قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے علاقے میں پھیلی اسلامی بیداری اور مغربی ممالک میں جاری تغیرات کو بے مثال اور انتہائی اہم قرار دیا۔
وزیر خارجہ، وزارت خارجہ کے عہدیداروں اور مختلف ملکوں میں متعین ایران کے سفیروں سے ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ان حساس اور پیچیدہ حالات میں ملک کے سفارتی شعبے کو چاہئے کہ معاشرے میں عوام الناس اور الہی اقدار کی ایک ساتھ بالادستی کے اسلامی نظام کے نئے خیال کی ترویج کے لئے موثر انداز میں اپنا کردار ادا کرے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے عہدیداروں اور سفیروں کو سفارت کاری کے میدان کے عظیم عالمی مقابلے میں ہراول دستے کے سپاہیوں سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ دنیا کے ممالک کے مفادات میں ٹکراؤ کی وجہ سے سفارت کاری کا شعبہ مقابلہ آرائی اور چیلنجوں کا شعبہ بن گيا ہے تاہم اسلامی جمہوریہ کے سفارتی شعبے میں خدمت کی انجام دہی دنیا کی رائج سفارتی سرگرمیوں سے بالاتر ہے کیونکہ ایران کے سفرائے محترم، ایسے نظام کے نمائندے ہیں جس کی اسلامی ماہیت استکباری طاقتوں کی ذات و حقیقت سے تضاد رکھتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلام کے نام سے استکبار کی وحشت و سراسیمگی کی یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا کہ اسلام، استکبار کی بنیادوں اور ستونوں یعنی ظلم و جارحیت و غاصبانہ قبضے سے بر سر پیکار ہے اسی وجہ سے دنیا کی استبدادی طاقتیں اسلام کی جانب قوموں کے جھکاؤ سے وحشت زدہ ہیں چنانچہ علاقے میں حالیہ مہینوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات کے دوران انہوں نے قوموں کے مظاہروں کی اسلامی علامتوں اور انتخابات میں اسلام نوازوں کی فتح پر اعلانیہ اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام سے استکباری طاقتوں کی گہری دشمنی کی وضاحت کرتے ہوئے اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل اور تین عشروں کے دوران ملت ایران کی پیشرفت و ترقی میں اسلام کے کردار کو بے مثال قرار دیا اور فرمایا کہ ایرانی قوم کا منتخب نظام اسلام کے نام کے ساتھ اور اسلامی نعروں کو نمایاں رکھتے ہوئے ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھا ہے اور آج جوہری اور نینو ٹکنالوجی سمیت علم و صنعت کے میدانوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرنے والے اس سرزمین کے نوجوان سائنسداں اپنے بسیجی (رضاکار) ہونے پر فخر کرتے ہیں اور استکبار بھی اس سرزمین میں اسلام کو مرکزی حیثیت حاصل ہونے کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ کے خلاف سرگرم عمل ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامی مملکت ایران سے دنیا کی جابر و ظالم قوتوں کی دشمنی کو ملک کے سفارتی شعبے میں معمول کے چیلنجوں سے زیادہ بڑے مسائل پیدا ہونے کی وجہ قرار دیا اور اس حقیقت کا حوالہ دیتے ہوئے خارجہ پالیسی کے شعبے میں سرگرم عہدیداروں کو تاکید کی کہ اس شعبے میں موثر کارکردگی کے لئے سب سے پہلے تو قوت قلب، خود اعتمادی اور عزم محکم کی ضروروت ہے جو اللہ تعالی کی ذات پر توکل، اعتماد، اخلاص عمل، اللہ تعالی کے سچے وعدوں کے سلسلے میں حسن ظن اور سفارتی شعبے کی اندرونی ساخت کے استحکام کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے سفارتی شعبے کے اندرونی استحکام کو خارجہ پالیسی اور ایرانی سفارت خانوں میں مصروف کار افراد کی روحانی و معنوی تقویت پر منحصر قرار دیا اور فرمایا کہ یہ اندرونی استحکام روحانی احتیاط، اللہ تعالی سے سفراء کے کارواں کے قریبی رابطے اور اللہ تعالی کے وعدوں پر حقیقی معنی میں عمومی حسن ظن کا متقاضی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جس معاشرے میں بھی اندرونی استحکام پیدا ہو جاتا ہے کوئی بھی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر پاتی۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران کی موجودہ پوزیشن کو مجاہد مومنین سے کئے گئے اللہ کے وعدوں کے ایفاء کی واضح نشانی قرار دیا اور فرمایا کہ قوم اور حکام کی جانب سے ایمان کے ساتھ ساتھ مساعی و مجاہدت کے نتیجے میں اوائل انقلاب کی غربت و تہی دستی اب سربلندی و عزت میں تبدیل ہو گئی ہے اور آج ملت ایران کے نعرے ایسے ممالک میں گونجنے لگے ہیں جو تیس سال سے ملت ایران کے دشمن بنے رہے۔ یہ حقیقی معنی میں پیشرفت و استحکام اور قوت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے حسنی مبارک اور انور سادات کی حکمرانی والے مصر میں اللہ اکبر اور دیگر اسلامی نعروں اور علامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے بحث نہیں ہے کہ ان نعروں کا سبق کہاں سے ملا ہے، اہم بات یہ ہے کہ تیس سال قبل ملت ایران سے جو باتیں، جو نعرے اور جو مطالبات سننے کو ملے تھے آج مشرق وسطی، خلیج فارس اور شمالی افریقا میں انہیں کی گونج سنائي دے رہی ہے۔ یہ حقیقت ملت ایران کی نصرت و مدد کے وعدہ الہی کے ایفاء کی روشن دلیل ہے جس نے سختیاں برداشت کرتے ہوئے اللہ تعالی کے معین کردہ صراط مستقیم میں سعی پیہم اور جہاد کیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ان مذکورہ حقائق پر ایمان و اعتماد کو سفارت کاری کے ظریف، اہم اور انتہائی موثر شعبے کی کارکردگی کے لئے بہت ضروری قرار دیا اور ایک تجزیہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض ادوار میں سفارتی اور غیر سفارتی شعبے کے بعض افراد میں یہ تصور پیدا ہو گيا تھا کہ اقدار و اخلاقیات کی پابندی کی صورت میں کامیابی کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں تاہم تجربے سے ثابت ہوا کہ اصولوں اور امنگوں پر جتنا زیادہ توجہ دی جائے گی دوسروں کی نظر میں اسلامی جمہوریہ کا وقار اور احترام اتنا ہی زیادہ ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے سفارتی شعبے کو لاحق خطرات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض ادوار ایسے تھے جن میں کچھ عہدیداروں میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ اگر عالمی سطح کی ملاقاتوں میں سامنے والے فریق کی گزشتہ سو سال کی باتوں کو دوہرایا جائے تو اچھے نتائج نکلیں گے لیکن اس طرح کا طرز عمل انہیں سامنے والے فریق کی نگاہ میں ہلکا اور فرومایہ بنا سکتا تھا کیونکہ اس سے ثابت ہوتا کہ ان کے پاس اپنی کوئی بات نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے منطقی اور مدلل باتوں پر پائیداری اور ثابت قدمی کو سفارت کاری کے میدان میں اختیار کئے جانے والے موقف کی مضبوطی کا باعث اور چیلنجز پر قابو پانے کا موثر طریقہ قرار دیا اور فرمایا کہ مذاکرات کی میز پر فتح، دانشمندی، ظرافت، خود اعتمادی، خردمندانہ مضبوطی اور مد مقابل کو اپنے استدلال سے قائل کر دینے کی متقاضی ہوتی ہے اور ان امور کے حصول کے لئے اخلاص عمل، توکل علی اللہ اور روحانیت کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ممکنہ مسائل کی وجوہات کی تشریح کرتے ہوئے، کنبے کی روحانی نظارت اور بظاہر معمولی نظر آنے والے رخنوں کے تعلق سے ہوشیاری کی ضرورت پر زور دیا اور ایک تاریخی مصداق کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق زبیر سختیوں اور مجاہدتوں میں آپ کے ساتھ ساتھ رہے لیکن جب ان کے فرزند بڑے ہو گئے تو یہ عظیم صحابی اپنے بیٹے کی باتوں اور خواہشات سے متاثر ہوکر رفتہ رفتہ حق کے مد مقابل کھڑے ہو گئے اور انہوں نے امیر المومنین کے خلاف تلوار کھینچ لی۔ اس حقیقت سے ثابت ہو گیا کہ چھوٹے چھوٹے رخنے بسا اوقات عظیم انحراف پر منتج ہوتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں دنیا کی سیاسی آرائش کو تغیرات سے دوچار قرار دیا اور فرمایا کہ ہمارے علاقے میں، یورپ اور پوری دنیا میں بڑے اہم واقعات رونما ہو رہے ہیں جن پر بڑی ہوشیاری سے نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی ممالک اور بنیادی طور پر عرب ملکوں میں حالیہ مہینوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات کو حقیقی انقلاب قرار دیا اور فرمایا کہ سنہ ساٹھ عیسوی کے عشرے میں بھی بعض عرب ملکوں میں کچھ تغیرات رونما ہوئے اور سنہ نوے کے عشرے میں مشرقی یورپ کے ملکوں میں کچھ بڑے واقعات پیش آئے لیکن علاقے میں رونما ہونے والے موجودہ واقعات اور مغرب میں جاری سلسلے وار احتجاج اپنے عمق و وسعت کے لحاظ سے بالکل الگ اور بہت بنیادی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے عوام کی حقیقی، رہنما اور ارتقائی منزلیں طے کرنے والی شراکت اور امریکہ کی مخالفت کو علاقے اور دنیا کے موجودہ تغیرات اور گزشتہ عشروں میں رونما ہونے والے واقعات کے دو بنیادی فرق سے تعبیر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ بعض لوگ اس خیال میں پڑے ہوئے ہیں کہ ان تمام تغیرات کے پس پردہ امریکہ کا ہاتھ ہے جس کے اشارے پر سب کچھ ہو رہا ہے لیکن یہ ایک وہم سے زیادہ کچھ نہیں ہے، تیس سال قبل بھی بعض لوگوں نے ایسی ہی توہم آمیز فکر کی بنیاد پر ایران کے اسلامی انقلاب کو امریکہ کا ایک منصوبہ قرار دیا تھا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مصر اور دیگر ممالک میں رونما ہونے والے واقعات کے سلسلے میں امریکہ کے متضاد موقف کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ بیشک امریکیوں کے لئے اس میں کوئی قباحت نہیں تھی کہ حسنی مبارک کی جگہ پر کوئی عوامی لیڈر بر سر اقتدار ہوتا لیکن یہ چیز ممکن ہی نہیں تھی کیونکہ اگر عوام پسند، وطن دوست اور حقیقی معنی میں جمہوری رہنما اقتدار میں آئے گا تو یہ طے ہے کہ اسے امریکہ اور صیہونیوں کی مخالفت کا سامنا کرنا ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے اور دنیا پر حقیقت پسندانہ نظر کو سفارتی شعبے میں موثر اور مضبوط کارکردگی کے لئے ناگزیر قرار دیا اور فرمایا کہ قوموں کی عظیم تحریکیں ان کی بیداری کی علامتیں ہیں اور نا قابل انکار اور وسیع حقائق کی بنیاد پر ثابت ہوتا ہے کہ اس بیداری کا رنگ اسلامی ہے البتہ اس اسلامی بیداری کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سب اسلامی حکومت چاہتے ہیں یا اسلامی جمہوریہ ایران کو نمونہ عمل مانتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے کے ملکوں میں اس وقت اور آئندہ ہونے والے انتخابات میں اسلام نواز حلقوں کی فتح کے مغربی ذرائع ابلاغ کے اعترافات کو علاقے کے انقلابوں کی اسلامی ماہیت کی ایک اور دلیل قرار دیا اور فرمایا کہ ان پیچیدہ اور حساس حالات میں ملک کی خارجہ پالیسی کے شعبے کو چاہئے کہ دنیا کے وسیع اور انتہائی موثر سفارتی میدان میں اسلامی جمہوریہ کی بات کو قوموں اور دنیا کے سامنے پیش کرے۔
قائد انقلاب اسلامی نے معاشرے میں الہی اقدار اور عوام الناس کی بیک وقت موجودگی اور الہی و روحانی اقدار کو عوام الناس کے ارادے اور خواہشات کے ساتھ ساتھ اہمیت دیئے جانے کو اسلامی جمہوریہ کی نئی اور اساسی بات سے تعبیر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ سفارتی شعبے کو چاہئے کہ حکمت و منطق کا سہارا لیکر مد مقابل فریق کے موقف کو اپنے موقف کے قریب لائے اور حکمت، مصلحت، عزت، قومی وقار اور شناخت کو بنیاد بناکر اپنے سنگین فرائض پر عمل کرے اور اس راستے میں نہ تو نقطہ نگاہ کی سطح پر اور نہ ہی عمل کی سطح پر کوئی کوتاہی اور پسپائی نہیں ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے وزارت خارجہ کے عہدیداروں اور سفارت کاروں سے خطاب میں ملک کی بلاوقفہ پیشرفت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ بیشک ترقی کی راہ پر جاری اس عمومی حرکت میں اقتصادی، ثقافتی اور دیگر میدانوں میں کچھ خامیاں اور نقائص بھی ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم انہیں برطرف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ نقائص اس سے بہت کم ہیں جو دشمن بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ علاقے اور دنیا کے ان بے مثال اور گہرے اثرات کے حامل تغیرات پر ہوشیاری کے ساتھ نظر رکھی جائے اور دانشمندانہ اقدامات کے ذریعے اس میدان میں موثر کردار ادا کیا جائے۔
اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل وزیر خارجہ نے اسلامی بیداری اور سفارت کاری کے زیر عنوان منعقدہ ایرانی سفیروں کی کانفرنس کی رپورٹ پیش کی۔