قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ادارے آئي آر آئي بی کے سربراہ، متعدد ہدایت کاروں، مصنفین، فنکاروں اور متعلقہ عہدہ داروں سے ملاقات میں قومی میڈیا بالخصوص فلم اور سیریئل کے فن کو موجودہ دور میں ماضی سے زیادہ اہم اور موثر قرار دیتے ہوئے قومی میڈیا اور فلمی صنعت کے عہدہ داروں اور فنکاروں کی زحمتوں کی قدردانی کی۔ آپ نے فرمایا کہ ایران کی نشیب و فراز سے بھری پر کشش تاریخ اور ثقافت سمیت متعدد وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے موجودہ صورت حال اور منزل مقصود کے درمیان فاصلے کو با قاعدہ کم یا ختم کیا جا سکتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ثقافتی سطح پر میڈیا کے اسٹریٹیجک کردار کے تعلق سے فلم اور سیریئل کو بہت موثر قرار دیا اور فرمایا کہ حقائق سے واضح ہے کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ادارے اور خاص طور پر فلموں اور سیریئل کے شعبے پر ملک کے حال اور مستقبل کے تعلق سے اہم ذمہ داریاں ہیں۔ آپ نے قومی ذرائع ابلاغ کو معاشرے کی فکری ماہیت کا مرکز قرار دیا اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ادارے کے بارے میں بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے قول کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس عظیم یونیورسٹی، بلند چوٹی اور مستقل ابلنے والے چشمے سے عوامی زندگی میں الہی، انسانی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی تعلیمات کا دریا جاری رہنا چاہئے۔ یہ انتہائی حساس اور نازک مقام ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ادارے کے حکام، اہلکاروں اور متعلقہ افراد کے دوش پر بنیادی قسم کے فرائض عائد ہونے کا سبب ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فلموں اور سیریئلوں کے ذریعے رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی ملت ایران کے دشمنوں کی کوششوں کو اس فن کی عظیم صلاحیتوں کی علامت قرار دیا اور فرمایا کہ عظیم، با مقصد اور بیدار ملت ایران کے پاس خالص اور سعادت بخش پیغام ہیں بنابریں فلم اور سیریئل کے فن کے ارتقاء پر حقیقی معنی میں توجہ دینے اور مادی و روحانی لحاظ سے سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں بعض فنکاروں کی جانب سے بیان کی گئی باتوں اور اپنی تخلیقات کی تیاری میں ذہنی اور فکری تشویش نیز بعض امور پر تنقید کے تعلق سے در پیش مشکلات کے اظہار کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ فنکار کا مزاج بہت لطیف اور ظریف ہوتا ہے تاہم فنکار اس سلسلے میں زیادہ پریشان نہ ہوں اور خود اعتمادی کے ساتھ انتہائی اہمیت کے حامل اپنے کاموں کو انجام دیں۔ آپ نے فنکاروں کی بعض تشویشوں کو غیر حقیقی قرار دیا اور فرمایا کہ فلموں اور سیریئلوں پر کئے جانے والے بعض اعتراضات صحیح بھی ہوتے ہیں اور کچھ باتیں ایسی ہیں جنہیں ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔ آپ نے اخلاقی، دینی اور ثقافتی ریڈ لائن سے تجاوز کو ضرر رساں قرار دیا اور فرمایا کہ بعض سیريئل ایسے ہیں جن میں ان چیزوں کو موضوع بحث بنانے کی بنیادی طور پر ضرورت ہی نہیں ہے اور شریعت مقدسہ نے جن باتوں کو ضروری قرار دیا ہے فنکارانہ تخلیقات میں انہیں ملحوظ رکھنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مرد اور عورت کے غلط رابطے کی ترویج کو نامناسب قرار دیا اور ایک ضروری عنصر کا درجہ رکھنے والی صحیح تنقید کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ معاشرے کی خامیوں اور تاریک پہلوؤں کو پیش کرنے کے ساتھ ہی خوبیوں کو بھی منظر عام پر لانے اور برائیوں اور پستی کے خلاف سیریئلوں کے اہم کرداروں کی لڑائی کو نمایاں کرنے میں اس انداز سے عمل کرنا چاہئے کہ آخر میں برائیاں مسترد اور مغلوب ہوں کیونکہ دوسری صورت میں منفی باتوں اور خامیوں کی تصویر کشی عملی طور پر مسلسل بڑبڑاہٹ بن کر رہ جائے گی اور معاشرے میں مایوسی اور ناامیدی پھیلنے کا باعث بنے گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ ہر داستان اور سرگزشت میں خیر و شر کی مقابلہ آرائی میں شر اور برائی سے لڑنے کے صحیح جذبے کو بھی فنکارانہ انداز میں نمایاں کیا جائے تاکہ معاشرے کی حقیقی فضا مخاطب قرار پانے والے شخص کے ذہن میں واضح ہو جائے۔ آپ نے سامراجی محاذ کے مقابلے میں ملت ایران کی تاریخی استقامت کو اس قوم سے بڑی سامراجی طاقتوں کی دشمنی کی بنیادی وجہ قرار دیا اور فرمایا کہ سیاسی لحاظ سے موجودہ دور ایک استثنائی دور ہے لیکن عظیم ملت ایران بلا شبہ یہ دشوار گزار راستہ بھی طے کر لیگی۔ فنکارانہ تخلیقات سمیت ہر عمل میں اس تاریخی دور کی اس مسلمہ حقیقت یعنی ملت ایران کے خلاف تسلط پسند طاقتوں کی دشمنی کو مد نظر رکھنا اور اس دشمنی کا مقابلہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے جمہوریت، انسانی حقوق اور قوموں کے تعاون کے بارے میں ملت ایران کے دشمنوں کی شرمناک دروغگوئی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جن لوگوں نے ملت ایران کے خلاف مجرمانہ کارروائیاں کروانے کے مقصد سے صدام کو کیمیاوی ہتھیار دئے تھے آج انہوں نے نام نہاد ثقافتی نیٹ ورک قائم کر لئے ہیں تاکہ اپنے اسی ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں، یہ حقیقت کسی کی بھی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہنی چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے سرزمین ایران کی قدیم تاریخ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ملت ایران کو تاریخی لحاظ سے نجیب و شریف اور پاکیزہ قوم قرار دیا اور ایران میں کنبے کی بنیادوں کو متزلزل کرنے اور عفت و پاکیزگی کا حصار توڑنے کی بیرونی ٹی وی چینلوں کی بلا وقفہ کوششوں کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ ملت ایران سے دوستی کے دعوے کرنے والے بھی ایران مخالف فلمیں اور سیریئل بنا کر اس قوم کی مایہ ناز تاریخ و ثقافت سے اپنی دشمنی نکالتے ہیں، ان حالات میں سیاسی فلم اور سیریئل بہت ہوشیاری سے تیار کرنا چاہئے کہ کہیں اس سے دشمن کے اہداف کی تکمیل نہ ہو۔ قائد انقلاب اسلامی نے فنکاروں کی صنف اور خاص طور پر فلم اور سیریئل کی صنعت سے وابستہ افراد سے اسلامی نظام کے قائد کی توقعات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ اپنی تخلیقات میں دشمن شناسی اور ہوشیاری کا ثبوت دیتے ہوئے ملت ایران کی تاریخی استقامت و پائیداری کو خوبصورتی سے جامہ تصویر پہنائیں تو ایک حقیقی داستان کے ہیرو بھی قرار پائیں گے اور ساتھ ہی آپ کی یہ تخلیق بالیقیں زیادہ پر کشش بن جائے گی، فنکاروں اور خاص طور پر ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ادارے سے وابستہ فنکاروں سے یہی توقع کی جاتی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ماہر فنکاروں اور فلموں اور سیریئلوں میں کام کرنے والے افراد کی قابل تحسین کوششوں کی قدردانی کرتے ہوئے فرمایا کہ اس قابل فخر تحلیق کے ہر لمحے کے پس پردہ محنت و مشقت اور خلاقیت و جدت عمل کا سمندر موجزن ہوتا ہے لہذا اس طرح کے شاہکاروں کی واقعی قدر کرنی چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ادارے کے سربراہ جناب عزت اللہ ضرغامی، قومی میڈیا کے مختلف شعبوں اور خاص طور پر فلموں اور سیریئلوں کے شعبے سے وابستہ عہدہ داروں کا تشکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان قابل قدر کوششوں کے باوجود موجودہ پوزیشن اور منزل مقصود میں ابھی کافی فاصلہ باقی ہے لہذا وسائل اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پروگراموں کے ارتقاء خاص طور پر فلموں اور سیریئلوں کو معیاری بنانے کی کوششوں کے ذریعے اس فاصلے کو کم اور ختم کرنا چاہئے۔
اس ملاقات کے آغاز میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ادارے کے سربراہ سید عزت اللہ ضرغامی نے اپنی تقریر میں قومی میڈیا کی عوامی درسگاہ کی حیثیت سے اہم ذمہ داریوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دشمن کی نرم جنگ کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ادارے کا خاص مقام اور کردار ہے بنابریں قوی میڈیا نے مختلف پروگراموں منجملہ فلموں اور سیریئلوں میں میڈیا کی سطح پر ترجیحات، اہداف اور حکمت عملی کا تعین کرکے منصوبہ بندی کو سنجیدگی سے اپنے ایجنڈے میں جگہ دی ہے۔ جناب ضرغامی نے ملک کے اندر تیار کی جانے والی فلموں اور سیریئلوں کو عوام میں ملنے والی وسیع پذیرائی کی غماز سروے رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشہ چھے برسوں میں اندرونی سطح پر فلمیں اور سیریئل تیار کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر منصوبہ بندی اور کوششیں انجام دی گئي ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ خاص ضوابط کے تعین، اسٹریٹیجک کونسل کی تشکیل اور فلمی کہانیاں لکھے جانے، فلم سازی کی تیاریوں، فلم بنائے جانے اور بعد کے مراحل کی نگرانی کے لئے متعلقہ مرکز کی خدمات حاصل کرکے یہ کوشش کی گئی ہے کہ جامع اور پر کشش پروگرام تیار کرنے کے عمل پر گہری نظر رکھی جائے۔ عزت اللہ ضرغامی نے مختلف ٹی وی چینلوں کی پلاننگ کونسلوں میں ہر سال دو ہزار سے زیادہ فلمی کہانیوں اور منصوبوں کا جائزہ لئے جانے کی اطلاع دی اور کہا کہ اس وقت قومی اور صوبائی چینلوں کے ذریعے تیار کی جانے والی فلموں، سیریئلوں اور انیمیشنوں کی مجموعی مدت سالانہ دو ہزار گھنٹے ہے جو دو ہزار تین کی بنسبت پانچ گنا زیادہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملکی چینلوں اور غیر ملکی زبانوں کی نشریات کے ذریعے ہر سال مجموعی طور پر تینتیس ہزار گھنٹے فلمیں، سیریئل اور انیمیشن فلمیں نشر کی جاتی ہیں جو دو ہزار تین کی بنسبت نو گنا زیادہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ چھے برسوں کے اندر اسلامی انقلاب کے موضوع پر بیس سیریئل تیار کرکے نشر کئے گئے جو اس سے پہلے کے برسوں کی بنسبت دو گنا زیادہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ عقائد سے متعلق موضوعات، صیہونزم کی تنقید، دینی و قومی شخصیتوں کے تعارف، مقدس دفاع، سماجی انتباہات، سائنسی تحریک، روزگار، مطالعے کی ترویج، ایٹمی کامیابیوں اور انحرافی حلقوں کے مقابلے میں حقیقت بیانی جیسے موضوعات پر بھی درجنوں فلمیں اور سیریئل بنائے گئے۔
عزت اللہ ضرغامی نے آزادانہ فکر اور روشن خیالی پر مبنی دینداری کی ترویج میں قومی ذرائع ابلاغ کے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ قومی میڈیا نرم جنگ کے میدان میں ثابت قدمی کے ساتھ کھڑا ہوا ہے اور اس سلسلے میں معاشرے کی تمام فکری اور ہنری صلاحیتوں کو استعمال کرے گا۔ انہوں نے نرم جنگ کے میدان میں دیگر محکموں سے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ادارے کی مدد کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اس پیچیدہ نرم جنگ میں موثر انداز سے اپنے فرائض کی ادائیگی اور نئے میدانوں میں قدم رکھنے کے لئے قومی ذرائع ابلاغ کو یونیورسٹی اور تعلیمی شعبے کی علمی شخصیات کی حمایت و معاونت، افراد کے اندر تنقید برداشت کرنے کی عادت، عجلت پسندی اور تنگ نظری سے گریز کی ضرورت ہے۔
اس ملاقات میں بعض ہدایت کاروں، مصنفین اور اداکاروں نے بھی فن و ہنر کے شعبے کے مسائل و مشکلات کے سلسلے میں اپنے نظریات پیش کئے۔