قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رحلت کی بیسویں برسی پر مختلف عوامی طبقات کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں اسلام کے احیاء اور ایران و ایرانی تشخص کو پروقار بنا دینے کو امام خمینی کی تاریخی تحریک کے دو اہم پہلو قرار دیا۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملت ایران کی ترقی و سربلندی کے عمل کو مختل کرنے کی دشمنوں کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: تمام عوام اور نظام، اسلام اور ملت ایران کی قوت و استحکام سے دلچسپی رکھنے والے لوگ بارہ جون کے انتخابات میں پورے جوش و جذبے کے ساتھ شرکت کریں۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مرقد کے سید مصطفی خمینی مرحوم سے موسوم صحن میں برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ سے قوم کی محرومی پر تعزیت پیش کی اور فرمایا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے دست مبارک سے پرچم احیائے اسلام بلند ہونے کا ایک نتیجہ دنیا کے مسلمانوں کو ان کی شناخت کی واپسی کی صورت میں نکلا۔ آپ نے فرمایا: امام خمینی کی عظیم اسلامی تحریک کے نتیجے میں دسیوں سال تک ناکامیوں کا سامنا کرنے کے بعد ملت فلسطین میں نئی جان پڑ گئی، بار بار کی شکستوں کے بعد عرب ملکوں میں نئی امید پیدا ہوئی اور سرطانی پھوڑے اسرائيل پر جس نے اپنے ناقابل تسخیر ہونے کا طلسم قائم کر دیا تھا مسلمان نوجوانوں کا طمانچہ پڑا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فلسطینی عوام کی پے در پے اٹھنے والی تحریکوں، صیہونی حکومت پر پڑنے والی ضرب، لبنان سے غاصب حکومت کی پسپائی اور تینتیس روزہ جنگ لبنان اور بائيس روزہ جنگ غزہ میں اس حکومت کی شکستوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ سب کچھ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ہاتھوں بلند ہونے والے پرچم اسلام کی برکتیں تھیں، حتی خود صیہونی حکومت نیل سے فرات تک کا اپنا نعرہ ترک کر دینے پر مجبور ہو گئی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلام کے احیاء کا پرچم لہرائے جانے کے نتائج و ثمرات و اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید فرمایا: اسلامی نظام اور حکومت تشکیل دینے کی مسلمان قوموں کی کوششیں، عالم اسلام کے دانشور طبقے میں نیا جوش و جذبہ اور نئی امید اور مسلمانوں کے سلسلے میں مغربی دنیا کے لہجے میں نرمی یہ سب کچھ عالم اسلام کی استقامت اور عوامی بیداری کا نتیجہ ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: پورے عالم اسلام کے مسلمانوں کو چاہئے کہ اس کامیاب تجربے کی قدر کریں اور اسی کو بنیاد بنا کر اپنی سمت متعین کریں کیونکہ مسلمان قوموں کی عزت و سربلند کا واحد راستہ ان کی استقامت ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مسلمانوں کے سلسلے میں مغربی دنیا کے لہجے کی نرمی اور ایک نئی شبیہ قائم کرنے کی امریکی حکومت کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ تبدیلی اور نئی شبیہ باتوں اور نعروں سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے لئے عمل اور ملت ایران اور علاقے کی دیگر اقوام کی امریکہ کے ہاتھوں ہونے والی حق تلفیوں کی تلافی لازمی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکہ کی سابقہ حکومت نے اپنے تشدد آمیز اقدامات، فوجی مداخلتوں، امتیازی سلوک اور زبردستی کی دخل اندازیوں سے امریکی حکومت کی بڑی بدنما، نفرت انگیز اور تشدد پسندانہ تصویر پیش کی اور مسلمان قومیں امریکہ سے دلی نفرت کرنے لگی ہیں۔ آپ نے امریکا کی جانب سے کی گئی حق تلفی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: امریکا نے جمہوریت اور قوموں کی خواہشات کے احترام کی بات کی لیکن اس نے فلسطینی عوام کے اپنی حکومت سے متعلق انتخاب کو نظر انداز کر دیا اور صیہونی حکومت کی کھلے عام حمایت کی اور مظلوم فلسطینی عوام کو شر پسند قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران کے ایٹمی مسئلے کے سلسلے میں امریکی حکومت کے روئے کا بھی ذکر کیا اور فرمایا: امریکہ نے ایرانی عوام کے فطری اور قانونی حق کے سلسلے میں جو ایٹمی صنعت کے حصول اور مختلف پر امن مقاصد کے لئے ایٹمی توانائی کے استعمال کے خواہاں ہیں، دروغگوئی اور حقائق کی پردہ پوشی کرکے ملت ایران پر ایٹم بم بنانے کی کوشش کا الزام عائد کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: ملت ایران اور ملک کے حکام نے بارہا کہا ہے کہ ہمارے اسلحہ جاتی سسٹم میں ایٹمی اسلحے کی کوئی گنجائش نہیں ہے حتی یہ بھی کہہ دیا گیا کہ اسلام کی رو سے ایٹمی اسلحے کا استعمال حرام ہے لیکن مغرب بالخصوص امریکہ اپنے جھوٹے پروپیگنڈوں میں مسلسل کہہ رہا ہے کہ ایران ایٹم بم بنانے کے در پے ہے، یہ رویہ کھلی حق تلفی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے دہشت گردی سے مقابلے کے نام پر افغانستان و عراق پر قبضہ کر لینے کی امریکہ کے سابق صدر کی احمقانہ حرکت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکی حکام کی صداقت اسی وقت ثابت ہوگی جب عملی طور پر وہ تبدیلی لائیں، سیکڑوں تقریروں اور مسلم قوموں سے میٹھی میٹھی باتیں کرنے سے تبدیلی ہونے والی نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران اور ایرانی شناخت احساس افتخار کے احیاء کو امام خمینی کی عظیم تحریک کا دوسرا پہلو قرار دیتے ہوئے فرمایا: پٹھو اور آمر حکومتوں نیز مغرب نواز روشن خیال افراد نے ملک میں جو احساس کمتری پیدا کر دیا تھا امام خمینی نے اسے عوام کے ذہنوں سے دور کیا ور ان کے اندر خود اعتمادی کی روح پھونک کر عوام کے سامنے ثابت کر دیا کہ ہمارے اندر سب کچھ کرنے کی صلاحیت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ہر ملک کی پیشرفت و ترقی کے لئے مادی وسائل کو لازمی قرار دیا اور فرمایا: پیشرفت اور طاقت کا اہم ستون روحانی جذبات اور خود اعتمادی و قومی وقار کا احساس ہے جو تسلط پسندوں کے سامنے عوام کے منتخب نظاموں کو تقویت اور استحکام بخشتا ہے اور عالمی امور اور پالیسیوں کے سلسلے میں قوم کو با اثر بنا دیتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے قومی وقار کے جذبے کو بڑی بنیادی ضرورت قرار دیا اور اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: ملک کے انتظامی امور کے سلسلے میں عوام پر تکیہ، خود انحصاری، اقتصادی شعبے مین لین دین کی طاقت، نئے علوم کی تلاش، دنیا کے سائنسی نظام میں بنیادی کردار اور قومی ثقافت اور طور طریقے پر افتخار وہ چیزیں ہیں جو قومی وقار کو معنی و مفہوم عطا کرتی ہیں۔ آپ نے معاشرے کا نظام چلانے کے سلسلے میں ایک ایک انسان کا احترام کئے جانے کو قومی وقار کا عملی نمونہ قرار دیا اور فرمایا: خارجہ پالیسی کی سطح پر قومی وقار کا مطلب ہے خود مختار رہنا، اس طرح سے کہ کوئی بھی طاقت کوئی بھی بات ملک اور قوم پر مسلط نہ کر سکے۔ قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی کے رہنما اصولوں کا درجہ رکھنے والے قومی وقار اور قومی خود اعتمادی کی اہمیت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اس میدان میں ملک کے تیس سالہ سفر میں متعدد نشیب و فراز آئے لیکن پیش قدمی کبھی بھی رکی نہیں اور ایران کے با شعور عوام تمام شعبوں میں قومی وقار کی حفاظت کرتے ہوئے ترقی و پیش رفت کے عمل کو آگے بڑھا رہے ہیں اور وہ اس مقام پر پہنچنا چاہتے ہیں جہاں دشمن دھمکی دینے کی بھی جرئت نہ کرسکے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مختلف عالمی معاملات میں اس عظیم قوم کی عزت و وقار کے اثار نمایاں ہیں بنابریں ان لوگوں کی باتیں بالکل قابل قبول نہیں جن کا کہنا ہے کہ اپنے اصولوں کی پابند رہنے کے باعث ملت ایران دنیا والوں کی نظروں سے گر گئی ہے۔
آپ نے مزید فرمایا: اسلامی جمہوری نظام کے مداخلت پسند دشمنوں نے قوم کے مد مقابل متحدہ محاذ قائم کر لیا ہے اور بڑے پیمانے پر پروپیگنڈے کرکے یہ تصور پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ ملت ایران کو حقارت کی نظروں سے دیکھا جانے لگا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عظیم ملت ایران اور عظیم الشان امام خمینی رحمت اللہ علیہ کا احترام نظام کے دشمنوں کے دلوں میں بھی داخل ہو گيا ہے۔ آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے عوام سے دوری، اسلامی اقدار سے دوری، امام خمینی کے با برکت راستے سے انحراف کو ملک کے لئے بہت بڑا خطرہ قرار دیا اور فرمایا: نظام کے مستحکم ڈھانچے کی حفاظت کرتے ہوئے جو ہمارے عزیز امام (خمینی رہ) کی یادگار ہے اور عوام بالخصوص نوجوانوں کی بلند ہمتی کے سہارے حتمی فتح تک اپنی پیش قدمی جاری رہنا چاہئے۔ آپ نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں بارہ جون کے حساس اور تقدیر ساز صدارتی انتخابات کے بارے میں چار اہم نکات بیان فرمائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے پہلے نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے صدارتی انتخابات کو مشکوک ظاہر کرنے کی غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی کئی مہینوں سے جاری کوششوں کا ذکر کیا اور فرمایا: قوم کے دشمن کبھی تو ایران کے انتخابات کو تقرری کہتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ امیدواروں کی مقابلہ آرائی حکومتی سطح کا منصوبہ بند کھیل ہے اور انتخابات میں یقینی طور پر بد عنوانی ہوگی۔ بلا شبہ ان تمام کوششوں کا واحد ہدف اسلامی جمہوریہ پر ضرب لگانا اور انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت کو روکنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایرانی قوم کو با ہوش، بیدار اور آزمودہ قوم قرار دیا اور فرمایا: دشمن اس کوشش میں ہے کہ عوام میں مایوسی پھیلا کر نظام کو اس کے مستحکم سہارے یعنی عوامی حمایت سے محروم کر دے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک کے اندر بھی بعض افراد نادانستگی میں دشمن کی باتوں کا اعادہ اور عملی طور پر اہداف کے حصول میں دشمن کی مدد کر رہے ہیں ایسے لوگوں کی حالت پر واقعی افسوس ہوتا ہے۔
آپ نے ملک کے مختلف سطح کے حکام کے عوام کے ہاتھوں انتخاب کو ملت ایران کا طرہ امتیاز قرار دیا اور فرمایا: اغیار ملت ایران سے یہ افتخار چھین لینا چاہتے ہیں لیکن جسے بھی اسلام، نظام، اور ملت ایران کی قوت و استحکام سے دلچسپی ہے انتخابات میں اس کی شرکت عقلی اور شرعی طور پر واجب ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے انتخابات کے سلسلے میں دوسرے اہم نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے الگ الگ طرز فکر اور طرز عمل کے امیدواروں کی موجودگی اور عوام کی جانب سے ان کی حمایت کو نظام کے افتخارات کا جز قرار دیا لیکن ساتھ ہی تمام افراد منجملہ امیدواروں کے کٹر حامیوں کو خبردار کیا کہ یہ حمایت ٹکراؤ اور آشوب کا باعث نہ بنے اور دشمن ان کے جذبات کو (اپنے مقاصد کے لئے) استعمال نہ کرنے لگے۔ آپ نے اسی سلسلے میں بعض امیدواروں کے حامیوں کے سڑکوں پر نکلنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس بارے میں میں کچھ نہیں کہوں گا لیکن یہ چیز بحث و تکرار اور بد نظمی پر منتج نہ ہو اور اگر کوئی ایسا کرنے پر مصر ہے تو وہ یقینا یا تو خائن ہے یا بے انتہا غافل و بے خبر۔
قائد انقلاب اسلامی نے انتخابات کے سلسلے میں تیسرا نکتہ امیدواروں کے تعلق سے بیان فرمایا: آپ نے چاروں امیدواروں کو ہدایت دی کہ دشمنی اور کینہ پیدا نہ ہونے دیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ درست اور اچھی بات نہیں ہے کہ کوئی امیدوار اپنی تقریر میں یا ٹی وی پر اپنی گفتگو کے دوران خود کو منوانے کے لئے دوسرے امیدوار کی نفی کرنے پر تل جائے۔
آپ نے فرمایا: میں مناظرے، بحث و گفتگو اور تنقید کا مخالف نہیں لیکن سب کو یہ کوشش کرنا چاہئے کہ یہ چیز دینی اور شرعی دائرے میں انجام پائے، عوام بیدار ہیں انہیں سب کچھ معلوم ہے وہ سب کچھ سمجھتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مسائل کے سلسلے میں نظریات کا مختلف ہونا فطری ہے لیکن امیدوار اور ان کے حامی اپنی تقاریر اور اجتماعات میں ایسا رویہ اختیار کریں کہ سب کچھ بھائی چارے اور دوستی و محبت کے ماحول میں انجام پائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے آخری اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے پاس ایک ووٹ ہے اور اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا (کہ یہ ووٹ کس کے حق میں ڈالا جائے گا) میں کسی سے نہیں کہوں گا کہ فلاں کو ووٹ دو اور فلاں کو نہ دو کیونکہ اس کا فیصلہ خود عوام کو کرنا ہے۔
آپ نے آخر میں فرمایا کہ عوام سے میری خواہش بس یہ ہے کہ سارے کے سارے پورے جوش و خروش کے ساتھ بارہ جون کو اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں۔