قائد انقلاب اسلامی کی ویب سائٹ KHAMENEI.IR نے 'آخری بات' کے زیر عنوان عالمی امور میں قائد انقلاب اسلامی کے مشیر اور تشخیص مصلحت نظام کونسل کے رکن ڈاکٹر علی اکبر ولایتی سے گفتگو میں پابندیوں اور ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کا جائزہ لیا ہے۔

 

سوال: مغرب والے ایرانی قوم کے خلاف تمام پابندیوں کے خاتمے کے کیوں پابند ہیں؟ پابندیوں کے اٹھائے جانے کو ایٹمی معاہدے میں امریکا کے لوٹنے پر کیوں ترجیح حاصل ہے؟

جواب: امریکیوں نے ہمیں پیشکش کی تھی کہ اگر آپ اپنی ایٹمی سرگرمیاں محدود کر دیں تو ہم پابندیاں اٹھا لیں گے۔ ہم نے اسی مقررہ مدت میں، جس کا ہم نے گروپ پانچ جمع ایک سے وعدہ کیا تھا، یہ کام انجام دے دیا۔ لیکن اس کے مقابلے میں امریکی وقتی طور پر کچھ پابندیوں کو اٹھا لیتے تھے اور پھر تھوڑے تھوڑے عرصے کے لئے پابندیوں کو ملتوی کرتے رہتے تھے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ شروع سے ان کا ارادہ عارضی کام کرنے کا تھا۔

امریکا کی اگلی حکومت، اس وعدے کی بالکل بھی پابند نہیں تھی۔ امریکا میں جو بھی حکومت بر سراقتدار ہو، اگر وہ کوئي ذمہ داری لیتی ہے تو وہ اگلی حکومتوں کے لیے بھی واجب العمل ہوتی ہے۔ ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا لیکن انھوں نے خلاف ورزی کی اور ظاہر سی بات ہے کہ اگر وہ لوٹنا چاہتے ہیں تو انھیں، پابندیوں کو اٹھانا ہی ہوگا، جس کا انھوں نے وعدہ کیا تھا۔

تین دیگر مغربی ممالک یعنی فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے بھی، جو یورپی یونین کے نمائندے ہیں، امریکا کا اتباع کرتے ہوئے ہم پر بہت سی دشواریاں مسلط کیں اور ایک طرح سے بالواسطہ پابندیاں لگائيں؛ البتہ گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان روس اور چین نے جہاں تک ممکن تھا ہماری مدد کی اور اپنے وعدوں کو پورا کیا۔ تو جب امریکا کی جانب سے وعدوں کی خلاف ورزی کا اتنا خراب ریکارڈ ہے تو ہمیں بدگمانی کا حق تو حاصل ہی ہے اور اگر وہ پھر لوٹنا اور مذاکرات بحال کرنا چاہیں وہ بھی ایسی صورت میں کہ انھوں نے ابھی پچھلے وعدوں کو ہی پورا نہیں کیا ہے تو یہ کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ بنابریں جتنی جلدی ممکن ہو، انھیں ان پابندیوں کو اٹھا لینا چاہیے اور اسی کے ساتھ اس سے پہلے ہمیں جو نقصانات ہوئے ہیں، ان کا ازالہ بھی کرنا چاہیے۔

 

سوال: کیا ایٹمی معاہدے میں امریکا کے لوٹنے کا کوئي فائدہ ہوگا؟

جواب: ہمیں امریکا کے لوٹنے کا نہ تو کوئي اصرار ہے اور نہ ہی جلدبازی، لیکن اگر وہ لوٹنا ہی چاہتا ہے تو اس کی کچھ شرطیں ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ وہ پابندیوں کو اٹھائے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ نئي حکومت، ایٹمی معاہدے کی پابند ہے۔ یعنی اس کا اعلان کرے اور امریکی صدر اس کی ذمہ داری لیں۔ پہلے مرحلے میں یہ طے تھا کہ اس وقت کے صدر مسٹر اوباما ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی ذمہ داری لیں گے اور قائد انقلاب اسلامی کی شرط یہ تھی کہ امریکی صدر یہ بات تحریری طور پر لکھ کر دیں تاکہ بعد میں اسے چھپا نہ سکیں۔ البتہ ان لوگوں نے کہا کہ ہمارا زبانی وعدہ ہی کافی ہے، قائد انقلاب اسلامی اس بات پر راضی نہیں تھے لیکن افسوس کی بات کہ زبانی وعدے کی بات ہی تسلیم ہوئي اور پھر ان لوگوں نے اپنے زبانی وعدے پر عمل نہیں کیا۔ یہاں تک کہ قائد انقلاب اسلامی شروع سے ہی ٹریگر مکینزم پر بھی راضی نہیں تھے اور یہ بات ان کی مرضی کے خلاف انجام پائي۔ یقینی طور پر اگر اگلے مذاکرات ہوتے ہیں تو اس مکینزم کو ایک غیر منطقی بات کی حیثیت سے ہٹا دیا جانا چاہیے۔

 

سوال: ایٹمی معاہدے کے تحت ایران کی ذمہ داریوں کو تدریجی طور پر ختم کرنے کے پارلیمنٹ اور حکومت کے عزم کے نتائج کے بارے میں آپ کا کیا تجزیہ ہے؟

جواب: پارلیمنٹ اور حکومت نے اپنی ذمہ داری پر عمل کیا ہے۔ پارلیمنٹ میں اسّی فیصد سے زیادہ اراکین نے اس قانون کے حق میں ووٹ دیا اور یہ قانون بڑا ہی مؤقر ہے جس پر عمل کرنے کی حکومت پابند ہے۔ البتہ ہماری حکومت نے بھی یہ دکھا دیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی پیروی کرتی ہے۔ ہماری حکومت اور پارلیمنٹ کا کام پوری طرح سے قانون کے دائرے میں تھا اور اسے اس سے زیادہ مؤخر کرنا صحیح نہیں تھا۔

اس قانون میں جو اہم نکتہ ہے، وہ یہ ہے کہ ہمیں سائنس اور نیوکلیئر میڈیسین کے شعبے میں پیشرفت کی ضرورت ہے اور اس کے لیے بیس فیصدی افزودہ یورینیم کی ضرورت ہے۔ ہمارے ایٹمی سائنسدانوں نے اپنی ذہانت اور اہلیت سے بیس فیصد افزودہ یورینیم تیار کر لیا ہے جس کی بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے لیے میڈیکل میں ضرورت ہے اور یہ کام بھی پارلیمنٹ اور حکومت کے انتہائی گرانقدر کاموں میں سے ایک تھا جو پوری طرح سے قانونی ہے۔

ہم نے یہ وعدہ نہیں کیا ہے کہ جو کام، پرامن استعمال اور نیوکلیئر میڈیسین سے متعلق ہوں گے، انھیں انجام نہیں دیں گے، اس لیے یہ بہت اچھا کام تھا اور اس نے یہ دکھا دیا ہے کہ ایران جب بھی اور زیادہ سطح کی افزودگی کرنے کا فیصلہ کرے گا، تو بڑی آسانی سے یہ کام کر سکتا ہے۔

 

سوال: عالمی امور میں رہبر انقلاب اسلامی کے مشیر کی حیثیت سے آپ ایٹمی معاہدے کو جاری رکھنے کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے روڈ میپ کو کیسا دیکھتے ہیں اور ہمیں اس راستے کو کس طرح جاری رکھنا چاہیے؟

جواب: جو بھی حکومت این پی ٹی کی رکن ہو اسے ایٹمی توانائی کے پرامن فوائد سے استفادے کا حق حاصل ہے۔ ایٹمی صنعت، ایک بنیادی صنعت ہے اور تقریبا پانچ سو سائنسی و صنعتی شعبے اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس زمانے میں کوئي بھی ملک اپنے آپ کو ایٹمی توانائي کے پرامن استعمال سے محروم نہیں کر سکتا۔ جلد یا بدیر روایتی ایندھن ختم ہو جائيں گے اور ہمیں بجلی اور توانائي کی پیداوار اور اسی طرح اپنے سائنسی و صنعتی کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے ایٹمی توانائي کی گنجائشوں سے استفادے کی ضرورت ہوگي۔ اگر یہ طے ہوا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس میدان میں خودکفیل نہ ہو تو پھر وہ ایٹمی توانائی کے حامل ملکوں کے دباؤ میں رہے گا۔ لیکن ایران کبھی بھی اسے تسلیم نہیں کرے گا۔ کیونکہ یہ چیز اس کی خودمختاری کے خلاف ہے۔ دوسروں نے یہی دکھایا ہے کہ وہ اپنے وعدوں اور ذمہ داریوں کے پابند نہیں ہیں اس لیے یقینی طور پر ہمیں ایٹمی توانائي کے پرامن فوائد سے بہرہ مند ہونے کی ضرورت ہے۔

البتہ ہم نے ایٹمی سمجھوتے کے تحت جو وعدے کیے ہیں ان کی بنا پر ہماری سرگرمیاں کچھ عرصے کے لیے محدود ہوں گی لیکن سن 2025 کے بعد یہ پابندیاں ختم ہو جائیں گي اور پھر ہم قائد انقلاب اسلامی کے فتوے کے مطابق ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور ان کی دیکھ بھال جیسی دو باتوں کو چھوڑ کر، جو شرعی لحاظ سے حرام ہے، ہر طرح کی ایٹمی سرگرمیاں انجام دے سکتے ہیں اور ان شاء اللہ ضرور انجام دیں گے۔ ہم کبھی بھی ایٹمی صنعت کو نہیں چھوڑیں گے اور ہم اپنے آپ کو محروم نہیں کریں گے۔

 

سوال: کیا کوئي ایسی بات یا نکتہ ہے جوآپ بیان کرنا چاہ رہے ہوں اور وہ رہ گيا ہو؟

جواب: ہمارا ملک ایک خودمختار ملک ہے اور ہم نے اپنی خودمختاری کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ دس ہزار سالہ ثقافتی ماضی، ڈھائي ہزار سالہ سیاسی ماضی اور اسلامی تمدن کی تشکیل میں غیر معمولی علمی ماضی کا حامل ہونے کے سبب ہمارے ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ضرورتوں کو برطرف کرے اور پوری طاقت کے ساتھ انتظام چلائے۔ پورے اقتدار کے ساتھ ملک چلانا اس بات کے منافی ہے کہ دوسروں کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ ہمارے داخلی امور میں مداخلت کریں اور کہیں کہ یہ کام کرو اور وہ کام نہ کرو۔

بنابریں ہمیں اپنے ملک کے مستقبل کے سلسلے میں وہ تمام کام کرنے چاہیے جن میں قوم کی مصلحت ہو، جو ملک کے مفادات کے مطابق ہوں، عالمی قوانین کے تناظر میں ہوں اور قومی ضروریات کے مطابق ہوں۔  یقینی طور پر ہم امریکا وغیرہ کی جانب سے مسلط کی جانے والی باتوں کے سامنے نہیں جھکيں گے۔ اسلامی انقلاب کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس نے ایران کو دوسروں پر انحصار سے نجات دلائی۔ ایران کے اسلامی انقلاب سے عملی طور پر تسلط پسندوں کے ہاتھ کاٹ دیے گئے اور ایران آزاد ہو گيا۔ اگر ہم یہ بات مان لیں کہ دوسرے ہمارے مفادات کا تعین کریں یا ہماری ذمہ داریاں معین کریں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے اپنی خودمختاری کو کھو دیا ہے جبکہ ہمارے عوام نے جس خودمختاری کے لیے دسیوں برس تکلیف برداشت کی ہے۔ یقینی طور پر ہم ایسا کوئي بھی کام نہیں کریں گے جو ہماری خودمختاری کے منافی ہے۔