بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین و صحبہ المنتجبین و من تابعھم باحسان الی یوم الدّین.
برادران وخواہران عزیز خوش آمدید! بہت ہی محبت آمیز پرخلوص اور شیریں جلسہ ہے۔ الحمد للہ مختلف شخصیات نظر آ رہی ہیں۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ دل ایک دوسرے سے زیادہ نزدیک ہوں گے۔
گزشتہ سال اس جلسے میں شہید رئیسی (رضوان اللہ علیہ) موجود تھے اور انھوں نے اپنی خدمات و زحمات کی تفصیلی رپورٹ پیش کی تھی۔ آج ان کی کاوشوں کا نتیجہ لطف و رحمت خدا سے حاصل ہو رہا ہے۔ آپ اعلی حکام ان محنتوں کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھیں۔ زندگی خدا کے ہاتھ میں ہے؛ کل ہم کہاں ہوں گے، کیسے ہوں گے معلوم نہیں ہے۔ اس نظر سے دیکھیں کہ اگر آج آپ نے کوئی خدمت اپنے ذمہ لی ہے تو اسی جذبے سے، اخلاص کے ساتھ اور پوری توانائی سے انجام دیں جو جناب صدر محترم نے بیان کیا ہے۔ اس کا اجر اور انعام اتنا بڑا ہے کہ اس دنیا میں نہیں دیا جا سکتا؛ خداوند عالم بہشت میں، اپنی رحمت کے سائے میں، دوسری دنیا میں، ان شاء اللہ آپ کو اس کا اجر دے گا۔ البتہ اچھے کام کا اثر دنیا میں بھی ہوتا ہے۔
ميں سب سے پہلے تو صدر محترم جناب ڈاکٹر پزشکیان کی تقریر کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بہت وسیع، اچھی اور مفید تقریر کی۔ میری توجہ جس چیز نے اپنی طرف مبذول کی ہے اور میں نے بارہا خود ان سے بھی کہا ہے، وہ جذبات اور کیفیت ہے جو ان کے اندر پائی جاتی ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ یہ احساس اور جذبہ کہ "ہم کر سکتے ہیں، یقینا انجام دیں گے، پیروی کریں گے، خدا پر بھروسہ کرتے ہیں، غیر خدا پر بھروسہ نہیں کرتے" ان کا یہ جذبہ بہت اہم ہے اور ان شاء اللہ نصرت الہی سے یہ کام انجام دیں گے۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ وہ دن زیادہ دور نہیں ہے جب وہ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوں گے اور ان بڑی تمناؤں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھیں گے اور عوام کو اچھی خبر دیں گے اور انہیں خوش کر دیں گے۔
میں نے آج اس جلسے ميں عرض کرنے کے لئے کچھ باتیں رمضان المبارک سے متعلق تیار کی ہیں اور کچھ باتیں ملک کے موجودہ مسائل کے بارے میں، جو ہم سے تعلق رکھتی ہیں، عرض کروں گا۔
رمضان المبارک کے حوالے سے یہ عرض کرنا ہے کہ رمضان کا مہینہ ذکر کا مہینہ ہے، قرآن کا مہینہ ہے اور قرآن بھی کتاب ذکر ہے۔ سورہ حجر میں ہے کہ "انّا نحن نزّلنا الذّکر" (2) اور اسی طرح سورہ انبیاء میں ہے کہ "وھذا ذکر مبارک انزلناہ افانتم لہ منکرون"(3) اور متعدد دیگر آیات بھی ہیں۔ قرآن ذکر ہے، سرچشمہ ذکر ہے، کتاب ذکر ہے۔ "ذکر" کیا ہے؟ ذکرغفلت اور فراموشی کا نقطہ مقابل ہے۔
انسان کی جملہ مصیبتوں میں ایک فراموشی ہے؛ کوئی ضروری کام فراموش کر دیتے ہیں، کوئی مفید بات بھول جاتے ہیں۔ لیکن دو فراموشیاں ایسی ہیں جو ناقابل تلافی ہیں اور ان سے بہت نقصان ہوتا ہے۔ ایک خدا کو بھول جانا ہے، انسان خدا کو فراموش کر دیتا ہے؛ اور دوسری خود فراموشی، خود کو بھول جانا ہے۔ یہ دو فراموشیاں انسان کے مستقبل کو جو نقصان پہنچاتی ہیں، اس کے لحاظ سے ناقابل بیان ہیں۔ خداوند عالم نے ان دونوں ہی فراموشیوں کی طرف قرآن میں اشارہ کیا ہے اور بیان کیا ہے۔ ایک جگہ فرماتا ہے کہ "نسوا اللہ فنسیھم" (4) انھوں نے خدا کو فراموش کر دیا تو خدا نے انہیں فراموش کر دیا۔ خدا کسی کو فراموش کر دے، یہ ایک استعارہ ہے کیونکہ خدا کسی کو یا کسی چیز کو فراموش نہيں کرتا۔ یہ استعارہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا اس کو اپنی رحمت و ہدایت کے دائرے سے باہر کر دیتا ہے؛ خدا کے فراموش کر دینے کا مطلب یہ ہے۔ "نسیھم" یعنی اب خدا اس پر نگاہ کرم نہیں ڈالتا، اس کو بے بہرہ کر دیتا ہے۔ خذلہ اللہ۔ (یعنی خدا نے اس کو اپنی طرف سے بے بہرہ کر دیا) ایک بڑی بد دعا "خذلہ اللہ" ہے۔ "خذلان" یعنی کسی کو اس کے حال پر چھوڑ دینا، اس کی پروا نہ کرنا، مدد نہ کرنا، اس کے بارے میں نہ سوچنا؛ یہ خذلان ہے؛ "نسیھم" کا مطلب یہ ہے۔ اسی لئے دعائے صحیفہ سجادیہ میں، اس معروف دعا میں ایک چیز جو بہت سنجیدگی اور اصرار سے طلب کی جاتی ہے وہ "و لا ترسلنی من یدک ارسال من لا خیر فیہ" ہے ۔(5) اس موقع پر عربی میں ارسال کا مطلب پھینک دینا ہوتا ہے۔ یعنی مجھے اس چیز کی طرح پھینک نہ دے جس کی کوئی حیثیت نہیں ہےاور بیکار ہے۔ ولا ترسلنی من یدک ارسال من لا خیر فیہ۔ یہ خدا کی جانب سے فراموش کر دینا ہے۔ خدا جب کسی کو فراموش کر دیتا ہے تو اس کے لئے یہ حالت اور کیفیت پیدا کر دیتا ہے اور یہ بہت بڑا گھاٹا ہے۔ انسان کی خود فراموشی کا ذکر سورہ حشر میں ہے" و لا تکونوا کالّذین نسوا اللہ فانساھم انفسھم" (6) انھوں نے خود کو بھلا دیا ہے۔ انھوں نے خدا کو فراموش کر دیا تو خدا نے انہيں خود ان کی یاد سے بھی نکال دیا؛ یعنی انہیں خود فراموشی ميں مبتلا کر دیا۔
انسان زندگی کے روز مرہ کے مسائل سے سروکار رکھتا ہے اور انہیں فراموش نہیں کرتا۔ یہ نفس کا بھول جانا، یعنی خدا کسی کو خود فراموشی میں مبتلا کر دے، اس کے بہت گہرے انفرادی معنی بھی ہیں اور اجتماعی معنی بھی ہیں۔ انفرادی حیثیت سے انسان کا خود کو فراموش کر دینا یہ ہے کہ اپنی خلقت کے مقصد کو فراموش کر دے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ اس نے ہمیں کیوں پیدا کیا ہے؟ کس لئے پیدا کیا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ خود خداوند عالم ، اولیاء و پیغبران خدا اور ائمہ ھدی نے بتایا ہے کہ خدا نے ہمیں کیوں خلق کیا ہے۔ خداوند عالم نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ اس کو فضیلت وجود کے اعلی ترین مرتبے تک پنہچا دے۔ اس کو معمولی انسان سے خلیفۃ اللہ میں تبدیل کر دے۔ خلقت انسان کا مقصد یہ ہے۔ اس کو بڑا بنانے کے لئے خلق کیا ہے تاکہ اس کو اعلی مرتبے تک لے جائے۔ قرآن کریم ، روایات میں، معصومین کے ارشادات میں اور اولیا کے فرمودات میں اس کی باربار تکرار کی گئی ہے۔ (خود فراموشی یعنی) انسان اس سے غفلت برتے، اس سے غافل ہو جائے کہ اس کو کس لئے پیدا کیا گیا ہے۔
زندگی کے گزرنے کو فراموش کر دینا بھی خود فراموشی ہے۔ بہرحال یہ زندگی گزر رہی ہے، انسان اس سے غفلت کرتا ہے۔ ہم سب کا ایک انجام ہے جو معلوم ہے:"انّک میت و انّھم میتون" (7) اس انجام کو عربی میں اجل کہتے ہیں۔ ہماری ایک اجل ہے۔ اجل کو فراموش کر دیں۔ یہ اجل ممکن ہے کہ ایک گھنٹے بعد ہو، ممکن ہے کہ ایک دن بعد ہو، ممکن ہے کہ ایک سال بعد ہو، ہر حال میں ہمیں اس کے لئے خود کو آمادہ کرنا چاہئے۔ ایک خود فراموشی یہ ہے۔ دعائے ابو حمزہ میں ہم پڑھتے ہیں" لم امھّدہ لرقدتی" (8) اس کا مطلب یہ ہے کہ "مجھے اس حال میں جو اس وقت میری ہے دنیا سے اٹھالے کہ میں نے خود کو آمادہ نہیں کیا ہے، خود کو تیار نہیں کیا ہے، اپنی قبر تیار نہیں کی ہے، اگر اس حال میں دنیا سے جائيں تو مصیبت ہے! انسان اس بات سے غفلت کرے کہ خود کو تیار کرے، مستقبل کو دیکھے، خدا کے پاس جانے کے لئے آمادہ ہو۔ یہ ذاتی غفلتیں ہیں۔ انسان اس کو دعا سے، گریہ و زاری سے، روزے سے ، خواہشات نفسانی سے خود کو روک کر، جو بات روزے ميں ہوتی ہے، یہ ذکر اور یہ توجہ اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے اور اس خود فراموشی سے خود کو نجات دلا سکتا ہے۔ اگر یہ غفلت برطرف ہو گئی تو سوال الہی انسان کو یاد آ جائے گا اور ہم اس بات پر توجہ دیں گے کہ ہمیں سوال الہی کا سامنا ہے۔ ہم سے سوال جواب کیا جائے گا۔ قرآن کریم ایک آیہ شریفہ میں فرماتا ہے: "فلنسئلنّ الّذین ارسل الیھم ولنسئلنّ المرسلین"(9) ہم ان لوگوں سے جن کے لئے پیغمبر بھیجے، سوال کریں گے اور انہیں جواب دینا ہوگا کہ کیا کیا ہے اور اس سے کس طرح پیش ائے؛ "و لنسئلنّ المرسلین" ہم خود اس پیغمبر سے سوال کریں گے۔ پییغمبر کی عظمت کو نظر میں رکھیں۔ خدا ان سے سوال کرے گا کہ کیا کیا؟ کس طرح پیش آئے؟ ہم اس جگہ ہوں گے۔ (یعنی ہم سے سوال کیا جائے گا)
انسان خدا کو یاد کرے تو اس کی روش بدل جائے گی۔ دعائے ابو حمزہ میں ہم پڑھتے ہیں کہ "اِرحَمنی اِذَا انقَطَعَت حُجَّتی وَ کَلَّ عَن جَوابِکَ لِسانی وَ طاشَ عِندَ سُؤالِکَ اِیّایَ لُبّی" (10) جب قیامت میں محضر الہی ميں انسان سے سوال ہوگا تو انسان بہانہ کرے گا۔ اس سے سوال ہوگا کہ یہ کام کیوں کیا؟ یہ کام کیوں نہ کیا؟ انسان کو جواب دینا ہوگا تو بہانہ کرے گا۔ یہی بہانے بازی جو ہم اس دنیا میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں، کہے گا " اس لئے نہیں ہوا اس لئے نہیں ہوا" تو ہم کو جواب دیا جائے گا کہ یہ بہانہ صحیح نہیں ہے، یہ استدلال ٹھیک نہیں ہے۔ وہاں ہماری دلیل، ہمارا استدلال اور بہانہ رد کر دیا جائے گا کاٹ دیا جائے گا۔ "اِذَا انقَطَعَت حُجَّتی وَ کَلَّ عَن جَوابِکَ لِسانی" سوال الہی پر انسان کی زبان بند ہو جائے گی۔ وَ طاشَ عِندَ سُؤالِکَ اِیّایَ لُبّی؛ ان سوالات پر انسان کا دماغ منتشر ہو جائے گا۔ لیکن اگر ذکر حاصل ہو جائے، یہ حالت انسان میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کو طلب کرتے ہیں، اور یہ چیز ہمارے کردار پر اثرانداز ہوتی ہے۔ خود فراموشی یہ ہے۔ یہ انفرادی خود فراموشی ہے۔
یہاں میں نے ایک نکتہ لکھا ہے، جو عرض کروں گا۔ یہ سوال الہی کا مسئلہ سبھی انسانوں کے لئے ہے۔ "فلنسئلنّ الّذین ارسل الیھم" لیکن ہم حکام سے زيادہ سوال ہوگا۔ اس لئے کہ ہم نے اپنے اختیار سے یہ ذمہ داری اپنے ذمہ لی ہے۔ ہمیں پیش کی گئی اور ہم نے قبول کر لی اور یہ ذمہ داری اپنے ذمہ لی۔ ہمارے لئے یہ سوال الہی سنگین تر ہے۔ ہمیں زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔ اگر ہم عوام کو، نوجوانوں کو دیندار لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ فرض کریں کہ ان کے یہاں ترک گناہ اتنا ہے، قرآن پر اور عبادات پر ان کی توجہ اتنی ہے تو آپ کے اندر ترک گناہ اور واجبات پر اور اسی طرح اس بات پر کہ کیا مباح ہے زیادہ توجہ ہونی چاہئے آپ زیادہ ذمہ داری کا احساس کریں۔
لیکن وہ خود فراموشی جس کا تعلق اجتماع سے ہے۔ اجتماعی خود فراموشی سنگین تر ہے۔ قرآن کریم ميں ایک آیہ شریفہ ہے جو سورہ توبہ میں ہے۔ البتہ یہ آیہ شریفہ منافقین کے بارے میں ہے۔ یہ آیہ شریفہ مجھے اپنی طرف زیادہ متوجہ کرتی ہے۔ جب میں اس کو پڑھتا ہوں اور یہاں پہنچتا ہوں، یہ ٹکڑا میرے پیش نظر ہے کہ "فَاستَمتَعوا بِخَلاقھم فَاستَمتَعتُم بِخَلاقِکُم کَمَا استَمتَعَ الَّذینَ مِن قَبلِکُم بِخَلاقھم وَ خُضتُم کَالَّذی خاضُوا" (11) یہ بات انسان کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ اسلامی جمہوری نظام سے پہلے اس ملک میں ایسے حکام تھے، ایسے فرمانروا تھے، ایسے افسران تھا جو غلط کام کرتے تھے، برے کام کرتے تھے، خلاف ورزیاں کرتے تھے۔ یہ انقلاب بڑی محنتوں سے، بڑی مصیبتیں برداشت کرکے، امام (خمینی رضوان اللہ ) جیسی ہستی کی معجز نمائی سے، ان کا وجود واقعی اس دور زمانہ میں معجزنما تھا، بے شمار فداکاریوں سے، کتنے عزیز، ممتاز اور اچھے نوجوان کام آئے تب جاکر یہ انقلاب کامیاب ہوا، محفوظ ہوا اور اسلامی جمہوری نظام قائم ہوا۔ اگر وہی صورتحال، وہی کام، اور وہی راہ ہم بھی اختیار کریں جو طاغوتی دور کے حکام کی تھی تو ہم بھی تدریجی طور پر اسی سمت میں جائيں گے اور یہ بہت بڑا جرم ہوگا۔ یہ آیہ کریمہ یہ کہتی ہے کہ "فاستمتعوا بخلاقھم" وہ آپ سے پہلے تھے۔ انھوں نے اپنے لئے ایک فائدہ ایک حصہ مد نظر رکھا تھا، انھوں نے وہ فائدہ اور حصہ حاصل کیا۔ فَاستَمتَعتُم بِخَلاقِکُم؛ آپ نے بھی اپنے لئے ایک فائدہ اور حصہ فرض کیا اور آپ نے بھی وہ فائدہ اٹھایا۔ کَمَا استَمتَعَ الَّذینَ مِن قَبلِکُم بِخَلاقھم؛ آپ نے بھی انہیں کی طرح عمل کیا وَ خُضتُم کَالَّذی خاضوا؛ جو راستہ ان کا تھا اسی پر آپ بھی چلے۔ اگر یہ ہو تو بہت زیادہ تشویش کی بات ہے؛ اگر ایسا ہو تو یہ بہت بڑا نقصان ہے۔ البتہ اب تک خداوند عالم کا لطف، فضل اور ہدایت شامل حال رہی جس نے اسلامی جمہوریہ کو اس حالت میں مبتلا نہیں ہونے دیا۔ لیکن ہمیں ڈرنا چاہئے اور خیال رکھنا چاہئے۔
اجتماعی خود فراموشی یہ ہے کہ ہم اپنا تشخص فراموش کر دیں، اسلامی جمہوریہ کے فلسفہ وجودی کو فراموش کر دیں۔ جس طرح ہم سے پہلے، ملک میں، خارجہ پالیسی میں، داخلہ سیاست میں، امور مملکت چلانے میں، سہولتوں اور ملک کی ثروت کی تقسیم میں، عمل ہوتا تھا، ہمیں اس طرح عمل نہیں کرنا چاہئے۔ ان کا راستہ دوسرا تھا، ہمارا راستہ دوسرا ہے، ہمارا تشخص دوسرا ہے۔ اگر ہم نے یہ فراموش کر دیا تو یہ وہی اجتماعی سطح پر خود فراموشی ہوگی جو بہت بڑا خسارہ ہے۔ اغیار پر بھروسہ، ظلم، بدعنوانی، لوٹ کھسوٹ، ناجائز فائدہ اٹھانا، یہ باتیں، ہمارے اسلامی تمدن اور اسلامی نظام اور ہم جس کی فکر میں تھے اور اب تک رہے ہیں، اس کے بالکل منافی ہیں۔ ہم اس سلسلے میں دوسروں کی تقلید نہیں کر سکتے۔
میں یہاں چند جملے اس سلسلے میں عرض کروں گا۔ اسلامی نظام کا پیکر یہ ہے کہ یہ قرآنی اصول و اقدار پر استوار ہے۔ قرآن نے کسی چیز کو چھوڑا نہيں ہے۔ قرآن کی تفسیر میں، قرآنی مفاہیم کے بیان میں، روایات میں، معصومین کے ارشادات میں، خود نہج البلاغہ شریف میں، کوئی نکتہ چھوڑا نہیں گیا ہے۔ اسلامی نظام، اسلامی ملک اور اسلامی آبادی کی واضح تعریف ہے جو ان معیاروں، اقدار اور اہداف پر استوار ہے جو کتاب اور سنت میں بیان کئے گئے ہیں۔ ہمیں ان اقدار کی سمت بڑھنا ہے۔ قدریں بیان کر دی گئی ہیں، کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے، یہ بھی بتا دیا گیا ہے۔ ہمیں اسی بیان کردہ اصولوں کے مطابق آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں اپنی کوششوں کو اسی سمت میں مرکوز کرنا ہے۔
ہم اپنے گوناگوں سیاسی مسائل میں، اپنی معیشت میں اور دوسری باتوں میں مغرب کے مادی تمدن کے اصولوں کی پیروی نہیں کر سکتے۔ مغربی تمدن میں کچھ فوائد ہیں، اس میں شک نہیں ہے۔ دنیا میں جہاں بھی اچھی باتیں ہوں، مغرب میں، مشرق میں، دور و نزدیک جہاں بھی اچھی بات ہو ہم وہ سیکھ سکتے ہیں، اس سے استفادہ کر سکتے ہیں، استفادہ کرنا چاہئے؛ اس میں شک نہيں۔ لیکن ہم اس تمدن کے اصولوں کو اپنی بنیاد نہیں بنا سکتے۔ اس تمدن کی بنیادیں غلط ہيں۔ اسلامی بنیادوں کے خلاف ہیں۔ اس تمدن کی قدریں ہماری قدروں سے مختلف ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ قانونی لحاظ سے، سماجی لحاظ سے، ابلاغیاتی لحاظ سے بہت آسانی سے وہ چیزیں حاصل کر لیتے ہیں کہ آپ مسلمین اور قرآن سے واقفیت رکھنے والے، جس کے بارے میں سوچنے میں بھی شرم محسوس کرتے ہیں۔ بنابریں ہمیں اس مغربی تمدن کی پیروی میں "فانساھم انفسھم" نہیں بننا چاہئے۔
البتہ مغربی تمدن نے خوش قسمتی سے مختلف ادوار میں اپنا باطن بے نقاب کر دیا ہے۔ مغربی تمدن کی وہ چمک دمک جو انیسویں صدی میں اور بیسویں صدی کے نصف اول میں تھی جو دور سے دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی تھی، آج اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ مغربی تمدن، استعمار سے، دوسرے ملکوں پر اپنے مطالبات مسلط کرکے، دوسرے ملکوں اور اقوام کی دولت و ثروت کے ذخائر پر قبضہ کرکے، وسیع قتل عام، دوہرے معیاروں، انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے جھوٹے دعووں سے رسوا ہو چکا ہے۔ ان باتوں نے مغربی تہذیب کو رسوا کر دیا اور مغربی تمدن کا باطن بے نقاب کر دیا۔ انھوں نے عورتوں اور مردوں کے درمیان سے اخلاقی سرحدیں ختم کر دیں۔ دعوی کرتے ہیں کہ اقدار کے تعلق سے غیر جانبدار ہیں اور اس سلسلے میں ہر ایک صاحب اختیار ہے؛ سیکولر کا مطلب یہی ہے۔ سیکولرزم یعنی یہ کہ یہ حکومت اقدار کے تعلق سے بالکل غیر جانبدار ہے اور ہر ایک کو یہ اختیار دیتی ہے کہ اپنی مرضی سے، جن قدروں کے ساتھ چاہیں زندگی گزاریں۔ (لیکن) جھوٹ بولتے ہیں! ایک با پردہ خاتون پر ایک یورپی ملک میں چاقو سے وار کیا جاتا ہے اور اس کو زخمی کر دیا جاتا ہے۔ عدالت سے رجوع کرتے ہیں۔ مقدمہ چلتا ہے اور عدالت کے اجلاس کے دوران اس شخص نے جس نے اس کو چاقو سے زخمی کیا تھا، دوبارہ حملہ کرکے اس کو قتل کر دیا۔ (12) اور کچھ بھی نہیں ہوتا! مغرب کے دوہرے معیاروں نے مغربی تمدن کی گھناؤنی حقیقت برملا کر دی اور ان کے دعووں کو بے نقاب کر دیا ہے۔
وہ آزاد اطلاع رسانی کا دعوی کرتے ہیں؛ کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ اس وقت مغرب میں اطلاع رسانی آزاد ہے؟ کیا آپ مغرب کے سوشل میڈیا میں حاج قاسم، سید حسن نصراللہ اور شہید ہنیہ کا نام پا سکتے ہیں؟ فلسطین، لبنان اور دیگر جگہوں پر صیہونیوں کے جرائم پر اعتراض کر سکتے ہیں؟ ہٹلر کے جرمنی کے بارے میں یہودیوں کے تعلق سے جو دعوے کئے جاتے ہیں، کیا آپ ان کا انکار کر سکتے ہیں؟ یہی آزاد اطلاع رسانی (فریڈم آف انفارمیشن) ہے؟ اس تمدن نے آج خود کو اور اپنے باطن کو آشکارا کر دیا ہے۔ جو باتیں مغربی سربراہان کرتے ہیں، آپ انہیں دیکھ رہے ہیں۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ بہت ہی گہری اور دقیق نظر رکھنے والے مغربی ماہرین سماجیات کہتے ہیں کہ مغربی تمدن روز بروز زیادہ تیزی کے ساتھ پستی میں جا رہا ہے۔ ایسا ہی ہے۔
ہمیں اس تمدن اور اس کے اصولوں کی پیروی نہیں کرنی چاہئے۔ ہمارا اپنا تشخص ہے اور خوش قسمتی سے ہمارا یہ تشخص دنیا میں روز بروز زیادہ سے زیادہ سربلند ہو رہا ہے۔ البتہ اس کے خلاف اتنے زیادہ پروپیگنڈے کئے جا رہے ہیں، اتنے زیادہ! ان کے دوہرے معیاروں کی ایک مثال یہی ہے۔ ان کی آزاد اطلاع رسانی (فریڈم آف انفارمیشن) یہ ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ ایران کے بارے میں ان کے کس میڈیا کی بات حقائق کے مطابق ہے؟ آپ علمی و سائنسی پیشرفت کرتے ہیں۔ اس کو لوگوں تک نہيں پہنچایا جاتا۔ آپ کے عوامی اجتماعات کی خبریں نشر نہیں ہوتیں۔ لیکن اگر ناکامی کا کوئی معاملہ ہو تو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ ان کی آزاد اطلاع رسانی یہ ہے! گوناگوں مسائل اور مختلف افراد کے تعلق سے ان کا طرزعمل یکساں نہيں ہوتا، مختلف ہوتا ہے۔
بنابریں یہ بات اہم ہے کہ ہم اسلامی جمہوری نظام کے ذمہ داران، اسلامی نظام کے حقیقی تشخص کو پہچانیں، اس کو فراموش نہ کریں اور اس پر عمل کریں۔ وہی بات جو جناب صدر نے کہی ہے۔ ان باتوں کی وہ سبھی لوگ تائید کرتے ہیں جو قرآن و سنت اور نہج البلاغہ وغیرہ سے واقف ہیں۔ سب کچھ یہی باتیں ہیں۔ انہیں کی منصوبہ بندی اور پلاننگ ہونا چاہئے اور ان کی پیروی کی ضرورت ہے۔ ان کے سلسلے ميں اقدام کی ضرورت ہے۔ اس کام سے ملک ترقی کرے گا۔ ملت ایران کی جو عزت اس وقت ہے اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ اگر ہم صحیح طور پر یہ قدم اٹھا سکے اور اگے بڑھے تو یہ اقوام بلکہ بہت سے ملکوں کے حکام کے لئے نمونہ عمل ہوگا۔ میں اس اقدام اور آگے بڑھنے کے حوالے سے دو تیں مختصر باتیں عرض کروں گا۔ یہ باتیں رمضان المبارک کے مسائل سے متعلق تھیں۔
ملک کے مسائل کے حوالے سے جو سب سے زیادہ اہم ہے وہ اقتصاد ہے۔ اس سے آج ہم سبھی واقف ہیں، یعنی حالیہ برسوں ميں، ان چند برسوں میں، 2010 کے عشرے سے آج تک اقتصادی مشکلات ملک کو دامنگیر ہیں۔ آج بھی اصل مسئلہ اقتصادی مسئلہ ہے۔ یہ اہم مسئلہ ہے۔ اس بات پر بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ دشمن جو دھمکیاں دیتے ہیں، وہ زیادہ تر عوام کی معیشت سے تعلق رکھتی ہیں۔ سیکورٹی کی دھمکیاں ہیں، انٹیلیجنس کی دھمکیاں بھی عوام کی معیشت سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا ارادہ اور مجموعی منصوبہ یہ ہے کہ ایسا کام کریں کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے عوام کی معیشت باقی نہ رکھ سکے۔ اس کے اپنے نتائج برآمد ہوں گے؛ وہ اس فکر میں ہیں۔ لہذا معیشت کا مسئلہ واقعی اہم مسئلہ ہے اور بہت سنجیدگی کے ساتھ اس کے سدھار کے لئے کام کی ضرورت ہے۔ متعلقہ ادارے اپنی زیادہ کوششیں اس قضیے پر مرکوز کریں۔ البتہ بیرونی پابندیاں بھی اس کے عوامل میں شامل ہیں۔ اس میں شک نہیں ہے۔ بڑی طاقتوں کی پابندیاں، ہماری اقتصادی حالت اور عوام کی معیشت کو متاثر کر رہی ہیں لیکن سب کچھ یہی نہيں ہے۔ اس کی جملہ وجوہات کا ایک حصہ پابندی ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا پابندی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ ان ميں سے میں بعض کا اپنی گفتگو کے دوران ذکر کروں گا۔
اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ سب سے پہلے ہمیں جو کام کرنے ہیں ان میں سے ایک مختلف اداروں کا اندرونی اتحاد ہے؛ مجریہ کے اپنے ادارے پوری طرح ایک دوسرے سے متصل اور جڑے رہيں؛ باہم تعاون کریں؛ اور اسی کے ساتھ تینوں شعبے (مجریہ، مقننہ اور عدلیہ) اور مسلح افواج ان کے ساتھ مل کر باہم تعاون کریں۔ پہلی شرط اتحاد ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ کام آگے بڑھے تو یہ اتحاد حقیقی معنی میں ہونا چاہئے۔ خوش قسمتی سے بہت حد تک اسی طرح ہے۔ اعلی سطح پر یہ بات ہے لیکن نچلی سطح پر بھی اسی اتحاد و یکجہتی اور تعاون کی ضرورت ہے۔
ایک اور اہم نکتہ جو ہمارے کاموں میں، منجملہ مسئلہ اقتصاد میں بنیادی تاثیر رکھتا ہے، سرعت عمل ہے۔ ہم آہستہ چلتے ہیں، سست کام کرتے ہیں۔ ہمارے ذہن میں کوئی تعمیری فکر آتی ہے جس پر عمل کی ضرورت ہوتی ہے، مثال کے طور پر شمال-جنوب کاریڈور کو لے لیں، ہمارے ذہن میں یہ فکر آنے اور اس پر عمل کے فیصلے میں کافی فاصلہ ہوتا ہے؛ جبکہ بعض اوقات یہ فاصلہ کم کرکے دسویں حصے تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ ہم فیصلہ دیر میں کرتے ہیں اور جب فیصلہ کر لیتے ہیں تو کام شروع کرنے میں پھر فاصلہ آ جاتا ہے۔ جب فیصلہ کر لیا تو پھر عمل کریں۔ جب ہم نے سمجھ لیا، فیصلہ کر لیا اور جان لیا کہ یہ کام کرنا ہے تو فورا اس پر عمل شروع کر دیں۔ اور جب عمل شروع کر دیتے ہیں تو نتائج حاصل ہونے میں پھر فاصلہ آ جاتا ہے۔ اس تاخیر کی وجہ عام طور پر عدم پیروی ہوتی ہے۔ میں نے گزشتہ برسوں میں حکام، محترم صدور اور اعلی حکام کو جو سفارشات کی ہیں وہ یہی تھیں کہ کاموں کی پیروی کریں۔ آپ ایک فیصلہ کرتے ہیں، کوئی اقدام کرتے ہیں، کسی عہدیدار کو ذمہ داری دیتے ہیں، وہ کہتا ہے بہتر ہے، وہ جھوٹ نہیں کہتا، وہ اپنے بعد والے فرد کے حوالے کرتا ہے اور اس بیچ کام تعطل کا شکار ہو جاتا ہے۔ خود جاکر نزدیک سے دیکھنا چاہئے، کام کو اس کے حال پر نہیں چھوڑنا چاہئے۔ ان فاصلوں کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ فکر اور فیصلے میں فاصلہ، فیصلے اور عمل میں فاصلہ، عمل اور نتیجے میں فاصلہ، بہت زیادہ ہے۔ اس پر تیزی سے عمل ہونا چاہئے۔ ایک نکتہ یہ ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ ہمارے بعض اعلی عہدیداران یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کام جس میں کوئی خطرہ نہیں ہے، فیصلہ نہ کرنا ہے۔ اس لئے کہ فیصلے میں غلطی کا امکان اور خطرہ ہوتا ہے اور بعد میں قصور وار قرار دیا جاتا ہے تو سب سے اچھا کام جس میں کوئی خطرہ نہیں ہے، یہ ہے کہ فیصلہ ہی نہ کیا جائے۔ کاموں کی پیروی ہی نہ کی جائے۔ یہ جو ہم سوچتے ہیں کہ آسودہ خاطر رہنے کے لئے بہتر ہے کہ بہت زیادہ فکر مند نہ ہوں، زیادہ جوش نہ دکھائيں، کام کی پیروی نہ کریں، ہوا تو ہوا نہ ہوا تو نہ ہوا! یہ خطرناک ترین فکر ہے۔ خداوند عالم کام چھوڑ دینے پر بھی سوال کرے گا۔ خدا صرف جو کام کیا ہے صرف اس کے بارے میں سوال نہیں کرے گا بلکہ جو کام چھوڑ دیا ہے اس کے بارے میں بھی سوال کرے گا۔
اقتصاد کے سلسلے میں ایک نکتہ یہ ہے کہ ملک کے ذمہ داران، ملک کی گنجائشوں کو پہچانیں، ہماری گنجائشیں بہت ہیں۔ میں مسلسل کہتا ہوں: "گنجائشیں، استعداد اور امکانات" لیکن کام کی گہرائیوں میں نہيں اترتے۔
ہماری گنجائشیں اور توانائیاں زیادہ تر ہمارے نوجوانوں سے تعلق رکھتی ہیں جوبعض اوقات ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں کہ انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے؛ اقتصادی مسائل کے میدان میں، علمی مسائل کے میدان میں، تحقیقات کے میدان میں، ایجادات اور خلاقیت کے میدان میں، ہماری نوجوان نسل ہماری اہم ترین گنجائش اور توانائی ہے۔
ہماری ایک اور گنجائش ہمارے قدرتی ذخائر ہیں۔ ہمارے قدرتی ذخائر، دنیا کے برترین اور غنی ترین قدرتی ذخائر میں شمار ہوتے ہیں؛ ہمارے تیل کے ذخائر، ہمارے پتھروں کے ذخائر، ہماری کانیں، ہماری معدنیاتی دھاتیں وغیرہ، دنیا کے بہترین قدرتی ذخائر ہیں۔ میں نے ایک بار اعداد و شمارکی بنیاد پر کہا تھا (13)، اس وقت یاد نہیں ہے (لیکن) اس وقت دقیق اعداد و شمار دیکھے تھے، کہ ہماری آبادی دنیا کی آبادی کا سواں حصہ ہے۔ یعنی دنیا کی آبادی آٹھ ارب ہے تو ہماری آبادی آٹھ کروڑ ہے، ( جبکہ) ہماری بہت سی بنیادی حیثیت کی کانیں، دنیا کی کانوں کا دو فیصد، تین فیصد، پانچ فیصد یا آٹھ فیصد ہیں۔ بنابریں قدرتی ذخائر کے لحاظ سے ہم دنیا کے بہت سے ملکوں سے آگے ہیں۔ ان ذخائر کو پہچانیں۔ مجھے رپورٹیں ملتی ہیں کہ بعض ذخائر ایسے ہیں کہ جن کا متعلقہ حکام نے ابھی پتہ ہی نہیں لگایا ہے۔ ابھی انہیں پتہ ہی نہیں ہے کہ ہمارے ملک کے فلاں علاقے میں یہ ذخیرہ موجود ہے۔ یہ ذخائر بہت اہم ہیں۔ اپنی نوعیت اور مقدار دونوں لحاظ سے یہ ذخائر بہت اہم ہیں۔ ہماری ایک توانائی یہ ذخائر ہیں۔
تیسری گنجائش سائنس و ٹیکنالوجی میں پیشرفت ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں پیشرفت کے لحاظ سے ہماری حالت بہت اچھی ہے۔ البتہ چند برس قبل اس سے بہتر تھی؛ تقریبا بارہ سال قبل۔ اس وقت غیر ملکی ذرائع کہتے تھے کہ سائنس اور تحقیقات میں ایران کی پیشرفت دنیا کی اوسط پیشرفت کی تیرہ گنا ہے۔ ترقی کی رفتار یہ تھی۔ میں نے اسی وقت کہا تھا کہ یہ شرح ترقی کم نہ ہونے دیں۔ (14) اگر کم ہوئی تو پیچھے ہو جائيں گے۔ دنیا بھی آگے بڑھ رہی ہے۔ ممکن ہے اس سطح پر نہ ہو لیکن بہرحال ہماری پیشرفت بہت اچھی ہے۔
ہماری معیشت کو لاحق ایک مشکل، اسمگلنگ کا مسئلہ ہے۔ دو طرفہ اسمگلنگ۔ کچھ چیزیں یہاں سے اسمگل ہوکر باہر جاتی ہیں جو سو فیصد ملک کے نقصان میں ہے اور کچھ چیزیں باہر سے اسمگل ہوکر ملک کے اندر آتی ہیں، یہ بھی سو فیصد ملک کے نقصان میں ہے۔
یہ باتیں جو میں نے ابھی کہی ہیں، ان میں سے کسی کا بھی تعلق پابندی وغیرہ سے نہیں ہے۔ اگر ہمارے اندر سرعت عمل نہیں ہے اور اگر ہم کام کی ضروری اور لازمی پیروی نہیں کر رہے ہیں تو اس کا تعلق پابندی سے نہیں ہے، اس کا تعلق خود ہم سے ہے۔ اگر ہم اسمگلنگ روکنے میں سنجیدگی سے اقدام نہ کریں تو اس کا تعلق دشمن سے نہیں ہے، پابندی لگانے والے سے اس کا تعلق نہیں ہے؛ ہمیں اس کو روکنا چاہئے ہمیں چاہئے کہ اسمگلنگ نہ ہونے دیں۔ اس کا راستہ ہے۔ اسمگلنگ روکنا محال نہیں ہے۔ مشکل ضرور ہے۔ ہم جانتے ہیں، لیکن ممکن ہے؛ یہ کام جو ممکن ہے، انجام پانا چاہئے۔ میں نے سنا ہے کہ کافی پہلے اسمگلنگ کا مال پکڑوانے پر انعام ختم کر دیا گیا ہے۔ اس سے اسمگلنگ کا مال پکڑوانے کا جذبہ کم ہوگا۔ سرحدی بازاروں وغیرہ کا بھی مسئلہ ہے۔
اقتصاد سے متعلق ایک اہم مسئلہ ملک کے زرمبادلہ کے سسٹم کی اصلاح ہے۔ پہلے درجے میں قومی کرنسی کی تقویت کی ضرورت ہے۔ اس کی پالیسی، منصوبے اور کام کی کیفیت وغیرہ کا تعین ماہرین کریں۔ قومی کرنسی کی تقویت ہونی چاہئے؛ عوام کی زندگی پر اس کا بھی اثر ہے۔ ملک کی آبرو پر بھی اس کا اثر ہے۔ حتی اگر مثال کے طور پر کہتے ہیں کہ "ایک فارمولا ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو افراط زر کم ہوگا یہاں تک کہ سنگل ڈیجٹ میں بھی آ سکتا ہے۔ لیکن زرمبادلہ کی قیمت اتنی ہو جائے گی۔" یہ صحیح نہیں ہے؛ اس لئے کہ زرمبادلہ کی قیمت اوپر جانے سے قومی کرنسی کی قدر کم ہوگی تو افراط زر چاہے جتنا بھی کم ہو، اس کرنسی کی کوئی قدر نہیں ہے، اس سے غریب اور کمزور عوام میں قوت خرید پیدا نہیں ہوگی۔ اگر چاہتے ہیں کہ عوام کی قوت خرید بڑھے تو قومی کرنسی پر کام کریں۔ ایک بنیادی ترین کام یہی ہے۔
زر مبادلہ کے سلسلے میں، جن لوگوں کے پاس برآمداتی زرمبادلہ ہے، ان کے زرمبادلہ کی واپسی بہت اہم ہے۔ میں نے سنا ہے کہ جناب آقائے رئیسی مرحوم ( رحمت اللہ علیہ) کے دور میں کہا گیا کہ بعض بڑی کمپنیاں، یعنی بڑی اور اہم حکومتی کمپنیاں، جو حکومت کی ہیں، برآمدات انجام دیتی ہیں، ان کو زرمبادلہ ملتا ہے لیکن یہ زرمبادلہ مرکزی بینک میں جمع نہيں ہوتا۔ انھوں نے اس بارے میں غوروفکر کے بعد اس کا حل یہ نکالا تھا کہ ان کمپنیوں میں سے ہر ایک ملک میں ایک بڑا کام اپنے ذمہ لے۔ مثال کے طور پر فرض کریں کہ فلاں علاقے میں، جہاں پانی کم ہے، پینے کے لئے اور اسی طرح زراعت کے لئے پانی کی فراہمی اپنے ذمے لیں یا کوئی ریفائنری یا مثال کے طور پر پاور پلانٹ لگائيں جو دوسو میگاواٹ تین سو میگاواٹ بجلی پیدا کرے۔ انھوں نے اس کا وعدہ کیا تھا۔ دو تین مہینے بعد میں نے ان سے پوچھا اور کہا کہ ان کمپنیوں کو جو کام کرنا تھا، وہ کہاں تک پہنچا، انہیں اس کی اطلاع نہیں تھی۔ کہا میں پوچھ کر آپ کو بتاؤں گا۔ بعد میں ایک دو ہفتے میں انھوں نے مجھے ایک رپورٹ دی اور کہا کہ یہ رپورٹ ان کمپنیوں نے دی ہے۔ میں نے دیکھا کہ یہ رپورٹ مہمل ہے۔ بیکار ہے! اس رپورٹ سے کسی بھی اقدام کی نشاندہی نہیں ہوتی۔ اس میں کـچھ اعدادوشمار جمع کئے گئے ہیں اور بس۔ وہ اس کام کی فکر میں تھے۔ بہرحال یہ وہ کام ہیں جو انجام پانے ہیں۔ زرمبادلہ کی آمدنی اگر اس کمپنی کی ہے جو خود حکومت کی ہے تو یہ زرمبادلہ حکومت کے پاس کیوں نہیں آتا؟ سینٹرل بینک میں جمع کیوں نہیں ہوتا؟ کیوں؟ اس کے بارے میں سوچنےکی ضرورت ہے۔ بنیادی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ امور ہیں جو عوام کی معیشت کو بہتر کرنے میں موثر ہو سکتے ہیں۔
پیداوارکا مسئلہ بھی جس پر میں نے مسلسل زور دیا ہے، بہت اہم ہے۔ پیداوار کی قانونی حمایت ہونی چاہئے۔ پیداوار کے لئے وسائل فراہم کئے جائيں۔ پیداوار میں حائل رکاوٹیں دور کی جائيں۔ بیکار کی رکاوٹیں، جو سرکولر کی یا سرکاری اور دفتری رکاوٹیں ہیں، جن کی کوئی ضرورت نہيں ہے، وہ ختم کی جائيں۔
ملک کی اندرونی ضرورتیں، ملکی پیداوار سے پوری کی جائيں۔ کون اپنی ضرورتیں اندرون ملک پیداوار سے پوری کرے؟ عوام۔ اور حکومت؟ عوام سے زیادہ بڑی صارف حکومت ہوتی ہے۔ بہت سی پیداواریں حکومت استعمال کرتی ہے۔ سرکاری اداروں کو اس بات کا پابند ہونا چاہئے کہ جو چیز ملک کے اندر تیار ہو رہی ہے، وہ باہر سے درآمد کرکے استعمال نہ کریں۔ ایک اہم کام یہ ہے۔ پیداوار میں ایجادات اور ٹیکنالوجی کے معیار کی بلندی اہم ہے۔
ملک کے اقتصاد سے متعلق ایک اہم مسئلہ سرمایہ کاری کا ہے۔ سرمایہ کاری کا مسئلہ برسوں سے جاری ہے۔ پابندیوں کا ایک ہدف، غیر ملکی سرمایہ کاری کی روک تھام ہے۔ لیکن اس کا بھی راستہ ہے۔ جس کی طرف جناب صدر جمہوریہ نے اپنی تقریر میں ایک اشارہ کیا ہے۔ سرمایہ کاری کے لئے راستہ موجود ہے؛ اہم یہ ہے کہ ملک کے اندر سرمایہ کاری ہو؛ اس کو آسان بنائيں۔ سرمایہ کاری میں سہولتیں فراہم کریں۔ سرمایہ کار یہ محسوس کرے کہ اس کام میں اس کا فائدہ ہے اور وہ سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ اس سے ملک آگے بڑھےگا۔ بنابریں اقتصادی مسائل اہم ہیں۔ اقتصادی امور کے ذمہ داران بھی چاہے حکومت کے اندر ہوں یا حکومت سے باہر، حساس ہیں ار اس مسئلے پر ان کی توجہ ہے۔ یہ نکات جو میں نے بیان کئے، ہماری نظر میں قابل توجہ ہیں۔ ان کی پیروی کی ضرورت ہے۔
چند جملے خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی عرض کروں گا۔ الحمد للہ ہماری وزارت خارجہ فعال ہے۔ یہ ان وزارتوں ميں ہے جو فعال ہیں۔ یہی ہمسائگی کا جو مسئلہ انھوں نے بیان کیا، وہ اہم ہے؛ دوسرے ممالک بھی اسی طرح ہیں جو پڑوسی نہیں ہیں۔ اب یہ کہ بعض بدمعاش حکومتیں، واقعی میرے پاس بعض بیرونی سربراہان اور شخصیتوں کے لئے، اسی لفظ بدمعاش کے علاوہ اور کوئی مناسب لفظ نہیں ہے، یہ مذاکرات پر اصرار کر رہی ہیں۔ ان کے مذاکرات مسائل کے حل کے لئے نہیں ہیں۔ بلکہ تحکم کے لئے ہیں۔ کہتے ہیں ہم مذاکرات کریں تاکہ جو چاہیں، سامنے والے فریق پر جو میز کے اس طرف بیٹھا ہے، مسلط کر سکیں۔ اگر مان گیا تو بہتر ہے اور اگر اس نے تسلیم نہ کیا تو ہم ہنگامہ کریں گے کہ یہ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے۔ مذاکرات کی میز سے اٹھ گئے! یہ تحکم ہے۔ مذاکرات ان کے لئے نئے مطالبات پیش کرنے کا راستہ اور وسیلہ ہے۔ صرف ایٹمی مسئلہ نہيں ہے کہ وہ ایٹمی مسائل کے بارے میں بات کریں، وہ نئے مطالبات پیش کر رہے اور ایران ان کے یہ مطالبات ہرگز پورے نہیں کرے گا۔ مثال کے طور پر ملک کے دفاعی وسائل کے بارے میں، ملک کی بین الاقوامی توانائیوں کے بارے میں، وہ کام نہ کرو، اس سے نہ ملو، وہاں نہ جاؤ، وہ چیز نہ بناؤ، تمھارے میزائلوں کی رینج اس سے زیادہ نہ ہو! کیا کوئی یہ باتیں قبول کر سکتا ہے؟ مذاکرات ان باتوں کے لئے ہیں۔ البتہ مذاکرات کے نام کی تکرار کرتے ہیں۔ تاکہ عالمی رائے عامہ میں دباؤ کی کیفیت پیدا کریں کہ یہ فریق تو مذاکرات کے لئے تیار ہے تم کیوں تیار نہيں ہو۔ یہ مذاکرات نہیں تحکم ہے۔ مسلط کرنا ہے۔ دیگر جہتوں کے علاوہ جن کے بارے میں بحث کی جگہ یہ نہیں ہے۔ ممکن ہے کبھی کسی اور جگہ اس پر بولوں؛ لیکن اجمالی مسئلہ یہ ہے۔
اب وہ تین یورپی ممالک اعلامیہ جاری کرتے ہیں اور کہتے ہيں کہ ایران نے جے سی پی او اے کے تحت اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا ہے! اس طرف سے کوئی ان سے پوچھے کہ کیا تم نے عمل کیا ہے؟ تم کہتے ہو کہ ایران نے جامع ایٹمی معاہدے پر عمل نہیں کیا ہے؛ بہت اچھا، تو کیا تم نے جامع ایٹمی معاہدے پر عمل کیا ہے؟ تم نے تو پہلے دن سے ہی عمل نہيں کیا؛ بعد میں جب امریکا نکل گیا(15) تو تم نے وعدہ کیا کہ اس کی تلافی کرو گے، اپنے وعدے سے پھر گئے۔ ( 16) اس کے بعد پھر کچھ کہا، اس پر بھی عمل نہیں کیا۔ دیدہ دلیری کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ خود اپنے وعدوں پر عمل نہ کریں اور فریق مقابل سے کہیں کہ" تم اپنے وعدے پر عمل کیوں نہیں کرتے"! اس وقت کی حکومت نے (17) ایک سال (18) تحمل کیا، پھر پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا (19) اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس وقت بھی یہی صورتحال ہے۔ اس وقت بھی زور زبرستی، منہ زوری کے مقابلے میں (استقامت) کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ے۔
پالنے والے! تجھے محمد وآل محمد کی قسم دیتا ہوں کہ ہمیں رمضان المبارک کی برکات سے فیضیاب فرما۔
پالنے والے! امام بزرگوار کی روح مطہر اور شہدائے ابرار کی ارواح کو جنھوں نے ہمارے لئے یہ راستہ کھولا اور اس کو کھلا رکھا اور خود کو اس راہ پر فدا کر دیا، ہم سے خوشنود فرما؛ ان کے درجات بلند کر۔
پالنے والے! علاقے کے استقامتی مجاہدین کے پیکر پر جو زخم لگے ہیں، ان کا حقیقی معنوی اور مادی مرہم تو خود عنایت فرما۔
پالنے والے! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کو ذلیل اور بے بہرہ کر دے؛ ملت ایران کو، ایران کی ملت مسلمان کو اس کی حقیقی جگہ اور شان و شوکت تک پہنچا دے؛ امت اسلامیہ کو سربلند کر دے؛ دنیا کے سبھی مستضعفین، مظلومین اور محرومین کو اپنے لطف سے فیضیاب کر دے۔ اپنی رضا ہمارے شامل حال فرما، ہم نے جو کہا اور جو سنا اس کو اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے اور ہماری دعا کو مستجاب فرما؛ اور ہمیں ان مبارک راتوں اور باشرف دنوں میں اپنی مغفرت عطا فرما؛ اور ہمارے والدین، ہمارے مرحومین اور اسلاف کی مغفرت فرما۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1۔ جلسے کے آغاز ميں صدر جناب ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے رپورٹ پیش کی
2۔ سورہ حجر، آیت نمبر 9؛ " بیشک ہم نے اس قرآن کو تدریجی طور پر نازل کیا ہے"
3۔ سورہ انبیا، آیت نمبر 50 " اور یہ (کتاب)جو ہم نے نازل کی ہے، مبارک نصیحت ہے۔ کیا پھر بھی اس کا انکار کرو گے؟"
4۔ سورہ توبہ آیت نمبر 67
5۔ صحیفہ سجادیہ، سینتالیسویں دعا
6۔ سورہ حشر آیت نمبر 19؛"اور ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنھوں نے خدا کو فراموش کر دیا اور اس نے (بھی) انہیں فراموشی میں مبتلا کر دیا۔"
7۔ سورہ زمر؛ آیت نمبر 30؛" یقینا تمہیں موت آئے گی اور ان کو (بھی) موت آئے گی"
8۔ مصباح التہجّد و سلاح المتعبّد، جلد 2 صفحہ 591
9۔ سورہ اعراف، آیت نمبر 6
10۔ مصباح التہجّد و سلاح المتعبّد جلد 2 صفحہ 592
11۔ سورہ توبہ آیت نمبر 69
12۔ 2009 میں جرمنی کی ایک عدالت میں خانم مروہ شربینی کے قتل کے واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ مروہ شربینی کو قاتل نے عدالت کے اندر چاقو سے کئی وار کرکے قتل کر دیا تھا۔
13۔ 15-06-2016 کو اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام سے ملاقات میں رہبر معظم کا خطاب
14۔ 23-06-2010 کو ملک کی یونیورسٹیوں اور اعلی تعلیمی مراکز کی اکیڈمک کونسلوں کے بسیجی اراکین سے رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب
15۔ 8 مئی 2018 کو امریکا کے اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سرکاری طور پر امریکی حکومت کے جامع ایٹمی معاہدے سے نکل جانے اوربعض نئی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا۔
16۔ جامع ایٹمی معاہدے سے امریکا کے نکل جانے کے بعد یورپی حکومتوں نے مذاکرات کے بعد انسٹیکس کے نام سے مالی ٹرانزیکشن کے ایک سسٹم کی تجویز پیش کی تاکہ ایران اس کے ذریعے اپنے پیسے حاصل کر سکے۔ یعنی دوسرے ملکوں پر ایران کے جو واجبات ہیں، انہیں یورپ والوں، فرانس اور برطانیہ کو دیدے اور جو چیز وہ مصلحت کے مطابق سمجھیں اس کو خریدیں اور ایران بھیجیں! یہ متبادل سسٹم بھی ایک مدت تک موخر رہنے کے بعد صحیح طور پر آپریشنل نہ ہو سکا۔
17۔ ایران کی بارہویں حکومت
18۔ جامع ایٹمی معاہدے سے امریکا کے نکل جانے کے بعد ایران کی بارہویں حکومت نے پانچ مرحلے میں اپنے وعدوں پر عمل درآمد کم کئے اور پانچواں اور آخری مرحلہ جنوری 2020میں انجام پایا
19۔ ایرانی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی نے 3 دسمبر2020 کو ملت ایران کے حقوق کے تحفظ اور پابندیوں کے خاتمے کے لئے اسٹریٹیجک اقدام کا بل پاس کیا۔