قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ امریکہ ملت ایران کو خود مختاری، سربلندی اور اسلامی تشخص کی راہ سے ہٹا نہیں سکتا اور علم و دانش، قوت و طاقت اور آسائش و عزت کی بلندیاں ملت ایران کا مقدر بن چکی ہیں۔
ایران میں چار نومبر کو منائے جانے والے نیشنل اسٹوڈنس ڈے اور سامراج کی مخالفت کے قومی دن سے قبل طلبا سے ملاقات میں آپ نے فرمایا کہ ایران اور امریکہ کا تنا‏زعہ، سیاسی اختلاف نظر سے کہیں زیادہ گہرا اور بڑا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے آج بدھ انتیس اکتوبر کو کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا اور اسٹوڈنٹس یونینوں کے نمایندوں کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ نوجوان نسل کا سب سے اہم فریضہ ملک کے مستقبل کے تئیں احساس ذمہ داری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ملک کے مستقبل کو سنوارنے کی سنگین ذمہ داری نوجوان نسل کے دوش پر ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رہنمائی میں ملت ایران کی اسلامی تحریک کی کامیابی اور ایران مین سامراج کے مستحکم محاذ کی سرنگونی نوجوان نسل کے احساس ذمہ داری کا ثمرہ تھا جبکہ آٹھ سالہ مقدس دفاع میں سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں ایرانی قوم کی فتح بھی نوجوان نسل کے احساس ذمہ داری کی برکت سے ہی ممکن ہوئی تھی۔
آپ نے جاسوسی سرگرمیوں اور سازشوں کے مرکز میں تبدیل ہو جانے والے تہران میں واقع امریکی سفارت خانے پر ایرانی طلبہ کے قبضے کے چار جون کے تاریخی واقعے کو بھی نوجوانوں کے ایک گروہ کے احساس ذمہ داری کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس وقت بھی ملک اور قوم کو نوجوان نسل کے احساس ذمہ داری کی ضرورت ہے۔ نوجوان جو ملک کے آئندہ حکام اور منصوبہ ساز عہدہ دار ہیں خود کو ایمان کی پختگی، تقوا و بصیرت اور علمی و سائنسی توانائيوں کے لحاظ سے آمادہ کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کے ما بین اختلافات کی بنیادی وجہ کے بارے میں فرمایا کہ اس کی وجہ دریافت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس معاملے کا گہرائی اور دقت نظر سے جائزہ لیا جائے کیونکہ یہ اختلاف چند امور کے سلسلے میں سیاسی اختلاف نظر سے مختلف ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے، تیل کے ذخائر سے مالا مال علاقے مشرق وسطی کے قلب میں واقع امریکی مرکز، اس کے ہاتھ سے نکل گیا اور ایران ظلم و سامراج کے خلاف جد و جہد اور قوموں کے حقوق کے دفاع کے نعرے کے ساتھ امریکی سامراج اور تسلط پسندی کے خلاف جد و جہد کے مرکز میں تبدیل ہو گیا۔
آپ نے فرمایا کہ ایران بدر کر دئے جانے کے بعد امریکیوں نے سامراجی پالیسی کے مطابق تہران میں واقع اپنے سفارت خانے کے ذریعے اسلامی نظام کے خلاف جاسوسی اور سراغ رسانی شروع کر دی لیکن امام خمینی کے پیرو طلبا نے ان کی سازشوں کو نقش بر آب کر دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں سے امریکی سفارت خانے سے ملنے والے دستاویزات کا مطالعہ کرنے اور اسلامی انقلاب سے قبل اور اس کی کامیابی کے بعد کے ادوار میں اس سفارت خانے کی سرگرمیوں سے واقفیت حاصل کرنے کی سفارش کی اور فرمایا کہ امریکی سفارت خانے پر طلبا کا قبضہ بہت اہم اقدام اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بقول پہلے انقلاب سے زیادہ اہم تھا کیونکہ یہ ایران اور دنیا میں امریکی تسلط پسندی کے رعب و دبدبے کے خاتمے کا باعث بنا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت ایران کی استقامت و پائيداری اور کامیابیوں کا ديگر مسلم اقوام پر گہرا اثر پڑا ہے اور یہ قومیں اسی وجہ سے اسلامی جمہوری نظام کی پہلے سے زیادہ دلدادہ ہو گئی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ مختلف زاویوں سے دباؤ ڈال کر امریکہ کوشش کر رہا ہے کہ ملت ایران خود مختاری اور عزت نفس کا راستہ ترک کر دے اور اسلامی انقلاب سے کنارہ کشی کرکے ایک بار پھر امریکہ کے سامنے سراپا تسلیم قوم میں تبدیل ہو جائے۔
آپ نے فرمایا کہ امریکہ سے ایرانی قوم کی نفرت بہت گہری ہے اور اس کی وجہ گزشتہ پچاس سال سے زائد عرصے مین ایران اور ایرانی قوم کے خلاف مسلسل جاری رہنے والی امریکی سازشیں ہیں اور امریکیوں نے اس پر معذرت خواہی کے بجائے سامراجی روئہ جاری رکھا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ ہم اپنے تشخص، خود مختاری اور عزت نفس کے محافظ ہیں، جنگ پسند نہیں لیکن اگر کوئی ملت ایران کے تشخص اور خود مختاری کو ٹیڑی نظر سے دیکھنے کی کوشش کرےگا تو اس کی آنکھیں نکال لی جائیں گی۔
آپ نے یہ سوال پیش کیا کہ امریکہ اور ایران کے ٹکراؤ کا انجام کیا ہو سکتا ہے؟
آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کے تشہیراتی ادارے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس ٹکراؤ کا انجام ملت ایران کی شکست اور امریکہ کی فتح ہے لیکن یہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ یہ ٹکراؤ امریکی سامراج کے بے بسی پر منتج ہونے والا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس کی دلیل پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر امریکہ ملت ایران کو شکست دینے پر قادر ہوتا تو وہ اسے اس وقت شکست دیتا جب یہ قوم تجربات، علم و دانش، دفاعی توانائیوں، افرادی قوت اور قوموں کے اندر اثر و رسوخ کے لحاظ سے موجودہ صورت حال کے مقابلے میں بہت پیچھے تھی تاہم اس دور میں بھی امریکہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا اور اب جب ملت ایران ماضی کی بنسبت کہیں زیادہ طاقتور ہو چکی ہے تو امریکہ کی کامیابی کا کوئی امکان ہی نہیں رہ گیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکہ کی موجودہ کمزور پوزیشن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اب تو مغربی اقوام حتی امریکہ کے اندر بھی امریکی حکومت کی کوئی عزت و آبرو نہیں رہ گئی ہے اور اب انسانی حقوق اور جمہوریت جیسے امریکہ کے بنیادی نعرے پوری دنیا میں بدنام ہو گئے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ ابو غریب، گوانتانامو اور دیگر جیلوں میں اسی طرح افغانستان اور پاکستان کے عوام کے قتل عام کی شکل میں امریکہ کے انسانی حقوق کا بخوبی مظاہرہ ہو چکا ہے اور فلسطین میں حماس کی عوامی حکومت کی مخالفت، عراق کی منتخب حکومت پر سکیورٹی معاہدے پر دستخط کے لئے شدید دباؤ اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جس کے تمام عہدیدار عوام کے ذریعے منتخب ہوئے ہیں، بے بنیاد الزام تراشی کی شکل میں امریکہ کی جمہوریت بھی سامنے آ چکی ہے۔
آپ نے فرمایا کہ اب امریکی حکومت اتنی بدنام اور بے عزت ہو چکی ہے کہ امریکی صدر جس ملک میں بھی جاتے ہیں وہاں کے عوام مظاہرے کرکے ان کے فوری اخراج کا مطالبہ کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر فرمایا کہ ایرانی قوم اور حکام کی کامیابیاں پائيداری و استقامت کا ثمرہ ہیں تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب مشکلات اور مسائل سرے سے موجود ہی نہیں ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ مسائل انہیں امور میں ہیں جن کے سلسلے میں استقامت و پائيداری سے کام نہیں لیا گيا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ کامیابی کا راز عوام کا اتحاد اور حکومت و ملت کے درمیان یکجہتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے پوری قوم بالخصوص نوجوانوں، سیاستدانوں، حکام اور اخبارات و جرائد کو دشمن کی سازشوں سے ہوشیار رہنے کا مشورہ دیا اور فرمایا کہ دشمن کی سازشوں کا مقصد ، اختلاف پیدا کرنا، سیاسی کارکنوں کو ایک دوسرے سے لڑوانا، اسلامی اقدار کو پس پشت ڈالنا، نوجوانوں کو نفسانی خواہشات کا اسیر بنانا، تعلیمی اداروں میں بد نظمی اور خلفشار برپا کرنا اور عوام میں مایوسی پھیلانا ہے بنابریں سب محتاط رہیں کہ کہیں دشمن کے منصوبے کا حصہ نہ بن جائیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اتحاد و امید کی حفاظت، باہمی نزدیکی روابط اور سعی و کوشش کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ ملت ایران مشکل نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے بلندیوں پر پہنچ جائے گی۔