قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے شہر قم میں صوبے کے نوجوانوں، طلبہ اور یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں یکتا پرستی کی آئيڈیالوجی اور رونما ہونے والے واقعات دونوں کی سطح پر بصیرت کو قومی قوت و توانائی کے تسلسل کے لئے دراز مدتی منصوبوں کی بنیاد قرار دیا۔ آپ نے بصیرت کے مفہوم کے انتہائی ظریفانہ نکات کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران کے بیدار، پرجوش اور بابصیرت نوجوان اسلامی مملکت ایران کی سربلندی کی راہ میں اپنی بابرکت کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے عظیم دین اسلام، وطن عزیز، اس عظیم سرزمین کی تاریخ اور با اعظمت قوم کے لئے عزت و افتخار کے ابواب رقم کریں گے۔
 
قائد انقلاب اسلامی نے دختر رسول معصومہ قم کے روضہ اقدس کے امام خمینی شبستان میں منعقد ہونے والے اس اجتماع سے خطاب میں قومی بصیرت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اسلام اور انقلاب کی دشمن طاقتوں کی دراز مدتی سازشوں کو ایک ناقابل انکار حقیقت قرار دیا اور فرمایا کہ بے شمار شواہد و قرائن سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سن انیس سو ننانوے کے واقعات اور سن دو ہزار نو کے بلوؤں سمیت ملک کے اندر جو واقعات گاہے بگاہے رونما ہوتے ہیں دشمن کے طویل المیعاد اور میانہ مدتی منصوبوں کا نتیجہ ہیں۔ آپ نے گزشتہ برس (صدارتی انتخابات کے بعد) رونما ہونے والے واقعات کو دشمنوں کی سازشوں کے احیاء سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ دشمنوں نے سن دو ہزار نو میں تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے اقدامات کرنے کی کوشش کی لیکن بفضل پروردگار انہیں شکست ملی اور قوم کی ہوشیاری اور میدان عمل میں موجودگی کے نتیجے میں انہیں شکست ہونی ہی تھی۔
قائد انقلاب اسلامی نے بار بار شکست کھانے کے باوجود سامراجی طاقتوں کی سازشوں کے تسلسل کو اس بات کی علامت قرار دیا کہ استبدادی طاقتیں ابھی مایوس نہیں ہوئی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس حقیقت کے پیش نظر ملت ایران اور اسلامی نظام کو بھی چاہئے کہ پوری مستعدی اور ہوشیاری کےساتھ دراز مدتی منصوبوں پر کام کرے۔ قائد انقلاب اسلامی نے دراز مدتی منصوبوں کے لئے فکری، سیاسی اور ثقافتی مراکز کی کوششوں کی یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا کہ اس اسٹریٹیجک منصوبہ بندی کے لئے جو چیز زمین ہموار کر سکتی ہے وہ عوام الناس بالخصوص نوجوانوں کی بصیرت اور سوجھ بوجھ میں اضافہ ہے۔
 
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو میدان بصیرت کا علمبردار قرار دیا اور فرمایا کہ بصیرت وہ مشعل ہے جو تاریکیوں میں راستہ دکھاتی ہے، یہ ایسا قطب نما ہے جو غبار میں ڈھکے ہوئے بیاباں میں صحیح ہدف اور سمت کا تعین کرتا ہی۔ قائد انقلاب اسلامی نے بصیرت کی ذاتی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے اسے مکمل کامیابی کی لازمی شرط قرار دیا اور فرمایا کہ اگر دوسری تمام شرطیں پوری ہو جائیں لیکن بصیرت نہ ہو تو اہداف تک رسائی عملی طور پر ناممکن ہو جائے گی۔
 
قائد انقلاب اسلامی نے اصولی اور بنیادی امور اور گاہے بگاہے رونما ہونے والے واقعات دونوں کی سطح پر لازمی بصیرت کی درجہ بندی کرتے ہوئے فرمایا کہ اصولی اور بنیادی سطح پر بصیرت توحیدی مفاہیم کے بنیادی ادراک اور یکتا پرستانہ آئیڈیالوجی کے سلسلے میں ضروری ہوتی ہے۔ آپ نے اس سطح کی بصیرت کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ توحیدی نقطہ نگاہ سے کائنات ایک منظم اور قانون سے مطابقت رکھنے والا مجموعہ ہے اور انسانی زندگی کا ایک نصب العین اور مقصد ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے توحیدی نقطہ نگاہ سے زندگی کو ایک با مقصد و با معنی مربوط سعی و کوشش سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ اس نقطہ نگاہ سے زندگی اور ہستی میں مفہوم اور کشش پیدا ہوتی ہے اور ہر اقدام و کوشش پر اجر و ثواب الہی حاصل ہوتا ہے اسی لئے توحیدی نقطہ نگاہ میں مایوسی، ناامیدی اور اضطراب کا کوئی مفہوم و معنی نہیں ہے۔
 
قائد انقلاب اسلامی نے اس کے برخلاف مادی آئیڈیالوجی کو انسانی زندگی میں اساسی اور راہنما اہداف سے محروم قرار دیا اور فرمایا کہ ہستی کے بارے میں یہ نقطہ نگاہ شخصی مفادات اور اغراض و مقاصد تک محدود رہتا ہے اور یہ اغراض و مقاصد حاصل نہ کر پانے والے افراد مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آپ نے مادی اور غیر مادی معرفت کے بنیادی فرق پر توجہ اور تدبر کو بصیرت کے ستونوں کی تعمیر اور تقویت کا باعث قرار دیا اور فرمایا کہ اپنی فکر و نظر میں اس قسم کی بصیرت کا اہتمام کرنا چاہئے تاکہ فکر و عمل دونوں کی سطح پر دائمی کامیابی اور استحکام سے ہمکنار ہو سکیں۔
 
قائد انقلاب اسلامی نے گوناگوں واقعات و حوادث کے لئے ایک اور سطح کی بصیرت کی ضرورت پر زور دیا اور نہج البلاغہ کے مختلف خطبوں کی روشنی میں بصیرت کی اس قسم کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ امیر المومنین علیہ السلام کی زبان میں بصیرت کا مطلب حوادث و واقعات کا صحیح اور دقیق مشاہدہ، ان کے بارے میں تدبر و تفکر اور مسائل کو پوری طرح پرکھنا ہے۔
 
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بالکل واضح حقائق کو نظر انداز کر دئے جانے کو انسان کی لغزش قرار دیا اور فرمایا کہ ہمیں چاہئے کہ آنکھیں کھلی رکھیں اور واقعات کو سرسری طور پر نہ دیکھیں بلکہ تفکر و تدبر اور مسائل کے تجزئے کے ذریعے بصیرت حاصل کریں۔
 
قائد انقلاب اسلامی نے جنگ صفین میں امیر المومنین علیہ السلام کے بعض اصحاب کے فریب کھا جانے کے واقعے کو تاریخ میں بے بصیرتی کی نمایاں مثال قرار دیا اور فرمایا کہ جب معاویہ کے لشکر نے لوگوں کو ورغلا دینے والا قدم اٹھاتے ہوئے امام اور اسلامی حاکم کے سامنے نیزے پر قرآن بلند کر دئے تو بعض افراد نے روشن اور عیاں حقیقت سے بھی آنکھیں بند کر لیں اور زمینی حقائق کو نظر انداز کر دیا۔
 
قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ سال کے پرشکوہ صدارتی انتخابات کے بعد پیش آنے والے واقعات میں بعض افراد کی بے بصیرتی کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ کچھ لوگوں نے بے بصیرتی اور غلط سوچ کی بنا پر بد عنوانی کا دعوی کیا تو فطری بات یہ تھی کہ بد عنوانی کا دعوی کرنے والے اس کا ثبوت پیش کرتے اور دلائل کی بنیاد پر قانونی طریقے سے اپنی شکایت سامنے رکھتے تاکہ اس کا جائزہ لیا جاتا اور حقیقت سامنے آ جاتی لیکن بد عنوانی کے دعوے کرنے والوں نے یہ معینہ قانونی راستہ نہیں اختیار کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس وقت ہم نے شکایت درج کرانے کی مدت میں بھی توسیع کی اور کہا گیا کہ اعتراض کرنے والے امیدواروں کے نمائندوں کے سامنے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی جائے گي لیکن انہوں نے اس قانونی راستے کو بھی قبول نہیں کیا جس سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ وہ قانون سے سرکشی کر رہے ہیں۔
 
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بصیرت حاصل کرنا دشوار نہیں ہے، سب اس تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، مثال کے طور پر اگر ایک قانونی راستہ موجود ہے لیکن کوئي اس راستے سے منحرف ہوکر ایسے کام انجام دے جس سے ملک و قوم اور قومی مفادات کو نقصان پہنچے تو فطری سی بات ہے کہ ہر منصفانہ اور غیر جانبدارانہ نظر اور فیصلے کے مطابق یہ شخص قابل مذمت ہے۔ آپ نے غفلت کو بے بصیرتی کی اہم وجہ قرار دیا اور فرمایا کہ کبھی کبھی انسان اہم ترین مسائل میں بھی غفلت کا شکار ہو جاتا ہے اور یہ لغزش کوئی گناہ نہیں ہے لیکن اگر یہ چیز معمول بن جائے تو بے بصیرتی کہلاتی ہے جو ناقابل قبول ہے۔
 
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس وقت ملک کی سیاسی فضا کو غبار آلود کرنا دشمن کا سب سے اہم حربہ ہے، آپ نے فرمایا کہ سامراجی محاذ جدید تشہیراتی حربوں اور طریقوں سے ملک کی حالت کو دگرگوں ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس انتہائی حساس موقعے پر نوجوانوں کا فریضہ بہت سنگین ہے کیونکہ اس غبار آلود فضا میں انہیں حقیقت کا تعین بھی کرنا ہے اور اپنے ارد گرد کے افراد کو بصیرت سے آراستہ بھی کرنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے افراد کو گمراہ اور فضا کو غبار آلود کرنے کے لئے حق و باطل میں خلط ملط کرنے سمیت دشمن کی متعدد پیچیدہ تشہیراتی روشوں کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ ملک کے اندر بھی بعض لوگ دانستہ یا نادانستہ طور پر دشمن کے پروپیگنڈے کو دہراتے اور اسے دوسروں تک منتقل کرتے ہیں۔
 
قائد انقلاب اسلامی نے اسی ضمن میں یہ سوال اٹھایا کہ بعض اوقات بصیرت اور سوجھ بوجھ سے کام لینے کے باوجود بھی لوگوں کی غلطیاں کیوں جاری رہتی ہیں؟ اس کے جواب میں آپ نے بصیرت کو لازمی لیکن غیر کافی شرط قرار دیا اور فرمایا کہ بعض افراد حقیقت سے آگاہ تو ہوتے ہیں لیکن اسے بیان کرنے اور حق کے دفاع کا عزم نہیں کر پاتے اور ان افراد میں عزم و ارادے کے فقدان کی بھی کچھ وجوہات ہیں۔ آپ نے راحت طلبی، ہوائے نفس، ذاتی مفادات اور ضد کو ایسے عوامل سے تعبیر کیا جو ان افراد کو حق کے دفاع سے روک دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ افراد حق کا دفاع نہ کرکے دشمن کی مدد کرتے ہیں، بعض افراد جو اسلامی انقلاب کے راستے سے ہٹ کر انقلاب مخالف عناصر کی خدمت کر رہے ہیں، کسی زمانے میں بڑے سخت انقلابی ہوا کرتے تھے لیکن بعض وجوہات کی بنا پر موجودہ انجام کو پہنچ گئے ہیں۔
 
قائد انقلاب اسلامی نے ان افراد کے نظریات میں ایک سو اسی درجے کی تبدیلی کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ پروردگار سے غفلت اور فرائض سے بے اعتنائی انسان کو اسی طرح کی سنگین مشکلات اور دگرگوں حالت کا شکار بنا دیتی ہے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ غفلت اور عمدی عناد کے درمیان فرق رکھنے کی ضرورت ہے اور گزشتہ سال کے بلوؤں میں بعض افراد یہ سمجھے بغیر کہ یہ تختہ پلٹ دینے کی سازش ہے اس ہنگامے میں کود پڑے۔ قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو بصیرت، ہوشیاری اور بیداری کی بار بار سفارش کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن کی پیچیدہ سازشوں کو پہچاننا اور ان کے دلکش ظواہر سے محتاط رہنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں نوجوانوں سے اپنی ملاقات کو حوصلہ بخش اور امید افزا قرار دیا اور فرمایا کہ کسی بھی میدان میں نوجوان کی موجودگی نوجوانی کے جذبات، جوش و خروش اور مخصوص طرز فکر کی بنا پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔ اسی لئے ملک کا عام ماحول جس میں نوجوانوں کی اکثریت ہے عزم و ارادے اور جذبہ و دانش سے سرشار نظر آتا ہے۔ آپ نے اسلامی انقلاب کی تحریک اور اس کی فتح و کامرانی میں نوجوانوں بالخصوص قم کے نوجوانوں کے کردار کی یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی تحریک اور اسلامی انقلاب کے مختلف مراحل میں قم کے نوجوان ہمیشہ پیش پیش رہے اور الہی امتحانات پر پورے اترے۔ آپ نے اسلامی انقلاب کی فتح کے ابتدائی برسوں میں دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں قم کے نوجوانوں کی فیصلہ کن کارکردگي کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ دشمن محاذ نے ایرانی ماہرین کی مدد سے تیار کی گئی ایک پیچیدہ سازش کے ذریعے قم کو انقلاب مخالف شہر میں تبدیل کر دینے کی کوشش کی لیکن قم کے عوام اور بالخصوص نوجوانوں کے صحیح تجزئے اور تبریز کے عوام کے شجاعانہ اقدام کے باعث یہ سازش ناکام ہو گئی۔
 
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دشمن نے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی رحلت کے بعد ایک بار پھر قم میں اسی سازش کو دہرایا لیکن اس بار بھی قمی نوجوانوں کی ہوشیاری کی وجہ سے اسے ناکامی ملی۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں مغربی دنیا کی تین صدیوں کی پالیسیوں کے نتیجے میں انسانی معاشرے پر مرتب ہونے والے تباہ کن اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ ایک زمانے میں ہیومنزم، لبرلزم اور ڈیموکریسی کے نظریات پیش کرکے انسان کو طمانیت اور چین و سکون فراہم کرنے کی کوشش میں تھے، سائنس و ٹکنالوجی تک رسائی سے حاصل ہونے والی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے ایسے جرائم کے مرتکب ہوئے اور مرتکب ہو رہے ہیں کہ تاریخ میں ان کی مثال شاذ و نادر ہی ملتی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مختلف ملکوں میں بغاوتوں کی منصوبہ بندی اور عراق، افغانستان اور دیگر ملکوں میں انتہائی سرد مہری سے انسانوں کے قتل عام کو الہی افکار اور روحانیت سے مغربی دنیا کی دوری کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا کہ یہ حقائق اور جرائم بتاتے ہیں کہ مغربی تسلط پسند طافتیں انسانیت کی دشمن ہیں۔
 
قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کی تحریک کو مغرب کی تین صدیوں پر محیط منحرف تحریک کے برخلاف قرار دیا اور فرمایا کہ جو نوجوان پاکیزہ جذبے کے ساتھ علم حاصل کرتے ہیں اور اپنے منصوبوں اور اقدامات میں اپنی قوم اور پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کو ہدف بناتے ہیں وہ اسلام اور انقلاب کے تمام اہداف کی تکمیل تک اپنی پیش قدمی جاری رکھیں گے۔ آپ نے گزشتہ تیس برسوں میں ملت ایران کو حاصل ہونے والی کامیابیوں کی پوری طرح تکمیل کو ایران کے نوجوانوں کا تاریخی فریضہ قرار دیا اور فرمایا کہ ملک کا حال اور مستبقل نوجوانوں کا ہے اور انہیں چاہئے کہ مختلف سطح پر ملک کا نظم و نسق چلانے کے لئے خود کو آمادہ کریں۔
اس اجتماع میں قائد انقلاب اسلامی کی تقریر سے قبل متعدد دانشوروں اور مفکرین نے مختلف علمی، سیاسی، سماجی، ثقافتی اور دیگر موضوعات کے بارے میں اپنی تجاویز پیش کیں۔