قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مجریہ مقننہ اور عدلیہ کے سربراہوں نیز مختلف محکموں کے اعلی حکام سے ملاقات میں اسلام اور انقلاب کے اصولوں پر پائیداری کے ساتھ عمل آوری کو مختلف شعبوں میں ترقی کا موجب قرار دیا اور اسلامی نظام کے شعبوں پر عقلی و منطقی معیاروں کی حکمرانی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ عقل و منطق کی یہ بالادستی اسلام و انقلاب کے اہداف کی تکمیل کے لئے سعی پیہم کا مقدمہ ہے۔
آپ نے قرآنی آیت کی روشنی میں صبر و نماز سے مدد حاصل کرنے پر تاکید کرتے ہوئے ان دونوں سعادت بخش عناصر سے تمسک کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ اگر صبر و پائیداری کو روح نماز یعنی لا فانی سرچشمہ الہی اور ذکر و خشوع پروردگار کے جذبے سے متصل کر دیا جائے تو انسان کی استقامت میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے اور اس صورت میں علم و دولت، سیاسی اقتدار، اخلاقی بلندی اور معنوی برتری سمیت مختلف میدانوں میں معاشرے کو بلند ترین منزلوں تک لے جانے کی راہ میں کوئی رکاوٹ اور وقفہ نہیں آتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے تقوی و تہذیب نفس اور صبر و صلاۃ کی روح تک رسائی کے لئے ماہ رمضان کو بہترین موقع قرار دیا اور فرمایا کہ صبر و مستقل مزاجی کے ساتھ اطاعت پروردگار، گناہوں کے مقابلے میں ضبط نفس پر پائیداری، معصیت سے دوری، انفرادی و ذاتی مسائل کے حل میں ممد و معاون ہے جبکہ تینوں شعبوں، مجریہ، مقننہ اور عدلیہ کی سطح پر قومی و عوامی مسائل میں حکام کی پائيداری و صبر و تحمل سے سیاسی، اقتصادی، سماجی و ثقافتی مسائل میں پوری قوم کی کامیابیوں کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے عوام کی خدمت اور اپنے دوش پر عائد فرائض کی ادائیگی میں صبر و استقامت سے کام لینے، ایسے فیصلوں اور اقدامات سے گریز جن کے منفی نتائج عوام کے دامنگیر ہو جائیں اور اسلامی نظام کے خلاف سامراج کی تشہیراتی و سیاسی یلغار پر حکام کی پائیداری و شجاعت کو انتہائی ضروری قرار دیا۔
آپ نے فرمایا کہ ظلم و استبداد، سامراج و استکبار اور عالمی سطح پر ہونے والی نا انصافی کی اسلامی جمہوری نظام کی جانب سے مخالفت ملت ایران سے عالمی طاقتوں کی دشمنی کی بنیادی وجہ ہے آپ نے فرمایا کہ عالمی سامراجی طاقتیں ہمیں خوب پہنچانتی ہیں اور ہم بھی ان کے خون آلود پنجوں اور خوبصورت غلاف کے اندر پنہاں ان کی جارحیت پسندی و تسلط پسندی کا بخوبی مشاہدہ کر رہے ہیں بنابریں سامراج اور اسلامی نظام کے درمیان ٹکراؤ باہمی شناخت کے ساتھ جاری ہے۔ آپ نے بنیادی و رہنما اصولوں پر حکام کی پائیداری و استقامت کو صبر حقیقی کا مظہر قرار دیا اور فرمایا کہ عالمی ستمگر طاقتیں اپنے تشہیراتی نیٹ ورک کا استعمال کرتے ہوئے، اسلامی تعزیرات، اسلامی معاشیات، اسلامی قوانین، اسلامی حکومت کے ڈھانچے اور دیگر مسائل کے بارے میں ہنگامہ آرائی کرتی ہیں لیکن اسلامی نظام کے حکام بدستور اسلامی اصولوں اور انقلابی بنیادوں پر قائم و عمل پیرا ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ جب حکام اپنے مسلمان ہونے، سامراج کی مخالفت کرنے اور عوام کی خدمت پر افتخار کریں گے تو عوام بھی ان سے خوش ہوں گے اور انہیں اپنے دلوں میں جگہ دیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے نعروں کی پابندی اور ملک کی ترقی کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے۔ آپ نے کہا کہ دشمن نے ہمیشہ یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی کہ اسلامی اقدار اور انقلابی اصولوں کی پابندی کی صورت میں ترقی ممکن نہیں ہے جبکہ اس کے بالکل برخلاف ملک نے انہیں نعروں، اصولوں اور اقدار کی پابندی کے نتیجے میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں حیرت انگیز ترقی و پیشرفت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان میں سے بعض ترقیاں ملکی سطح پر اور بعض عالمی سطح پر بے نظیر ہیں اور ایران دنیا کے ان معدودے چند ممالک میں شامل ہو گیا ہے جن کے پاس یہ ٹکنالوجیاں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایٹمی ٹکنالوجی کو ملک کی سائنسی ترقیوں کا ایک نمونہ قرار دیا اور فرمایا کہ ملک نے تعمیراتی اور رفاہ عامہ کے شعبوں میں بھی قابل قدر ترقی کی ہے۔ آپ نے اپنے خطاب میں اسی طرح تاکید فرمائی کہ فیصلوں میں عوام کی مرضی و خواہش کا خیال رکھے جائے۔
اس موقع پر صدر مملکت ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے مجریہ مقننہ اور عدلیہ کے درمیان اتحاد و ہم آہنگی پر تاکید کرتے ہوئے عوام دوستی، انصاف پسندی، قانون کی پابندی، اصلاح پسندی، سعہ صدر و بردباری کو موجودہ حکومت کی خصوصیات قرار دیا۔ انہوں نے مختلف شعبوں میں حکومت کی کارکردگی، اہم اقدامات اور منصوبوں کے بارے میں بتایا۔
ملاقات کے اختتام پر قائد انقلاب اسلامی کی امامت میں حاضرین نے نماز مغرب و عشاء ادا کی اور آپ کے ساتھ روزہ افطار کیا۔