ظاہر ہو گيا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ یہ کیوں احمقانہ فعل ہے۔ لیکن پھر بھی میں اسے دوہرانا چاہوں گا، اس کی تشریح کرنا چاہوں گا۔ احمقانہ اقدام ہے، کیوں؟ اس لئے کہ یہ منصوبہ یقینا ناکام ہوگا۔ یہ منصوبہ ٹرمپ کی موت سے پہلے مر جائے گا۔ لہذا ایسے کام کے لئے جو ہرگز جامہ عمل پہننے والا نہیں ہے، آنا، بیٹھنا، پیسے خرچ کرنا، لوگوں کو دعوت دینا، دنیا میں ایک ہنگامہ برپا کر دینا، رونمائی کرنا یہ سب احمقانہ عمل ہے۔

دوسرے یہ امریکیوں کی خباثت اور بہروپئے پن کی علامت ہے۔ صیہونیوں کا قضیہ اپنی جگہ پر واضح ہے، لیکن اب امریکیوں نے بھی اپنے اس عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ کتنے خبیث اور کتنے بڑے بہروپئے ہیں! کیوں؟ اس لئے کہ انھوں نے آکر ایک فریق سے جو صیہونیوں سے عبارت ہے، ایک ڈیل کی اور یہ ڈیل ایسی چیز کے بارے میں کی جو ان کی ملکیت نہیں ہے۔ انھوں نے فلسطینیوں کی ملکیت کے بارے میں آپس میں ڈیل کی ہے۔ ایک نے دیا اور دوسرے نے لیا! یہ خباثت نہیں ہے؟ یہ بہروپیا پن نہیں ہے؟ فلسطین، فلسطینیوں کا ہے۔ آپ ہوتے کون ہیں جو فلسطین کے بارے میں فیصلہ کریں کہ بیت المقدس کی یہ پوزیشن ہو، فلاں جگہ ایسی ہو، فلسطین کا دار الحکومت فلاں جگہ ہو؟! آپ سے کیا مطلب ہے؟ آپ ہیں کون؟ فلسطین فلسطینیوں کا ہے۔ فلسطین کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق صرف فلسطینیوں کو ہے۔ میں اس بارے میں ابھی عرض کروں گا۔ مسئلہ فلسطین کا واحد حل وہ تجویز ہے جو ہم نے چند سال قبل پیش کی تھی۔ آج بھی میں اس کا اعادہ کرنا چاہوں گا۔ لہذا یہ چیز کہ دوسرے آئیں، امریکہ آئے اور دوسروں کے ملک کے بارے میں، دوسروں کی سرزمین کے بارے میں، دوسروں کے ملک اور گھر کے بارے میں فیصلہ کرے، یہ ان لوگوں کے بہروپئے پن، خباثت اور بد طینتی کی علامت ہے، جو یہ کام کر رہے ہیں۔

ہم نے یہ بھی عرض کیا کہ یہ اقدام شروع ہی سے ان کے لئے ضرر رساں ثابت ہو رہا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ استکباری محاذ کی پوری کوشش یہ تھی اور آج بھی ہے کہ فلسطین کا نام اور فلسطین کا ذکر بھلا دیا جائے، لوگوں کے ذہنوں سے اسے مٹا دیا جائے۔ لیکن جو اقدام انھوں نے کیا ہے وہ اس کے برخلاف اس بات کا سبب بنا کہ مسئلہ فلسطین پھر زندہ ہو گیا۔ آج ساری دنیا فلسطینیوں کی مظلومیت اور اس بارے میں بات کر رہی ہے کہ فلسطینی حق بجانب ہیں۔ لوگ امریکہ کی مذمت کر رہے ہیں۔ ان چار خائن عرب رہنماؤں کو نہیں دیکھنا چاہئے، جنہوں نے جاکر تالیاں بجائیں۔ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، ان میں کوئی لیاقت نہیں ہے۔ خود اپنے عوام کے اندر ان کی کوئی عزت نہیں ہے۔ لہذا یہ اقدام ان کے نقصان میں رہا۔ اس وقت فلسطین کے مسئلے میں پہلے سے زیادہ جان پڑ گئی۔ دنیا میں فلسطینی گروہوں کا ذکر نمایاں ہو گیا، فلسطین کا ذکر بڑھ گیا اور ان کی مظلومیت اور بھی واضح ہو گئی۔ تو اس منصوبے کی یہ حالت ہے۔ وہ ابھی کوششیں کریں گے کہ اس منصوبے کو کسی طرح آگے لے جائیں۔ وہ اپنا کام آگے بڑھانے کے لئے پیسے اور اسلحے کی مدد لے رہے ہیں۔ کچھ کو رشوت کے ذریعے اور کچھ کو ہتھیار دکھاکر لالچ دلاتے اور ڈراتے ہیں۔ ان کا طریقہ کار یہ ہے۔

مسئلہ فلسطین کا علاج کیا ہے؟ اس کا علاج ہے شجاعانہ استقامت و مزاحمت۔ فلسطینی قوم، فلسطینی افراد، فلسطینی تنظیمیں قربانیوں پر مبنی اپنے جہاد سے صیہونی دشمن اور امریکہ پر عرصہ حیات تنگ کر دیں! اس کا بس یہی راستہ ہے اور تمام دنیائے اسلام بھی ان کی مدد کرے! تمام مسلمان اقوام فلسطینیوں کی پشت پناہی کریں، ان کی حمایت کریں! علاج یہی ہے۔ البتہ میرا نظریہ یہ ہے کہ مسلح فلسطینی تنظیمیں ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں گی، استقامت جاری رکھیں گی، راہ حل مزاحمت ہی ہے۔

خوش قسمتی سے آج مغربی ایشیا میں مزاحمت و استقامت فلسطین تک محدود نہیں ہے۔ فلسطین سے وسیع تر دائرے میں یہ استقامت موجود ہے اور روز بروز ان شاء اللہ یہ مزاحمت بڑھتی جائے گی۔ ہم اسلامی جمہوری نظام کی حیثیت سے اپنا فریضہ سمجھتے ہیں کہ فلسطین کی مجاہد تنظیموں کی پشت پناہی کریں۔ جس طرح بھی ممکن ہو، جس حد تک بھی ممکن ہو اپنے پورے وجود سے ان کی حمایت کریں۔ یہ اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران کی مرضی ہے۔ ان شاء اللہ ان کی طاقت بڑھے گی اور وہ اپنے دشمنوں کو کمزور کر دیں گے۔

مسئلہ فلسطین کا اساسی اور بنیادی حل وہی ہے جو چند سال قبل ہم نے بیان کیا اور اسے اہم بین الاقوامی مراکز میں نوٹ بھی کیا گيا۔ تمام اصلی فلسطینی عوام کے درمیان، یعنی وہ لوگ نہیں جو کسی اور ملک سے آئے ہیں اور آکر فلسطین میں بس گئے ہیں، بلکہ ان کے درمیان جو اصلی فلسطینی ہیں، خواہ وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی ہوں، فلسطینیوں میں کچھ مسلمان ہیں، کچھ عیسائی ہیں اور کچھ یہودی ہیں، ان کے درمیان ریفرنڈم کرایا جائے۔ ان کی پسند کا نظام حکومت تشکیل پائے، وہ نظام پورے فلسطین پر حکومت کرے۔ صرف وہاں نہیں جسے وہ مقبوضہ فلسطین کہتے ہیں، وہ فلسطین کے ایک حصے کو مقبوضہ فلسطین کہتے ہیں، پورے فلسطین میں ایک حکومت عوام کی مرضی کے مطابق تشکیل پائے اور فلسطین کے بارے میں فیصلہ کرے۔ نیتن یاہو جیسے افراد اور دوسروں کے بارے میں بھی وہی فیصلہ کرے۔ یہ اختیار ان کے پاس ہے۔ فلسطین میں امن و صلح کا اور مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کا واحد راستہ یہی ہے۔

ان شاء اللہ یہ مشن آگے بڑھے گا اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ نوجوان وہ دن ان شاء اللہ دیکھیں گے اور ان شاء اللہ توفیق خداوندی سے بیت المقدس میں جو ان کے لئے بہت اہم مسئلہ ہے، آپ نماز ادا کریں گے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمارے سروں پر، ہمارے ملک پر، ہمارے عوام پر جہاد فی سبیل اللہ اور مجاہدین فی سبیل اللہ کا سایہ قائم و دائم رکھے۔

و السّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته

1. پہلی سے لے کر گیارہویں فروری تک اسلامی انقلاب کی کامیابی کے دس دنوں کو ایران میں عشرۂ فجر کہا جاتا ہے۔

2. امریکا کے صدر کی حیثیت سے ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کی طرف اشارہ ہے جو عوام کے کم ووٹ حاصل کرنے کے باوجود الیکٹورل ووٹوں کے ذریعے اپنی حریف سے جیت گئے تھے۔

3 . ایران کے انتخابی قانون کی رو سے الیکشن کے پہلے مرحلے میں جیتنے کے لیے پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے ہوتے ہیں لیکن اگر کوئي بھی امیدوار پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کر سکے تو دوبارہ انتخابات ہوتے ہیں اور اس مرحلے میں جو امیدوار زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے، وہی فاتح ہوتا ہے۔

۴) سورہ نور آیت نمبر 5 کا ایک حصہ

۳. سوره‌ نور، آیت ۴۹؛ «اور اگر وہ حق بجانب ہیں تو اطاعت شعاری کا ثبوت دیتے ہوئے ان کی طرف آتے ہیں۔»

۵)  خطبہ نماز جمعہ تہران مورخہ 17 جنوری 2020

۶) 7 جنوری 2020 کو ایران کی پارلیمنٹ نے امریکہ کی طرف سے ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب فورس کو دہشت گرد تنظیم قرار دئے جانے کے جواب میں ایک بل پاس کیا جس میں امریکی فوج کو دہشت گرد ادارہ قرار دیا گیا اور امریکیوں سے سخت  انتقام لئے جانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

۷) حاضرین کے نعرے