انھوں نے اسی طرح کہا کہ البتہ فرانس کے بارے میں بھی میری اچھی رائے نہیں ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے دامن پر آلودہ خون کا دھبہ ہے۔ البتہ اگر دوسری جگہوں سے ویکسین حاصل کرنا چاہیں، جو قابل اطمینان جگہ ہو تو اس میں کوئي قباحت نہیں ہے۔

اب ذہن میں جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آلودہ خون کا ماجرا کیا ہے؟ اور فرانس اس میں کس طرح ملوث تھا کہ قائد انقلاب اسلامی اس ملک کے سلسلے میں اس حد تک بدگمانی میں مبتلا ہو گئے ہیں؟

یہ مسئلہ پہلی بار اپریل سنہ انیس سو اکانوے میں ایک ڈاکٹر اینا میری کیسٹریٹ (Anne-Marie Casteret) کے توسط سے طشت از بام ہوا تھا۔ انھوں نے ہفت روزہ L'Événement du jeudi میں شائع ہونے والے اپنے ایک مقالے میں بتایا کہ فرانس کے قومی بلڈ ٹرانسفیوژن سینٹر نے جان بوجھ کر اور پہلے سے علم ہونے کے باوجود ایچ آئي وی وائرس سے آلودہ بلڈ پروڈکٹس دنیا کے ديگر ملکوں کو برآمد کیے ہیں۔ انھوں نے سن انیس سو بانوے میں بھی بلڈ اسکینڈل(1) کے عنوان سے ایک کتاب لکھی اور اس کے بعد کے برسوں میں بھی وہ اس سلسلے میں مختلف باتیں پیش کرتی رہیں۔(2)

مسئلہ یہاں سے پیدا ہوا تھا کہ فرانس خاص طور پر پیرس میں منشیات کی لت میں گرفتار بہت سے لوگ مفت سینڈوچ اور کافی حاصل کرنے کے لیے بلڈ ڈونیشن یا خون عطیہ کرنے کے سینٹرز میں جاتے تھے۔ ان میں سے بعض ایڈز کے وائرس میں مبتلا ہوتے تھے اور ان افراد کے خون کی صحیح جانچ نہ کیے جانے اور اس طرح کے افراد کا جلد از جلد اور زیادہ سے زیادہ خون لینے کے لیے اور طرح طرح کے بلڈ پروڈکٹس تیار کرنے کے لیے مختلف کمپنیوں کے درمیان رقابت نے اس مشکل کے پہلوؤں کو دوچنداں کر دیا تھا۔(3) دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ خون ڈونیٹ کرنے والا ایک شخص، ہیپاٹائٹس جیسی کسی خونی بیماری میں مبتلا تھا تو اس کا خون، دوسرے خون میں مخلوط ہو کر تمام پروڈکٹس کو آلودہ کر سکتا تھا۔(4)

آلودہ خون سے خونی پروڈکٹس تیار کرنے اور انھیں برآمد کرنے کے شعبے میں فرانس کی ایک اہم کمپنی میریو (Mérieux) سرگرم تھی جس نے خون جمنے کے لیے آلودہ عوامل کو خود فرانس کے علاوہ جرمنی، اٹلی، ارجنٹائن، کینیڈا، جاپان، سعودی عرب، عراق، ایران اور یونان جیسے بعض ملکوں کو برآمد کیا تھا تاکہ انھیں ہیموفیلیا کے مریضوں کے لیے استعمال کیا جا سکے۔

اس تجزیے کے مطابق سنہ انیس سو چوراسی اور پچاسی میں اس طرح کی خلاف ورزیاں کی گئي تھیں جن کے نتیجے میں دنیا کے مختلف علاقوں میں دسیوں ہزار لوگ ایچ آئي وی اور ہیپاٹائٹس سی کے وائرس میں مبتلا ہو گئے تھے۔ اس اقدام کی وجہ سے خود فرانس میں ہی چار ہزار سات سو لوگ ایچ آئي وی کے وائرس میں مبتلا ہوئے جو ایڈز جیسی لاعلاج بیماری کا سبب ہے۔ ان میں سے تین سو سے زیادہ لوگوں کی موت ہو گئي۔(5)

سنہ انیس سو تراسی اور انیس سو پچاسی کے درمیان فرانس کے قومی بلڈ ٹرانسفیوژن سینٹر نے اطلاع ہونے کے باوجود ایڈز سے آلودہ خون پروڈکٹس ہیموفیلیا کے مریضوں میں تقسیم کیے تھے اور اگرچہ بائيس نومبر سنہ انیس سو چوراسی کو فرانس کی حکومت نے ان پروڈکٹس کے خطرناک ہونے کی بات تسلیم کی تھی لیکن میریو انسٹی ٹیوٹ سنہ انیس سو پچاس کے اواخر تک بدستور ان پروڈکٹس کو ایران، عراق، لیبیا اور ارجنٹائن جیسے ملکوں کو برآمد کرتا رہا۔(6)

سنہ انیس سو ترانوے میں فرانس کے قومی بلڈ بینک اور قومی بلڈ ٹرانسفیوژن سینٹر کے اعلی عہدیداروں پر مقدمہ چلائے جانے کے دوران یہ دعوی کیا گيا کہ ان افراد کو اور اسی طرح فرانسیسی حکومت کے اعلی عہدیداروں کو خونی پروڈکٹس کی جانچ نہ کیے جانے کے خطرات کا علم نہیں تھا اور ایسا نہیں تھا کہ انھوں نے تجارتی فوائد کی خاطر، ایڈز کے وائرس کی شناخت کے لیے ضروری تحقیقات انجام نہ دی ہوں۔

البتہ ڈاکٹر اینا میری کیسٹریٹ اور لبریشن جریدے نے جو دستاویزات جاری کیں ان سے واضح ہو گيا کہ یہ حقیقت نہیں ہے۔ ان دستاویزات میں سے ایک، چودہ جنوری سنہ انیس سو پچاسی کا ایک خط ہے جو فرانس کے اس وقت کے وزیر اعظم کے سائنسی امور کے مشیر لوران فیبیوس نے وزیر اعظم کو بھیجا تھا۔ انھوں نے اس خط میں لکھا تھا: ایڈز کا وائرس نہ صرف خطرے میں مبتلا افراد کو آلودہ کرتا ہے بلکہ وہ ایکسیڈنٹ میں زخمی ہونے والوں کو اور ہر اس شخص کو جس کی سرجری ہو رہی ہو یا جسے خونی پروڈکٹس انجیکٹ کیے جا رہے ہوں، آلودہ کر سکتا ہے۔

ان دستاویزات کی بنیاد پر فرانس کے اس وقت کے وزیر اعظم لوران فیبیوس، جو فرانسوا میتراں کے دور صدارت میں وزیر اعظم بنے، ان کے وزیر صحت ایڈمن ہیرو اور سماجی امور کی وزیر جارجینا ڈوفوکس پر قتل کا الزام لگایا گيا کیونکہ یہ سب مشتبہ خونی پروڈکٹس کے ٹیسٹ کو مؤخر کرنے کے خطرے سے بخوبی مطلع تھے اور اس سلسلے میں انھیں ضروری ہدایات بھی دی جا چکی تھیں لیکن انھوں نے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے خون کے سیمپلز کے ٹیسٹ کے سلسلے میں ہر طرح کے پروٹوکول کو منسوخ کر دیا تھا اور کسی بھی طرح کا ٹیسٹ کیے بغیر ہی آلودہ خون کو بازار بھیج دیا تھا۔ اس بات کے انکشاف کے باوجود دوسرے اور تیسرے درجے کے بعض ملزموں کو صرف دو سے چار سال کی مختصر قید کی سزا سنائي گئي۔ (7) دلچسپ بات یہ ہے کہ لوران فیبیوس اور ان کے وزرائے صحت و سماجی امور پر سن انیس سو اکانوے میں مقدمہ چلایا گيا لیکن صرف وزیر صحت ایڈمن ہیرو کو قتل کا مجرم تسلیم کیا گيا لیکن انھیں سزا سے معاف رکھا گيا(8) جبکہ باقی دونوں افراد کو پوری طرح سے بری قرار دیا گيا۔(9)

ایران میں وزارت صحت اور بلڈ ٹرانسفیوژن کے ادارے کے پاس، اسّی کے عشرے میں مغربی ملکوں کی ظالمانہ پابندیوں کے سبب، مسلط کردہ جنگ سے پیدا ہونے والے مسائل اور اسی طرح خونی پروڈکٹس کے حصول اور خریداری میں دشواریوں کی وجہ سے فرانس کے ایچ آئي وی وائرس سے آلودہ خونی پروڈکٹس کے ٹیسٹ کا امکان نہیں تھا۔(10) یہی وجہ ہے کہ فرانس کے آلودہ خونی پروڈکٹس زیادہ جانچ کے بغیر ہیموفیلیا کے ضرورت مند مریضوں کو انجیکٹ کیے گئے اور اس کے نتیجے میں اسّی کے عشرے کے اواخر میں ان میں کئي ایرانی شہری ایڈز کی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔(11)

ایران میں موجود اطلاعات کے مطابق اسّی کے عشرے میں کم از کم ایک سو ترانوے لوگ فرانس کا آلودہ خون انجیکٹ کرنے کی وجہ سے ایچ آئی وی وائرس یا ایڈز میں مبتلا ہوئے جن میں سے  بیس سے کم لوگ زندہ بچے ہیں۔ (12) سن انیس سو ترانوے میں لیے گئے آخری جائزے کے مطابق کم از کم اٹھارہ سو ایرانی فرانس کے آلودہ بلڈ پروڈکٹس کے استعمال کی وجہ سے ہیپاٹائٹس اور ایڈز میں مبتلا ہوئے ہیں۔(13) مغربی ملکوں خاص طور امریکا کی جانب سے نوے کے عشرے میں ایران کو ایچ آئي وی وائرس کی ٹیسٹ کٹ فروخت کرنے میں کی گئي خلاف ورزیوں کے سبب مبتلا افراد کی صحیح اور تیز شناخت اور اسی طرح اس سلسلے میں قابل اعتماد اعداد و شمار اکٹھا کرنا ممکن نہیں ہو سکا۔(14)

ایران کے ہیموفیلیا سینٹر کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر احمد قوی دل نے ایران مریضوں کی صورتحال کے بارے میں کہا ہے: آلودہ بلڈ پروڈکٹس کے سلسلے میں شکایت کیے جانے کے بعد، ایڈز میں مبتلا ہونے والوں کی شکایت کا کیس، جو سنہ انیس سو بیاسی سے انیس سو چوراسی میں فرانس سے درآمد شدہ پروڈکٹس کے ذریعے مبتلا ہوئے تھے، پیش کیا گيا اور ایڈز کے آلودہ وائرس میں مبتلا ہونے والے ہیموفیلیا کے دو مریضوں کے والد کی جانب سے قائد انقلاب اسلامی کو شکایت آمیز خط لکھے جانے کے بعد قائد انقلاب اسلامی نے عدلیہ کو اس سلسلے میں تحقیقات کا حکم دیا۔

ایران کے بلڈ ٹرانسفیوژن کے ادارے نے بھی سنہ انیس سو نناوے میں فرانس کی میریو کمپنی کے خلاف کیس دائر کیا اور اس کے بعد ایران کی وزارت صحت اور صدر کے قانونی امور کے دفتر بھی اس کیس میں شامل ہو گئے۔ غیر محفوظ بلڈ پروڈکٹس کی تیاری میں فرانسیسی کمپنی کی کوتاہی ثابت ہونے کے بعد دیگر ممالک نے بھی اس کمپنی سے ہرجانہ حاصل کرنے کے لیے اقدام کیا اور انھوں نے ہرجانہ حاصل کر لیا۔ ایران وہ واحد ملک ہے جسے فرانسیسی حکومت کی خلاف ورزی کے سبب اب تک میریو کمپنی سے ہرجانہ نہیں ملا ہے۔ (15)

ان کا کہنا ہے کہ ایران میں ایڈز کی شروعات کی اصل وجہ، فرانس سے آلودہ خون کی ایران آمد تھی۔ مریضوں کو اس وائرس میں مبتلا ہونے کی خبر ہی نہیں تھی، اس لیے انھوں نے شادی کی اور اس طرح سے وہ، اس مہلک وائرس کے ایران میں پھیلنے کا سبب بنے۔(16)

مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ فرانس کی حکومت نے، اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے ہی، شاہی حکومت کے حامیوں اور مجاہدین خلق آرگنائزیشن کے اراکین جیسے اسلامی جمہوریہ ایران کے مخالف دہشت گردوں کو پناہ دے کر، ایران کے خلاف عراق کی جانب سے مسلط کردہ جنگ میں صدام حسین کی بھرپور حمایت کر کے، ایران کو جان بوجھ کر ایڈز کے وائرس سے آلودہ بلڈ پروڈکٹس برآمد کر کے، گروپ پانچ جمع ایک کے ایٹمی مذاکرات کے دوران ایران کے خلاف سخت موقف اختیار کر کے اور ایرانی عوام کے خلاف امریکا کی ظالمانہ پابندیوں کی مدد کر کے نیز انھیں نافذ کرنے میں سرگرمی سے شرکت کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کے باشندے کے ساتھ دشمنی پر بضد ہے اور واضح سی بات ہے کہ ایسے حالات میں کورونا وائرس کے ویکسین کے حصول کے لیے فرانس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

 

 (1)

Casteret, Anne-Marie (1992). L'affaire du sang (French). Paris: Éditions La Découverte. ISBN 2707121150. 

(2)

Jean Sanitas (1994). Le sang et le SIDA: une enquête critique sur l'affaire du sang contaminé et le scandale des transfusions sanguines. L'Harmattan. ISBN 2-7384-3085-6.

(3)

https://www.discovermagazine.com/health/blood-money

(4)

https://www.theguardian.com/commentisfree/2017/aug/01/contaminated-blood-scandal-britain-canada-inquiry

(5)

Hagen, Piet (1993). Blood Transfusion in Europe: A "white Paper", Volume 68. p. 26. ISBN 9287123764.

(6)

https://www.france24.com/fr/20150727-visite-laurent-fabius-iran-affaire-sang-contamine-ultraconservateurs-medias-iranien-france-teheran-sida-vih-nucleaire

(7)

https://www.nytimes.com/1994/02/13/world/scandal-over-tainted-blood-widens-in-france.html

(8)

https://www.lemonde.fr/archives/article/2000/01/01/sang-contamine-edmond-herve-condamne-laurent-fabius-et-georgina-dufoix-relaxes_3597933_1819218.html

(9)

https://www.wsws.org/en/articles/1999/03/hiv-m12.html

(10)

https://www.mashreghnews.ir/news/407034

(11)

www.magiran.com/npview.asp?ID=1757603

(12)

https://www.imna.ir/news/141821

(13)

https://www.borna.news/fa/tiny/news-1117281

(14)

https://www.isna.ir/news/96091105591

(15)

https://www.isna.ir/news/93121609454

(16)

https://www.imna.ir/news/141821