قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے بسیج یعنی رضاکار فورس کو قومی وقار، پائیداری اور دوام کا راز قرار دیا اور ذرائع ابلاغ، سیاسی کارکنان اور عہدہ داروں کو فروعی اور غیر اصولی اختلافات سے اجتناب کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا: اس وقت ملک کی اولین ترجیح دشمن کی اس نرم جنگ کا مقابلہ ہے جس کا مقصد عوام کے درمیان شک و تردد اور اختلاف و بد گمانی پیدا کرنا ہے اور اس یلغار کے مقابلے کا سب سے اہم طریقہ بصیرت، رضاکاری کے جذبے اور مستقبل کے تعلق سے امید کی حفاظت و تقویت اور شناخت و تعین کے سلسلے میں مکمل احتیاط سے کام لینا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں تہران آنے والے رضاکاروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بسیج کی تشکیل کو ملک کے استثنائی اور بے مثال واقعے سے تعبیر کیا اور فرمایا: یہ چیز، کہ کسی ملک میں عوام اپنے پورے وجود اور بہترین اور سب سے زیادہ با ایمان افراد کے ذریعے بے لوث ہوکر اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ ایک نظام کا دفاع کریں، ایران کے اسلامی انقلاب سے ہی مختص ہے۔ عظیم الشان امام (خمینی رہ) کے نورانی قلب نے اس عظیم حقیقت کا ادراک کیا اور تائید الہی کے طفیل اسے عملی جامہ پہنایا۔
قائد انقلاب اسلامی نے انقلاب کے مختلف مراحل میں رضاکار فورس کی شاندار کارکردگی اور سخت آزمائشوں کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا: انہی میں سے ایک مرحلہ ملک کے وقار و خود مختاری کے دفاع کا مرحلہ تھا اور اگر مقدس دفاع کے دوران بسیج کی تشکیل عمل میں نہ آتی تو آج یقینی طور پر حالات کچھ اور ہوتے۔
آپ نے زور دیکر فرمایا: جنگ کے خاتمے کے بعد بھی رضاکار فورس ہمیشہ پیش پیش رہی۔
قائد انقلاب اسلامی نے ثقافتی، تعمیراتی اور علمی شعبوں میں طاقت و اقتدار اور سیاسی پائيداری کی حفاظت و صیانت میں بسیج کے نمایاں کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آج ملک کے گوناگوں افتخارات، مختلف میدانوں میں خدمت گزار، مقتدر اور نام و شہرت سے گریزاں انسانوں کی موجودگی کا نتیجہ ہے۔ اگر ان حقائق کو صحیح طور پر نہ سمجھا گيا تو یہ بسیج کے ساتھ بڑی نا انصافی کی بات ہوگی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے رضاکار فورس کو فوجی اداروں اور سسٹم سے فراتر قرار دیتے ہوئے فرمایا: اگرچہ فوجی شعبے بہترین رضاکاروں پر مشتمل ہیں تاہم بسیج در حقیقت مختلف عوامی طبقات کی ہمہ گیر، مقتدر اور لا منتاہی موجودگی سے عبارت ہے جو مال و منال، جاہ و مقام اور اوپر والوں کے فرمان سے کوئی وابستگی نہیں رکھتے اور صرف بصیرت و ایمان کے معیار پر عمل کرتے ہیں۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ موجودہ منفرد خصوصیات والی بسیج کی تنظیم کی کہیں بھی کوئی اور مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ آپ نے فرمایا: بسیج ایک ایسی موثر حقیقت ہے جو طاقت و توانائی رکھنے کے باوجود مظلوم واقع ہوئی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: مظلومیت سے مراد کمزور ہونا نہیں ہے بالکل اسی طرح جیسے اسلامی انقلاب جو مقتدر ترین اور موثر ترین عصری حقیقت ہونے کے باوجود مظلوم ہے یا عظیم الشان امام (خمینی رہ) روحانی قدرت و توانائی کے باوجود اپنے زمانے کے مظلوم ترین انسانوں میں تھے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے بسیج کے نفوذ و تاثیر کو تقویت پہنچانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: جب تک بسیج موجود ہے اسلامی نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور یہ ایک بنیادی ستون ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے کمزوریوں کی نشاندہی، خامیوں اور خطرات کی شناخت اور اسی طرح مزید ترقی کے لئے ضروری اندازوں کو بسیج کی اہم ضرورت قرار دیا اور فرمایا: انقلاب کے پہلے عشرے میں اسلامی نظام کے ساتھ سخت مقابلے میں سامراج کی شکست کے پیش نظر اب دشمن نے نرم جنگ کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر لیا ہے اور اس وقت اولین ترجیح نرم جنگ کا مقابلہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے نرم جنگ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: نرم جنگ میں دشمن کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ پیشرفتہ ثقافتی اور مواصلاتی وسائل کو بروئے کار لاکر، جھوٹ اور افواہیں پھیلا کر اور کچھ بہانوں کے ذریعے عوام کے درمیان شک و شبہ، بد گمانی اور اختلافات پیدا کر دے۔
قائد انقلاب اسلامی نے صدارتی انتخابات کے بعد پیش آنے والے مسائل کو اس روش کا ایک نمونہ قرار دیا اور فرمایا: ان معاملات میں انتخابات کے بہانے شکوک و شبہات اور اختلافات پھیلائے گئے تاکہ عوام آپس میں ایک دوسرے سے اور حکام کی طرف سے بد ظن ہو جائیں اور پھر اس پر آشوب اور ہنگامہ خیز ماحول میں مفاد پرست، خائن اور تربیتہ یافتہ افراد کو فساد پھیلانے کے لئے میدان میں اتار دیا جائے لیکن عوام کی بصیرت و دانشمندی کی وجہ سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔
قائد انقلاب اسلامی نے بصیرت کی ضرورت پر بار بار تاکید کرتے ہوئے فرمایا: موجودہ حالات میں معاشرے میں بصیرت کی ضرورت پر میری بار بار تاکید کی وجہ یہ ہے کہ عوام کو یہ اندازہ ہو کہ کیا ہو رہا ہے؟ اور وہ مسائل کے اصلی ذمہ داروں اور خائن و بد خواہ عناصر اور عام افراد کے فرق کو سمجھ لیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایسا ہر قدم جو فضا کو مکدر اور تہمتوں سے آلودہ کر دے وہ ملک کے نقصان میں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: میری تاکید ہے کہ عوام اور مختلف سیاسی حلقے سب کے سب آپس میں متحد ہوکر ان معدودے چند افراد کے مقابل کھڑے ہو جائيں جو ملک کی خود مختاری اور انقلاب کے مخالف ہیں اور جن کا ہدف ملک کو امریکا اور سامراج کے سپرد کر دینا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے قوم بشمول عوام و خواص کے اور ضمیر فروش معدودے چند افراد کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے اور ان کے درمیان پائے جانے والے فرق کو سمجھنے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا: کچھ باتوں اور بیانوں سے فضا کو اس طرح مکدر نہ کیا جائے کہ عوام سرگرداں اور ایک دوسرے کے تعلق سے اور حکام کی طرف سے بد ظن ہو جائيں۔ یہ ٹھیک کام نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ہمیشہ افواہیں اور بد گمانیاں پھیلانے اور اختلافات کو ہوا دینے کے لئے کوشاں بعض اخبارات، ذرائع ابلاغ اور اداروں پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا: جو لوگ ملک کے مفادات کے لئے سرگرم عمل ہیں ان سے میری سفارش ہے کہ ان فروعی اور غیر اصولی اختلافات کو نظر انداز کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے حکام کے خلاف الزام تراشی اور افواہوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا: اس طرح کے کام دشمن کی مرضی کے مطابق ہیں کیونکہ صدر مملکت، پارلیمنٹ اسپیکر، عدلیہ کے سربراہ اور تشخیص مصلحت نظام کونسل کے سربراہ سمیت ملک کے حکام وہ افراد ہیں جن کے ہاتھوں میں زمام مملکت ہے لہذا ان کے سلسلے میں عوام میں اعتماد اور حسن ظن ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے انتخابات کے بعد وزارت داخلہ کے انتخابی عہدہ داروں اور نگراں کونسل کی کارکردگی کے سلسلے میں شکوک و شبہات پھیلانے کی کوششوں کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا: یہ افواہیں بڑی نقصان دہ اور دشمن کی منشاء کے مطابق ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے بسیجی نوجوانوں کو ایمان و بصیرت کی تقویت اور لوگوں کو پہچاننے کے سلسلے میں معیاروں اور اصولوں کو ملحوظ رکھنے کی ہدایت کی اور فرمایا: کسی ایک غلطی کی بنا پر کسی شخص کو منافق نہیں کہا جا سکتا اور اسی طرح کسی کو نظریاتی اختلاف کی وجہ سے ولی فقیہ کا مخالف نہیں قرار دیا جا سکتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: اپنے بسیجی فرزندوں کے لئے میری سفارش یہ ہے کہ جذبات، ایمان، مستقبل کے تعلق سے امید کی حفاظت کے ساتھ ساتھ شناخت اور مختلف مصداقوں کے تعین میں بہت احتیاط سے کام لیں کیونکہ مصداقوں کے تعین میں بے احتیاطی بعض اوقات بہت بڑے نقصانات پر منتج ہوتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے بسیج کی کارکردگی کے شعبوں کے تنوع کو اہم قرار دیا اور فرمایا: علم و دانش، سائنسی ایجادات اور ثقافتی امور پر توجہ دینے کا بسیج کا موقف بہت با برکت اور پسندیدہ ہے کیونکہ ملک کو بہت سے کاموں کی ضرورت ہے جو رضاکارانہ جذبے کے بغیر انجام نہیں دئے جا سکتے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: جب تک عوام بالخصوص نوجوانوں میں رضاکاری، صفا و صداقت اور بے لوث خدمت کا جذبہ موجود ہے دشمن ملک، انقلاب اور اسلامی نظام پر ضرب نہیں لگا سکتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: جو لوگ دشمن کے اشارے، حوصلہ افزائی اور تبسم پر اسلامی نظام، آئین اورعظیم عوامی تحریک سے ٹکرانا چاہتے ہیں وہ جان لیں کہ چٹان سے سر ٹکرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کی کوششیں عبث ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے یوم شہادت کی تعزیت پیش کی اور آپ کے دور کو تحریفوں کے مقابلے میں حقیقی اسلامی تحریک کے دوبارہ طلوع کا دور قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے عید الاضحی اور عید غدیر خم کی آمد کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا: یہ دو عظیم اسلامی عیدیں موضوع امامت کے سلسلے میں دو اہم ترین موڑ ہیں کیونکہ عید الاضحی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دشوار امتحانوں کے بعد درجہ امامت ملا اور عید غدیر خم کے دن بڑے امتحانوں کے بعد حضرت علی علیہ السلام منصب امامت پر فائز ہوئے۔