قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے علم و دانش اور ادب و ثقافت کے شعبے سے وابستہ سیکڑوں چنندہ شخصیات اور نوجوانوں سے ملاقات میں نمایاں صلاحیتوں کے مالک نوجوانوں سے اپنی ملاقاتوں کو فرحت بخش قرار دیا اور فرمایا: چنندہ اور تعلیم یافتہ نوجوان جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کو احساس ذمہ داری اور فرض شناسی سے جوڑ دیا ہے، در حقیقت ملک کی سب سے بڑی امید اور ایران کے درخشاں مستقبل کے بنیادی عناصر ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملک کے چنندہ نوجوانوں کی تجاویز اور فکری معیار میں ہر سال گزشتہ سال کی نسبت زیادہ پختگی اور گہرائی دیکھنے میں آ رہی ہے اور یہ حقیقت ملک کے بنیادی مسائل پر نوجوانوں کی توجہ کی عکاس اور ترقی و پیشرفت کی علامت ہے لہذا حکام کو چاہئے کہ ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل کے لئے منصوبہ بندی کریں۔ آپ نے قومی و مقامی احتیاج کے مطابق حرکت کرنے جیسے اہم مسائل پر نوجوانوں کی تاکید، مذہب اور روحانیت کے عنصر پر توجہ، صلاحیتوں کی پرورش کی صحیح روش کی تقویت اور معاشرے میں اخلاقیات کی ترویج کو انتہائی کلیدی نکات قرار دیا اور فرمایا: چنندہ نوجوانوں کی زبان سے ان تقدیر ساز نکات کو سن کر با شعور، آگاہ اور فرض شناس شخص کو یقین ہو جاتا ہے کہ اسلامی نظام اور اس معاشرے کا شجرہ طیبہ مادی و روحانی اور علمی و اخلاقی ترقی کے پرتو میں یقینی طور پر اپنے اہداف حاصل کرے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے بعض حقائق کے بتدریج سامنے آنے کا حوالہ دیا اور فرمایا: حقیقت یہ ہے کہ حالیہ سیاسی واقعات سمیت گزشتہ تیس سال کے واقعات و حوادث کے نشیب و فراز سے گزرنے اور دنیا کی سیاسی، فوجی، ابلاغیاتی اور تشہیراتی طاقتوں کے مسلسل جاری ہمہ گیر حملوں کا مقابلہ کرنے کے بعد اسلامی نظام مضبوط مستحکم اور محفوظ بن گیا ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملت ایران کے دشمنوں کی سازشوں کے وجود کو نا قابل انکار حقیقت قرار دیا اور فرمایا: ممکن ہے کہ داخلی سطح پر بھی کوئی ان سازشوں کا محور اور مددگار بن جائے لیکن اسے اس کا اندازہ بھی نہ ہو تاہم اس بات سے حقائق تبدیل نہیں ہو جائیں گے۔ آپ نے بیان بازی اور ہنگامہ آرائی کو مسائل کے زیادہ پیچیدہ بن جانے کا باعث قرار دیا اور انتخابات کے پہلے اور بعد کے واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حقیقی فکری آزادی یونیورسٹیوں میں آزاد فکری و سیاسی فورم قائم کرنے اور حقیقت کے ادراک کے لئے طلبہ کے بحث و مباحثے کے اہتمام جیسے اقدامات سے پیدا ہوگی۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے منطقی بحث و گفتگو، ماحول سے مغلوب نہ ہونے، دشمنوں کی جانب سے کی جانے والی تعریف و تحسین پر توجہ نہ دینے، مختلف باتوں اور نظریات کو بغور سن کر آزادانہ فکر کرنے اور سب سے بہترین نظرئے کا انتخاب کرنے کو حقیقی ترقی کی بنیاد اور حقیقی آزادی کا اہم ترین عنصر قرار دیا اور فرمایا: اگر اس سے ہٹ کر عمل کیا گيا تو حوادث و آشوب کا منتظر رہنا چاہئے جیسا کہ انتخابات سے قبل کی ہنگامہ آرائی انتخابات کے بعد کے آشوب پر منتج ہوئی خاص طور پر اس صورت میں جب مسائل میں اغیار کے ہاتھ بھی کارفرما ہوں۔ قائد انقلاب اسلامی نے تنقید میں انصاف کو لازمی قرار دیا اور فرمایا: اگر ریڈیو اور ٹی وی کا ادارہ ملک کی ترقی و پیشرفت سے متعلق حقائق کو مکمل طور پر صحیح اور فنکارانہ انداز میں منعکس کرنے میں کامیاب ہوتا تو مستقبل کے سلسلے میں نوجوان نسل کی امید اور عوام کا احساس سرفرازی و شادمانی اس سے کہیں زیادہ ہوتا جو آج ہے تاہم کسی بھی مسئلے اور ادارے پر تنقید کرتے وقت انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فروعی اور بنیادی مسائل کی تفریق نہ کرنے کو اخبارات و جرائد کے غیر منصفانہ عمل کی ایک اہم وجہ قرار دیا اور فرمایا: جزوی اور فروعی مسائل کی بھی اہمیت کم نہیں ہے لیکن انتخابات کے بعد کے واقعات میں خود انتخابات اور اس میں عوام کی با شکوہ ریکارڈ شرکت بنیادی حقیقت تھی جبکہ بقیہ مسائل فروعی تھے لیکن کچھ لوگوں نے نا انصافی کا مظاہرہ کرتے ہوئے الگ ہی انداز سے عمل کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے پورے انتخابات پر سوالیہ نشان لگانے کو بہت بڑا جرم قرار دیا اور بعض افراد کے اس جرم پر توجہ نہ دینے پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے فرمایا: انتخابات کے اگلے ہی دن کچھ لوگوں نے بغیر کسی دلیل و منطق کے عظیم انتخابات کو غلط قرار دیا کیا یہ معمولی جرم ہے؟
آپ نے فرمایا: دشمن نے بھی اس نا انصافی کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ملک کے اندر بھی بعض لوگوں نے جو روز اول سے ہی اسلامی نظام کے حق میں نہیں تھے نظام سے منسلک بعض عناصر کو میدان میں دیکھا تو موقع کا فائدہ اٹھایا اور نتیجے میں وہ واقعات رونما ہوئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے پس پردہ رونما ہونے والے بعض مسائل کا ذکر کرتے ہوئے میدان میں حاضر عناصر کو انتخابات کے فورا بعد خصوصی پیغامات دینے کا حوالہ دیا اور فرمایا: شروعات میں ہی میں نے انہیں خصوصی پیغام بھیجا کہ آپ بعض مسائل اٹھا رہے ہیں لیکن دوسرے لوگ اس کا غلط استعمال کرنے کے در پے ہیں لہذا آپ حالات پر قابو نہیں رکھ سکيں گے اور یہی ہوا جبکہ سیاست کے میدان میں وارد ہونے والوں کے لئے شطرنج کے ماہر کھلاڑی کی مانند ضروری ہے کہ بعد میں پیش آنے والی صورت حال کا بھی پہلے سے اندازہ لگا لیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے انتخابات کے بعد نماز جمعہ میں دئے گئے اپنے خطبے کا بھی حوالہ دیا اور فرمایا: پہلے خصوصی پیغام دئے گئے اور ضروری نصیحت کی گئی لیکن جب انسان مجبور ہو جاتا ہے تو بعض مسائل کو اعلانیہ ظاہر کرنا پڑتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسرائیل مردہ باد، امریکا مردہ باد کے نعروں کی مخالفت کئے جانے کے بعض واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا: ان باتوں کا کیا مطلب ہے؟ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایک عوامی مجموعے کو نظام اور ملک کے مد مقابل کھڑا کرنے کو وہ بھی ایسے حالات میں جب اس عوامی مجموعے نے صداقت اور نیک نیتی کے ساتھ انتخابات میں شرکت کی تھی، بہت بڑا جرم قرار دیا۔ آپ نے رہبر انقلاب پر نکتہ چینی کئے جانے کے تعلق سے بھی فرمایا: اس وقت بھی تنقیدیں کی جاتی ہیں اور مجھے ان کی اطلاع بھی ملتی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ملک کی موجودہ ترقی و پیشرفت کو ماضی کی منصوبہ بندی اور بلا وقفہ کوششوں کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا: نوجوانوں کے افکار کی گہرائیوں تک دینی اصولوں اور مفاہیم کا نفوذ اور ان کی سیاسی بصیرت سے پتہ چلتا ہے کہ آج کوئی بھی اس نوجوان نسل کے سد راہ نہیں ہو سکتا اور یہ اٹل حقیقت ملک کی ترقی کے تسلسل کی ضامن ہے۔ آپ نے علم و تحقیق کو ہر ملک کی طاقت و قوت کا راز قرار دیا اور فرمایا: اغیار اسی چیز کے پیش نظر یونیورسٹی اور طلبہ کے حلقوں کو اپنی سازشوں کا ہدف بناتے ہیں تاکہ کسی طرح علمی سرگرمیوں کا عمل مختل ہو جائے۔ عزیز و با شعور نوجوانوں کو چاہئے کہ دشمن کے اس تیر کو ہدف پر نہ لگنے دیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کی علمی، سیاسی اور فن کارانہ سرگرمیوں کے سلسلے میں خود انحصاری کو قوم کی حقیقی خود مختاری کی لازمی شرط قرار دیا اور نوجوانوں سے خداداد فہم و شعور اور استعداد و صلاحیتوں کی نعمت کا شکر بجا لانے کی سفارش کی اور فرمایا: نعمت کی شناخت، اس کے من جانب اللہ ہونے کا ادراک اور صحیح سمت میں اس کا استعمال الہی نعمتوں پر شکر کے تین بنیادی عناصر ہیں۔ آپ نے حکام کو بھی با صلاحیت افراد کے وجود کی نعمت کا شکر ادا کرنے کی دعوت دی اور فرمایا: عزیز و محترم با صلاحیت افراد سے ملک کی حقیقی ترقی کے لئے صحیح سمت میں استفادہ کرنا چاہئے۔
اس ملاقات میں سائنس و ٹکنالوجی کے امور کے نائب صدر اور منتخب با صلاحیت افراد کے نیشنل فاؤنڈیشن کے سربراہ نے ملک کے منتخب نوجوانوں کے تیسرے سیمینار کے انعقاد کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ منتخب با صلاحیت افراد کا فاؤنڈیشن ملک بھر میں علم و ثقافت، قرآن اور ادبیات کے شعبے کے منتخب افراد کی شناخت اور مستقل مدد کے لئے مختلف منصوبوں پر عملدرآمد یا غور کر رہا ہے۔ ڈاکٹر سلطان خواہ نے معاشرے کے منتخب با صلاحیت افراد کی کوششوں کی عملی بارآوری اور اس عمل کے ارتقاء کو اس سیمینار کا محور قرار دیا اور کہا کہ نئی ایجادات اور خلاقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے والوں کی مدد کے لئے ایک بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گيا ہے اور امید ہے کہ اس کی منظوری سے ملک میں سائنسی ایجادات کی حمایت میں اہم قدم اٹھایا جائے گا۔
اس ملاقات میں عالمی اولمپیاڈوں کے انعام یافتہ طلبہ، محققین و موجدین نے اہم تجاویز دیں جن میں اسلامی-ایرانی تہذیب پر استوار درخشاں مستقبل کی تصویر کشی، منتخب با صلاحیت افراد کی کوششوں کو منظم کرنے اور صحیح سمت دینے کے لئے ملک کی اہم ضرورتوں کی وضاحت، ملک اور دنیا میں سائنسی ترقی کے لئے سرشار سرچشمے اور خزانے کے طور پر اسلامی مفاہیم پر بھرپور توجہ کی ضرورت، سائنسی و تحقیقاتی سرگرمیوں میں دینی معرفت کے عنصر پر توجہ کی ضرورت، سائنسی شعبے سے وابستہ کمپنیوں کی حمایت و مدد، سائنسی منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کے لئے ایک مرکز کی تشکیل، نئے علوم کی ایجاد کی تحریک کی تقویت، یونیورسٹیوں اور سائنسی مراکز کے موجدین کی طویل المیعاد حمایت و مدد کے لئے منصوبہ بندی، معاشرے میں نئی ایجادات کے جذبے کی تقویت کے لئے فن و ہنر اور تعلیمی صلاحیتوں کا استعمال، فن و ہنر کے سلسلے میں معاشرے کے نقطہ نگاہ میں تبدیلی لانے کے لئے منصوبہ بند اور با ہدف اقدام کی ضرورت، تنقید و نکتہ چینی کی فضا کی تقویت اور معاشرے میں اخلاقیات کی ترویج کی ضرورت جیسی تجاویز شامل تھیں۔