رہبر انقلاب اسلامی نے ظالم شاہی حکومت کے خلاف مقدس شہر قم کے عوام کے تاریخی قیام کی سالگرہ کے موقع پر اپنے خطاب میں جو آج آٹھ جنوری 2021 کو ٹیلی ویژن سے براہ راست نشر ہوا کلیدی موضوعات پر بحث کی۔ آپ نے فرمایا کہ پابندیوں کے مسئلے میں مغربی محاذ اور ہمارے دشمنوں کا فرض ہے کہ اس خبیثانہ عمل یعنی ملت ایران پر عائد کی گئی پابندیوں کو فورا ختم کریں، یہ ان کا فریضہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ صرف اسلامی جمہوری نظام اور حکومت سے نہیں بلکہ ملت ایران سے بڑی اور بے بنیاد دشمنی ہے، وہ ملت ایران سے دشمنی نکال رہے ہیں، یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ فورا اس عمل کو روکیں۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی معیشت کو ایسی شکل میں ڈھالنا ہے  اور ایسی منصوبہ بندی کرنی ہے کہ پابندیوں کے باوجود ہم ملک کو بہترین انداز میں چلا سکیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں بارہا کہہ چکا ہوں اور ایک بار  پھردوہرا رہا ہوں کہ ہمیں اپنے ملک کی معیشت کے لئے ایسی منصوبہ بندی کرنا ہے کہ پابندیوں کے لگنے یا ہٹنے اور دشمن پیترے بازی سے ملکی معیشت کے سلسلے میں ہمیں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے '19 دی' مطابق آٹھ جنوری کے اہل قم کے قیام کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ انیس دی کے قیام کو بڑے بت کے پیکر پر ابراہیمی کلہاڑی کی پہلی ضرب قرار دیا جا سکتا ہے، یہ کلہاڑی کی پہلی ضرب تھی جو قم کے عوام کے ذریعے بڑے بت امریکا پر لگائی گئی اور پھر یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ کے حالیہ واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ آج امریکہ کی حالت دیکھ رہے ہیں، بڑے بت کی حالت آج آپ کی نظر کے سامنے ہے۔ یہ ان کی جمہوریت ہے، یہ ان کی انتخاباتی فضیحت ہے، یہ ان کے انسانی حقوق ہیں کہ ہر چند گھٹنے میں یا ہر چند روز میں ایک بار کوئی نہ کوئی سیاہ فام بلا وجہ، بلا جرم سڑک پر قتل کر دیا جاتا ہے اور قاتل کے خلاف کارروائی بھی نہیں ہوتی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے دنیا میں یہاں تک کہ خود امریکا کے دوستوں کے ذریعے امریکی اقدار کا مذاق اڑائے جانے کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ یہ امریکہ کی مفلوج معیشت ہے، امریکی معیشت واقعی مفلوج ہو چکی ہے، کروڑوں افراد بے روزگار، بھکمری کے شکار اور بے گھر ہیں، آج امریکہ کی یہ حالت ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں مزید فرمایا کہ امریکہ اس علاقے کے عدم استحکام میں اپنا فائدہ دیکھتا ہے اور یہ بات وہ اعلانیہ کہتے بھی ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے یاد دہانی کرائی کہ سنہ 2009 میں امریکہ ایران میں عدم استحکام پھیلانا چاہتا تھا اور 2021 میں یہی مصیبت خود ان پر نازل ہوئی ہے۔ واشنگٹن میں جو کچھ ہوا خاص طور پر پرسوں کچھ لوگ کانگریس کے اندر داخل ہو گئے اور کانگریس کے ممبران کو خفیہ راہداریوں سے باہر نکالا گيا، وہ یہی کام ایران میں کرنا چاہتے تھے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے علاقے میں ایران کی موجودگی کے بارے میں فرمایا کہ ایران کی علاقائی موجودگی کے بارے میں استکباری محاذ یہی رٹ لگائے ہوئے ہے کہ ایران علاقے میں کیوں سرگرم ہے؟  آپ نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی ذمہ داری ہے کہ اس انداز سے کام کرے کہ علاقے میں اس کے دوست اور طرفدار مضبوط ہوں۔

آپ نے آگے کہا کہ ہماری موجودگی استحکام بخش ہوتی ہے، یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی موجودگی عدم استحکام کے اسباب و علل کو رفع کرتی ہے، عراق میں داعش کا بحران، شام کے گوناگوں مسائل، اسی طرح دیگر بہت سے واقعات جن کی تفصیلات میں اس وقت نہیں بیان کرنا چاہتا، یہ ساری چیزیں متعلقہ افراد کو معلوم ہیں، بنابریں علاقے میں ایران کی موجودگی یقینی ہے، اسے جاری رہنا چاہئے اور جاری رہے گی۔

 رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ایران کی دفاعی توانائی اور میزائل قوت بھی استکباری محاذ کے ساتھ جاری تنازعے میں اہم مسئلہ ہے، آپ نے اس سلسلے میں فرمایا کہ کیا اسلامی جمہوریہ ایران کو یہ حق نہیں ہے کہ ملکی دفاعی قوت کو اس سطح پر رکھے کہ صدام حسین جیسا نا اہل شخص تہران پر بمباری کر دے، میزائل حملہ کر دے اور اس کے مگ 25 طیارے تہران کے اوپر پرواز کریں اور وہ اپنے دفاع میں کچھ نہ کر سکے؟ ایسا (مسلط کردہ جنگ کے دور میں) ہو چکا ہے اور ہمارے پاس وسائل کا فقدان تھا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آج ہماری دفاعی طاقت ایسی ہے کہ ہمارے دشمن اپنے منصوبوں میں ایران کی طاقت کا لوہا ماننے پر مجبور ہیں، جب ایران کا میزائل فضائی حدود میں دراندازی کرنے والے جارح امریکی طیارے کو مار گرانے پر قادر ہے یا جب ایران کے میزائل عین الاسد چھاونی کو اس انداز سے مسمار کر دیتے ہیں تو دشمن اپنے منصوبوں اور عسکری فیصلوں میں ملک کی اس طاقت اور توانائی کو پیش نظر رکھنے پر مجبور ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ایٹمی معاہدے کے موضوع پر بھی بات کی، آپ نے فرمایا کہ ایٹمی معاہدے کے تعلق سے یہ بحث ہے کہ امریکہ اس میں واپس آتا ہے یا نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارا اس پر کوئی اصرار نہیں ہے اور نہ ہمیں کوئی جلدی ہے کہ امریکہ ایٹمی معاہدے میں واپس آئے، بلکہ سرے سے یہ ہمارا مسئلہ ہی نہیں ہے کہ امریکہ ایٹمی معاہدے میں واپس آئے یا نہ آئے، اگر پابندیاں ختم نہ ہوئیں تو ایٹمی ڈیل میں امریکہ کی واپسی سے ممکن ہے کہ ہمیں نقصان پہنچے، یہ ہمارے فائدے میں نہیں بلکہ ممکن ہے کہ نقصان دہ ثابت ہو۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایٹمی ڈیل پر عملدرآمد روکنے کے سلسلے میں ایران کی پارلیمنٹ اور حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ بالکل صحیح فیصلہ ہے، بڑا منطقی، عاقلانہ اور قابل قبول فیصلہ ہے، کیونکہ جب مقابل فریق ایٹمی ڈیل کے تحت تقریبا اپنے کسی بھی وعدے پر عمل نہیں کر رہا ہے تو بے معنی ہے کہ ایران ایٹمی ڈیل کے  تحت اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرتا جائے، اسی لئے کچھ عرصے سے ایٹمی معاہدے پر جزوی طور پر عملدرآمد روک دیا گيا اور حال ہی میں مزید کچھ باتوں پر عمل آوری روک دی گئی، اب اگر فریق مقابل اپنے وعدوں پر عمل کرتا ہے تو ہم بھی اپنے وعدوں پر عملدرآمد دوبارہ شروع کر دیں گے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں ایران میں بننے والے کورونا ویکسین کو قابل فخر قرار دیا اور فرمایا کہ یہ ملک کے لئے باعث عزت و افتخار ہے، مختلف پہلوؤں سے ویکسین پر کام ہو رہا ہے، ایک روش انسانی ٹرائل کے مرحلے تک پہنچی اور کامیاب بھی رہی۔

آپ نے فرمایا کہ ملک میں امریکی اور برطانوی ویکسین امپورٹ کرنا ممنوع ہے میں یہ بات عہدیداران سے بھی کہہ چکا ہوں اور عوامی سطح پر بھی کہہ رہا ہوں، اگر امریکی ویکسین بنانے میں کامیاب ہو گئے ہوتے تو آج ان کے ملک میں کورونا وائرس کا جو بحران ہے وہ نہ ہوتا۔

آپ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ چند دن قبل چوبیس گھنٹے میں چار ہزار موتیں ہوئیں، اگر وہ ویکسین بنانا جانتے ہیں، اگر ان کی فايزر کمپنی ویکسین بنا سکتی ہے تو وہ خود استعمال کریں تاکہ اتنی موتیں نہ ہوں، برطانیہ کے سلسلے میں بھی یہی بات ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ان پر بھروسہ نہیں ہے، نہیں معلوم کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ویکسین کا دیگر اقوام پر ٹرایل کرتے ہیں تاکہ اس کے اثرات کا جائزہ لے سکیں۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ فرانس کے بارے میں بھی میری اچھی رائے نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں وہ انفیکٹڈ بلڈ فروخت کرنے میں ملوث رہے ہیں۔

اہل قم کے تاریخی قیام کی سالگرہ پر ہر سال قم سے ہزاروں لوگ تہران کے حسینیہ امام خمینی میں جمع ہوتے تھے اور رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای ان سے خطاب کرتے تھے لیکن اس سال کورونا وائرس کی وبا کے باعث یہ خطاب عوامی اجتماع کے بغیر ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کیا گيا۔