قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اتحاد و یکجہتی کو ملک کی سب سے اہم ضرورت قرار دیا ہے۔
آج ملک بھر کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز کے اکیڈمک بورڈ سے تعلق رکھنے والے رضاکار اساتذہ سے ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے موجودہ حساس صورت حال اور اسلامی لہر کے مقابلے میں، جس کا مظہر اسلامی جمہوریہ ایران ہے، سامراجی نظام کے اندر پیدا ہونے والے انتشار اور سراسیمگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت ملک کی سب سے بڑی ضرورت اتحاد و یکجہتی ہے اور ہر وہ بیان، اقدام اور تحریر جو خیر خواہانہ نیت کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو اگر معاشرے میں شگاف اور خلیج کا باعث بنے اور لوگوں کے ساتھ زیادتی ہو، ملک اور اسلامی نظام کے مفادات کے منافی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ معاشرے میں اتحاد و یکجہتی اور ہمدلی کی حفاظت اور ہر قسم کے اختلاف و شگاف سے گریز موجودہ نازک دور میں قیادت کی مرضی و خواہش ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کا فن یہ تھا کہ اس نے قوم کے درمیان کھڑی کی گئی تمام غلط دیواروں کو گرا دیا اور پورے ملک کو ملت ایران کے لئے وسیع میدان بنا دیا، اب بعض لوگ دوبارہ غلط اور ناحق دیواریں کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تحریک کی بنیادیں، اصول اور سمت معین اور واضح ہیں بنابریں جو بھی ان اصولوں کے تناظر میں اور اسی سمت میں آگے بڑھے، اسلامی نظام کے کارواں میں شامل ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے کسی کے ساتھ زیادتی نہ کئے جانے پر اپنی مکرر تاکید کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ دل اور عمل کی پاکیزگی پر توجہ ایک بنیادی فریضہ ہے اور کسی غلط لفظ، تحریر یا اقدام سے ایسے افراد کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہونے پائے جو اس کے مستحق نہیں ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے لوگوں حتی گنہگار افراد کے حقوق کا خیال رکھنے کے تعلق سے پیغمبر اسلام کی سیرت طیبہ کی یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا کہ عدل و انصاف سے کام لینا چاہئے اور حقیقت اور ضرورت سے زیادہ ایک لفظ بھی زبان سے نہیں نکالنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ اگر بعض افراد مجاہد اور انقلابی ہیں تو وہ دیگر افراد کے بارے میں جو ان کے خیال میں اس لحاظ سے کمتر درجہ رکھتے ہیں، جو چاہیں کہہ سکتے ہیں۔ آپ نے افراد کے ایمان اور رجحان میں فطری فرق کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ ایمان و عقیدے کے فرق کے باوجود اجتماعی و سماجی زندگی میں عدل و انصاف کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے اتحاد و یکجہتی کو برقرار رکھنا چاہئے۔ آپ نے بنیادی اہداف اور معیاروں کو کبھی فراموش نہ کرنے کی نصیحت فرمائی اور کہا کہ سامراج کے خلاف جد و جہد، عالمی سطح پر کفر و نفاق کی حرکت کا مقابلہ اور دین و انقلاب کے دشمنوں سے اپنی حدود کو واضح رکھنا بنیادی معیار ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے دشمنوں سے اپنی حدود واضح رکھنے کے سلسلے میں فرمایا کہ اگر کوئی دین اور انقلاب کے دشمنوں سے اپنے فاصلے اور حدود کو واضح نہ رکھے تو اس نے اپنی قدر و قیمت گھٹائی ہے اور اگر اس میں ان کی جانب میلان پیدا ہو گیا ہے تو وہ نظام کے دائرے سے خارج ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ معیار اسلامی انقلاب کی حرکت کا اصلی راستہ ہے اور اس سفر میں ان معیاروں کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے موجودہ حساس اور نازک حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے عالمی حالات اور اسلامی نظام کے خلاف سامراجی طاقتوں کی کوششوں کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ موجادہ حالات کی حساسیت کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں سامراج کے مراکز، اسلامی تحریک کے مقابلے میں جس کا حقیقی مظہر ایران کا اسلامی جمہوری نظام ہے، اپنے حواس کھو بیٹھے ہیں اور سراسیمگی اور انتشار کے عالم میں اپنی آخری کوششیں کر رہے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے دنیا میں سامراجی نظام کے بند گلی میں پہنچ جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ سامراجی نظام نے عالمی امور بالخصوص انتہائی حساس مشرق وسطی کے علاقے کے ارد گرد جو حصار کھینچ رکھا تھا وہ اب ٹوٹ چکا ہے اور اس کے بہت سے پرانے تشہیراتی حربے دنیا والوں کے سامنے کھل چکے ہیں۔ آپ نے امریکی اور اسرائیلی حکومتوں کے خلاف مسلسل بڑھنے والی عالمی نفرت و بیزاری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج خود امریکی معاشرے میں بھی صیہونی لابی کے وجود کے خلاف عوامی نفرت پھیلتی جا رہی ہے اور عوام کے ساتھ امریکی حکومت کے سختگیر روئے کے باوجود اس نفرت اور بیزاری کے تاثرات نمایاں ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوری نظام کے ظہور اور بقا کو سامراجی نظام کی مشکلات کی بنیادی وجہ قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی نظام سے اس کی دشمنی کی وجہ بھی یہی ہے لیکن قرارداد کی منظوری سے متعلق سراسیمگی کے اقدامات، پابندیوں کے سلسلے میں حقائق سے دور مبالغہ آرائی اور اس کے بعد کھوکھلی فوجی دھمکی، یہ سب عالم اسلام کی سنجیدہ اور عظیم تحریک کے سامنے سامراجی نظام کی کمزوری کی علامتیں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے زحمتیں برداشت کرنے کو وسیع تر مفادات کے حصول کی تمہید قرار دیا اور فرمایا کہ اس وقت یونیورسٹیوں کی بڑی ضرورت علمی اور تحقیقاتی کاوشیں، دینی و روحانی کوششیں، تمام علمی سرگرمیوں میں جہاد اور مجاہدت کا جذبہ پیدا کرنے، دائمی اور بر وقت موجودگی اور یونیورسٹی کے ماحول میں بصیرت و تدبر کی ترویج ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے بارہ سال قبل اساتذہ کے رضاکار دستے کی تشکیل اور اس کے ایک تحریک کی شکل اختیار کر لینے کا حوالہ دیتے ہوئے رضاکار دستے کے وجود کو اسلامی نظام کے لئے ایک بڑی نعمت سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مومن اور انقلابی اساتذہ اسی دستے تک محدود ہیں بلکہ ملک کی یونیورسٹیوں میں رضاکار اساتذہ کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جن کا کردار بہت نمایاں اور موثر ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے بسیج (رضاکار فورس) کو اسلامی انقلاب کا بے مثال ثمرہ اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی یادگار قرار دیا اور فرمایا کہ رضاکاروں کے وجود میں آنے کا سلسلہ تو انقلاب کے پہلے ہی دن اور اسی وقت سے شروع ہو گيا تھا جب امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے عوامی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے انہیں معاشرے کے پلیٹ فارم پر کھڑا کیا اور یہی بھروسہ عوام کے اندر خود اعتمادی پیدا ہونے کا باعث بنا۔ قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے رضاکاری کی ثقافت کو اسلامی نظام میں بڑی برکتوں کا سرچشمہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ بسیج در حقیقت ایک ملک گیر بے لوث فوج ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بسیج کی سرگرمیوں کا میدان فوجی میدان سے کہیں زیادہ وسیع تر ہے لہذا بسیج کو ایک فوجی ادارہ نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ بسیج ایک عمومی فورس ہے جو ہر جگہ، ہر وقت، ہر میدان اور ہر صنف میں موجود ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں یونیورسٹیوں میں اساتذہ بالخصوص مومن اور انقلابی اساتید کے مقام و کردار نیز یونیورسٹیوں سے اسلامی نظام کی توقعات اور یونیورسٹیوں اور علمی مراکز کی موجودہ ضروریات پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ بسیجی (رضاکار) استاد کا فرض یونیورسٹی میں بروقت، پر خلوص، مجاہدانہ اور موثر خدمت اور چمران شہید کی سطح کے با ایمان و دانشمند انسانوں کی تربیت کرنا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں سے توقعات کے سلسلے میں فرمایا کہ ملت و تاریخ ایران کے شایان شان بلند علمی مقام پر پہنچنے تک ملک کی علمی پیش قدمی کا تسلسل یونیورسٹیوں اور علمی مراکز سے بنیادی ترین مطالبہ اور توقع ہے۔ آپ نے ایران کی علمی پیشرفت اور علمی دریافتوں کے بارے میں ایک معتبر عالمی مرکز کی رپورٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس رپورٹ میں ایران کی سائنسی پیشرفت کی رفتار کو دنیا کی علمی پیشرفت کی اوسط رفتار سے گيارہ گنا زیادہ قرارديا گيا ہے جس سے ملک کی علمی پیشرفت کا پتہ چلتا ہے لیکن اسی پر قناعت نہیں کر لینا چاہئے بلکہ چوٹی پر پہنچنے کی کوشش اور منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران میں الہی اہداف اور خدا کی راہ میں جہاد اور اللہ تعالی کی ذات پر ایمان رکھنے والے سائنسدانوں کی بڑی تعداد کی موجودگی کو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی برکتوں کا جز اور دنیا میں بے مثال قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی نظام کے مطالبات عالمی سطح کے مطالبات ہیں لہذا علمی ترقی کی چوٹی تک رسائی اور چمران شہید جیسے علم و دانش سے آراستہ انسانوں کی تربیت کی توقع کوئی بہت بڑی توقع نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے انسان، حکومت، عورت اور علم و اخلاق کے سلسلے میں اسلامی نظام کے نقطہ نگاہ اور اس نظرئے کی عالمی سطح پر تشہیر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ حوصلہ بلند اور نظر وسیع ہونی چاہئے اور اس نقطہ نگاہ کو عالمی سطح پر پیش کرنے میں کسی پیس و پیش میں پڑنا چاہئے نہ ہی ان نظریات کو عالمی سطح پر پیش کرنے کے باعث بعض لوگوں سے سنائی پڑنے والی تمسخر آمیز باتوں سے فکرمند ہونا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی نظام کے اہداف بہت وسیع اور ساتھ ہی باخبر، انصاف پسند اور آگاہ انسانوں کے نزدیک پسندیدہ ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی نظام، تسلط پسندانہ نظام کی نابودی، عالمی عدل و انصاف کے قیام اور علم و دانش کے انسانی رفاہ و آسائش کے لئے استعمال کا علم بردار ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ اہداف رکھنے والی، اعلی ایمانی جذبے کو بروئے کار لانے والی، اللہ تعالی کی جانب سے مومنین کی مدد کے قرآنی وعدے پر یقین رکھنے والی، موت سے نہ ڈرنے والی اور شہادت کے خواب دیکھنے والی قوم کا مستقبل یقینا بہت تابناک ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ڈاکٹر مصطفی چمران شہید کا تذکرہ کرتے ہوئے اس شہید کو مومن، مجاہد، شجاع، با بصیرت، مصنف، دانشور، فنکار، پاکیزہ، دعا و مناجات سے مانوس، لطیف مزاج کا مالک اور دنیاوی نام و نمود اور حاجات سے بے نیاز انسان قرار دیا اور فرمایا کہ شہید چمران بسیجی استاد کا مکمل نمونہ اور در حقیقت علم و عمل، روایتی انداز اور جدت پسندی اور عشق و عقل کا مجموعہ تھے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی یونیورسٹیوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ چمران شہید جیسے انسانوں کی تربیت کریں۔ قائد انقلاب اسلامی نے ڈاکٹر مصطفی چمران کے یوم شہادت کو بسیجی اساتذہ کے دن سے موسوم کرنے کی تجویز کو بامعنی تجویز قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل مختلف اساتذہ نے اپنی تقاریر میں علم و دانش اور تحقیق و مطالعے کے سلسلے میں متعدد تجاویز پیش کیں اور کئی عہدہ داروں نے متعلقہ شعبوں کی سرگرمیوں اور کارکردگی کی تفصیلات بیان کیں۔