صوبہ کردستان کے ادبی، ثقافتی، سیاسی، سماجی، معاشی، علمی اور دیگر شعبوں کی برجستہ شخصیات اور دانشوروں کے ساتھ قائد انقلاب اسلامی کی ایک نشست ہوئی جس میں صوبے کے دانشوروں اور علمی شخصیات نے مختلف مسائل کے سلسلے میں اپنے اپنے نظریات پیش کئے۔ آج صبح تین گھنٹے تک چلنے والی اس نشست میں دانشور طبقے نے اپنی اپنی تجاویز بھی بیان کیں۔
کردی زبان کے قواعد لکھنے والے معروف مصنف اور مترجم نیز شاہ کی استبدادی حکومت کے سیاسی قیدی احمد قاضی، عالم اسلام کے معروف مصور، مجسمہ ساز اور گرافسٹ فردین صادق ایوبی، خرم شہر قومی مشاعرے میں مقام حاصل کرنے والے معروف شاعر اکرم بہرام چی، کئی میڈل حاصل کرنے والے کشتی کی نیشنل ٹیم کے کوچ جمشید خیرآبادی، نمونہ کاشتکار قرار پانے والے محمد حسین صادقی، ملکی اور غیر ملکی علمی اکیڈمیوں کی فعال رکن اور محقق تارا احمدی، شاہی استبدادی دور کے سیاسی قیدی، متعدد تصنیفات کے خالق اور روایتی انداز کے شاعر ماموستا ملا عمر صالحی صاحب، ماہر معاشیات ڈاکٹر بایزید مردوخی اور کرد ادبی و ثقافتی مرکز کے بانی فاروق کیخسروی جیسی شخصیات نے نشست میں اہم نظریات اور مطالبات پیش کئے جو مندرجہ ذیل ہیں:
اغیار کی ثقافتی یلغار سے مقابلے کے لئے علاقائی ثقافتوں کی تقویت اور ان سے استفادہ، فارسی اور کردی زبانوں کا تاریخی اور بنیادی رشتہ، تاریخ میں اسلامی تہذیب و تمدن کو وجود بخشنے میں ملت ایران کے مختلف طبقات منجملہ کرد طبقے کا کردار، کردی زبان، ادب اور ثقافت پر مزید توجہ، ایران میں لسانی و ثقافتی تنوع کو گراں قدر موقع اور قومی ثروت کا درجہ دیا جانا، فن و ہنر کے مخصوص کتب خانے کا قیام، فن و فنکار کی معاشی صورت حال پر توجہ، کردوں کی اپنی ابائی سرزمین یعنی کردستان سے قلبی وابستگی، صوبہ کردستان میں اسپورٹس کے شعبے میں سرمایہ کاری اور ساز و سامان کی فراہمی، غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے صوبہ کردستان کا مناسب جغرافیائی محل وقوع، صوبے کے شعبہ زراعت، صنعت اور سروسز پر مزید توجہ دینے کی ضرورت، صوبہ کی ترقی اور بنیادی تنصیبات کی تعمیر کے لئے موجودہ سرگرمیوں میں سرعت، صوبہ کردستان کو مثبت ثقافتی نظر سے دیکھے جانے کی قائد انقلاب اسلامی کی سفارشات پر مکمل توجہ، نوجوانوں کی ضروریات پر خصوصی توجہ اور روزگار کا مسئلہ حل کرنے کے لئے مزید کوشش، نئی سائنسی ایجادات اور علمی ترقی کی تحریک کو تقویت بخشنے کے لئے نوجوانوں کی تحقیقاتی اور انتظامی صلاحیتوں پر اعتماد، ہمہ گیر قومی ترقی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تمام منصوبوں اور پروجیکٹوں پر بیس سالہ ترقیاتی پالیسی کے تحت مکمل توجہ، صوبے میں آٹھ سو صنعتی یونٹوں کی کوالٹی میں بہتری اور ان کی تعداد میں اضافہ، صوبہ کردستان کی ترقی کے مختلف معیاروں کے لئے مزید کوششیں اور ایران و اسلام کے دشمنوں کی تفرقہ انگیز سازشوں کی بابت شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کی مکمل ہوشیاری اور دانشمندی کی ضرورت۔
دانشوروں اور علمی شخصیات کی گفتگو کے بعد جو تقریبا ڈھائی گھنٹے چلی قائد انقلاب اسلامی نے صوبے کی اہم اور چنندہ شخصیات سے ملاقات کو بہت مسرورکن قرار دیا اور فرمایا: اس گفتگو میں جن اہم نکات کی جانب اشارہ کیا گيا ان کو اہم فیصلوں اور منصوبوں میں ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔
آپ نے صوبہ کردستان کے بعض ادبا اور دانشوروں سے اپنی با قاعدہ آشنائی کا ذکر کیا اور فرمایا: میں بعض برجستہ کرد شخصیات کو ان کی علمی تخلیقات اور ترجموں سے پہچانتا ہوں اور کرد عوام کی ثقافتی شناخت کو ایک واضح حقیقت کے طور پر تسلیم کرتا ہوں البتہ آج کی نشست میں صوبہ کردستان کی وسیع صلاحیتیں اور بھی عیاں ہوئیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے صوبہ کردستان کے عوام کی شجاعت و دلیری کو ان کی نمایاں خصوصیات قرار دیا اور فرمایا: انصاف کی بات تو یہ ہے کہ اس علاقے کے لوگوں میں دوسری بھی متعدد خصوصیات پائی جاتی ہیں جن میں ایمان، اخلاق، جذبہ ہمدردی، روشن فکری، دلچسپ مزاج، شعری صلاحیت اور ادبی ذوق کا نام لیا جا سکتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں کردستان اور ملک کے دیگر علاقوں کے عوام کی ثقافتی اور معنوی اقدار کی قدر کئے جانے کو حکام کی ذمہ داری قرار دیا۔ آپ نے عظیم سرزمین ایران میں نسل اور فرقوں کے تنوع کو بہترین صورت حال قرار دیا اور فرمایا: اسلامی جمہوری نظام ملک کے کسی بھی خطے کو تعصب، فرقہ پرستی اور تفریق کی نظر سے نہیں دیکھتا بلکہ اس نظام کے فیصلوں کی بنیاد اسلام اور ایرانی ہونا ہے۔ دانشوروں کو چاہئے کہ اس حقیقت کو بخوبی منظر عام پر لائیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے انقلاب کی کامیابی کے اوائل میں صوبہ کردستان کو فوجی علاقہ قرار دینے اور نسلی و مذہبی منافرات پھیلانے کی دشمنوں کی سازشوں کا ذکر کیا اور فرمایا: اسلامی جمہوری نظام عوامی حمایت کے سہارے اس بحران پر غالب آیا البتہ تمام افراد بالخصوص دانشوروں کو چاہئے کہ اغیار کی شیطنت کی بابت ہمیشہ محتاط اور ہوشیار رہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے صوبہ کردستان کی کسی حد تک پسماندگی کو انقلاب کے ابتدائی برسوں کی سازشوں کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا: ہم سب کو صوبہ کردستان کی پسماندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے پوری سنجیدگی سے کوشش کرنا چاہئے تاکہ یہ صوبہ وطن عزیز میں اپنے شایان شان مقام پر پہنچے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملت ایران سے تسلط پسند طاقتوں کے عناد کے اسباب و علل کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی نظام کی خاص ماہیت و مزاج، جو خود مختار نقطہ نگاہ کا حامل ہے اور دنیا کی تسلط پسند طاقتوں کی پالیسیوں سے ہرگز متاثر نہیں ہوتا، اس بات کا باعث بنا کہ سامراجی طاقتیں ملت ایران کی دشمنی پر تل جائیں اور جوابا اسلامی نظام کو دفاعی اقدامات کرا پڑیں۔
آپ نے مزید فرمایا کہ اگر ہم خود مختار نہ ہوکر تسلط پسند طاقتوں کی تحقیر آمیز پالیسیوں کے تابع ہوتے تو یہ دشمنیاں نہ ہوتیں لیکن پہلوی حکومت کے دور کی طرح اس وقت بھی قومی ترقی و پیشرفت، وقار و عزت، غیرت و حمیت اور ایرانی تہذیب و ثقافت پر حقیقی افتخار کی کوئی خبر نہ ہوتی۔
قائد انقلاب اسلامی نے شاہی دور حکومت کے بعض حکام کے بیانوں کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ ان اقبالیہ بیانوں میں اغیار پر شاہی حکومت کے انحصار اور احساس حقارت کے بارے میں جو باتیں بتائی گئیں اس سے ہر ایرانی شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے۔ آپ نے احساس کمتری و حقارت اور انحصار کی فضا کی یکسر تبدیلی کو اسلامی نظام کی کامیابی کا ثمرہ قرار دیا اور فرمایا: اسلامی نظام نے نئی بات اور واضح با ارزش اور دلچسپ حقیقت پیش کی۔ یہ وہ حقیقت ہے جس پر تمام تجزیوں میں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کی صلاحیتیں نکھارنے کے لئے ضروری وسائل اور بجٹ کی فراہمی کی ضرورت پر تاکید کی اور نوجوانوں کو دانشور بنانے کو علمی شخصیات اور دانشوروں کا فریضہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: اس مہم کا کچھ حصہ حکومتی اداروں سے بھی مربوط ہے جس پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ متحد، پیشرفتہ اور عظیم افتخارات سے آراستہ ایران کا وجود دنیا کی ظالم قوتوں کے لئے تشویش کا باعث ہے لیکن جیسے اب تک وہ ملت ایران کی امید افزا پیش قدمی کو روکنے میں ناکام رہی ہیں، اسی طرح آئندہ بھی قوم کے مختلف طبقات کے اتحاد، حکام کی ہوشیاری و دانشمندی اور دانشوروں کے عقلمندانہ اقدامات کے سبب انہیں ناکامی ہی کا منہ دیکھنا پڑےگا۔