قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح صوبہ کردستان کی یونیورسٹیوں کے ہزاروں طلبا اور اساتذہ کے اجتماع سے خطاب میں حقیقی ترقی کے معیار اور خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے دانشوروں، علمی شخصیات اور یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد کو تحقیق و مطالعے اور قومی و مقامی آئيڈیل وضع کرنے کی دعوت دی۔ آپ نے فرمایا: انقلاب کے چوتھے عشرے میں ترقی و انصاف کو قومی اشو میں تبدیل ہو جانا چاہئے تاکہ منصوبہ بندی اور قومی آئيڈیل کے تعین سے اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کی عظیم قوم اس عشرے کے اختتام تک اس سلسلے میں فیصلہ کن اقدامات کا مشاہدہ کرے۔ قائد انقلاب اسلامی نے حقیقی ترقی کو مغرب میں رائج ترقی کے مفہوم سے مختلف قرار دیا اور فرمایا: دونوں مفاہیم میں ممکن ہے جہاں تفاوت ہے وہیں کچھ اشتراکات بھی ہوں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آيت اللہ خامنہ ای نے دنیا کے ممالک کی ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں تقسیم کو مغرب کی عیارانہ چال قرار دیا اور فرمایا: اس چال کے تحت ترقی کے مفہوم کو بعض مغربی معیاروں سے منسلک دیا گيا ہے اور نتیجے میں رائے عامہ صرف مغربی ممالک یا ان ملکوں کو ترقی یافتہ سمجتھی ہے جو تہذیب و ثقافت، آداب و رسومات اور سیاسی نظریات میں مغرب کے مماثل ہوں جبکہ ہماری نظر میں یہ تصور ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ہر ملک کی جغرافیائی، سیاسی، ثقافتی، تاریخی خصوصیات اور انسانی وسائل کو اس کی ترقی کے معیار اور نمونے کے سلسلے میں فیصلہ کن قرار دیا اور فرمایا: دنیا کے ممالک کے حالات میں بڑا فرق اور تفاوت ہے بنابریں دنیا کے تمام ممالک کی ترقی کا ایک معیار اور نمونہ نہیں ہو سکتا۔ آپ نے مزید فرمایا: ایران کی الگ قسم کی خصوصیات، تاریخ اور ثقافت کے پیش نظر ہم امریکا، مغربی یورپ یا شمالی یورپ کو نمونہ قرار دیکر ترقی نہیں کر سکتے، ہمارا کمال یہ ہے کہ ہم مقامی اور قومی نمونہ بنائيں اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری یونیورسٹی کے حلقے اور دانشوروں کے طبقے کی ہے۔ آپ نے ترقی کے حقیقی مفہوم کی ایک اور خصوصیت بیان کرتے ہوئے کسی بھی قوم کی پشرفت کے لئے نمونے کے انتخاب کے سلسلے میں اخلاقی اصولوں کی فیصلہ کن تاثیر اور کردار کا ذکر کیا اور فرمایا: ہر ملک اپنے مخصوص فلسفیانہ اور علمی موقف کے پیش نظر ترقی کی منزلیں طے کرنےکے لئے مخصوص آئیڈیل اور معیار کو اپنائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: اگر کسی معاشرے کے اخلاقی اور علمی نقطہ نگاہ سے دولت اور سرمایہ سب سے اہم شئ ہو یا لذتوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہو تو اس کے لئے لذت بخش اشیاء اور سرمائے کاحصول خواہ وہ استحصال اور سامراجی اقدامات سے عمل میں آئے قابل قبول ہے اور اسے ترقی کا موجب سمجھا جائے گا، جبکہ دوسری آئيڈیالوجی اور اخلاقی اصولوں کی رو سے ناجائز طریقوں سے دولت کا حصول صحیح نہیں ہے اور نفسانی خواہشات کو اقدامات کا جواز نہیں مانا جاتا، ایسے معاشرے میں دیگر معاشروں کی ترقی کے معیارات کی پیروی کرکے حقیقی ترقی حاصل نہیں ہو سکتی۔
قائد انقلاب اسلامی نے ہر ملک اور قوم کی ترقی کے نمونوں اور نظریات میں تفاوت پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے مغرب کے ترقی کے معیار کی کچھ خصوصیات اور اچھائیاں بھی بیان کیں۔ آپ نے فرمایا: ہمیں چاہئے کہ ترقی کے قومی نمونے اور معیار کی پیروی کرنے کے ساتھ ہی مغرب والوں کے ابتکار عمل، نظم و ضبط، جرئت عمل اور رسک اٹھانے کی خصوصیات سے بھی غفلت نہیں برتنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ترقی و انصاف کے رشتے کو بھی ان خصوصیات میں قرار دیا جن کا ترقی کے قومی معیار و نمونے کی ترسیم میں خیال رکھا جانا چاہئے۔ آپ نے اس سلسلے میں فرمایا: مغربی معیار کے مطابق مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کو اہم مانا جاتاہے لیکن اسلامی نقطہ نگاہ سے اگر کسی ملک میں عدم مساوات اور طبقاتی فاصلہ ہو تو قومی پیداوار میں خواہ دس گنا کا اضافہ ہو جائے اسے حقیقی ترقی حاصل نہیں ہو سکتی۔
قائد انقلاب اسلامی نے انسان کے سلسلے میں اسلام کے مخصوص زاویہ نگاہ کے تحت حقیقی ترقی کے معیار کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: اسلام کے نقطہ نگاہ سے ہر انسان کے پاس دنیا و آخرت کے دو میدان ہیں، انسانوں کو دونوں میدانوں میں بیک وقت پیشرفت کرنا چاہئے بنابریں حقیقی ترقی کا معیار اس نقطہ نگاہ سے بالکل مختلف ہے جس میں صرف دنیا اور مادیت کو اہمیت دی جاتی ہے، روحانیت پر کوئی دھیان نہیں دیا جاتا۔ اسی طرح دنیا سے غافل ہوکر صرف اخروی امور میں مصروف ہو جانا اور انفرادی و خاندانی زندگی کی مادی ضروریات اور عطیات پر کوئی توجہ نہ دینا یا صرف دولت و ثروت میں گم ہوکر آخرت کو فراموش کردینا وہ اہم انحرافی نظریات تھے جن کی جانب حقیقی پیش رفت کی وضاحت کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے اشارہ کیا۔ آپ نے فرمایا: حقیقی ترقی اور اسلامی نظرئے کی رو سے دنیا اور آخرت کے مابین توازن رکھنا بہت اہم معیار ہے جس پر تمام منصوبہ بندیوں، ذاتی، سماجی اور ملکی امور میں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کردستان کی یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد کے اجتماع میں قائد انقلاب اسلامی نے حقیقی پیشرفت کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے قابل تقلید نمونے کی لازمی خصوصیات بیان فرمائیں۔ آپ نے فرمایا ملک کی خود مختاری پر توجہ اور ان معیاروں اور نمونوں سے پرہیز جو ملک کو کسی بھی طرح اور کسی بھی طریقے سے سیاسی طاقتوں پر منحصر اور ان کا تابع بنا دیں، حقیقی ترقی کے معیار کی بنیادی خصوصیت ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ان ممالک کا بھی ذکر کیا جو سائنس و ٹکنالوجی اور اقتصادی میدان میں پیشرفتہ ہیں لیکن مختلف معاملوں میں دنیا کی بڑی طاقتوں کی ہی پیروی کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: امریکہ اور دوسروں کے نقش قدم پر چلنا ترقی کی علامت نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی وقعت ہے، بنابریں قومی پیشرفت کے معیار میں ملک کی خود مختاری کا مسئلہ نمایاں رہنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے عالمگیریت کو دنیا کے ممالک کے مغرب کی سرمایہ دارانہ مشین کے پرزوں میں تبدیل ہو جانے سے عبارت کیا اور فرمایا: اگر صحیح معنی میں گلوبلائیزیشن ہونا ہے تو دنیا کے ملکوں کی سیاسی و اقتصادی خود مختاری اور فیصلہ لینے کی آزادی محفوظ رہنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ترقی کے حقیقی معیار کی ایک اور ضروری خصوصیت کے طور پر علمی پیداوار کا نام لیا اور فرمایا: معاشی امور کی مانند علمی و سائنسی معاملات میں بھی درآمد و برآمد کے مابین معقول تناسب اور توازن ہونا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ تین عشروں کی سائنسی ترقی پر اظہار مسرت کیا اور یونیورسٹیوں میں سائنسی ایجادات کی فضا کو اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے فرمایا: بہت زیادہ پسماندگی کے مد نظر ہمیں تمام شعبوں میں اپنی علمی و سائنسی پیشرفت کی رفتار کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا ہوگا اسی طرح تمام علوم میں نئے نظریات متعارف کراکے انسانی علوم کے دائرے کو وسعت بخشنا ہوگی، ترقی کے قومی معیار میں سائنسی ایجادات پر بھی پوری توجہ دینا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے سامراجی طاقتوں سے ٹکراؤ کے میدان میں اترکر استقامت کے مظاہرے کو بھی حقیقی پیش رفت کے معیار کی لازمی خصوصیت قرار دیا اور فرمایا: میدانوں سے دور گوشہ نشینی اختیار کرکے کوئی بھی قوم اور ملک نہ تو ترقی کر سکا ہے اور نہ کر سکے گا۔ قائد انقلاب اسلامی نے بائیس روزہ جنگ غزہ کے دوران صیہونیوں کے جرائم پر عالمی تنظیموں منجملہ اقوام متحدہ کے سکوت، ملت ایران کے ایٹمی حقوق کی مخالفت اور ایران کے بعض ہمسایہ ملکوں میں امریکیوں کے ہاتھوں بے گناہ شہریوں کے قتل عام کو دنیا کے افسوسناک مظالم کا نمونہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: زندہ قوم کو چاہئے کہ ان مسائل کا مقابلہ کرے اور خوش قسمتی سے ہمارے حکام، نوجوان، عوام اور برجستہ شخصیات نے ان برسوں میں ان جرائم اور نا انصافیوں پر اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کے جذبہ استقامت کی مخالفت کرنے والوں پر شدید نکتہ چینی کی اور فرمایا: ملت ایران اور اسلامی نظام کے موجودہ سربلندی و سرفرازی کے دور میں جب کوئی امریکہ اور صیہونیوں کے جرائم کو عالمی فورم پر اٹھاتا ہے تو دنیا کی قومیں ملت ایران سے سبق حاصل کرتی ہیں اور ان کی جرئت بڑھتی ہے جبکہ داخلی سطح پر کچھ افراد کو اس پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے جس طرح (شاہی حکومت کے) طاغوتی دور میں بعض افراد لوگوں کے سامنے نماز پڑھنے سے شرماتے تھے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: عالمی مسائل کے سلسلے میں مقتدر ملت ایران کے مستحکم موقف کو ہمیشہ فخریہ پیش کیا جانا چاہئے تاکہ دنیا والے اس قوم اور اس کےانتخاب سے معرض وجود میں آنے والے نظام کی عظمت سے بہتر طور پر واقف ہوں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں کردستان کے پر جوش، دوستانہ جذبے سے سرشار طلبا اور استاذہ سے اپنی ملاقات کو بہت امید بخش اور پر ثمر قرار دیا اور فرمایا: ملک کے دیگر خطوں کی مانند کردستان کے طلبہ بھی نئی ایجادات سے دلچسی اور ترقی کے جذبے کے ساتھ مصروف کار ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اس نوید بخش جذبے کی حفاظت سے ملک و نظام کا مستقبل بدرجہا بہتر اور زیادہ ترقی یافتہ ہوگا۔ قائد انقلاب اسلامی نے غفلت یا تعصب کے تحت طلبہ کو انقلاب کے اہداف سے برگشتہ قرار دینے والے عناصر پر شدید نکتہ چینی کی اور فرمایا: حقائق کے پیش نظر ان باتوں کو میں نے نہ تسلیم کیا ہے اور نہ اس پر یقین کروں گا کیونکہ نوجوانوں اور طلبا سے جو میرے مختلف رابطے ہیں اس سے اسلام، انقلاب اور ایران سے طلبہ کے قلبی لگاؤ کا احساس اور ادراک ہوتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے سطحی نظر سے گزیز اور گہری نظر سے کاموں کا جائزہ لینے کی سفارش کی اور فرمایا: طلبا کے ساتھ اداروں کے حکام کی آمنے سامنے کی بے تکلفانہ ملاقاتوں میں اضافہ ہونا چاہئے تاکہ ان با برکت ملاقاتوں سے اللہ کے فضل و کرم کے طفیل میں طلبا اور یونیورسٹیوں کے مسائل کے حل کی راہیں عیاں ہوں اور ملک کی ترقی کے عمل میں تیزی آئے۔ اس اجتماع میں گونجنے والے کردستان کے طلبا اور یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد کے اسلامی اور انقلابی نعروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: دشمن نے ملک کی دیگر قوموں سے کردوں کی جدائی اورعلاحدگی کی افواہ پھیلانے اور اس کا پروپیگنڈہ کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر بجٹ صرف کیا لیکن گزشتہ ہفتے منگل کے روز شہر سنندج کے آزادی اسکوائر پر اور کل مریوان میں جو منظر سامنے آیا اس سے ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ ایران کی ساری قومیں اور فرقے متحد ہوکر اسلامی و قومی اہداف کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرقوں اور قوموں کے تنوع کو ایک سنہری موقع سے تعبیر کیا اور فرمایا: فارس، کرد، ترک، لر، بلوچ، عرب، ترکمن اور دیگر قوموں سمیت تمام ایرانی قومیں باہمی اتحاد کی تقویت کے ساتھ ملک کی ترقی سے متعلق قومی مقابلے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں اور خیر و برکت کا سرچشمہ بن جائیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای کے خطاب سے قبل کچھ اساتذہ اور طلبا نے متعدد موضوعات پر اپنے اپنے خیالات پیش کئے۔