قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ کی صبح مختلف شعبہ ہای زندگی سے وابستہ افراد کے اجتماع سے خطاب میں اسلام میں حکومت کے نظرئے اور اسلامی حکومت کے نمونے کی نشاندہی کو عید غدیر کا سب سے اہم پیغام اور درس قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ شیعہ، واقعہ غدیر کے سلسلے میں اپنے مدلل اور درخشاں عقیدے کے تحفظ کے ساتھ ہی اس بات کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ یہ عقیدہ عالم اسلام میں اختلافات کا باعث نہ بنےـ
قائد انقلاب اسلامی نے عید سعید غدیر کے موقع پر اپنے اس خطاب میں ملت ایران اور تمام مسلم اقوام کو عید کی مبارکباد پیش کی اور امت مسلمہ کی صحیح سمت میں پیش قدمی کے لئے عید غدیر کے پیغام کے ادراک کو موثر قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کو اپنا جانشین قرار دینے کا واقعہ اور وہ بھی آپ کی عمر مبارک کے آخری ایام میں، در حقیقت اسلام میں حکومت کی تشکیل کے مسئلے اور دین و سیاست کی ہم آہنگی کی اہمیت کی علامت ہے اور آج امت مسلمہ کو اس عظیم درس کی شدید ضرورت ہے۔
آپ نے نمونہ اسلامی حکومت کی نشاندہی کو عید غدیر کے عظیم واقعے کا ایک اور اہم پہلو قرار دیا اور فرمایا کہ پیغمبر اسلام کی جانشینی کے لئے حضرت امیر المومنین علیہ السلام جیسی شخصیت کا انتخاب در حقیقت اس بات کی علامت ہے کہ غدیر کا واقعہ مسلمانوں کا صرف تاریخی واقعہ نہیں بلکہ اسلامی اور تمام انسانی معاشروں کے امور کو چلانے کے لئے لازمی معیار کی وضاحت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے رضائے پروردگار سے قلبی وابستگی، راہ خدا میں تندہی کے ساتھ پر مشقت جد و جہد، حق و حقیقت کی راہ میں جانفشانی، دشمنان خدا کے سامنے استقامت و پائيداری، دنیوی رنگینیوں سے بے اعتنائی اور مظلوم انسانوں کے ساتھ خاکساری و تواضع کا برتاؤ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی اہم خصوصیات قرار دیا اور فرمایا کہ واقعہ غدیر سے امت مسلمہ کو درس ملتا ہے کہ اسلامی معاشروں کا انتظام اور نظم و نسق ایسے افراد کے ہاتھوں میں ہونا چاہئے جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کو اپنا نمونہ عمل قرار دیں اور اس عظیم بلندی کے قریب پہنچنے کے لئے کوشاں رہیں اور یہ موجودہ انسانی معاشرے کے لئے اسلام اور اسلامی جمہوریہ کا اہم پیغام ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو صبر و استقامت اور دیگر امور و صفات میں پیغمبر اسلام کا شاگرد قرار دیا اور فرمایا کہ موجودہ انسانی معاشرے کی سب سے بڑی محرومی ایسے سیاستدانوں کا فقدان ہے جن کا برجستہ ترین نمونہ اسلام نے غدیر خم میں پیش کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے واقعہ غدیر کے سلسلے میں شیعہ اور سنی فرقوں کی الگ الگ رای کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس (اختلاف رای) کے باوجود شیعہ اور برادران اہل سنت دونوں ہی واقعہ غدیر کے رونما ہونے اور حضرت امیر المومنین علیہ اسلام کی عظمت پر متفق ہیں اور مسلمان، حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو علم و تقوا اور شجاعت کا وہ نقطہ کمال مانتے ہیں جس تک رسائی ممکن نہیں ـ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید خامنہ ای نے تفرقہ انگیز سازشوں کے سلسلے میں شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کے محتاط اور ہوشیار رہنے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی امامت پر گہرا ایقان و عقیدہ شیعوں کا بنیادی عقیدہ ہے اور شیعوں نے تمام مظالم اور خصومتوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنے اس عقیدے اور دیگر علوم و تعلیمات کی حفاظت کی ہے تاہم اس عقیدے کو عالم اسلام میں اختلافات کا موجب نہیں بننے دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کے سد باب کے تعلق سے امام خمینی (رہ) اور اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلسل کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اتحاد اور مسلم اقوام کی بشمول شیعہ و سنی، اسلامی انقلاب سے قلبی وابستگی سے نقصان اٹھانے والی دنیا کی سامراجی طاقتیں اسلامی جمہوریہ سے مسلمانوں کا قلبی لگاؤ ختم کرنے اور ان میں اختلافات کی آگ بھڑکانے کے لئے مذہبی تعصب کو اپنا حربہ بنائے ہوئے ہیں لہذا اس خطرناک سازش کے سد باب کے لئے پوری طرح ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی آگ بھڑکانے کے لئے دشمنوں کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ہمیں ماضی سے لیکر اب تک اس بات کی پوری اطلاعات ہیں کہ شیعہ اور اہل سنت کے خلاف فحشیات سے مملو کتابوں کی اشاعت سامراج سے وابستہ ایک مرکز کے بجٹ سے ہوتی رہی ہے، کیا یہ خطرناک صورت حال ہوشیار اور محتاط ہو جانے کے لئے کافی نہیں ہے؟ !
قائد انقلاب اسلامی نے شیعہ اور سنی معاشروں میں الزام تراشیوں اور خرافات گوئی پر مشتمل کتابوں کی طباعت کو امریکہ اور صیہونزم کے اہداف کی تکمیل قرار دیا اور فرمایا کہ سب کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس طرح کی کتابوں سے کوئی شیعہ نہ تو سنی ہونے والا ہے اور نہ ہی کسی سنی کا دل شیعہ عقائد کی سمت مائل ہونے والا ہے۔
آپ نے ملت ایران کے ایٹمی اور دیگر شعبوں کے حقوق کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے لئے بعض عرب حکومتوں کو استعمال کرنے کی اغیار کی سازشوں کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ دشمن کے بس میں اب اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے اور ان حکومتوں کے پیش نظر بھی بہت سے امور ہیں جن کی وجہ سے وہ ایران کے مقابلے کے لئے امریکہ اور صیہونیوں کی بندہ بے دام بن جانے پر آمادہ نہیں ہیں ـ
آپ نے فرمایا کہ اگر ملت ایران اور دیگر اقوام ہوشیار اور بیدار رہیں تو سامراج اپنی تمام تر سازشوں کے باوجود امت مسلمہ کو کمزور کرنے کے اپنے مخاصمانہ اہداف حاصل نہیں کر سکے گا۔