سوال: سب سے پہلے اپنے شہید والد کی جہادی زندگي اور حزب اللہ میں ان کی شمولیت کے بارے میں ہمیں بتائيے۔

جواب: میرا نام خدیجہ ہے اور میں عظیم کمانڈر شہید سید فؤاد شکر المعروف بہ سید محسن کی بیٹی ہوں۔ وہ سنہ 1961 میں لبنان کے بقاع علاقے کے بنی شیت گاؤں میں پیدا ہوئے۔

میرا ماننا ہے کہ میرے والد کی شخصیت، جس نے انھیں اس راہ پر ڈالا اور جو جہاد سے شروع ہو کر شہادت پر ختم ہوئی، تین بنیادی ارکان پر استوار ہے:

سب سے پہلے تو یہ کہ میرے والد، مسجد سے بہت لگاؤ رکھتے تھے، انھیں بچپن سے ہی قرآن مجید سے عشق تھا، سیاسی، جماعتی یا جہادی رجحانات پیدا ہونے سے بھی پہلے وہ ہمیشہ قرآن مجید کو ہمارا دائمی اور بنیادی راستہ سمجھتے تھے۔ وہ ہمیشہ مسجد میں رہتے تھے اور اسے اپنی شخصیت کی تشکیل کا ایک اہم رکن سمجھتے تھے۔ وہ لوگوں کو ہمیشہ مسجد میں آنے کی ترغیب دلاتے تھے۔ یہاں تک کہ جب وہ جہاد کے راستے پر چل پڑے، تب بھی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کا یہ جملہ دوہراتے رہتے  تھے کہ "مسجدیں، ہمارا مورچہ ہیں۔" وہ قرآن اور تفسیر قرآن کے دروس میں شرکت کرتے تھے اور اپنے دوستوں کو بھی ان دروس میں شامل ہونے اور مساجد میں قرآنی امور پر توجہ دینے کی ترغیب دلاتے تھے۔

دوسری چیز، جس نے میرے خیال سے والد کی شخصیت پر بہت گہرا اثر ڈالا، وہ امام حسین علیہ السلام کے مکتب سے ان کا عشق اور اعتقاد تھا۔ جیسا کہ امام خمینی نے کہا ہے: "ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ عاشورا کی برکت سے ہے۔" مکتب حسینی سے ان کا دلی لگاؤ اور گہرا رشتہ اس بات کا سبب بنا کہ جہاد اور مزاحمت کے دوران، جہاد کے موضوع کو، ملک کے دفاع کے لیے ایک حتمی فریضے کے طور پر  بلکہ ایک عقیدتی اور روحانی ستون کی حیثیت سے دیکھیں۔ یہ وہی چیز تھی جو حزب اللہ کو دیگر مزاحمتی فورسز سے الگ کرتی تھی۔ میرے والد ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ جو شخص خدا کے لیے خلوص سے جنگ نہیں کرتا، وہ حسینی نہیں ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ ہمارا حسینی عقیدہ اور عاشورا سے ہمارا رشتہ، اس مزاحمت کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔

میرا ماننا ہے کہ ان کی شخصیت کی تشکیل میں جو تیسرا اور بنیادی رکن تھا وہ، شروع سے ہی اعلیٰ قیادت اور ولایت سے ان کا گہرا اور مضبوط رشتہ تھا۔ یہ چیز نہ صرف ولایت کے بارے میں والد کے بیانوں اور موقف میں نمایاں تھی بلکہ ان کے عمل اور برتاؤ میں بھی اسے واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ اگر ہم والد کی جہادی سرگرمیوں کی طرف لوٹیں، خاص طور پر سنہ 1982 کی طرف تو ہم دیکھیں گے کہ اس زمانے میں نہ تو حزب اللہ نام کی کوئی تنظیم تھی اور نہ ہی اس نام سے کوئی مزاحمتی تحریک وجود میں آئی تھی۔ اس زمانے میں میرے والد انفرادی طور پر کوشش کرتے تھے کہ اسرائیل کے مقابلے میں لبنان کے دفاع کے لیے بعض جہادی کارروائیاں شروع کریں۔ اس زمانے کا ایک اہم کارنامہ، وہ جنگ تھی جو خلدہ نامی علاقے میں ہوئی۔ ان دنوں، اسرائيلی، جنوب کی طرف سے لبنان میں گھس گئے تھے اور بیروت میں داخلے کے جنوبی دروازے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ میرے والد، دارالحکومت کے اوزاعی نامی ایک مضافاتی علاقے میں رہتے تھے۔

جب انھیں خبر ملی کہ اسرائیلی فورسز خلدہ تک پہنچ گئی ہیں، جو ان کی رہائش سے قریب ترین جگہ تھی تو انھوں نے کوشش کی کہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو اکٹھا کریں اور انھیں سمجھائيں کہ ہمیں اس اسرائيلی حملے کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہیے جس کا مقصد دارالحکومت بیروت تک پہنچنا اور اس پر قبضہ کرنا ہے۔ یہ باتیں، وہاں موجود اس زمانے کے بعض افراد نے بتائی ہیں۔ ایک شخص نے میرے والد سے کہا کہ ہم امام حسین کی مدد کی آرزو رکھتے ہیں، امام حسین اس وقت خلدہ میں ہیں اور پھر سے مدد کے لیے ہمیں پکار رہے ہیں۔ دنیوی معیاروں کے مطابق، طاقت کا کوئی حقیقی توازن نہیں تھا اور اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ جو چیز کہی جا سکتی تھی وہ شہادت پسندانہ جنگ تھی کیونکہ ہمارے افراد اور ان کے پاس موجود ہتھیاروں کا کسی بھی طرح سے اسرائیل کی ایک بریگیڈ سے بھی موازنہ نہیں کیا جا سکتا تھا تاہم میرے والد کا ماننا تھا کہ اگر ہمارے فوجی وسائل اور افراد، اس جنگ میں ضروری معیار سے کم بھی تھے تب بھی ایک چھوٹا سا گروہ اللہ کے لطف و کرم سے ایک زیادہ بڑے گروہ پر غلبہ حاصل کر سکتا ہے۔

میرے والد اس وقت، اوزاعی علاقے سے، جہاں وہ رہتے تھے، ان افراد کے ساتھ، جنھوں نے ان کے ساتھ چلنے کی ہامی بھری تھی، وہاں سے نکل پڑے۔ جب ان افراد میں سے بعض نے، مجھے یہ باتیں بتائیں تو کہا کہ انھوں نے کچھ افراد کو اوزاعی علاقے کے داخلے کے راستے پر روک دیا اور ان سے کہا کہ ہم لڑنے کے لیے خلدہ جائیں گے، ہماری تعداد بھی کم ہے اور ہتھیار بھی محدود ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم سب شہید ہو جائيں لیکن اگر اسرائيلی یہاں پہنچ گئے تو بھی ان ہی کی طرح کام کریں گے چاہے ہم سب شہید ہی کیوں نہ ہو جائیں لیکن کبھی بھی اسرائيلی دشمن کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکنا۔ خداوند عالم نے ان کی مدد کی اور وہ جنگ میں فتحیاب رہے۔ انھوں نے فتح حاصل کی اور اسرائيل کی ایک بکتربند گاڑی کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا کیونکہ اس کے اندر موجود سارے صیہونی فوجی مارے گئے تھے۔

اس جنگ میں، خطے کے دوسری طرف ایک عمارت تھی جس میں اسرائيلیوں نے سبھی صحافیوں اور رپورٹروں کو قید کر رکھا تھا۔ جب وہ اسرائيلی یونٹ تباہ ہو گئی تو میرے والد نے اس عمارت میں قید سبھی اخبار نویسوں کو باہر نکالا۔ ایک خاتون فرانسیسی رپورٹر نے ان سے پوچھا: کیا آپ کا تعلق میدان جنگ میں موجود کسی مزاحمتی تحریک سے ہے؟ والد نے جواب دیا کہ نہیں، ہم امام خمینی کے پیروکار ہیں۔ یہ جواب وہاں موجود سبھی لوگوں کے لیے، یہاں تک کہ ان کے ساتھیوں تک کے لیے بہت حیرت انگیز تھا۔ اس رپورٹر نے کہا کہ ہم نے اس سے پہلے آپ کے بارے میں کچھ نہیں سنا ہے۔ والد نے جواب دیا: عنقریب سن لوگی۔

جب میرے والد سے اس جملے کو استعمال کرنے وجہ پوچھی گئی تو انھوں نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ وطن اور لوگوں کے دفاع کے لیے اسرائیل سے جنگ بہت اہم ہے لیکن اس وقت جن سب سے اہم باتوں نے مجھے اٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب دلائی، ان میں سے ایک یہ تھی کہ اگر میں شہید بھی ہو جاؤں تو بھی یہ کام فرض کی ادائیگی کی راہ میں شمار ہوگا۔

اسرائیل سے لڑنے کی ضرورت کے بارے میں امام خمینی کے باتوں کو میرے والد نے نصب العین بنا رکھا تھا۔ ان تمام لڑائيوں اور جنگوں میں، جن میں والد اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر لڑتے تھے، وہ ولایت کے تابع فرمان ہوتے تھے، چاہے وہ امام خمینی کا دور ہو یا آيت اللہ خامنہ ای کی قیادت کا زمانہ ہو۔ ان کے اس رویے، ان جنگوں اور اس موقف سے واضح تھا کہ والد کے لیے ولایت، ریڈ لائن تھی جس کے بارے میں کوئي بحث نہیں ہو سکتی تھی اور یہ چیز صرف زبانی نہیں تھی بلکہ عملی تھی۔ خدا کے لطف سے یہ جنگ، حزب اللہ کی تشکیل کی اصل شروعات تھی جس کے بعد وہ ایک مکمل تنظیم میں تبدیل ہو گئي اور وقت کے ساتھ ساتھ پیشرفت کرنے لگی۔

کہا جا سکتا ہے کہ خلدہ کی جنگ، اس مزاحمتی تحریک کی تشکیل کی پہلی چنگاری تھی جو آگے چل کر حزب اللہ کی تشکیل پر منتج ہوئی۔ یہ جنگ میرے والد کے لیے بس راستے کی شروعات تھی، یہ ثابت کرنے کے لیے ایک شروعات کہ ہم اس راستے پر ہمیشہ باقی رہیں گے۔ مزاحمت کی تصویر وقت کے ساتھ ساتھ پوری طرح نمایاں ہو گئی۔ میرے والد جہاد کی راہ پر کام کرنے کے ان برسوں میں بہت زیادہ بدل گئے، جیسا کہ سید حسن نصر اللہ نے ان کی سرگرمیوں اور پوزیشن کے بارے میں کہا ہے۔ میرے والد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے پروگرام میں سید حسن نصر اللہ کی باتوں میں ایک دلچسپ نکتہ یہ تھا کہ سید محسن صرف لبنان میں موجود نہیں تھے اور لبنان میں بھی ان کی موجودگي کسی ایک خطے تک محدود نہیں تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے والد، سید حسن کے براہ راست تابع فرمان تھے کیونکہ وہ انھیں ولایت کا ہی تسلسل سمجھتے تھے اور مانتے تھے کہ انھیں براہ راست ان کا تابع فرمان رہنا چاہیے۔

مختلف حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ میرے والد بیروت، بقاع اور جنوبی لبنان کے درمیان مختلف میدانوں میں موجود رہیں۔ ان کی مختلف سرگرمیاں تھیں، عسکری آپریشن کی کمان سے لے کر حزب اللہ کے کئی عہدوں کی ذمہ داری تک۔ وہ ہمیشہ دوسرے ساتھیوں، کمانڈروں اور فورسز کی حمایت کرتے تھے اور یہ سلسلہ لبنان سے باہر تک جاری رہتا تھا۔ میرے والد کی شہادت کے بعد سید حسن نصر اللہ نے بوسنیا میں ان کی موجودگی کے بارے میں بات کی، یہ جنگ اس بات کا واضح نمونہ تھی کہ "جہاں بھی ضروری ہوگا، وہاں ہم پہنچیں گے۔"

میرے والد کچھ ساتھیوں کے ساتھ بوسنیا پہنچے تاکہ وہاں کے مظلوم اور ستم رسیدہ مسلمانوں کی مدد کر سکیں، چاہے ان کا مذہب یا ان کا طریقۂ کار ہم سے الگ ہی کیوں نہ ہو لیکن وہ ایسے مسلمان تھے جن پر ظلم ہو رہا تھا اور ان کی مدد اور ان کا دفاع واجب تھا۔ یہ وہی بات ہے جس کی طرف سید حسن نصر اللہ نے میرے والد کی شہادت کے بعد اپنی تقریر میں اشارہ کیا تھا۔

ان دنوں، والد طویل عرصے تک گھر نہیں آئے۔ ہمیں اس بات کی عادت ہو چکی تھی کہ وہ کچھ عرصے تک گھر سے دور رہیں لیکن اس بار مجھے یاد ہے کہ وہ قریب ایک سال تک گھر نہیں آئے اور اس پورے عرصے میں ہم سے ان کا کوئی رابطہ نہیں ہوا، بس ایک بار، قریب ایک سال بعد ان کا خط ہم تک پہنچا تھا۔ جب وہ بوسنیا گئے تھے تو انھوں نے ہمیں الوداع نہیں کہا تھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح گھر سے نکلے، جیسے ایک مختصر مدت کے آپریشن کے لیے جا رہے ہوں اور ہمیں تو کئی کئي دن تک ان کے گھر نہ آنے کی عادت ہو ہی چکی تھی۔ اس پورے عرصے میں میری والدہ نے بہت دھیان سے ہماری پرورش کی کیونکہ اس وقت ہم بچے ہی تھے اور قیادت، جہاد یا حزب اللہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ وہ  واحد علامت جو ہمیں اس راستے پر لاتی تھی، ہمارے کسی دوست کے والد کی شہادت یا بعض مجاہدین کی شہادت کی خبر سننا تھا۔ مزاحمت کو ان دنوں، شہیدوں کے خون سے پہچانا جاتا تھا۔ ہم جو کچھ جانتے تھے وہ بس یہ تھا کہ ہمارے والد کوئي کام کر رہے ہیں اور میری والدہ کہتی تھیں کہ اس مرحلے میں ہماری ذمہ داری صرف دعا کرنا ہے۔

اگرچہ میری والدہ کو یہ پتہ تھا کہ والد کہاں گئے ہیں لیکن وہ ہمیشہ یہی کہتی تھیں کہ ہم ان کے لیے دعا کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے، یا تو فاتحانہ واپسی ہوگی یا پھر شہادت۔ جیسا کہ سید حسن نصر اللہ نے اشارہ کیا، دونوں صورتوں میں یہ ایک فتح ہے۔ تاہم اس بار ان کی عدم موجودگی ہمیشہ سے زیادہ تھی۔ کچھ مہینے بعد ہمیں والد کا ایک خط ملا اور اس سے ہمیں پتہ چلا کہ وہ لبنان سے باہر ہیں۔ اس خط میں والد نے اپنی سلامتی کی طرف سے اطمینان دلانے کے بعد ہم سے یہ کہا کہ ہم ان ہی اصولوں کی پابندی کریں جن پر ہماری پرورش ہوئی تھی جیسے نماز، قرآن، ماں کا احترام۔ البتہ اس وقت ہم بہت چھوٹے تھے اور اس سے زیادہ کچھ سمجھ نہیں سکتے تھے۔ بعد میں وقت گزرنے کے بعد اور بوسنیا کے مسئلے کے بارے میں سید حسن نصر اللہ کی وضاحت کے بعد ہم اس مشن کی ماہیت کو سمجھ گئے۔

اس کے بعد میرے والد نے مزاحمت کی کمان کے تحت اپنی تمام سرگرمیوں میں ہمیشہ اس بات کی کوشش کی کہ مزاحمت کو چوطرفہ وسعت دیں۔ شروع میں وہ مجاہدین کے "روحانی باپ" کی طرح شہادت پسندانہ عمل کرتے تھے۔ انھوں نے مزاحمت کی طاقت بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور اسرائیل کو واضح پیغام دیا کہ ہم ایسے لوگ ہیں جو مزاحمت کریں گے اور غاصبانہ قبضہ جاری رکھنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ شہادت پسند مجاہدین کی ٹریننگ کے مرحلے کے بعد میرے والد نے مزاحمت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی مسلسل اور انتھک کوشش کی۔ وہ ہمیشہ اس بات کے لیے کوشاں رہے کہ مزاحمت اور دیگر مزاحمتی گروہوں کے درمیان بنیادی فرق کو مجاہدین کے لیے واضح کریں اور انھیں یہ سمجھائيں کہ یہ راہ، عاشورا اور اس عقیدے کی راہ ہے جو ہمیں مزاحمت کی طرف لے جاتی ہے۔

ان کے کام کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ وہ ایسی اسٹریٹیجیز تیار کرنے کی کوشش کرتے تھے جو مزاحمت کو ایک مرحلے سے اگلے اعلیٰ مرحلے تک لے جائیں۔ خواہ وہ صیہونی دشمن کے مقابلے میں ہو یا پھر ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مزاحمت کی صلاحیتوں کو بڑھانے کی بات ہو تاکہ مزاحمت کو ہر ممکنہ جنگ یا دفاعی ضرورت کے لیے ہمیشہ تیار رکھا جائے۔ میرے والد اس راستے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے تھے اور ہمیشہ مزاحمت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ یہاں تک کہ ہم اس مرحلے پر پہنچ گئے جو "شام میں مقدس دفاع" کے نام سے مشہور ہوا۔ میرے والد مسلسل اس کوشش میں رہے کہ مزاحمت کی تیاری کی سطح کو بڑھایا جائے، جیسا کہ سید حسن نصراللہ نے اشارہ کیا تھا، زمینی، بحری اور یہاں تک کہ فضائی میدانوں میں بھی مزاحمت کی تیاری کو مضبوط کیا جائے۔ انھیں متعدد ذمہ داریاں سونپی گئیں جن میں میزائل فورسز، بحری فوج، یہاں تک کہ فضائی دفاع جیسے شعبے بھی شامل تھے۔ انھیں اس بات کی گہری سمجھ تھی کہ صیہونی حکومت کے خلاف جنگ میں ہمیں ایسی صلاحیتوں کی کتنی شدید ضرورت ہے۔

اس عرصے میں مزاحمت اور لبنان نے کئی جنگیں دیکھیں، جن میں شاید 2006 کی جنگ سب سے اہم تھی۔ جیسا کہ سید حسن نصراللہ نے اشارہ کیا، میرے والد نے اس جنگ میں پچھلے برسوں میں تیار کیے گئے تمام جنگی وسائل کا بھرپور استعمال کیا۔ مجھے یاد ہے کہ جنگ کے دوران والد ہمارے ساتھ نہیں تھے کہ ہمیں بتاتے کہ کیا ہو رہا ہے اور نہ ہی ہمیں ان کی جگہ کا پتہ تھا۔ ہمیں صرف اتنا یقین تھا کہ وہ ضرور سید حسن، الحاج عماد اور دیگر کمانڈروں کے ساتھ مل کر جنگ کی قیادت کر رہے ہوں گے۔ ہمیں یہ تک نہیں معلوم تھا کہ جنگ کے بعد ہم انھیں دوبارہ دیکھ بھی پائیں گے یا نہیں۔ اسی لیے جب جنگ کے بعد وہ واپس آئے تو ہم ان کے ساتھ گزارا ہر دن خدا کی طرف سے ایک اضافی نعمت اور خاص تحفہ سمجھتے تھے کیونکہ ممکن تھا کہ وہ اس جنگ میں شہید ہو جاتے۔

جنگ کے بعد والد سے میری پہلی ملاقات اب بھی میری یادوں میں تازہ ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں انھیں دیکھ کر خوش ہوں کیونکہ جنگ ختم ہو گئی ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ ابھی تو جنگ شروع ہوئی ہے۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں تو انھوں نے کہا کہ جو کچھ گزرا وہ صرف ایک جھڑپ تھی جس میں براہ راست تصادم ہوا لیکن اب اصل جنگ شروع ہو گئی ہے۔ اب ہمیں ان تمام خالی جگہوں کو پر کرنا ہے جو ہمیں معلوم ہوئی ہیں، ان تمام کمزوریوں کو دور کرنا ہے جو ہم نے پہچانی ہیں اور ان تمام چیزوں سے فائدہ اٹھانا ہے جو ہم نے دشمن سے سیکھی ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے اسلحہ کے ذخائر کو بڑھائیں اور صیہونی حکومت کے ساتھ اگلی لڑائی کی منصوبہ بندی کریں۔

میرے والد کبھی بھی آرام کے بارے میں نہیں سوچتے تھے، جسمانی یا ذہنی تھکن ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی، انھوں نے اپنی زندگی کے اس دور کو مکمل طور پر مزاحمت کے لیے وقف کر دیا تھا اور ہمیشہ ان کا ماننا تھا کہ آرام کا وقت بھی مزاحمت کو مضبوط بنانے میں صرف ہونا چاہیے، جولائی کی جنگ کے بعد میرے والد نے سید حسن اور دیگر رفقاء کے شانہ بشانہ مزاحمت کو مسلسل مضبوط اور تیار کرنے کا کام جاری رکھا تاکہ ایک ایسی دفاعی طاقت تشکیل دی جا سکے جو صیہونی حکومت کو پھر کبھی ماضی جیسی جنگ چھیڑنے کے بارے میں سوچنے بھی نہ دے۔ ان برسوں میں جب میرے والد مصروف عمل تھے، امریکا اور اسرائیل مسلسل حزب اللہ کے خلاف میڈیا اور پروپیگنڈا مہم چلاتے رہے، وہ حزب اللہ کو ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر پیش کر کے اس کے کمانڈروں خصوصاً میرے والد کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے تھے۔ انھوں نے میرے والد کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر کئی بار بھاری رقم کا اعلان کیا کیونکہ وہ انھیں ان شخصیات میں شمار کرتے تھے جو اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں لیکن یہ دھمکیاں کبھی بھی میرے والد کی سرگرمیوں کو روک نہ سکیں۔

میرے والد اور ان کے دیگر رفقاء نے مقاومت کی طاقت بڑھانے کے اپنے کام کو جاری رکھا یہاں تک کہ 7 اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کا آغاز ہوا۔ اس دن سید حسن نے سپورٹ فرنٹ کی کمان میرے والد کے سپرد کی۔ اس وقت ان کا جذبۂ ایثار حیرت انگیز نہیں تھا کیونکہ ان کی پوری زندگی میں فلسطین، بیت المقدس، اس مقدس سرزمین کی آزادی اور اسرائیل کی تباہی، جیسا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ فرماتے تھے، ان کی فکر کے بنیادی اصول تھے۔ ان کی نظر ہمیشہ فلسطین پر رہتی تھی اور ان کا ذہن اس دن کے بارے میں سوچتا رہتا تھا جب ہم قدس میں داخل ہوں گے اور مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کریں گے۔ میرے والد ہمیشہ کہتے تھے کہ فتح یقیناً آنے والی ہے اور یہ ایک الہی گروہ ہے، فلسطین دیر یا جلد اسرائیل کے تسلط سے آزاد ہوگا، بات صرف وقت کی ہے۔

اسی لیے والد نے غزہ کے سپورٹ فرنٹ پر اس محاذ کے وزیر جنگ کے طور پر کردار ادا کیا۔ انھوں نے ایسا ہر راستہ یا ذریعہ استعمال کیا جو غزہ اور فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے مؤثر ثابت ہو سکتا تھا، چاہے وہ ہتھیاروں کی فراہمی ہو، ٹریننگ ہو یا صیہونی دشمن کے خلاف نفسیاتی جنگ میں فلسطینی بھائیوں کی مدد ہو۔ جیسا کہ ہم نے میڈیا میں دیکھا، میرے والد نے "ہُدہُد" سسٹم متعارف کرایا تاکہ اسرائیل کو خبردار کیا جا سکے کہ ہم مقبوضہ علاقوں کے مرکز تک میں صیہونی فوجیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے اس دور میں متعدد محاذ کھولے جنھوں نے غزہ کے عوام کی کافی مدد کی اور ان پر پڑنے والے دباؤ کو کم کیا۔ والد نے اپنی زندگی کے آخری دن تک سپورٹ فرنٹ پر فلسطینی بھائیوں کی حمایت کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور کوئی کسر نہ چھوڑی، یہاں تک کہ گزشتہ سال اسی سپورٹ فرنٹ پر غزہ کی حمایت کے دوران جام شہادت نوش کیا اور اس طرح ان کا جہادی سفر مکمل ہوا۔

سوال: آپ کو اپنے والد کی شہادت کی خبر کس طرح ملی؟

جواب: جس دن حملہ ہوا، ہمیں نہیں پتہ تھا کہ والد کہاں ہیں۔ جب ضاحیہ پر حملے کی خبر ملی تو کئی لوگوں نے شروع میں یہ سوچا کہ شاید یہ شہید العاروری پر ہوئے حملے کی طرح ہے یعنی کسی فلسطینی شخصیت پر حملہ ہوا ہے تاہم کچھ وقت گزرنے کے بعد اس بات کی تصدیق ہوئی کہ والد اس عمارت میں موجود تھے۔  اس وقت ہمیں نہیں پتہ تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے کیونکہ حملے کے بعد اس عمارت سے شہیدوں کو بھی نکالا گیا تھا اور زخمیوں کو بھی۔ سید حسن نصر اللہ نے بھی صرف یہی کہا کہ سید محسن اس عمارت میں موجود تھے لیکن ابھی یہ نہیں پتہ کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے؟

ملبہ ہٹانے اور والد کو تلاش کرنے کا کام کئی دن تک جاری رہا اور اس دوران ہم نے ذہنی طور پر اپنے آپ کو ان کی شہادت کی خبر کے لیے تیار کر لیا۔ دوسرے دن اعلان ہوا کہ اب کوئی لاپتہ شخص عمارت میں باقی نہیں بچا ہے تاہم والد کا جسم نہیں مل پایا تھا۔ کچھ گھنٹے بعد ان کی لاش ایک دوسری عمارت سے ملی، مطلب یہ کہ پہلے دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ان کا جسم دھماکے سے دوسری عمارت میں پہنچ گیا تھا۔

والد کی لاش ملنے کے بعد حزب اللہ نے باضابطہ طور پر ان کی شہادت کا اعلان کیا۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ ان کی تلاش کے دوران ہمیں اپنے آپ کو تیار کرنے کا موقع ملا حالانکہ والد نے کافی پہلے سے ہمیں شہادت کے مفہوم سے آشنا کر دیا تھا اور ہمیشہ شہادت کے بارے میں گفتگو کی تھی۔ ہمیشہ سے ان کی دلی تمنا تھی کہ ان کی زندگي کا سفر، شہادت پر جا کر ختم ہو۔ وہ ہمیشہ ہم سے کہتے تھے کہ ان کی شہادت کے لیے دعا کریں۔ یہاں تک کہ جب میری بہن حاملہ تھی اور اس کا بچہ دنیا میں آنے والا تھا تب بھی والد نے اس سے کہا تھا کہ جس لمحے تمھارا بچہ اس دنیا میں قدم رکھے، تب دعا کرنا کہ میں شہید ہو جاؤں۔ وہ ہمیں قسم دے کر کہتے تھے کہ شبہائے قدر میں، نمازوں میں اور تمام دعاؤں میں ان کی شہادت کے لیے دعا کریں۔ وہ ہمیشہ اس بات پر فکرمند رہا کرتے تھے کہ کہیں خداوند عالم، ان کا خاتمہ شہادت کے علاوہ کسی اور موت کے ساتھ نہ کر دے۔

جب ہمیں ان کی شہادت کی خبر ملی تو بحمد اللہ خداوند عالم نے ہمارے دلوں پر صبر و اطمینان نازل کیا۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ہماری پرورش ایسے مکتب فکر میں ہوئی تھی جو اس طرح کی مصیبتوں کا خیر مقدم کرتا ہے۔ وہ لمحے، اس پرورش کے پھل توڑنے کے لمحے تھے۔ اس وقت میرے ذہن میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا جلوہ افروز تھیں اور میری زبان پر جو واحد جملہ تھا وہ "ما رایت الا جمیلا" (میں نے زیبائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا) تھا۔ وہ بہت سخت وقت تھا، باپ کو کھو دینا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے، اپنے عزیز ترین شخص کو کھو دینا، دل میں درد پیدا کر دیتا ہے تاہم موت ایک حقیقت ہے اور شہادت، اللہ کی راہ میں ملنے والی سب سے خوبصورت اور سب سے باشرف موت ہے۔ شہادت کی موت میں جو یہ زیبائی اور شکوہ ہے، وہ دل کو سکون عطا کرتا ہے۔

والد کی موت سے ہم بڑی تکلیف دہ کیفیت میں تھے تاہم ہم لوگ سید حسن سے بہت مانوس تھے اور اسی وجہ سے ہمیں یتیمی کا بہت زیادہ احساس نہیں ہوا۔ اس وقت ہم نے محسوس کیا کہ ہم نے اپنے والد کو کھو دیا ہے لیکن ہمارا ایک اور باپ، ایک اور سہارا ہے جو ہمارا محافظ ہے، بالکل اسی وقت کی طرح جب والد زندہ تھے۔ سید حسن نصر اللہ نے ہماری یتیمی کو اپنی گھنی چھاؤں میں لے لیا اور اس عظیم سانحے کی تکلیف کو بڑی حد تک کم کر دیا۔ کل ملا کر یہ کہ جب ہمیں اپنے والد کی شہادت کی خبر ملی تو بہت سے عناصر تھے جنھوں نے صبر و اطمینان رکھنے میں ہماری مدد کی۔ ان میں ایک سب سے نمایاں عنصر، ہمارے گھرانے کے لیے باپ اور سہارے کی حیثیت سے سید حسن نصر اللہ کی موجودگي تھی۔

سوال: تنظیمی اور معنوی لحاظ سے سید حسن نصر اللہ سے آپ کے والد کے روابط کیسے تھے؟ کیا اس سلسلے میں آپ کی کچھ خاص یادیں ہیں؟

جواب: تنظیمی لحاظ سے، ہمیں بہت بعد میں پتہ چلا کہ تنظیم میں والد صاحب کی کیا پوزیشن تھی۔ تقریباً ان کی شہادت کے قریب، جب ہم خود بڑے ہو گئے اور عملی میدان میں آ گئے، تب جا کر ہمیں ان کی پوزیشن کا اندازہ ہوا۔ والد کام اور تنظیمی معاملات میں بہت رازدار تھے، وہ کبھی بھی سید حسن نصر اللہ کے ساتھ اپنے تنظیمی تعلق کے بارے میں نہیں بتاتے تھے۔ بعد میں ہمیں یہ بات اردگرد کے لوگوں اور خود والد مرحوم سے سننے کو ملی۔

جہاں تک خاندانی اور ذاتی پہلو کی بات ہے تو میرے والد اور سید حسن نصر اللہ کے روابط کی یادیں میرے بچپن سے وابستہ ہیں، یعنی اس زمانے سے جب سید ہمارے گھر آتے تھے۔ اس وقت وہ سیکرٹری جنرل نہیں تھے، ہمیں صرف اتنا معلوم تھا کہ سید حسن، والد کے قریبی دوست ہیں۔ ان کے گھر آنے سے والد پوری طرح ان میں گم ہو جاتے۔ یہاں تک کہ ہماری والدہ بھی پیار سے کہتی تھیں: تمہارے والد کے دوست آئے ہیں۔ ان کے آنے کے بعد ہمیں والد نظر نہیں آتے تھے کیونکہ وہ دونوں گھنٹوں ساتھ بیٹھتے اور ان کی آپسی ہماہنگی اور یکجہتی اتنی گہری تھی کہ سید کی موجودگی والد کو ہم سے کچھ دیر کے لیے جدا کر دیتی تھی۔ یہ ذاتی تعلق، وقت گزرنے کے ساتھ اور گہرا ہوتا گیا۔ والد، سید حسن کو اپنا عزیز دوست اور مخلص ساتھی سمجھتے تھے۔ ان کی قرابت نہ صرف کام کے میدان میں بلکہ گھریلو روابط میں بھی نمایاں تھی۔ نہ صرف والد اور سید حسن کے درمیان، بلکہ دونوں گھرانوں کے درمیان بھی یہ رشتہ قائم تھا۔ یہاں تک کہ ان کا ایک ہی محلے میں رہنا اس قرابت کو اور بڑھا دیتا تھا۔ میرے خیال میں، مزاحمتی محاذ پر دباؤ اور مشکلات کے بڑھنے کے ہر مرحلے میں ان دونوں کا رشتہ اور گہرا ہوتا گیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ، یہ رشتہ ذاتی اور پیشہ ورانہ دونوں لحاظ سے اتنا مضبوط ہوا کہ سید حسن نے میرے والد کو اپنا دایاں ہاتھ تک کہا۔ سید حسن اسی طرح والد کو پہاڑ سے تشبیہ دیتے تھے اور یہ وہ چیز تھی جسے ہم نے خود بھی قریب سے محسوس کیا تھا۔ میں سمجھ لیتی تھی کہ والد، (فون پر) سید حسن سے بات کر رہے ہیں، چاہے وہ خود نہ بھی بتاتے۔ والد کی آواز سخت اور فوجی انداز کی تھی لیکن جب وہ سید حسن سے بات کرتے تو ان کا لہجہ اور چہرے کے تاثرات بدل جاتے اور صاف ظاہر ہوتا کہ ان کے درمیان ایک خاص قسم کا تعلق ہے۔

والد ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ سید حسن سے ان کی خالص محبت، کمانڈر کی حیثیت سے ان سے رابطے سے الگ ہے۔ محبت اپنی جگہ ہے لیکن براہ راست کمانڈر کی حیثیت سے ان کی اطاعت اور فرمانبرداری والد کے لیے ریڈ لائن تھی۔ وہ سید حسن کی ہر بات پر عمل کرنے کو واجب حکم سمجھتے تھے اور انھوں نے ہمیں بھی اسی سوچ کے ساتھ پروان چڑھایا۔

والد کے ساتھ یہ بڑھتی ہوئی محبت ہماری زندگی میں صاف نظر آتی تھی اور انکی  شہادت کے بعد سید حسن کے جذباتی رد عمل نے بھی اس رشتے کی گہرائی کو ثابت کیا۔ چاہے وہ ہمارے اہل خانہ سے نجی گفتگو میں ہو یا عوامی تقریروں میں، جب بھی سید حسن، والد کے بارے میں بات کرتے تو صاف ظاہر ہوتا کہ وہ انھیں کتنی اہمیت دیتے تھے۔ خواہ وہ مزاحمت کی تحریک میں ان کے کردار کی وجہ سے ہو یا ان کے ذاتی رشتے کی وجہ سے، جیسا کہ سید حسن خود کہتے تھے کہ یہ رشتہ اتنا گہرا ہے کہ اسے تعارف کی ضرورت نہیں ہے۔

اس گہرے رشتے کی سب سے واضح علامت، شہید والد کی آخری رسومات کے موقع پر سید حسن کا دل کو چھو لینے والا خطاب تھا۔ ان کے الفاظ نے خود والد کی جدائی سے بھی زیادہ ہمارے دلوں کو متاثر کیا۔ انھوں نے ہمارے شہید والد سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "میں الوداع نہیں کہوں گا کیونکہ مجھے اپنے عزیزوں کے جوار میں تم سے دوبارہ ملنے کی امید ہے۔" اس بات نے نہ صرف ان کے رشتے کی گہرائی کو نمایاں کیا بلکہ سید حسن پر سید محسن کی شہادت کے گہرے اثر کی بھی غمازی کی۔

اگرچہ یہ رشتہ ہمارے لیے باعث خوشی تھا لیکن شہادت میں ہمارے والد سے جڑنے کی سید کی آرزو ہمارے دلوں کے لئے ایک سخت غم تھی۔ خاص طور پر ایسے میں جب ہم انھیں اپنا سہارا اور والد کے بعد دوسرا باپ سمجھتے تھے۔ بہرحال زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ والد کے بعد وہ بھی شہادت کے مقام پر فائز ہو گئے اور دونوں جنت میں اکٹھا ہو گئے، جیسا کہ جہاد اور مزاحمت کی راہ میں وہ دونوں ہمیشہ ایک ساتھ اور ایک محاذ پر رہے تھے۔ ان شاء اللہ ہم بھی ان کے راستے پر چلتے رہیں گے تاکہ ان کے مدنظر اہداف کو حاصل کر سکیں۔

ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارے رہبر جناب سید علی خامنہ ای کا وجود مبارک ہمارے لیے ایک عظیم نعمت ہے۔ ہم انھیں اس راہ کے روحانی باپ اور تمام شہداء کے خاندانوں کے باپ کے طور پر مانتے ہیں۔ الحمدللہ، خدا نے ہم پر کرم فرمایا ہے،  ہم پہلے سید محسن اور پھر سید حسن کی سرپرستی میں تھے اور اب براہ راست ان (رہبر معظم) کی تربیت اور رہنمائی میں ہیں۔ اور یہی پرفیض موجودگی، سید حسن کی شہادت کے بعد دوبارہ یتیم ہونے کے درد کو کسی حد تک تسکین دیتی ہے۔

سوال: امام خامنہ ای کے ساتھ سید محسن کے تعلقات کی نوعیت کیا تھی؟ مراد تنظیمی اور روحانی تعلقات ہیں... کیا آپ کے پاس کوئی خاص یادیں ہیں، خاص طور پر ان ملاقاتوں کے بارے میں جو کبھی کبھی امام خامنہ ای سے ہوئیں؟ 

جواب: ہم رہبر انقلاب کے ساتھ والد صاحب کے تعلقات کو دو پہلوؤں میں دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک میرے لیے بالکل ذاتی اور جذباتی ہے، جو میرے بچپن کی یادوں سے جڑا ہوا ہے۔ میں ایک چھوٹی بچی کی حیثیت سے رہبر انقلاب اپنی سے ملاقاتوں کو یاد کرتی ہوں۔ میری عمر بہت کم تھی، لیکن اس وقت کی عظمت اور رعب کو میں کبھی نہیں بھول سکتی جب یہ خبر ملتی تھی کہ والد ہمیں رہبر معظم کے پاس لے جا رہے ہیں۔ والد کے وہ الفاظ ہمیشہ میرے ذہن میں تازہ رہتے ہیں کہ ان کی ولایت کے سائے میں رہنا ہماری زندگی پر کتنا گہرا اثر رکھتا ہے۔ والد ہمیشہ کہتے تھے: "ہم امام خامنہ ای کی ولایت کے سائے میں ہی نجات پا سکتے ہیں۔" یہ ولایت ہمارے لیے اصل اسلام کے راستے کا تسلسل ہے۔ 

یہ ملاقاتیں جو چھ سال کی عمر سے شروع ہوئیں اور بعد میں تقریباً ہر سال ہوتی رہیں، ہمیں رہبر انقلاب کی شخصیت سے روشناس کرواتی تھیں—نہ صرف ایک عظیم فقیہ اور رہبر کی حیثیت سے، بلکہ ایک مہربان اور شفیق انسان کی حیثیت سے۔ والد کا ان کے ساتھ تعلق ایک خاص قسم کا تھا۔ ان کا والد کے لیے خاص احترام ہمیشہ میری توجہ کا مرکز ہوتا تھا۔ جب میں والد سے پوچھتی کہ اس قربت کی وجہ کیا ہے، تو وہ صرف مسکرا دیتے اور خاموش رہتے—کیونکہ وہ فطری طور پر اپنی ذات کو نمایاں کرنے کے قائل نہیں تھے۔ 

وقت گزرنے کے ساتھ، جب ہم بڑے ہوئے، تو یہ ملاقاتیں گہرائی اختیار کر گئیں۔ والد کا ولایت مطلقہ اور رہبر انقلاب کی شخصیت سے عشق اور وابستگی ہر ملاقات میں محسوس ہوتی تھی۔ یہ ملاقاتیں ہمارے لیے خالصتاً خاندانی تھیں، ان کے پیچھے کسی تنظیمی تعلق کا ہمیں علم نہیں تھا۔ جو کچھ ہم محسوس کرتے تھے، وہ والد کی محبت اور ولایت فقیہ کے موجود ہونے کا احساس تھا۔ رہبر انقلاب ہمارے اور والد کے ساتھ بے پناہ مہربانی اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ 

والد کی شہادت کے بعد کئی حقائق سامنے آئے—خواہ رہبر انقلاب کے کلام میں، یا کچھ میڈیا ذرائع کے ذریعے۔ ایک ویڈیو میں، جب رہبر انقلاب کچھ کمانڈروں کو جمع کر کے تعارف کروا رہے تھے، تو والد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "سید محسن کو تو آپ یقینا جانتے ہیں۔" یہ جملہ انہوں نے کسی دوسرے کمانڈر کے لیے نہیں کہا۔ جب میں نے اس جملے کی وجہ پوچھی، تو انہوں نے بتایا کہ یہ والد کے خاص تنظیمی مقام کی وجہ سے تھا، اور یہ کہ وہ سید حسن کے نمائندے کی حیثیت سے رہبر انقلاب کے حضور حاضر ہوا کرتے تھے۔ ان کی مسلسل موجودگی نے والد کو امام خامنہ ای کے نزدیک ایک ممتاز شخصیت بنا دیا تھا۔ 

یہ حقیقت بہت سے بھائیوں کی نظر میں بھی واضح تھی۔ والد ولایت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ان کا یقین تھا کہ ولایت ہماری زندگی کا مرکز ہے۔ رہبر انقلاب کے حضور جانا والد کے لیے اپنے اعمال کی کسوٹی تھا۔ رہبر انقلاب والد کے لیے صرف ولی فقیہ ہی نہیں تھے، بلکہ اہل بیت علیہم السلام سے عشق کا ایک ذریعہ تھے، جو اب ان کی اطاعت کے ذریعے ظاہر ہوتا تھا۔ والد کا ایمان تھا کہ ہم امام زمانہ علیہ السلام کی ولایت سے وابستہ رہ کر اور رہبر انقلاب کی اطاعت کر کے اہل بیت کے راستے پر قائم رہ سکتے ہیں۔ 

میں خود بھی ان احساسات کو پچھلی ملاقاتوں میں بار بار محسوس کر چکی تھی، لیکن والد کی شہادت کے بعد یہ احساس اور بھی گہرا ہو گیا۔ تقریباً ایک ماہ پہلے مجھے رہبر انقلاب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، اور میں بہت غمگین تھی، کیونکہ یہ پہلی بار تھا جب میں ان سے والد کے بغیر مل رہی تھی—بالکل اسی طرح جیسے لبنان یا ایران میں گزری ہوئی بہت سی دوسری یادیں، جن میں امام رضا علیہ السلام کی زیارت بھی شامل ہے، جو پہلی بار والد کے بغیر ہوئی اور بہت دکھ بھری تھی۔ میں والد کے فراق کے غم کے ساتھ رہبر انقلاب سے ملی۔ پہلی بار تھا کہ والد کی غیر موجودگی میں میں رہبر کے سامنے کھڑی تھی۔ لیکن ان کی شفقت، مہربانی اور محبت پہلے سے بھی کہیں زیادہ تھی—وہی پدرانہ احساس جو ہمیشہ رہبر کے حضور میں پایا جاتا تھا، اس بار اتنا شدید تھا کہ اس نے میرے تمام غموں کو مٹا دیا۔ 

اس کے علاوہ، مجھے یہ محسوس ہوا کہ میں اب بھی رہبر انقلاب کی چادر کے نیچے ہوں، وہی چادر جو تمام شہداء کے خاندانوں کو سمیٹے ہوئے ہے، جیسے والد کے زمانے میں ہمیں سمیٹے ہوئے تھی۔ جب رہبر انقلاب کو بتایا گیا کہ میں سید محسن کی بیٹی ہوں، تو ان کا ردعمل انتہائی متاثر کن تھا۔ انھوں نے فرمایا: "میں ہمیشہ چاہتا تھا کہ سید کو گلے لگا لوں۔" میرے لیے یہ ایک جملہ کافی تھا، وہ سب کچھ جو میں نے اب تک سنا تھا، اس کا خلاصہ۔ "میں تمھارے والد کو گلے لگانا چاہتا تھا" یہ جملہ میرے لیے رہبر انقلاب کی والد سے تمام محبت، ذاتی وابستگی اور خاص جذباتی لگاؤ کا خلاصہ تھا۔ یہ جملہ رہبر انقلاب کے دل میں والد کے مقام کو ظاہر کرتا تھا۔ 

اس تعلق کی نوعیت بعد میں رہبر انقلاب کے بیانات سے مزید واضح ہوئی، خاص طور پر یہ کہ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ حزب اللہ ہمیشہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت میں رہا ہے۔ والد شروع ہی سے ولایت کے مطیع سپاہی تھے، اور جو حکم دیا جاتا، بلا چون و چرا اسے بجا لاتے۔ مجموعی طور پر، والد کا رہبر انقلاب کے ساتھ تعلق ایک خاص ہدف پر مبنی تھا، جو ابتدا ہی سے اس نیت سے تشکیل پایا تھا کہ مزاحمتی محاذ کی سرگرمیاں اس بنیادی مقصد یعنی اسرائیل کے خاتمے کی راہ میں آگے بڑھیں۔

سوال: طوفان الاقصیٰ آپریشن اور حزب اللہ کے کمانڈروں کی شہادت کے بعد، ہم نے یہ جملے سنے جیسے "حزب اللہ زندہ ہے اور فاتح" یا "مزاحمت ضرور کامیاب ہوگی۔" آپ رہبر معظم (امام خامنہ ای) کے ان الفاظ اور ان کی خوشخبریوں کو کیسے دیکھتی ہیں؟

جواب: میرے نزدیک، آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ ایک خوشخبری ہے، اور مجھے پورا یقین ہے کہ یہ پوری ہوگی۔  عملی میدان اور موجودہ حقائق کی روشنی میں بھی، ان کے الفاظ آج کے حزب اللہ اور جنگ کے بعد مزاحمت کی تحریک کی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں۔ اسلامی مزاحمت میں یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ہم کمانڈروں کے شہید ہونے یا سخت جنگوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ تاہم، یہ تحریک کسی ایک فرد یا شخصیت تک محدود نہیں، چاہے وہ کتنا ہی عزیز اور اہم کیوں نہ ہو۔ یہ راستہ درحقیقت قرآن کریم کے اس فرمان کی عملی تصویر ہے: "اگر تم اللہ کی مدد کرو گے، تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔"

جن کمانڈروں کو ہم نے کھویا، وہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی زندگیاں اللہ کے راستے میں وقف کر دی تھیں۔ اگر میں اپنے شہید والد، سید حسن اور ان کے ساتھی کمانڈروں کی بات کروں، تو میں گواہی دیتی ہوں کہ وہ اپنی پوری زندگی میں اللہ اور دین کے راستے کے مددگار رہے۔ انہوں نے اپنی جانیں مزاحمت اور اللہ کی نصرت کے لیے وقف کر دیں۔ اس لیے، فتح نہ صرف ایک الہی وعدہ ہے، بلکہ ایک یقینی نتیجہ بھی۔ جنگ کے بعد کے حالات بھی مزاحمت کی مضبوطی اور حزب اللہ کے بقاء کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ تحریک زخمی ہوئی ہے، لیکن اس کی ہمت اور ارادے کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ 

اگر صیہونی ریاست کا مقصد حزب اللہ کا خاتمہ تھا، تو حالیہ تجربے نے ثابت کیا کہ کمانڈروں کی شہادت، اسلحے کے ذخائر کی تباہی، لبنان کے مختلف علاقوں میں تباہی، اور حزب اللہ کے بڑی تعداد میں شہداء اور عام شہریوں کے نقصانات کے باوجود، اس کا کوئی بھی ہدف پورا نہیں ہوا۔ دشمن نہ تو مزاحمت کو ختم کر پایا، اور نہ ہی اس کی عوامی حمایت کو کمزور کر سکا۔ یہ حقیقت سید حسن کی تشییع میں واضح طور پر نظر آئی۔ 

سوال: آپ مختصراً سید حسن نصراللہ کی عظیم الشان تشییع جنازہ کو کیسے بیان کریں گی؟

جواب: عوامی سطح پر بھی، میرے خیال میں سید حسن نصراللہ کی تشییع جنازہ نے واضح کر دیا کہ نہ تو مزاحمت کی عوامی بنیاد متاثر ہوئی ہے، اور نہ ہی اسرائیلی مظالم نے مزاحمت کے خاندانوں کو ڈرایا ہے، بلکہ اس کے برعکس، ان کے عزم میں اضافہ ہوا ہے۔ بہت سے حامیانِ مزاحمت اور وہ لوگ جو سید حسن کو جانتے تھے، انہیں نہ صرف مزاحمت کا رہبر یا محورِ مزاحمت کا ایک کمانڈر سمجھتے تھے، بلکہ ان تمام آزاد لوگوں کا لیڈر مانتے تھے جو یقین رکھتے ہیں کہ کسی کو بھی دشمن کو اپنی زمین پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ 

سید حسن اور دیگر کمانڈروں کی شہادت اور ان کے پاکیزہ خون نے لوگوں کو یہ حقیقت دکھا دی کہ مزاحمت کبھی اپنے راستے سے نہیں ہٹتی۔ مزاحمت نے ثابت کیا کہ اس کے کمانڈر ہمیشہ اپنی فوج کے آگے چلتے ہیں، خواہ جنگ ہو، ترقی ہو، یا شہادت۔ 

اگر اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ سید حسن کی شہادت کے بعد مزاحمت کو ختم کرنے کا موقع آ گیا ہے، تو وہ جلد ہی حقیقت دیکھ لے گا۔ صیہونی ریاست نے تشییع جنازہ کے موقع پر تمام مکاتب فکر کی بڑی تعداد میں شرکت کے بعد واضح جواب پا لیا۔ اسرائیل نہ صرف پہلے ہی دھمکیاں دے چکا تھا اور لوگوں کو تشییع جنازہ میں شامل ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہا تھا، بلکہ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ یہ اجتماع لبنان کی سلامتی کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ لیکن ان تمام دھمکیوں کے باوجود، ہم نے عوام کی بڑی تعداد میں شرکت دیکھی۔ 

جب تشییع جنازہ کے دوران لبنان کی فضاؤں میں اسرئیل کے جنگی جہاز اڑے، تو اس کا مقصد عوام میں خوف پھیلانا تھا لیکن جیسا کہ اس عظیم الشان تشییع جنازہ نے ثابت کیا، ملت پوری طاقت سے سید حسن اور مزاحمت کے ساتھ میدان میں کھڑی رہے۔ اسرائیل کی دھمکیاں اور سید حسن کی شہادت کے بعد بھی خوف پھیلانے کی کوششیں بے اثر رہیں۔ آج ہم پہلے سے کہیں زیادہ سید حسن کے راستے پر قائم ہیں۔ ان شاء اللہ، وہ دن ضرور آئے گا جب ہم فتح پائیں گے، خواہ سید حسن کی شہادت کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔ 

سوال: حزب اللہ کے کمانڈروں کی شہادت کے بعد، امام خامنہ ای نے فرمایا کہ حزب اللہ غزہ کی ڈھال بنی۔ اگر دوبارہ حالات کی ضرورت ہوئی اور جہاد فی سبیل اللہ اور مظلوموں کی حمایت کا وقت آیا، تو کیا آپ پھر بھی اس ندا پر لبیک کہیں گے؟

جواب: اپنی پچھلی باتوں کے تسلسل میں، میں یہ اضافہ کرنا چاہوں گی کہ ہم نے سید حسن، ان کے ساتھی کمانڈروں اور شہداء کے طریقہ کار اور نظریے پر بات کی ہے—اور ہم اسی راستے پر قائم رہیں گے۔ سید حسن نے اپنی تقریر میں بالکل واضح الفاظ میں کہا تھا: "ہم، بارہ امامی شیعہ حزب اللہ، فلسطین سے دستبردار نہیں ہوں گے، چاہے ہم سب ہی شہید ہو جائیں۔" اس لیے، ہمارا سب سے چھوٹا فرض یہ ہے کہ ہم اپنے قبلے کو پہچانیں اور مظلوموں، خاص طور پر فلسطین اور غزہ کے عوام، کی حمایت میں ڈٹے رہیں۔ جیسا کہ سید حسن نے ہمیں سکھایا اور جیسا راستہ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے فلسطین کی حمایت میں اختیار کیا، ہمیں اپنے عہد پر قائم رہنا چاہیے۔ جیسا کہ آپ نے اشارہ کیا، وہ اس مقدس زمین اور اس مظلوم قوم (فلسطین) کے لیے ڈھال تھے۔ اگر حالات پھر ایسا تقاضا کریں، تو ہمارے پاس سید حسن کے اعلان کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا: "ہم فلسطین کی حفاظت کریں گے، چاہے ہم سب ہی شہید ہو جائیں۔"

سوال: ہم نے مزاحمت کے بارے میں بات کی... مختلف طریقوں سے مزاحمت کو کیسے مضبوط کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر موجودہ حالات میں اس کی عوامی بنیاد کو کیسے مستحکم کیا جا سکتا ہے؟ 

جواب: مزاحمت نے اپنے ان کمانڈروں کو کھو دیا جنھوں نے اپنی پوری زندگی جہاد فی سبیل اللہ کے راستے میں وقف کر دی۔ میرے خیال میں ان کے فکری اور عملی راستے کو زندہ رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم مزاحمت کی طاقت کو بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں، خواہ وہ ان کے نظریات اور عملی اقدامات کو آگے بڑھا کر ہو، یا پھر حکمت عملی کے میدان میں۔ 

مثال کے طور پر، اگر میں یہ ثابت کرنا چاہوں کہ میں اپنے والد کے راستے پر چل رہی ہوں، تو میں پوری کوشش کروں گی کہ مزاحمت کی طاقت میں اضافہ ہو۔ ان عزیز کمانڈروں کے بعد بھی مزاحمت کو مضبوط کرنے کے لیے دو چیزوں پر کاربند رہنا ضروری ہے:

(1) عملی اقدامات: ٹیکنالوجی، اسلحہ، افرادی قوت اور دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے پر کام کرنا۔

(2) عقائدی وابستگی: مزاحمت کے بنیادی عقیدے سے جڑے رہنا۔ مزاحمت صرف زمین کی حفاظت اور اسرائیل کو شکست دینے کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہ ایک خالص حسینی عقیدے پر قائم ہے، جس کی رہنمائی قرآن کر رہا ہے اور جس کا ایمانی ستون عاشورا کی روح ہے۔ میرے نزدیک، یہی دو راستے ہیں جو مزاحمت کی صحیح ترقی کو یقینی بناتے ہیں۔ 

سید حسن نصراللہ کی تشییع جنازہ نے واضح کر دیا کہ مزاحمت کی عوامی بنیاد اسرائیلی مظالم سے متاثر نہیں ہوئی، بلکہ اس کا عزم اور پختگی مزید بڑھ گئی ہے۔ مزاحمت کے حامی، اور وہ لوگ جو سید حسن کو صرف ایک رہبر کی حیثیت سے نہیں، بلکہ ہر آزاد خیال اور باعزت انسان کی قیادت کرنے والی ہستی کے طور پر جانتے ہیں، ان پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ انھوں نے کبھی اپنی زمین پر دشمن کے قبضے کو تسلیم نہیں کیا۔ 

سوال: آخر میں اگر آپ کوئی ایسی بات کہنا چاہتی ہیں جو آپ ضروری سمجھتی ہیں؟

جواب: لبنان کی مزاحمت، خاص طور پر حزب اللہ، اپنی ابتدا سے ہی مختلف محرکات رکھتی تھی۔ جیسا کہ میرے والد فرمایا کرتے تھے: "ہم امام خمینی کے پیروکار ہیں۔" مزاحمت کی تحریک کو سب سے بڑی تحریک امام خمینی کی تحریک انقلاب اسلامی سے ملی، جس نے ثابت کیا کہ عالمی ظلم کے خلاف کھڑا ہوا جا سکتا ہے۔ اسی انقلاب کی بدولت "امریکا مردہ باد" اور "اسرائیل مردہ باد" کے نعرے بلند ہوئے اور ہر ظالم کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑے ہونے کا حوصلہ ملا۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ مزاحمت امام خمینی کے دور میں ان کے راستے پر چلی، اور پھر امام خامنہ ای کی رہبری میں آگے بڑھی۔ 

یہ اللہ کا بڑا احسان ہے کہ ہمیں آیت اللہ خامنہ ای جیسے رہبر کی ولایت میں رکھا گیا ہے۔ ان کی رہنمائی ہمیں صحیح سمت دکھاتی ہے، جیسا کہ ہمارے والد ہمیشہ کہتے تھے کہ ہم ولایت کے راستے پر ثابت قدم رہیں اور ان شاء اللہ کبھی گمراہ نہ ہوں۔ رہبر انقلاب نے ہمیشہ لبنان کی تحریک مزاحمت کے کمانڈروں کی رہنمائی کی ہے اور انھیں بہترین راستہ دکھایا ہے۔ 

ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ امام خامنہ ای کی عمر دراز کرے تاکہ وہ اس حسینی راستے کی قیادت کرتے رہیں، وہ راستہ جو تمام مستکبرین، خاص طور پر امریکا اور اسرائیل کے مقابلے میں ڈٹا ہوا ہے۔ ان شاء اللہ، ہم اپنے والد کی وصیت کے مطابق، سید علی خامنہ ای کی ولایت پر قائم رہیں گے، راستہ نہیں بھولیں گے، اور یہی ہماری پائیداری کی بنیاد ہوگی۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم ان کے اہداف، سید حسن اور تمام شہداء کے مشن، یعنی قدس کی آزادی اور اسرائیل کے خاتمے کے لیے ثابت قدم رہیں۔ ان شاء اللہ۔