خطاب حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین.
محترم خواتین! خوش آمدید! میں خاص طور پر شہدائے عزیز بالخصوص حال ہی میں (12 روزہ صیہونی امریکی جارحیت میں) شہید ہونے والوں کے جو ملک اور اسلامی جمہوری نظام کی قوت و اقتدار کے مظہر ہیں، لواحقین کا خیر مقدم کرتا ہوں۔
میں ان خواتین کا شکرگزار ہوں جنہوں نے یہاں تقریر کی۔ انھوں نے اپنی تقریروں میں جو کچھ کہا وہ بہت اہم ہے۔ شہید رشید (امین عباس رشید) کی اہلیہ اور ماں اور اسی طرح شہید سلامی کی بیٹی نے جو تقریر کی ہے، وہ اپنے موضوع اور معنی کے لحاظ سے اس روشن ذہن اور اعلی فکر کی نشاندہی کرتی ہے جو ان خواتین اور ملک کی سبھی فداکار خواتین میں پائی جاتی ہے۔ ان کی تقریر متن کے لحاظ سے بھی بہت اچھی اور سننے سے تعلق رکھتی تھی۔ میں سبھی خواتین بالخصوص ان خواتین کا بہت شکرگزار ہوں۔
یہ ایام حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) سے مخصوص ہیں۔ میں چند جملے اس ہستی کے بارے میں عرض کروں گا اور پھر خواتین کے مسئلے پر گفتگو کروں گا جو آج کی دنیا کا اہم موضوع ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے فضائل بے شمار اور لامحدود ہیں۔ ایک جملے میں آپ کو اہل عرش اور انسان کامل کہا جا سکتا ہے جس طرح کہ دیگر معصومین، انسان ہیں لیکن اہل عرش ہیں۔ ہم زمین کی رہنے والی ان ہستیوں کے درجات و مراتب اور نورانیت کو سمجھنے حتی دیکھنے پر بھی قادر نہیں ہیں جس طرح کہ کوئی انسان براہ راست سورج کو نہیں دیکھ سکتا۔ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا مرتبہ اتنا بلند ہے۔ آپ زندگی کے سبھی پہلووں میں، ملکوتی انسان اور اہل عرش ہیں، چاہے وہ عبادت اور پروردگار عالم کے سامنے خضوع و خشوع کی منزل ہو، یقینا آپ کی عبادتوں اور راتوں میں آپ کی مناجات کے بارے میں سنا ہوگا، اور چاہے عوام الناس کے لئے ایثار وفداکاری ہو، آپ خدا پر توجہ، معنویت اور معرفت الہی میں غرق نظر آتی ہیں، لیکن زمین اور انسانوں سے غافل نہیں ہیں۔
شادی کی رات اپنا لباس عروسی سائل کو، فقیر کو دے دیتی ہیں؛ تین دن تک کھانا نہیں کھاتیں اور اپنی افطاری سائل کو دے دیتی ہیں اور عوام کی مشکلات دور کرتی ہیں۔
سختیوں اور مصیبتوں کے تحمل میں؛ کون ہے جو حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے مصائب کو برداشت کر سکے؟ اس تعلق سے بھی آپ آسمانی انسان ہیں، اہل عرش ہیں۔
حق مظلوم کے شجاعانہ دفاع میں؛ حقیقت بیانی اور حقائق کو برملا کرنے میں؛ فہم وادراک اور سیاسی اقدام میں۔ دیکھئے! یہ سب حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی خصوصیات ہیں۔
ایک عورت کی حیثیت سے اور خواتین کے امور میں، امور خانہ داری، شوہر کی دیکھ بھال، بچوں کی پرورش، آپ کی آغوش تربیت میں زینب جیسی ہستی پروان چڑھتی ہے، امام حسن اور امام حسین جیسی عظیم ہستیوں کی پرورش کرتی ہیں۔ تاریخ کے نا قابل فراموش مقامات پر موجودگی، شعب ابو طالب میں موجودگی، ہجرت مدینہ میں موجودگی، بعض غزوات پیغمبر میں موجودگی، واقعہ مباہلہ میں موجودگی۔ اس فہرست کی کوئی انتہا نہیں ہے؛ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) ان خصوصیات سے آراستہ ہیں۔ آپ کے فضائل کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اس ارشاد میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ سیدہ نساء العالمین ہیں۔ عالمین کی خواتین کی سردار ہیں۔
روایت میں ہے کہ پیغمبر سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ جملہ کہ "سَیِّدَۃ نِساءِ العالَمین" حضرت مریم کے لئے آیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ " مَریَمَ کانَت سَیِّدَۃ نِساءِ عالَمھا" ( 2) یعنی مریم اپنے زمانے کی خواتین کی سردار تھیں لیکن فاطمہ سبھی عالمین اور تاریخ کے سبھی ادوار کی خواتین کی سردار ہیں۔ آپ صحیح باتیں ایسی ہستی سے حاصل کرتی ہیں، ایسی ہستی کی جانب آگے بڑھتی ہیں، اپنا ہدف اس ہستی سے حاصل کرتی ہیں؛ یہ وہ نکات ہیں جنہیں الحمد للہ، ہمارے معاشرے کی خواتین، ہمارے ملک کی خواتین نے مرکز توجہ بنا رکھا ہے اور ان پر ان کی توجہ ہونی بھی چاہئے۔ یہ چند جملے حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے بارے میں تھے۔
اب خواتین سے متعلق مسائل کی طرف آتے ہیں، جو آج دنیا میں درپیش ہیں اوران کی وجہ وہ جفائيں ہیں جو کی گئی ہیں اور اب بھی جاری ہیں۔ میرے خیال میں خواتین سے متعلق مسائل میں، دو موضوع سب سے زیادہ اہم ہیں : ایک "خواتین کی شان اور منزلت" ہے اور دوسرا "خواتین کے حقوق" کا مسئلہ ہے۔
اسلام میں خواتین کی شان اور منزلت بہت اعلی ہے۔ خواتین کی شخصیت اور تشخص کے بارے میں بہترین تعبیریں اور مفاہیم، قرآن میں ملتے ہیں؛ میں نے مثال کے طور پر کچھ کو یہاں نوٹ کیا ہے۔
اول، حیات و تاریخ بشر کا وجود عورت اور مرد دونوں سے ہے، دونوں برابر ہیں۔ اِنّا خَلَقناکُم مِن ذَکَرٍ وَ اُنثیٰ؛ (3) یعنی یہ سلسلہ بشری جو کئی ہزار برس سے جاری ہے اور خدا جانتا ہے کہ کتنے ہزار برس اور جاری رہے گا، (4) اپنی خلقت میں، ایک عورت اور ایک مرد کا مرہون منت ہے۔ اس نظام کی بنیاد ایک مرد اور ایک عورت نے رکھی ہے؛ یعنی قرآن کے نقطہ نگاہ سے، حیات بشریت میں پچاس فیصد کردار عورت کا ہے۔
دوم عمومی فریضہ ہے؛ خداوند عالم نے انسانوں کو ایک ہدف کے لئے خلق کیا ہے، ایک اعلی مرتبے تک پہنچنے کے لئے؛ اس مسئلے میں بھی اسلام کی نظر میں عورت اور مرد، دونوں یکساں ہیں۔ ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وَ مَن یَعمَل مِنَ الصّالِحاتِ مِن ذَکَرٍ اَو اُنثیٰ وَ هُوَ مُؤمِن۔ (5) ایمان اور عمل صالح کی تاثیر عورت اور مرد میں یکساں ہے اور دونوں ہی کو نجات دلاتا ہے۔ اس کا ذکر قرآن کریم کی متعدد آیات میں کیا گیا ہے۔ یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے سورہ نساء کی ہے لیکن دیگر متعدد آیات میں بھی یہ بات کہی گئی ہے۔
سوم معنوی کمالات اور ان کے وسائل کا حصول ہے۔ جب مرد کی طرح عورت میں بھی ایمان اور عمل صالح کی صفت پیدا ہو جاتی ہے تو اس کے لئے بھی معنوی کمالات اور اعلی ترین درجات تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے اور اس کے راستے کھل جاتے ہیں۔
دیکھئے! یہ سبھی باتیں اور نکات ان بدگمانیوں کے خلاف ہیں جو ان دینداروں میں پائی جاتی ہیں جنھوں نے دین کو نہیں پہچانا ہے اور اسی طرح ان لوگوں میں بھی ہیں جو دین کو نہيں مانتے۔ خداوند عالم سورہ احزاب میں فرماتا ہے کہ "اِنَّ المُسلِمینَ وَ المُسلِماتِ وَ المُؤمِنینَ وَ المُؤمِناتِ وَ القانِتینَ وَ القانِتاتِ وَ الصّادِقینَ وَ الصّادِقاتِ وَ الصّابِرینَ وَ الصّابِراتِ وَ الخاشِعینَ وَ الخاشِعاتِ وَ المُتَصَدِّقینَ وَ المُتَصَدِّقاتِ وَ الصّائِمینَ وَ الصّائِماتِ وَ الحافِظینَ فُرُوجھم وَ الحافِظاتِ وَ الذَّاکِرینَ اللّہ کَثیراً وَ الذَّاکِرات" (6) ہر جگہ عورت اور مرد دونوں کا ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ دس درجات میں عورت اور مرد دونوں کو یکساں اور برابری کے ساتھ بندگان خدا اور بندگان مومن میں شمار کیا گیا ہے۔ جن لوگوں میں یہ صفات پائی جاتی ہیں، ان کے لئے خدا کا کرم اور بخشش ہے۔ وہ اللہ کی توجہ کے مستحق اور آسمانی، معنوی اور خدائی درجات تک پہنچنے کے لائق ہیں۔
مردوں کے ساتھ برابری کے حقوق کے بارے میں خداوند عالم سورہ بقرہ میں فرماتا ہے کہ "وَ لھَّن مِثلُ الَّذی عَلَھِنّ" (7) یہ قرآن کی منطق اور دلیل ہے۔ دیکھئے! کس طرح مومن اور انسان کی حیثیت سے عورت اور مرد کے درمیان، اعلی ہستی کے عنوان سے، مساوات اور برابری برقرار کی گئی ہے۔
اسلام کے نقطۂ نگاہ سے عورت کسب معاش اور سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہے۔ اکثر حکومتی عہدوں تک پہنچ سکتی ہے اور زندگی کے سبھی شعبوں میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لے سکتی ہے۔ عورت کے بارے میں مغرب کی غلط، بری اور پست ثقافت جس چیز کو بیان کرتی ہے، اس کی طرف ہم بعد میں اشارہ کریں گے، اسلام اس کو مسترد کرتا ہے۔ اسلام میں عورت ترقی اور پیشرفت کے ان سازگار حالات میں، مادی دنیا میں زندگی گزارتی ہے اور عالم معنوی میں سیروسلوک کی منزلیں طے کرتی ہے۔
اسلام میں خواتین کے سلسلے میں جو نکات پائے جاتے ہیں، ان میں کچھ پابندیاں بھی ہیں جو مرد کے سلسلے میں بھی پائی جاتیں۔
یہ برابری ہے (جس کا ذکر ہوا) لیکن عورت اور مرد کے رابطے میں کچھ رکاوٹیں بھی ہیں جو اسلام کی خصوصیات میں سے ہیں۔ مغرب کی پست تہذیب میں ان کو اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خواہشات، بالخصوص جنسی خواہشات میں بہت زیادہ کشش پائی جاتی ہے جنہیں کنٹرول کرنا ضروری ہے اور اسلام اپنے احکام کے ذریعے انہیں کنٹرول کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اگر ان احکام پر عمل نہ کیا جائے تو یہ بے لگامی وہی کرے گی جو اس نے مغرب میں کیا ہے جو آپ سنتے ہیں اور امریکا اور یورپ نیز اکثر مغربی ملکوں میں بدعنوانی اور فحاشی پھیلانے والے گینگوں اور گروہوں سے واقف ہیں۔
عورتوں اور مردوں کے لباس کے سلسلے میں بھی مردوں اور خواتین، دونوں کے لئے کچھ پابندیاں ہیں۔ جسم چھپانے کا تعلق صرف خواتین سے نہیں ہے۔ خواتین کا حجاب بھی انہیں مسائل میں سے ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو ان خطرناک اور خطرہ پیدا کرنے والے عوامل کو روکتی ہیں۔
اسلامی ثقافت میں عورت کی شان اور منزلت منطقی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ خواتین کی منزلت بہت اعلی ہے جس کی طرف میں نے صرف اشارہ کیا ہے۔ دوسرے یہ منزلت منطقی بھی ہے یعنی خواتین کی فطرت نیز معاشرے کی ضرورت اور مصلحت کے مطابق بھی ہے۔
اسلام کی نگاہ میں عورت اور مرد، دو متوازن انسانی عنصر ہیں؛ مکمل طور پر متوازن، ان میں مشترکات بہت ہیں، بعض باتیں مختلف ہیں۔ ان دونوں کو زندگی اور نسل انسانی کے دوام، تہذیبی پیشرفت اور روحانی ضروریات کی تکمیل میں، روحانی ضروریات میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ یعنی عورت اور مرد، دنیا چلاتے ہیں اور اپنا اندرونی انسانی نظام بھی چلاتے ہیں۔ ایک اہم کام جو دونوں، انجام دیتے ہیں، خاندان کی تشکیل ہے لیکن مغربی تہذیب اور سرمایہ دارانہ نظام کی غلط منطق میں، خاندان کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ میں بعد میں خاندان میں پائے جانے والے حقوق کا بھی اشارتا ذکر کروں گا۔ عورت کے حقوق، مرد کے حقوق، بچوں کے حقوق، اور ان تینوں، یعنی عورت، مرد اور بچوں کے باہمی حقوق۔
عورت کی منزلت بیان کر چکا، یہیں پر عورت کے حقوق کا مسئلہ بھی بیان کردوں۔
خواتین کے حقوق کے بارے میں پہلا حق جو خواتین کے لئے نظر میں رکھنا چاہئے، وہ سماج اور خاندان کے اندر ان کے ساتھ انصاف کا مسئلہ ہے۔ معاشرے اور گھر میں انصاف خواتین کا پہلا حق ہے؛ جو انہیں ملنا چاہئے؛ خواتین کو ان کا یہ حق فراہم کرنا سب کا فریضہ ہے؛ حکومتوں کا فریضہ بھی ہے اور افراد معاشرہ کا فریضہ بھی ہے۔
سیکورٹی، حرمت اور تکریم بھی خواتین کے حقوق میں ہے۔ عورت کی تکریم محفوظ رہنی چاہئے۔ لیکن خباثت آلود سرمایہ دارانہ نظام خواتین کی تکریم ختم کر رہا ہے، پامال کر رہا ہے۔
اسلام میں عورت کی تکریم اور احترام بنیادی ترین عناصر میں سے ہے۔ پیغمبر سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ َالمَراَةُ رَیحانَةٌ وَ لَیسَت بِقَهرَمانَة ۔ میں نے یہ حدیث بارہا پڑھی ہے اور چاہتا ہوں کہ یہ بیان کی جائے۔ "قہرمان" اس کو کہتے ہیں جو کوئی کام کرتا ہے؛ مثال کے طور پر کسی فرد کے پاس باغ ہے، تجارت ہے، وہ ان کے امور انجام دیتا ہے۔ محنت کرتا ہے۔ عربی میں کہتے ہیں "قہرمانۃ"
پیغمبر فرماتے ہیں: "المرآۃ ریحانۃ" ریحانہ یعنی پھول۔ عورت گھر کا پھول ہے۔ ولیست بقھرمانۃ؛ عورت گھرکا کام کرنے والی نہیں ہے کہ آپ کہیں کہ یہ کام کیوں نہیں کیا، کیوں یہ کام نہیں کیا، گھر صاف کیوں نہیں کیا؟ ریحانۃ؛ پھول ہے۔ پھول کا خیال رکھنا چاہئے۔ اس کی حفاظت کرنا چاہئے؛ وہ بھی اپنے رنگ سے، اپنی خوشبو سے اور اپنی خصوصیات سے آپ کو بہرہ مند کرے گا۔ دیکھئے! اسلام عورت کو اس نظر سے دیکھتا ہے۔
عورت کے عمل،عورت کی فکر اور عورت کی راہ و روش کی اہمیت ظاہر کرنے کے لئے قرآن کریم عجیب مثال پیش کرتا ہے:"وَ ضَرَبَ اللہ مَثَلاً لِلَّذینَ آمَنُوا امرَاَتَ فِرعَون؛ (8) یعنی خداوند عالم مومنین کے لئے ایک نمونہ، ایک مثل، ایک مثال اور ایک معیار معین فرماتا ہے اور یہ معیار سبھی مومنین (ومومنات) کے لئے ہے، صرف خواتین کے لئے نہیں، ضَرَبَ اللہ مَثَلاً لِلَّذینَ آمَنُوا، سبھی مومنین و مومنات کے لئے معیار معین کرتا ہے۔ وہ معیار کیا ہے؟ ایک فرعون کی بیوی ہے اور ایک مَریَمَ ابنَتَ عِمران (9) یعنی دنیا کے سبھی مرد، سبھی مومنین یہ سمجھنے کے لئے کہ جس راہ پر وہ چل رہے ہیں، وہ صحیح ہے یا نہیں، ان دو خواتین کو دیکھیں؛ یہ دیکھیں کہ ان دونوں خواتین نے کون سا طرزعمل اختیار کیا ہے، کیا کیا ہے۔ وہی راستہ ان کے لئے راہ نجات ہے۔ اسلام عورت کو اس نگاہ سے دیکھتا ہے۔
معاشرے میں خواتین کے حقوق محفوظ رہنے چاہیئں؛ امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ آج ہے۔ آج بہت سے مغربی ملکوں میں ایک ہی کام پر، عورت کو مرد سے کم اجرت ملتی ہے۔ آج یہ ہے۔ یہ بالکل نا انصافی ہے۔ خواتین جو کام کرتی ہیں، اس میں انہیں مردوں کے برابر اہمیت دینا اور جو حکومتی مراعات مردوں کے لئے ہوں وہی خواتین کے لئے بھی ہوں، جیسے کام کرنے والی خواتین کے انشورنس کا حق ہے، ان خواتین کا انشورنس جو اپنے گھر کے اخراجات چلاتی ہیں، خواتین کی مخصوص چھٹیوں کا مسئلہ اور دیگر بہت سے مسائل ہیں جن پر توجہ ضروری ہے۔ یہ معاشرے اور سماج میں خواتین کے حقوق ہیں۔
گھر کے اندر خاتون خانہ کا اہم ترین حق، محبت ہے۔ خواتین کی اہم ترین ضرورت اور اہم ترین حق محبت ہے۔ روایت میں آیا ہے کہ مردوں کو اپنی بیوی سے کہنا چاہئے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ یعنی یہ زبان سے کہیں (10) اگرچہ وہ جانتی ہو۔ یہ پہلا حق۔
گھر کے اندرعورت کا ایک اور اہم اور بڑا حق عدم تشدد ہے۔ پست مغربی تہذیب، خواتین کے ساتھ مردوں کے تشدد سے پر ہے! شوہر کے ہاتھوں بیوی کا قتل، شوہر کے ہاتھوں عورت کی پٹائی جیسی باتیں مغرب میں بہت ہیں۔ یہ اہم ترین انحرافات ہیں۔ ایک داستان میں، یہ داستان ہے لیکن امریکا سے متعلق ایک حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے۔ مرد گھر میں آتا ہے اور عورت کی جم کر پٹائی کرتا ہے؛ ایسا ہے! دیکھیئے، یہ کلچر رائج ہو گیا تو اس کا نتیجہ یہ ہے۔ عورت ایسے کام کرتی ہے، ایسی ضدیں کرتی ہے، ایسی زبانی توہین کرتی کہ شوہر کو غصہ آ جائے اور وہ آ کر مارے، لیکن اس کا اثر نہیں ہوتا، وہ نہیں مارتا۔ یہ ثقافت رائج ہو جائے تو یہ ہوتا ہے۔ ہر حال میں عدم تشدد۔
گھرداری، گھرکی مالک، گھر کی مینیجر خواتین ہیں۔ بچہ پیدا کرنے کی تکلیفیں اٹھانے کے نتیجے میں جو مسائل عورت کو درپیش ہوں، ان میں شوہر کو مدد کرنا چاہئے،عورت پر گھر کے کام مسلط نہ کئے جائيں۔ ناکافی آمدنی کے باوجود گھر چلانے پر ان کی قدردانی کی جائے۔ ہم ان باتوں پر بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ آپ ملاحظہ فرمائيں، مرد کو جہاں وہ کام کرتا ہے، وہاں سے ایک مقررہ تنخواہ ملتی ہے، چیزیں مہنگی ہو رہی ہیں، لیکن عورت گھر چلا رہی ہے، وقت پر کھانا تیار ہے؛ یہ کام کون کرتا ہے؟ کیسی ہنرمندی سے گھر چلاتی ہے؟
عورت کا ایک اور حق یہ ہے کہ اس کو ترقی اور پیشرفت کے ذرائع فراہم کئے جائيں۔ مثال کے طور پر تعلیم کی سہولت اور خواتین کے بعض مخصوص کام ہیں۔
خواتیں کے بارے میں اسلام کا یہ اجمالی نقطہ نگاہ ہے۔ یہ اجمال ہے۔ یعنی اگر کوئی خواتین کے بارے میں اسلامی نقطہ نگاہ تفصیل سے بیان کرنا چاہے تو آدھا گھنٹہ اور ایک گھنٹہ کافی نہیں ہے۔ بہت زیادہ وقت کی ضرورت ہے۔ یہ اجمال ہے جو میں نے چند جملوں میں بیان کیا ہے۔
یہ مغربی نقطہ نگاہ کے برعکس ہے۔ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظریے کے برخلاف ہے۔ حقیقی معنی میں مغربی نقطہ نگاہ کے برعکس ہے۔ اسلام میں عورت کو آگے بڑھنے اور پیشرفت کی آزادی حاصل ہے۔ اسلام میں عورت توانا ہے، اس کی اپنی حیثیت اور اپنا تشخص ہے؛ لیکن وہاں نہیں،عورت کا تشخص مرد کے تشخص کے تابع ہے؛ آپ کا ایک فیملی نیم ہے، شادی کی تووہ فیملی نیم ختم ہو گیا، اب شوہر کا فیملی نیم آپ کے نام سے لگ جاتا ہے! یہ ایک علامت ہے، ایک نشانی ہے؛ مرد میں ضم ہو جانے کی اور مرد کے تشخص کے غلبے کی۔ اجرت میں فرق، عورت کے شرف اور حرمت کا خیال نہ رکھنا؛ عورت کو ایک مادی وسیلے کی حیثیت سے دیکھنا۔ ممکن ہے کہ اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد اپنی بیوی کا احترام کرتا ہو؛ بحث اس کی نہیں ہے، بحث عام نقطہ نگاہ کی ہے۔ عورت کو ہوس پرستی کا وسیلہ سمجھنا۔ یہ جو بے راہ روی پھیلانے والے گینگ ہیں، ان کے خلاف امریکا میں زيادہ آواز اٹھنے لگی ہے، اس کا مطلب یہی ہے کہ عورت کو عیاشی کا وسیلہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کو ایک سامان کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ کلچر غالب آ جائے تو عورت خود بھی نہیں سمجھتی کہ وہ وسیلہ بن چکی ہے، اس پر فخر کرتی ہے!
خاندان کی بنیاد کا خاتمہ۔ مغرب کے سرمایہ دارانہ کلچر نے سب سے بڑا گناہ یہ کیا ہے کہ خاندان کی بنیاد ختم کر دی ہے۔ ایسے خاندان جس میں سبھی ایک دوسرے سے متصل اور وابستہ ہوں اور ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں، بہت کم ہیں۔ میں نے باہر کی ایک کتاب میں پڑھا کہ عورت اور مرد یہ طے کرتے ہیں کہ مثال کے طور پر شام کے چار بجے چائے پر ملتے ہیں۔ ایک گھنٹے دونوں گھر میں رہیں گے اور بچوں کو معلوم ہو جائے کہ اس وقت دونوں گھر میں ہوں گے؛ یہ خاندانی اجتماع ہے کہ مثال کے طور پر شام کے چار بجے بیوی اپنے کام کی جگہ سے گھر آتی ہے اور شوہر اپنے کام کی جگہ سے گھر آتا ہے۔ ان کے بچے، لڑکا اور لڑکی بھی آتے ہیں۔ اس کے بعد سب اپنے اپنے کام پر چلے جاتے ہیں، کام پر جاتے ہیں یا دوستوں کے ساتھ کلب میں وقت گزارتے ہیں، گھر میں مسلسل گھڑی دیکھتے رہتے کہ پانچ بجے اور یہ میٹنگ ختم ہو۔ وہاں کنبے کی یہ حالت ہے! بچے باپ کو نہیں پہچانتے، خاندانی رشتے کم ہو گئے ہیں، خاندان کی بنیاد ختم ہو گئی ہے، نوجوان لڑکیوں کا شکار کرنے والے گینگ سرگرم ہیں، آزادی کے نام پر روز افزوں بے راہروی کی ترویج ہو رہی ہے! مغرب کے سرمایہ دارانہ کلچر کا سب سے بڑا گناہ شاید یہ ہے کہ ہر طرح کا غلط کام کر رہا ہے اور اس کو آزادی کا نام دیتا ہے! آزادی کے نام پر دھوکہ دیتا ہے، فریب دیتا ہے۔ یہاں بھی یہی کلچر رائج کرنا چاہتے ہیں اور کہتے کہ ہم آزاد کرنا چاہتے ہیں! درحقیقت باندھنا چاہتے ہیں، قیدی بنانا چاہتے ہیں اور اس کا نام آزادی رکھتے ہیں۔ یہ معاشرے اور اسی طرح خاندان کے اندر خواتین کی شان و منزلت سے متعلق یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے جس نے کلچر کی شکل اختیار کر لی ہے۔ یہ غلط اور گمراہ کن کلچر ہے۔
البتہ گزشتہ صدیوں میں یورپ میں یہ مسئلہ نہیں تھا؛ یہ حالیہ صدیوں میں وجود میں آیا اور اس صدی کے آس پاس اس میں شدت آئی اور اس نے یہ شکل اختیار کر لی اور افسوس کا مقام ہے کہ وہ یہ کلچر پوری دنیا میں برآمد کرنے پر مصر ہیں۔ کہتے ہیں کہ عورت حجاب کرتی ہے تو خود پر پابندیاں لگا لیتی ہے۔ آگے بڑھنے سے رہ جاتی ہے! اسلامی جمہوریہ ایران نے ان کی اس دلیل کو غلط ثابت کر دیا ہے، کچل دیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ مسلمان اور اپنے اصولوں کی پابند عورت، باحجاب اور اسلامی پردے کی پابند عورت، ترقی کے سبھی میدانوں میں دوسروں سے زیادہ پشرفت کر سکتی ہے۔ گھر میں بھی اور سماج میں بھی فعال کردار ادا کر سکتی ہے۔ اسلامی انقلاب کے بعد، اسلامی جمہوری نظام کے اس نقطہ نگاہ کے سائے میں، ہماری خواتین اور ہماری نوجوان لڑکیوں نے بہت سے میدانوں میں کافی پیشرفت کی ہے۔ تعلیمی اعداد شمار میں، حفظان صحت اور علاج معالجے کے شعبے میں، زندگی کی امید بڑھانے کے شعبوں میں، سائنسی اور علمی میدانوں میں، کھیل کود میں اور 'جہادی سپورٹ' کے میدان میں (سبھی میدانوں میں پیشرفت کی ہے۔) ان محترمہ نے (11) صحیح کہا ہے۔ ہمارے ان شہدائے عزیز کو اگر ایسی شریک حیات نہ ملی ہوتیں، تو مجاہدت کے میدان میں اس طرح سرگرم ہوکر، افتخار امیز مرتبے اور درجہ شہادت پر فائزہ نہیں ہو سکتے تھے۔ انھوں نے سختیاں برداشت کیں؛ اس طرح جہادی حمایت کی، اس طرح اپنے مجاہد شوہر کا ساتھ دیا کہ وہ جہاد کی چوٹیاں سرکرنے میں کامیاب ہوئے۔
ہماری خواتین نے، فکری اور تحقیقاتی مراکز میں ہماری خواتین نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، وہ یقینا تاریخ میں بے نظیر ہیں؛ کسی بھی دور میں ایران میں اتنی خاتون سائنسداں، اتنی خاتون مفکر، اتنی محقق اور اتنی تعداد میں نئی راہیں دکھانے والی خواتین نہیں تھیں۔ بلکہ اس کی دس فیصد تعداد بھی نہیں تھی۔ الحمد للہ اسلامی جمہوری نظام نے ملک میں، سائنسی اور علمی پیشرفت میں، خواتین کو اتنے اعلی مدارج تک پہنچایا۔ سائنسی پیشرفت، سماجی پیشرفت، سیاسی پیشرفت اور اسپورٹس میں، الحمد للہ ہماری خواتین پیشرو ہیں۔
آخر میں ابلاغیاتی ذرائع کے لئے میری نصیحت یہ ہے کہ خیال رکھیں، مغرب والوں کے غلط تفکر کی ترویج کےعامل نہ بنیں۔ ہمارے ابلاغیاتی ذرائع ہوشیار رہیں کہ خواتین کے بارے میں، مغرب اور سرمایہ دارانہ نظام کی باطل اور غلط فکر کی ترویج کا وسیلہ نہ بنیں۔ جب حجاب کے بارے میں بحث ہو، خواتین کے لباس کی بات ہو، عورت اور مرد کے تعاون کی بات ہو تو ایسا نہ ہو کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ذرائع ابلاغ، ان کی باتیں دوہرائيں، ان کی باتوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کریں۔ انہیں چاہئے کہ اسلام کی ترویج کریں، اسلام کا نظریہ بیان کریں اور اسلام کے نظریے پر افتخار کریں۔
اگر ہم نے خود اپنے درمیان اور عالمی اجلاسوں میں اس فکر کو، اس نقطہ نگاہ کو اور اس عظیم اور مفید نظریے کو بیان کریں تو یقینا دنیا کے بہت سے لوگ اسلام کی طرف مائل ہوں گے؛ خاص طور پر خواتین مائل ہوں گی۔ یہ اسلام کی بہترین ترویج ہے۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ آپ سبھی اس کام میں کامیاب ہوں گے۔
والسلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ
1۔ رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے، خاتم الانبیا ہیڈکوارٹرز کے کمانڈر شہید جنرل غلام علی رشید کی اہلیہ اور سپاہ پاسداران کے کمانڈر انچیف شہید جنرل حسین سلامی کی بیٹی نے تقریر کی۔
2۔ امالی شیخ صدوق، مجلس 73 صفحہ 486
3۔ سورہ حجرات، آیت 13
4۔ اسی کا تسلسل
5۔سورہ نساء آیت 124
6۔ سورہ احزاب، آیت 35؛ "مسلمان مرد اور مسلمان خواتین، باایمان مرد اور با ایمان خواتین، عبادت کرنے والے مرد اور عبادت کرنے والی خواتین، سچے مرد اور سچی خواتیں، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی خواتین، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی خواتین، روزہ دار مرد اور روزہ دار خواتین ، پاک دامن مرد اور پاک دامن خواتین اور خدا کو زیادہ یاد کرنے والے مرد اور خدا کو زیادہ یاد کرنے والی خواتین۔۔۔۔"
7۔ سورہ بقرہ، آیت 228؛ "۔۔۔ اور ویسے ہی فرائض جو خواتین کے ذمے ہیں، مناسب طور پر ان کے فائدے میں ( مردوں کے ذمے بھی) ہیں۔۔۔"
8 ۔ سورہ تحریم، آیت 11، اور جو لوگ ایمان لائے ہیں، ان کے لئے خدا فرعون کی بیوی کی مثال بیان کرتا ہے۔۔۔۔"
9۔ سورہ تحریم، آیت 12؛ " ۔۔۔ اور مریم بنت عمران کی مثال پیش کرتا ہے۔
10۔ کافی، جلد 5، صفحہ 569
11۔ شہید غلام علی رشید کی اہلیہ کی باتوں کی طرف اشارہ