قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح صوبہ کردستان کے علماء و دینی طلبا سے ملاقات میں افکار کی منتقلی کے ذرائع کی پیشرفت اور پیچیدگی اور ایران میں اسلامی حکومت کے وجود کو عصر حاضر کی دو اہم خصوصیات قرار دیا۔
آپ نے فرمایا: علما اور دینی شخصیات کو چاہئے کہ حالات کی مکمل شناخت اور ان دونوں خصوصیات پر توجہ اور ان سے استفادے کے ذریعے حق و عدل کے قیام اور ظلم و فتنہ و فساد کے خاتمے کے اپنے نہایت سنگین فریضے پر عمل کریں۔ سنندج کی جامع مسجد میں انجام پانے والی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے علمائے دین کو، قوم کی پیشرفت و ترقی اور اصلاح کے ہراول دستے سے تعبیر کیا اور فرمایا: علما و دینی شخصیات کا فریضہ حرام و حلال کے بیان کر دینے سے ادا نہیں ہو جاتا بلکہ انہیں چاہئے کہ وارثین انبیاء کی حیثیت سے طاغوت کی تمام علامات اور ان افراد کے خلاف قیام و جد و جہد کریں جو قوموں پر اپنے وجود کے بت مسلط کر دیتے ہیں۔
آپ نے عصر حاضر کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے افکار و نظریات کی منتقلی اور ترویج کے طریقوں اور وسائل میں آنے والی گہری تبدیلی کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا: اس وقت سامراج دھمکیوں کی شمشیر کے ساتھ ہی تمام جدید مواصلاتی ذرائع اور فنی و ثقافتی وسائل کو قوموں پر اپنے منفی افکار اور ستمگرانہ روش مسلط کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ اس پیچیدہ یلغار کے جواب میں علمائے کرام کو چاہئے کہ صراط مستقیم کی جانب قوم کی رہنمائی کے لئے خود کو جدید عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کے دلوں میں نفوذ پیدا کرنے اور طلبا کے اذہان میں نئے نئے شکوک و شبہات ایجاد کرنے کی اغیار کی کوششوں کا ذکر کیا اور علما سے سفارش کی کہ عقائد کے محافظین کی حیثیت سے نوجوان نسل کے افکار و جذبات کو اہمیت دیں اور دشمن کی یلغار کا جدید طریقوں سے مقابلہ کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران میں قرآن و شریعت پر استوار حکومت کے وجود کو عصر حاضر کی ایک اور خصوصیت قرار دیا اور فرمایا: ہمارا ہرگز یہ دعوی نہیں ہے کہ یہ حکومت مکمل طور پر قرآنی حکومت ہے تاہم ہمارا یہ عقیدہ ضرور ہے کہ ہماری سعی و کوشش اور پیشقدمی کی سمت ٹھیک ہے۔ سب کے سب بالخصوص علماء، اسلامی تعلیمات اور معارف کی ترویج نیز قوم کی ہدایت و پیشرفت کے لئے صدر اسلام کے بعد حاصل ہونے والے اس بے نظیر موقع سے بھرپور استفادہ کریں۔
آپ نے اسلامی جمہوریہ کے خاتمے اور ایران کو پسماندہ رکھنے کی ارزوؤں کو اغیار کے تشنہ تعبیر خواب قرار دیا اور فرمایا: تمام تر رخنہ اندازیوں اور سازشوں کے باوجود اسلامی انقلاب پائيدار ہوا اور اس نے بے شمار حیرت انگیز سائنسی ترقیوں منجملہ سٹیم سیل کی پیداوار اور خلا میں سیٹیلائٹ کی لانچنگ کے ذریعے اقوام کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی دینی حکومتوں کی توانائی و صلاحیت کو پایہ ثبوت تک پہنچایا اور مسلمانوں کا سر فخر سے اونچا ہو گیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی نظام سے عالم اسلام کی اہم ش‍خصیات، طلبا اور قوموں کے قلبی لگاؤ کو اسلامی جمہوری نظام کے خلاف علاقے کی رجعت پسند حکومتوں اور سامراجی طاقتوں کے بغض و عناد کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے کی کوششیں، بعض افراد پر مذہب تشیع کی ترویج کا الزام وہ بھی ایسے ممالک میں جہاں کی آبادی محب اہل بیت برادران اہل سنت پر مشتمل ہے، انقلاب اور اسلامی نظام سے تسلط پسند طاقتوں اور ان کے علاقائی آلہ کاروں کی وحشت کی علامتیں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوری نظام کے خلاف سامراجی طاقتوں کی سازشوں اور عناد کے تسلسل کو غول پیکر سامراجی نظام پر با ایمان ملت ایران کی کاری ضرب کی علامت قرار دیا اور ملت ایران اور اسلامی نظام کو مستحکم قلعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: قوم اور حکام کی استقامت و دانشمندی کی گہرائی میں ہمیں تائید الہی صاف نظر آتی ہے اور یہ عظیم الہی پشتپناہی تمام افراد بالخصوص علماء کی ذمہ داری کو دو برابر کر دیتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دوست اور دشمن کی شناخت میں دانشمندی اور ہوشیاری سے کام لینے کی ضرورت پر تاکید کی اور فرمایا: بائیس روزہ جنگ غزہ کے دوران جب قوم اور حکومت کی جانب سے فلسطین کی ہمہ گیر حمایت جاری تھی، اچانک معاشرے میں ایک شیطانی خیال کی ترویج کی جانے لگی کہ فلسطینی ناصبی اور دشمن اہل بیت ہیں تاکہ برادران اہل سنت کے تعلق سے بد گمانی پھیلائی جائے اور عوام کو ورغلا کر اسلامی جمہوریہ کو فلسطینیوں کی حمایت روکنے اور اپنے موقف سے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا جائے۔ آپ نے مزید فرمایا: دوسری جانب بعض افراد شیعہ کتب اور تقاریر میں اہل سنت کے مقدسات کی توہین کے نکات تلاش کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاکہ اہل تشیع کی جانب سے بد گمانی پھیلائی جائے۔ بنابرین قوم کی ہر فرد بالخصوص شیعہ و سنی علما کو چاہئے کہ اسلام دشمن طاقتوں کی پیچیدہ سازشوں کا گہرائی سے ادراک کریں اور دشمن کی خفیہ و آشکارا کاروائيوں کے سامنے ڈٹ جائیں۔ کسی کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ تفرقہ و اختلاف اور بد گمانی کے ذریعے اتحاد و فکری ہم آہنگی اور قریبی تعاون میں رکاوٹیں پیدا کرے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای کے خطاب سے قبل صوبہ کردستان میں قائد انقلاب اسلامی اور ولی فقیہ کے نمایندے حجت الاسلام والمسلمین جناب موسوی نے جام شہادت نوش کرنے والے ستر کرد علما کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ آج بھی شیعہ و سنی علماء اسلامی نظام کے اہداف کے تکمیل کی بابت اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ماہرین کی کونسل میں کردستان کے علاقے کے نمایندے ماموستا شیخ الاسلام نے صوبے کے عوام کے ایمان و اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کردستان کے شیعہ و سنی عوام اسلامی انقلاب کی کامیابی کی ابتدا سے ہی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے تابع فرمان رہے ہیں اور اب اپنے مذہبی عقیدے کی بنیاد پر قائد انقلاب اسلامی کے تابع ہیں۔