رمضان کا پہلا دن گزر گیا۔ افطار کا وقت آ گیا لیکن مجھے کچھ نہیں دیا گيا۔ کیونکہ فوج اور فوجی جیل کے ماحول میں رمضان کے لئے کسی طرح کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتا تھا۔ میں نے نماز پڑھی اور اس مہینے کی پرانی یادوں میں کھو گیا۔ خاص طور پر افطار کے لمحات کی یاد اور افطار کے موقع پر روزہ داروں کی مسرت کی یاد میں کھو گیا۔ خوشی و مسرت کے ان لمحات کی یاد آئی جب گھر والوں کے ساتھ افطار کے دسترخوان پر جمع ہوتے تھے اور ہمارے  'سماور' (چائے دم کرنے کا مخصوص برتن) میں چائے کا گرم پانی ابل رہا ہوتا تھا۔ اسی طرح وہ مختصر اور ہلکی غذا جو افطار کے لئے ہوتی تھی مجھے یاد آ گئی۔ خصوصا 'ماقوت' کی یاد آئی جو اہل مشہد کی مشہور غذا ہے اور غالبا مشہد والوں سے ہی مخصوص ہے۔ افطار میں مجھے وہ سب سے زیادہ پسند تھی۔ یہ 'ماقوت' پانی، نشاستہ اور شکر سے تیار کیا جاتا ہے اور اسے خاص انداز میں  پکاتے ہیں۔ میری اہلیہ دوسری غذاؤں کی طرح اسے بھی بہت مہارت سے پکاتی ہیں۔ اچانک میں چونکا  اور اللہ سے طلب مغفرت کیا۔ شاید بھوک کی وجہ سے مجھے یہ ساری چیزیں یاد آنے لگی تھیں، یا شاید تنہائی کی وجہ سے ایسا تھا۔ بہرحال صبر کرنا تھا۔

مغرب کے آدھا گھنٹا بعد مجھے ایک کپ چائے مل گئی اور اس کے کچھ دیر بعد رات کا کھانا آ گیا جو بدمزہ تھا اس لئے کھانے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ لیکن میں نے تھوڑا سا کھا لیا اور باقی کھانا سحری کے لئے رکھ دیا۔ سحری کے وقت میں نے اپنے اوپر جبر کرکے بچا ہوا کھانا کھایا۔ کیونکہ کھانا بدمزہ تھا اور باسی ہونے کی وجہ سے اور بھی بدمزہ ہو گيا تھا۔ پہلا دن اس طرح گزر گیا۔

دوسری رمضان کو اچانک مجھے اطلاع ملی کہ آپ کے لئے کچھ سامان آیا ہے۔ میں نے لیکر کھولا تو دیکھا بہت سے کھانے جو مجھے پسند تھے، کئی پلیٹوں میں سجاکر بھیجے گئے ہیں۔ یہ غذا کئی لوگوں کے لئے کافی تھی۔ میری اہلیہ نے یہ کھانے پکائے تھے اور کسی طرح جیل میں بھجوایا تھا۔ اسی دن چائے بنانے کا سامان بھی میرے لئے بھیج دیا گيا تھا۔ تو یہ بڑی ذائقہ دار اور خوش مزہ غذا تھی۔ میں نے اپنی ضرورت بھر اس میں سے نکال لیا اور باقی غذا قیدیوں میں تقسیم کرنے کے لئے دے دی۔ یہی ہر روز ہوتا تھا۔