ہمارا جو منطقی مطالبہ ہے وہ پابندیوں کا خاتمہ ہے جو ایرانی قوم کا غصب شدہ حق ہے۔ یہ جملے رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کے آخر میں کہے گئے اور انہوں نے اسے اسلامی جمہوریہ ایران کی حتمی اور آخری بات قرار دیا۔
KHAMENEI.IR وب سائٹ نے " حتمی بات " کے ذیل میں پابندیوں اور جے سی پی او اے کے سلسلے میں رہبر انقلاب اسلامی کے موقف پر اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف سے گفتگو کی ہے۔
پابندیوں کے خاتمے کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی کے بیان کے سلسلے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے؟
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ملک میں تیز رفتار ترقی کا ایک شعبہ سائنس و ٹکنالوجی کا شعبہ تھا اور رہبر انقلاب نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ ملکی و سائنسی ترقی کے لئے آخری سانس تک کھڑا رہوں گا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ تمام شعبوں میں، نینو، بایو ٹیکنالوجی، ایٹمی ٹیکنالوجی، میڈیکل سائنس جیسے کرونا ویکسین کا مسئلہ ان سب شعبوں میں ہم نے ترقی کی ہے اور آج ہم ان شعبوں میں دنیا کے دس بڑے ملکوں میں شامل ہیں۔
امریکہ اور صیہونی حکومت ہماری اس علمی ترقی سے فکرمند تھے۔ ہمارے ملک کی ترقی کے تمام شعبوں میں وہ خلل نہیں ڈال سکتے تھے لیکن ایٹمی انرجی کے شعبے میں انہوں نے بہانہ تراش لیا۔ دباؤ ڈالا، پابندیاں عائد کیں اور ہمیشہ دھمکی دیتے رہتے ہیں اور بھی بہت کچھ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایٹمی معاہدے کی نوبت آئي۔ ایٹمی معاہدے نے کیا کیا؟ جے سی پی او اے کا اصل مقصد پہلے تو یہ تھا کہ صیہونی حکومت اور امریکہ ہمارے اوپر جو الزامات عائد کرتے ہیں ان کا جواب دے اور ایران کے پر امن ایٹی پروگرام کے بارے میں شکوک و شبہات کا ازالہ کرے۔ اس کے بعد ایٹمی معاہدے کا یہ مقصد تھا کہ امریکہ کی جانب سے عائد غیر انسانی، غیر قانوین اور بے رحمانہ پابندیوں کا خاتمہ کرے۔ در حقیقت جے سی پی او اے کا اصل مقصد ان تمام پابندیوں کا خاتمہ تھا جو انہوں نے عائد کی تھیں۔
ٹرمپ نے ایک دستخط کرکے تمام طے شدہ امور کو ختم کر دیا کہ جس سے یہ واضح ہو گيا کہ وہ لوگ کس طرح سے غنڈہ گردی کے ساتھ اور عالمی قوانین کے خلاف کام کرتے ہیں بلکہ انہوں نے مزید پابندیاں بھی عائد کر دیں۔ اب اگر جے سی پی او اے کا یہ مقصد تھا کہ وہ تمام پابندیوں کو پوری طرح سے ختم کرے مگر وہ ایسا نہ کر پائے تو پھر ایسے معاہدے کا فائدہ کیا ہے؟
امریکیوں کے اس قدم سے حقیقت میں اور عملی طور پر ایٹمی معاہدے کا مقصد ہی پورا نہیں ہوا ہے۔
جی ہاں یہاں تک کہ اوباما کے زمانے میں بھی پابندیوں کا خاتمہ نہیں ہوا۔ اس کے بعد ٹرمپ نے غیر ایٹمی اور مختلف طرح کی دیگر پابندیاں بھی عائد کر دیں کہ جن میں دوا اور اشیائے خورد و نوش بھی شامل کر دی گئيں۔
رہبر انقلاب نے یہ شرط لگائي ہے کہ جے سی پی او اے میں امریکہ کی واپسی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ پابندیاں ختم کرے۔ آپ کی نظر میں امریکہ اور یورپ کو پابندیوں کے خاتمے کے لئے کیسے عملی اور خاص قدم اٹھانے چاہئیں؟
جے سی پی او اے میں امریکہ کی واپسی ہمارے اور ہماری قوم کے لئے بالکل ہی اہم نہيں ہے۔ کیوں اہم نہیں ہے؟ اس لئے اہم نہیں ہے کہ ہمارے لئے جے سی پی او اے کا موضوع ہی پابندیوں کا خاتمہ ہے۔ بہرحال امریکہ خود جے سی پی او اے سے نکلا ہے اور جے سی پی او اے کے علاوہ بھی بہت سی پابندیاں ہماری قوم پر عائد کی ہیں اور اس نے جے سی پی او اے میں مذکور اپنے وعدوں پر بھی عمل نہیں کیا ہے۔ اب اگر امریکہ جے سی پی او اے میں واپس آئے گا تو آکر وہ کیا کرےگا؟ سب سے پہلے تو اس کے لئے لازم ہے کہ وہ جے سی پی او اے سے نکلنے کے بعد عائد کی گئي تمام پابندیوں کو ختم کرے اور جے سی پی او اے میں دئے گئے اپنے جن وعدوں پر اس نے عمل نہیں کیا ہے ان سب پر معاہدے کے مطابق عمل کرے۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پابندیوں کا خاتمہ عملی طور پر ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم معاشی شعبے میں واضح طور پر اور معمول کے مطابق کام کر سکیں۔ اپنا تیل فروخت کریں اور اسی طرح دیگر چيزیں بر آمد اور در آمد کریں ۔ بینکنگ سسٹم معمول کے مطابق اپنا کام کر سکے اور جن ملکوں میں ہمارا سرمایہ ہے اور اسے ہم حاصل نہیں کر پا رہے ہیں، ان تک ہماری رسائي ہو جائے۔ یہ سارے کام عملی طور پر ہونے چاہیے اور ہماری قوم، عوام اور ملک کی معیشت اسے عملی طور پر دیکھے، ورنہ اوباما اور جان کیری کے دور میں ہم نے دیکھا کہ معاہدے پر دستخط ہوئے، ہم نے اپنے وعدے پورے کئے اور ان لوگوں نے کاغذ پر اپنے وعدوں پر عمل کیا لیکن ہم دوا تک در آمد نہیں کر سکتے تھے۔
کمٹمنٹ پر عمل کے جواب میں کمٹمنٹ پر عمل کے سلسلے میں پارلیمنٹ اور حکومت نے کچھ قدم اٹھائے ہیں جن کی وجہ سے مغربی فریق کے اقدامات کے پیش نظر اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے وعدوں پر عمل میں کمی لائی جائے اور یورینیم کی بیس فیصد افزودگی کا بھی آغاز ہو گيا ہے۔ آپ کی نظر میں، جے سی پی او اے کے تجربے کی بنیاد پر کیا اس بار طاقت کے حربوں کو استعمال کیا جا سکتا ہے؟
بیس فیصد افزودگی کا معاملہ پابندیوں کے خاتمے کی اسٹریٹجک تجویز کے ذیل میں تھا کہ جسے پارلیمنٹ میں قانون کی شکل میں منظور کیا گيا۔ ایسا کیوں ہوا؟ ظاہر ہے، طے یہ تھا کہ تمام فریق اپنے اپنے وعدوں پر عمل کریں، ہم نے اپنے تمام وعدوں پر عمل کیا، لیکن انہوں نے اپنے وعدوں پر عمل نہيں کیا۔
اس بل میں ہم طاقت کا مظاہرہ چاہتے تھے۔ ویسے میں واضح کر دوں کہ پارلیمنٹ میں جو قانون منظور ہوا ہے وہ جے سی پی او اے کے دائرے میں ہے۔ جے سی پی او اے کی کچھ شقوں میں اراکین کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر کوئي فریق اپنے کمٹمنٹس پر عمل نہیں کرتا ہے تو دوسرا فریق بھی اپنے کمٹمنٹس پر عمل نہ کرے۔
پارلیمنٹ میں جو قانون منظور ہوا ہے۔ در حقیقت اس نے سفارتکاری کو طاقت عطا کی ہے۔ یقینا ایک حقیقی طاقت، کیونکہ ہم نے کوئی نمائشی قانون منظور نہیں کیا ہے۔
ایک بار تو یہ بھی میں نے سنا کہ جے سی پی او اے کے ایک فریق نے مذاکرات کے دوران ہمارے وزیر خارجہ سے مطالبہ کیا کہ آپ اپنے قوانین پر عمل نہ کریں! ہاں ہم نے اس کے ٹرمپسٹ نمونے کا مشاہدہ امریکہ میں کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ جمہوریت کا کیا مطلب ہے؟ یورپ والوں سے بھی یہی بات سنی ہے۔ مطلب وہ یہ کہتے ہيں کہ اپنے ملک کے قانون پر عمل نہ کریں اور یہ یقینا بے حد حیرت انگيز ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے بیانات میں بار بار دوہرائي جانے والی ایک بات 'جے سی پی او اے کا تجربہ' ہے۔ ہمارے سامنے ایٹمی شعبے میں کئي برسوں تک ایک مسئلہ تھا اور پھر ہم نے حالیہ چند برسوں ميں جے سی پی او اے کا تجربہ حاصل کیا۔ اب موجودہ حالات میں اگر اس شعبے میں ملک کوئي نیا قدم اٹھانا چاہے تو آپ کی نظر میں حقیقت میں روڈ میپ کیا ہو سکتا ہے؟
ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں جو کچھ بھی ہوا ہے میری نظر میں اس سے ایک چیز تو بڑی واضح اور شفاف ہو گئي ہے اور وہ یہ ہے کہ دشمن پر اعتماد نہيں کیا جا سکتا۔ دشمن اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے کوشش کرتا ہے۔ ہم دشمن بنانے یا دشمن پیدا کرنے کی کوشش میں نہيں ہیں۔ دشمن اسے کہتے ہيں جس کی دشمنی، ہمیں اپنی تاریخ کے مطالعے کے دوران، چاہے وہ انقلاب سے پہلے کی تاريخ ہو یا بعد کی، واضح طور پر نظر آتی ہے۔ یہاں تک کہ ایٹمی معاملے میں بھی۔ ہم نے امریکہ سے بات چیت شروع کی اور اتفاق رائے بھی ہوا لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ ان لوگوں نے کیسے وعدہ خلافی کی اور اپنے کسی وعدے پر عمل نہیں کیا۔ یہاں تک کہ جب ان کی حکومت بدلی تو پوری طرح سے بدل گئے اور معاہدے اور اس کی ساری شقوں کو پوری طرح سے ختم کر دیا۔