رہبر انقلاب اسلامی نے ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر ہونے والے قوم سے اپنے خطاب میں انتظار کے حقیقی و تعمیری معنی یعنی گشائش اور فرج کی امید و عقیدے، اور روشن مستقبل کے لئے جد وجہد اور اقدام پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ حالیہ بیماری کے امتحان میں ملت ایران کی کارکردگی شاندار رہی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہدایات پر عملدرآمد کرتے ہوئے عمومی نظم و ضبط کی روش بہت اچھی رہی البتہ بعض کمزور طبقات کی زندگی سختیوں میں گزر رہی ہے، چنانچہ عہدیداران کو چاہئے کہ ان کی مدد کے پروگراموں پر فوری اور بنحو احسن عمل کریں اور عوام الناس بھی اس سال کے ماہ رمضان کو ضرورت مندوں کی مدد کی ہمہ گیر مشق میں تبدیل کر دیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امام زمانہ علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے ملت ایران، دنیا کے تمام مسلمانوں اور آزاد منش انسانوں کو مبارکباد پیش کی اور فرمایا کہ دست قدرت خداوندی، ایک معصوم کی امامت اور امام مہدی سے موسوم عظیم حقیقت کی ضرورت کا دنیا کے دانشوروں کا آگاہانہ احساس اور قوموں کے اندر عوام کا لا شعوری احساس اس حقیقت کی علامت ہے کہ گوناگوں مکاتب فکر اور انسانوں کے مختلف مسلک اپنے تمام تر دعووں کے برخلاف اقوام کو آسودگی اور خوش بختی سے ہمکنار نہیں کر سکے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے سائنسی پیشرفت کے باوجود انسانی معاشرے کو در پیش گوناگوں مشکلات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ناانصافی، غربت، بیماری، معصیت، گناہ، وسیع طبقاتی فاصلہ اور بڑی طاقتوں کے ہاتھوں علم کا غلط استعمال سبب بنا ہے کہ دنیائے انسانیت خستہ حالی، اضطراب اور مشکلات میں مبتلا رہے اور ساری دنیا میں ایک نجات دہندہ کی ضروروت شدت سے محسوس کی جائے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے علم و خرد اور تجربات کو اللہ کی عظیم نعمت اور بہت سی مشکلات کا حل قرار دیا، تاہم یہ یاد دہانی بھی کرائی کہ علم و خرد سے جیسا کہ اب تک ثابت ہو چکا ہے، نا انصافی کی گرہ کھل نہیں سکتی بلکہ انسان کی یہ ازلی آروز پوری ہونے کے لئے ایک دست قدرت خداوندی کی ضرورت ہے اور یہی وجہ ہے کہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کا سب سے بڑا مقصد زمین کو عدل و انصاف سے معمور کرنا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ حضرت صاحب الزماں کے ظہور کے زمانے میں جس عدل و انصاف کے قائم ہونے کا وعدہ کیا گيا ہے وہ انسانی زںدگی کے تمام شعبوں، طاقت، ثروت، سلامتی، انسانی وقار اور سماجی منزلت ہر جگہ قائم ہونے والا انصاف ہے۔ آپ نے فرمایا کہ لطف و قدرت خداوندی سے یہ وعدہ امام زمانہ کے ہاتھوں یقینا پورا ہوگا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تمام دنیا میں 'عظیم الہی تحریک اور گشائش' کا ذکر موجود ہونے کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ اسلام میں گشائش کا انتظار در حقیقت امید، جد و جہد، اقدام سے آراستہ ایک تعمیری انتظار ہے، چنانچہ جیسا کہ پیغمبر خاتم اور ائمہ ہدی علیہم السلام نے فرمایا، فرج کا انتظار اہم ترین مرتبہ اور عظیم ترین عمل ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ حضرت صاحب الزمان کے ظہور کا انتظار در حقیقت انتظار کا سب سے اہم مصداق ہے۔ آپ نے فرمایا کہ البتہ فرج اور گشائش کا انتظار زندگی کے تمام امور پر توجہ کے ساتھ ہونا چاہئے، اسی لئے فرج کا انتظار بذات خود بھی ایک گشائش ہے کیونکہ انسان کو مایوسی اور بے چارگی سے نجات دلاتا ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ امت محمدی کو کسی بھی حادثے میں مایوس اور نا امید نہیں ہونا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ فرج کے انتظار کا مطلب بیٹھے رہنا، بے عملی اور دروازے کو تکنا نہیں، بلکہ اس کا مطلب اس روشن مستقبل کے لئے جس کا وعدہ کیا گيا ہے، آمادہ ہونا اور اقدام کرنا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ مہدوی معاشرہ تشکیل دینے کے لئے خود سازی بھی کرنا ضروری ہے اور جہاں تک ممکن ہو دیگر افراد اور ارد گرد کے ماحول کو امام مہدی کے معاشرے سے حتی الوسع قریب کرنا بھی ایک فرض ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ حقیقی انتظار بے صبری اور حضرت کے ظہور کے لئے خاص مدت معین کرنے کے منافی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ فرج کے لئے خود کو آمادہ کرنے کے عمل میں بے صبری اور عجلت پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ انسانوں کی جلدبازی اور عجلت پسندی کی بنیاد پر اللہ تعالی فیصلہ نہیں کرے گا اور دوسری بات یہ ہے کہ ہر واقعے کا خاص وقت اور حکمت ہے اور اسی حکمت کے مطابق وہ انجام پاتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دنیا میں کورونا کی بیماری سے پیدا ہونے والے حالات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انتظار فرج کا ایک مطلب سختی کے بعد گشائش اور آسانی بھی ہے، اسی لئے انتظار کرنے والا انسان ایسی بلاؤں سے مایوس اور مضطرب نہیں ہوتا بلکہ اطمینان سے رہتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ یہ حالات یقینا بدلیں گے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی طرح دعا اور مناجات کو فکری آسودگی کا باعث قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ شعبان اور رمضان کے بابرکت مہینوں میں عالی مضمون کی حامل بہت سی دعائیں ہیں اور اللہ تعالی سے مناجات اور طلب نصرت اور ائمہ علیہم السلام سے راز و نیاز کر کے رحمت خدا کے نزول کا راستہ کھولا اور سکون حاصل کیا جا سکتا ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کورونا کی بلا کو پوری دنیا کی حکومتوں اور اقوام عالم کے لئے ایک امتحان قرار دیا اور فرمایا کہ در حقیقت اس بلا میں حکومتوں اور قوموں دونوں کا امتحان ہے البتہ ایران کے عوام اس امتحان یعنی کورونا جیسی ماڈرن بیماری کے مرحلے میں سرخرو رہے ہیں اور اس مہم میں ملک کے سبھی سول اور عسکری اداروں اور عوام نے ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیا ہے-
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ پورے ملک میں لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ دل کھول کر تعاون کیا اور جس سے جتنا بھی ممکن تھا اس نے دوسرے کی مدد کی اور یہ حقائق ایرانی عوام میں ایک گہری اسلامی ثقافت و تعلیمات کا پتہ دیتے ہیں جبکہ اس کے برخلاف مغربی تہذیب و تمدن نے اپنا اصلی چہرہ دکھا دیا-
آپ نے فرمایا کہ جو کچھ امریکا اور مغرب میں اس دوران پیش آیا، اُس میں سے کچھ کو ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا اور کچھ کو نہیں دکھایا گیا، وہ سب مغربی تہذیب و تمدن کا نتیجہ ہے-
آپ نے فرمایا کہ ایک حکومت کسی دوسری حکومت اور قوم کے ذریعے خریدے گئے ماسک دستانے جھپٹ لے جائے، یا وہاں کے لوگ چند گھنٹے کے اندر پوری دوکان خالی کر دیں اور سامان کی قلت کے خوف سے زیادہ سے زیادہ خرید کر گھروں میں اسٹاک کر لیں یا پھر ٹوائلٹ پیپر کے لئے ایک دوسرے کی جان لینے کو تیار ہو جائیں یا پھر علاج کے دوران سن رسیدہ مریضوں کو نظر انداز کر کے انکی بنسبت کم عمر کے بیماروں کاعلاج کریں، یہ سب مغربی ثقافت و تمدن کی دین ہے-
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ابھی چند روز قبل ہی ایک مغربی ملک کے سینیٹر نے کہا تھا کہ وحشی مغرب پھر زندہ ہو گیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب ہم کہتے کہ مغرب میں وحشیانہ جذبہ ہے جو ان کے آراستہ، معطر اور ٹائی سے مزین ظاہر سے کوئی تضاد نہیں رکھتا تو کچھ لوگ تعجب اور انکار کرتے ہیں۔ اب وہ خود کہتے ہیں کہ یہ وحشی مغرب کے زندہ ہو جانے کی نشانی ہے۔
آپ نے فرمایا کہ کورونا انسانیت کے لئے ایک بڑی مشکل ہے لیکن ماضی کی مشکلات کے مقابلے میں یہ بہت معمولی مسئلہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بتیس سال قبل انہی دنوں صدام کے طیاروں نے ایران اور خود اپنے ملک عراق کی سرحدوں کے اندر رہائشی علاقوں پر کیمیکل بم گرا کر ہزاروں افراد کو موت کی نیند سلا دیا تھا اور اس وقت بڑی طاقتوں نے صدام کا ساتھ دیا تھا اور انہی بڑی طاقتوں نے یہ کیمیاوی ہتھیار صدام کو دئے تھے اور آج تک کسی نے کوئی حساب اور جواب نہیں دیا۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ دو عالمی جنگوں میں دسیوں لاکھ افراد مارے گئے۔ ویتنام کی جنگ میں بھی انسانوں کا قتل عام ہوا اور دیگر جنگوں منجملہ عراق پر حملے میں بڑی تعداد میں عراقی عوام شہید ہوئے-
رہبر انقلاب اسلامی نے خبردار کیا کہ کورونا کا مسئلہ ہمیں دشمنوں اور سامراج کی سازشوں سے غافل نہ کر دے- آپ نے فرمایا کہ سامراج کی دشمنی اسلامی جمہوری نظام سے ہے اور سامراج اسے ہضم نہیں کر پا رہا ہے۔