15 فروی 2020 کو حاضرین سے اپنے اس خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیا کہ اہل بیت علیہم السلام کی مدح سرائی کرنے والے شعرا اور نوحہ و مرثیہ خوانوں کا سب سے اہم فریضہ معاشرے میں بالخصوص نوجوانوں کے درمیان دینی تعلیمات کی ترویج اور ثقافت سازی کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی طرز زندگی کے سلسلے میں ثقافت سازی کرنا بالخصوص سماجی یکجہتی، امداد باہمی، رزمیہ جذبے، استقامت اور بصیرت کو معاشرے میں گہرائی تک اتارنا شعرا، مدح سراؤں اور نوحہ خوانوں کی موثر اور فیصلہ کن صنف کی اہم ذمہ داری ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ آلاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین ۔ اللھمّ صل علی فاطمۃ و ابیھا و بعلھا وبنیھا والسّرّ المستودع فیھا۔
عزیز بہنوں اور بھائیو! خوش آمدید۔ آپ مداحان اہلبیت علیہم السّلام کا کردار بہت موثر اور فیصلہ کن ہے۔ آپ بہت موثر لوگ ہیں ۔ بعض حالات میں آپ کی بات، آپ کا کردار اور آپ کے پروگرام فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ آج بھی ہم بہت مستفید ہوئے ۔ میں واقعی تہہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جناب قاری صاحب، پروگرام پیش کرنے والوں، مداحان محترم، شعرائے کرام، پروگرام کے ناظم صاحب، سبھی کا شکر گزار ہوں۔ بہت اچھی محفل تھی۔ ہم بہت زیادہ مستفید ہوئے ۔
مداح حضرات کے ذمے ایک بہت بڑا کام ہے اور وہ محافل و مجالس عزا کو چلانا ہے۔ آپ مذہبی محفلوں اور عزاداری کی مجالس کو چلاتے ہیں، انہیں سمت دیتے ہیں اور خاص رخ پر لے جاتے ہیں۔ جن معاشروں میں یہ بات نہیں ہے، یہ مجلسیں اور محفلیں نہیں ہیں، جن کے ہاں یہ عزاداری اور خوشیوں کے اجتماعات، محفلیں نہیں ہیں، وہ اس کی کمی کو محسوس کرتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ کسی طرح اس خلا کو پر کرنا چاہتے ہیں، لیکن ممکن نہیں ہے، یہ آپ کا کام ہے اور یہ روش کوئی آج اور کل کی بات نہیں ہے بلکہ آئمہ علیہم السلام کے زمانے سے رائج ہے۔ آپ دیکھیں کہ دعبل اور ان کے جیسے افراد کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ان کا شوق بڑھایا جاتا ہے، ان کے قصیدے وغیرہ سنے جاتے ہیں اور ان سے اس کام کو جاری رکھنے کے لئے کہا جاتا ہے۔ آج آپ بھی وہی کام کر رہے ہیں، آج یہاں ہمارے دوستوں نے جو کام کیا ہے، یہ وہی کام ہے ۔
واقعہ کربلا کا بیان اور شہدائے کربلا کی عزاداری رائج ہوئي اور آئمہ علیہم السلام اس کی ترویج کرتے تھے اور یہ سلسلہ آج تک باقی ہے۔ بعض ادوار میں، روشن خیالی کے بعض نظریات میں عزاداری کو کمزوری کی علامت قرار دیا گیا لیکن اس تصور کے برخلاف، گریہ کمزوری نہیں ہے، گریہ ارادہ ہے ، گریہ عزم ہے۔ گریہ میدان میں موجود انسان کے اعلی جذبات و احساسات کا بیان ہے۔ آج شہیدوں کی عزاداری اسی طرح ہے۔ آج شہیدوں کی تشییع جنازہ، شہیدوں کی مجالس عزا اور شہیدوں کے نام کا تذکرہ ، عزاداری ہے۔ اس میں گریہ بھی ہے، لیکن یہ عزت، طاقت اور شجاعت کے احساس کا وسیلہ ہے۔ ابھی ہمارے عزیز شہید (جنرل قاسم سلیمانی) کی تشییع جنازہ میں آپ نے دیکھا کہ پورے ملک میں کیا ہوا صرف ہمارے ہی ملک میں نہیں بلکہ اس ملک سے باہر بھی ان شہیدوں، شہید جنرل قاسم سلیمانی اور شہید جنرل ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے دیگر شہیدوں کو کس طرح خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ کتنی عظیم باتیں دیکھنے کو ملیں۔ مجالس عزا کو جہت دینے کا مطلب یہ ہے۔ یعنی آپ مجالس عزا اور عوام کی عزاداری کو آئمہ کی بتائي ہوئي سمت دیتے ہیں، ان مجالس کو اس رخ اور جہت پر لے جاتے ہیں جس کی معاشرے کو ضرورت ہے ۔ آپ بہت اچھی طرح یہ کام کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں۔
آج ملک کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہمارے نوجوان نرم جنگ کے انواع و اقسام کے اسلحے سے لیس ہوں۔ یعنی ان کی فکری اور نفسیاتی توانائی کی تقویت ہو۔ میں نے ملک کے طاقتور ہونے کی بات بارہا کی ہے۔ ملک کو طاقتور بنانے کے لئے جو باتیں ضروری ہیں ان میں سے ایک بہت ہی ضروری اور فیصلہ کن بات یہ ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو تیار کریں، انہیں صحیح فکر اور تفکر کے اسلحے سے لیس کریں جو اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات میں ہیں، فاطمی تعلیمات میں ہیں۔ یہاں میں اس کا ایک چھوٹا سا نمونہ بیان کروں گا۔
ہماری امیدیں نوجوان نسل سے وابستہ ہیں اس لئے کہ یہی نسل ملک کا مستقبل ہے۔ ملک کا مستقبل آپ نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو فولادی عزم و ارادے کا مالک، محکم اور صاحب بصیرت ہونا چاہئے۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں، کہاں پہنچنا چاہتے ہیں اور انہیں یہ راستہ کس طرح طے کرنا چاہئے۔ انہیں اہلبیت علیہم السّلام کی تعلیمات کی ضرورت ہے۔ یہ اسلحہ اسلامی نظام، معاشرے اور اسلام و مسلمین کے تحفظ کے لئے ضروری ہے۔ بنابریں ہمیں تعلیمات اہلبیت علیہم السلام کی ضرورت ہے۔
آپ مداحان اہلبیت علیہم السلام بہت ہی اہم کام کر رہے ہیں، میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم ہدایت کی ذمہ داری پر، جس طرح میں نے عرض کیا، اس طرح عمل نہ کریں تو خدا کے سامنے جواب دینا ہوگا؛ یعنی جب ہم پر ایک فریضہ عائد ہوا تو ہمیں اس فریضے پر عمل کرنا چاہئے۔ اگر عمل نہ کیا تو خداوند عالم غضبناک ہوگا۔
آپ قرآن میں دیکھیں کہ خدا کے بڑے پیغمبر، حضرت یونس علیہ السلام نے اپنی قوم پر غصہ کیا۔ ہمارے نقطہ نگاہ سے کوئی غیر معقول کام بھی نہیں کیا تھا۔ انھوں نے برسوں اپنی قوم کو صحیح راستے کی ہدایت کی لیکن وہ کفر اور گمراہی پر مصر رہی۔ اب وہ اور کیا کرتے؟ غصہ کیا اور ان کے درمیان سے چلے گئے۔ لیکن خدا کی منطق یہ ہے کہ انہیں غصہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ و ذا النّون اذ ذھب مغاضبا فظنّ ان لن نقدرعلیہ (2) انہوں نے سوچا کہ میں ان پر سختی نہیں کروں گا۔ فنادی فی الظلمات ان لا الہ الّا انت (3) خداوند عالم نے انہیں اس عجیب حادثے سے دوچار کیا کہ اگر وہ یہ ورد نہ کرتے، یہ توسّل نہ کرتے، للبث فی بطنہ الی یوم یبعثون (4) تو تا قیامت وہیں رہتے۔ دیکھئے! چونکہ وہ پیغمبر ہیں اس لئے ان کے لئے تنبیہ بھی دوسروں سے سخت تر ہے۔ اگر ہم پر کوئي ذمہ داری ہو اور ہم اس پر عمل نہ کریں تو خدااس کی سزا دے گا۔ فظنّ ان لن نقدر علیہ (5) سوچتے ہیں ہم ان پر سختی نہیں کریں گے، نہیں! سختی کریں گے۔ خدا سختی کرے گا۔ اگر آپ شاعر ہیں، مداح ہیں، خطیب ہیں، واعظ ہیں، تو جتنی آپ کی معرفت زیادہ ہے، جتنا معنوی رتبہ زیادہ ہے بار گاہ عدل الہی میں، درگاہ خداوند عالم ميں آپ سے توقع بھی زیادہ ہے۔ یہ بات ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے اور اپنے فریضے کی ادائيگی میں خداوندعالم سے نصرت کی دعا بھی کرنی چاہئے۔
اگر مجالس وغیرہ میں اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات پہنچا دیں تو سمجھ لیں کہ یہ ایسا ذخیرہ ہوگا جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔ آج جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ آپ کا ملک، آپ کا معاشرہ، انواع واقسام کے دباؤ کے مقابلے میں حیرت انگیز تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے، میں ان کی باتیں پڑھتا ہوں، دیکھتا ہوں اور سنتا ہوں۔ ایرانی قوم کا تحمل عالمی مبصرین کے لئے حیرت انگیز ہے۔ وہ تعجب کرتے ہیں۔ یہ دباؤ جو وحشی شیطان امریکا ڈال رہا ہے، دیگر اقوام میں اس کے مقابلے میں اس تاب و تحمل کا ایک چوتھائی اور پانچواں حصہ بھی نہیں ہے۔ لیکن ایرانی قوم محکم و استوار اپنی جگہ پر ڈٹی ہوئی ہے۔ بائیس بہمن (یوم آزادی) اور اس سے پہلے سردار محاذ استقامت شہید جنرل قاسم سلیمانی کی تشییع جنازہ میں عوام کی شرکت نے سب کو متحیر کر دیا کہ یہ کیسی محکم قوم ہے۔ یہ انہیں تعلیمات اہلبیت کی برکت ہے۔ انہیں محافل ومجالس کی برکت ہے۔ حسین ابن علی کے نام اور ان کی یاد اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی یاد کی برکت ہے۔
ایک مسئلہ جو ان مجالس میں فضل الہی سے ضرور بیان ہونا چاہئے، وہ اسلامی طرز زندگی کا مسئلہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ حضرات اپنے مطالعات و تحقیقات میں ائمہ علیہم السلام کے سبک زندگی پر کام کریں۔ ہمارے ممتاز اور پختہ عقیدے کے مالک شعرا جن میں سے کچھ کو آج یہاں سنا گیا، اس کو شعری پیکر میں ڈھالیں اور مجالس و محافل میں پڑھیں تاکہ اس کو ایک ثقافت بنا لیا جائے۔ اگر ہم دشمن محاذ کی یلغار کے مقابلے میں، طرز زندگی کو صحیح طور پر اسلامی بنانا چاہتے ہیں تو اس کا راستہ یہی ہے۔ یعنی اس کو ثقافت اور کلچر بنایا جائے۔ دیکھئے آپ دعا میں کہتے ہیں کہ "اللّھمّ اجعل محیای محیا محمد وآل محمد و مماتی ممات محمد و آل محمد۔ (6) (یعنی میرے اللہ ہماری زندگی کو محمد و آل محمد کی زندگی اور ہماری موت کو محمد و آل محمد کی موت قرار دے: مترجم) محیا کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے طرز زندگی کو ان کی زندگی جیسا قرار دے۔ یعنی طرز زندگی۔ ہم یہ چاہتے ہیں۔ ہمیں اس کا حکم دیا گیا ہے کہ یہ کہیں، چاہیں اور انجام دیں۔ اس طرز زندگی کے مسئلے پر کام ہونا چاہئے۔
افسوس کہ دشمن نے ہمارے ملک سمیت اسلامی ملکوں میں، خود سے وابستہ سربراہوں کی خیانت اور کمزوری سے فائدہ اٹھاکے اپنا طرز زندگی رائج کر دیا۔ ہم اگر ملک کے اندر بے راہروی، اسراف اور گوناگوں مشکلات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو اس کی وجہ اسلامی طرز زندگی اور اسلامی راہ و روش سے دوری ہے۔ اسلامی طرز زندگی رائج کرنے کے لئے، اس کو ثقافت اور کلچر بنانا ضروری ہے۔ ثقافت اس وسیلے سے تیار ہوگی اور آپ لوگ زیادہ بہتر انداز میں عوام کے درمیان اس ثقافت کو عام کرکے، حقیقی معنوں میں اسلامی طرز زندگی رائج کر سکتے ہیں۔
ہمارے درمیان جو دعائیں موجود ہیں، ماثورہ دعائيں، وہ دعائيں جو آئمہ علیہم السلام سے ہم تک پہنچی ہیں، ان میں، گریہ و زاری ہے، توجہ ہے، انس، صفا اور خاص حالت گریہ ہے، یہ سب اپنی جگہ، لیکن ان باتوں کے ساتھ ہی یہ دعائيں درس ہیں۔ یعنی یہ دعائيں ذہن انسان میں ایک فکر بیدار کرتی ہیں، انسان کو ایک نیا تفکر عطا کرتی ہیں۔ جب آپ دعا میں پڑھتے ہیں: "اللّھمّ اغننی عن ھبۃ الوھّابین بھبتک واکفنی وحشۃ القاطعین بصلتک" تو اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ اگر پوری دنیا آپ سے کٹ جائے، لیکن آپ خدا سے متصل ہوں تو کوئی ڈر نہیں ہے۔ حتی لا ارغب الی احد بذلک ولا استوحش من احد مع فضلک (7) یہ درس ہے۔ یہ ہمیں ایک فکر عطا کرتا ہے۔ یہ ہمیں ہماری آئندہ زندگی کے بارے میں ایک فکر و تجزیہ عطا کرتا ہے کہ ہم منصوبہ بندی کریں، خدا سے متصل رہیں، اس سے رابطے میں رہیں ، دوسروں کے کٹ جانے کے اندیشے اور دشمنوں سے خوف و ہراس میں مبتلا نہ ہوں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو صدر اسلام، یعنی اسلام کے ابتدائی دور میں بھی ہوئيں۔ آج بھی آپ یہ باتیں دیکھتے ہیں۔ اگر انقلاب کے ابتدائي دور میں کچھ لوگ کہتے تھے کہ یہ اسلامی معاشرہ، اسلامی انقلاب، علمی و سائںسی لحاظ سے ٹیکنالوجی کے اس رتبے پر، اس سیاسی رتبے پر، علاقائی اثر ورسوخ کے اس رتبے پر پہنچے گا تو کوئی یقین نہیں کرتا تھا؛ لیکن آج یہ ہوا ہے۔ اس لئے کہ آپ کا بھروسہ خدا پر تھا اور اسی توکل کے ساتھ آپ نے کام کیا۔ البتہ خدا پر توکل کا مطلب بیکار، ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیٹھ جانا نہیں ہے۔
اب حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں کچھ باتیں۔ آپ کا روحانی درجہ ہم جیسے معمولی انسانوں کے تفکر کی پہنچ سے بہت بالاتر ہے۔ اللہ والے اور خدا کے خاص بندے عالم معنی میں کچھ باتیں سمجھتے ہیں، لیکن حق یہ ہے کہ ہم جیسے لوگ آپ کے رتبے سے واقف نہیں ہیں اور آپ کے اس مرتبہ قدسی کو اور " والسّرّ المستودع فیھا' (8) کو نہیں سمجھتے، واقعی ہم اس کا ادراک نہیں کر سکتے۔ لیکن زندگی کی عام روش کو دیکھتے ہیں، ان کا مشاہدہ کرتے ہیں، اس سے استفادہ کرتے ہیں اور اس سے درس حاصل کرتے ہیں۔ آپ کے بارے میں جو باتیں مشہور ہیں وہ آپ کا حجاب اور باطل کے مقابلے میں حق کو ثابت کرنے کے لئے آپ کی استقامت اور ولایت کا دفاع ہے۔ ان باتوں کا ذکر ہوتا ہے اور بار بار ہوتا ہے۔ لیکن تعلیمات فاطمی کا ایک اہم حصہ دوسروں کی مدد کا مسئلہ ہے۔ آج میں، آپ کی اسی سماجی یک جہتی اور دوسروں کی مدد کے پہلو پر کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جب آپ کے فرزند آپ سے پوچھتے ہیں کہ مادر گرامی آپ ہمیشہ دوسروں کے لئے ہی کیوں خدا سے گڑگڑاتی ہیں اور دعا کرتی ہیں؟ تو جواب ملتا ہے " یا بنی الجار ثمّ الدّار" (9) بیٹے پہلے پڑوسی پھر ہم خود؛ یہ ایک درس ہے، یہ ایک روش ہے، یہ ایک سماجی ذمہ داری ہے جو ہم کو سکھائی جاتی ہے۔ اسی طرح مسکین، یتیم اور اسیر کے واقعے میں، جس کا ذکر خداوند عالم اتنی عظمت کے ساتھ سورہ دہر میں فرماتا ہے۔ سترہ اٹھارہ آیات میں اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ اتنا اہم ہے کہ "و یطمعون الطعام علی حبہ! مسکینا، و یتما و اسیرا، انما نطعمکم لوجہ اللہ" (10) یہ واقعہ ایک مثال ہے۔ ان ہستیوں نے، گھر کے سبھی افراد نے اپنی بھوک برداشت کی اور یتیم ، مسکین اور اسیر کی مدد کی۔ عملی طور پر یہ واقعہ رونما ہوا۔ لیکن یہ ایک علامت اور مثال ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اس وقت یہ فرما سکتی تھیں کہ مسجد النبی میں جاؤ وہاں اسلامی حکومت ہے۔ آج بھی بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ گدا پروری کیوں کرتے ہو، اسلامی حکومت ہے، اس کو ان کی مدد کرنا چاہئے۔ جی نہیں، حکومت کے فریضے سے معاشرے کا فریضہ ساقط نہیں ہو جاتا۔ معاشرے میں ایک دوسرے کی مدد کرنا انسانوں کا فریضہ ہے۔ مالی مدد کرنا بھی، فکری مدد کرنا بھی عزت و آبرو کے تحفظ کے حوالے سے بھی مدد کرنا آپس میں انواع و اقسام کی مدد کرنا، معاشرے میں رائج ہونا چاہئے۔ یہ درس و تعلیم فاطمی ہے۔
آج ہمارے معاشرے کا ایک مسئلہ نوجوان کا مسئلہ ہے؛ ان کے روزگار کا مسئلہ ہے اور ان کی شادی بیاہ کا مسئلہ ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں زیادہ ہیں لیکن ان کی شادی مشکل اور بعض اوقات ناممکن نظر آتی ہے۔ مدد کرنا چاہئے۔ لوگوں کو اس مسئلے میں مدد کرنا چاہئے، کوشش کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں ثقافتی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
جب بہت ہی وسیع اور ہمہ گیر سطح پر یہ پروپیگنڈہ کیا جائے کہ بچے کم ہونے چاہئیں توہم اسی جگہ پہنچیں گے جہاں آج ہیں کہ ماہر حضرات خبردار کر رہے ہیں کہ بیس تیس سال میں ملک کی آبادی بوڑھی ہو جائے گی ، معاشرہ بوڑھا ہو جائے گا اور بوڑھا معاشرہ چوٹیاں سر نہیں کر سکتا۔ آج تک جتنی بھی ترقی اور پیشرفت حاصل ہوئی ہے وہ نوجوانوں کی وجہ سے ملی ہے۔ میں نے عرض کیا ہے کہ بوڑھے لوگ بیشک کردار ادا کرتے ہیں لیکن انجن نوجوان ہیں۔ اگر معاشرہ قابل نوجوانوں کی آبادی سے محروم ہوجائے تو دشمن اس معاشرے پر مسلط ہوجائے گا۔ اس کے لئے ثقافتی سطح پر کام کی ضرورت ہے اور اس ثقافت کو رواج دینا آپ کا کام ہے ۔ شادی بیاہ میں آسانیاں لانے کے لئے سادگی سے شادی بیاہ کی ثقافت کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ شادی بیاہ میں زیادہ مشکلات اور سختیوں کو دور کرنے کے لئے، ثقافتی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ لوگ یہ کام کر سکتے ہیں۔ مداحان اہلبیت حضرات یہ کام زیادہ اچھی طرح انجام دے سکتے ہیں۔
آپ کی جملہ تعلیمات میں سے ایک ، زور زبرستی کرنے والے کے سامنے نہ جھکنا اور ڈٹ جانا ہے۔ آج یہاں جو قصیدے پڑھے گئے ان میں سے بہت سوں میں اس کا ذکر تھا ۔ یہ بہت صحیح اور بجا ہے۔ اس وقت ایک فکر یہ پائی جاتی ہے کہ ایرانی قوم کو یہ باور کرائيں کہ بھئی اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جاؤ۔ دنیا بھر کی ریڈیو نشریات، دنیا کے ذرائع ابلاغ عامہ ، دشمن کا میڈیا، کچھ تھنک ٹینک اور مفکرین کی برادری ایرانی عوام کو یہ باور کرانے میں لگی ہوئی ہے کہ امریکا کے مقابلے میں پیچھے ہٹنا چاہئے، اس کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے۔ لیکن ہمارے عوام نے اب تک استقامت سے کام لیا ہے، ڈٹے ہوئے ہیں، لیکن مسلسل دینی اور معنوی تقویت کی ضرورت ہے۔ معنوی قوت کو مسلسل زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک تعلیم یہ ہے۔ اسی صحیفہ سجادیہ میں ہے کہ ولاتجعل لفاجر ولا کافر علیّ ۔۔۔ یدا" (11) یعنی مجھے کافر اور فاسق کا احسانمند نہ بنا۔ مجھے ان کا محتاج نہ کر، میری نگاہیں ان پر نہ ہوں، میں ان کے مقابلے میں کمزوری کا احساس نہ کروں۔ جملہ تعلیمات میں یہ بھی ہے کہ خدا سے یہ چاہتے ہیں کہ دشمن کے مقابلے میں اس حالت سے دوچار نہ کرے، اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کے مقابلے میں ہماری یہ حالت نہیں ہونی چاہئے۔
الحمد للہ ہمارے ملک میں رزمیہ جذبہ زندہ ہے۔ جس مسئلے میں بھی لوگوں کی شجاعانہ موجودگی کی ضرورت ہوتی ہے، لوگ پورے جوش وخروش کے ساتھ موجود نظر آتے ہیں۔ لوگ حماسی جوش و خروش کے ساتھ میدان میں نظر آتے ہیں ۔ یہ معنوی جوش وجذبہ زیادہ گہرا اور قوی ہونا چاہئے، خاص طور پر نوجوانوں میں اس کی زیادہ تقویت کی ضرورت ہے۔ ایک مکمل ثقافت اور تہذیب کی حیثیت سے یہ بات ذہنوں میں بٹھا دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ثقافتی انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ آپ کا کام ہے۔ یہ مداحوں کا کام ہے۔ میں جب خود اپنے معاشرے پر نظر ڈآلتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ واقعی مومن، انقلابی اور شجاع مداح حضرات پورے ملک میں سرگرم ہیں اور موثر انداز میں کام کر رہے ہیں۔ کوشش ہونی چاہئے کہ سبھی مداح حضرات اسی طرح کام کریں۔ جو قصیدے اور نوحے وغیرہ پڑھے جاتے ہیں، جس طرح یہ مجالس و محافل منعقد ہوتی ہیں اور زیادہ تر ان میں نوجوان شرکت کرتے ہیں، کوشش یہ ہونی چاہئے کہ یہ نوجوان معنویت سے آراستہ ہوں اور بصیرت و معرفت میں اضافے کے ساتھ یہاں سے اٹھیں۔
الحمد للہ اسلامی حکومت، اسلامی معاشرہ اور اسلامی جمہوریہ بہت خوب ہے۔ ہمارے پاس فوجی جرنیل بہت اچھے ہیں ، بہت اچھے اور پرجوش نوجوان علمی ہستیاں اور سائنسدان موجود ہیں۔ ثقافتی میدان میں کام کرنے والے بہت اچھے، با ہمت، غیرتمند اور فنکار حضرات موجود ہیں ، ہر میدان اور ہر شعبے میں ماہر افرادی قوتیں موجود ہیں، جہاں بھی اسلام، اسلامی حکومت اور نظام اسلامی کو ضرورت ہو، مرد و خواتین سبھی میدان میں پہنچ جاتے ہیں، یہ خدا کے لطف وکرم سے اسلامی جمہوریہ کی حالت ہے اور جیسا کہ میں احساس کرتا ہوں، یعنی درحقیقت دیکھتا ہوں، مشاہدہ کرتا ہوں ، مجھے یقین ہے کہ دشمن کے وسیع محاذ کے مقابلے میں حتمی کامیابی ایرانی قوم کے لئے ہے۔
آخر میں میں اپنے مداح برداران اور خواہران گرامی سے یہ عرض کروں گا کہ آپ کی نظر اور ذہن شریف میں ہمیشہ یہ بات رہے کہ آپ ثقافت اور تہذیب تیار کرنے والی ہستیاں ہیں۔ آپ ثقافت اور تہذیب کی تعمیر کریں ۔ ایسا کام کریں کہ لوگوں کے ذہنوں اور قلوب میں ایک صحیح فکر اورکام مجسم ہو اور باقی و پائیدار رہے ۔ یہ بہت بڑی عبادت ہے ، بہت بڑا نیک کام ہے ان شاء اللہ خداوند عالم آپ کی نصرت کرے گا۔
پالنے والے تجھے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ کے حق کا واسطہ ، ہمیں فاطمی زندہ رکھ اور ایسی حالت میں ہمیں موت عطا فرما کہ ہم فاطمی باقی ہوں۔
پالنے والے تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ ہمیں فاطمی محشور کر۔
پالنے والے ایرانی قوم کو ہر شعبے اور ہر میدان میں کامیاب و سربلند فرما، ہمارے عزیز شہدا کو پیغمبر کے ہمراہ محشور فرما، ہم نے جو کچھ کہا اور سنا اس کو اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے اور اپنی رحمت، لطف و کرم اور فضل کو شامل حال فرما۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ برکاتہ
1۔ اس اجتماع میں پہلے چند مداحوں اور ایک شاعر اہلبیت علیہم السلام نے قصیدے پڑھے
2۔ سورہ انبیا، آیت نمبر 87 کا ایک حصہ
3۔ سورہ انبیا کی آیت نمبر 87 کا ایک حصہ؛۔۔۔۔ یہاں تک کہ تاریکیوں کی گہرائیوں میں آواز دی کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔
4۔ سورہ صافات آیت نمبر 144
5۔ سورہ انبیا آیت نمبر 87 کا ایک حصہ
6۔ کامل الزیارات ص 178
7۔ صحیفہ سجادیہ، پانچویں دعا ( تھوڑے سے فرق کے ساتھ )
8۔ عوالم العلوم جلد 11
9۔علل الشرایع،جلد1 صفحہ 182
10۔ سورہ دہر آیت نمبر 8 اور آیت نمبر 9 کا ایک حصہ" اور خدا کی محبت میں بے نوا، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔ ہم خدا کی خوشنودی کے لئے تمہیں کھانا کھلاتے ہیں'۔۔۔
11۔ اکیسویں دعا