آپ نے ایران عزیز کے دفاع کے لیے ہر طرح کے اختلاف کو درکنار کرتے ہوئے عظیم اتحاد قائم کرنے کی ملت ایران کی دانشمندی کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اس قومی اتحاد کی حفاظت کرنا سبھی کی ذمہ داری ہے۔

آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ بارہ روزہ جنگ میں عوام کا عظیم کارنامہ، قومی عزم و اعتماد جیسا تھا کیونکہ امریکا جیسی  طاقت اور اس کے پالتو کتے صیہونی حکومت سے مقابلے کی تیاری اور جذبہ ہی بہت گرانقدر ہے۔

انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ دوستوں کو بھی اور دشمنوں کو بھی جان لینا چاہیے کہ ایرانی قوم کسی بھی میدان میں کمزور فریق کی طرح سامنے نہیں آئے گی، کہا کہ ہمارے پاس منطق اور عسکری طاقت جیسے تمام ضروری وسائل ہیں اس لیے چاہے وہ سفارتکاری کا میدان ہو یا فوجی میدان ہو، ہم جب بھی اس میدان میں آئیں گے، اللہ کی توفیق سے مضبوطی کے ساتھ آئیں گے۔

رہبر انقلاب نے کہا کہ اگرچہ ہم صیہونی حکومت کو کینسر اور امریکا کو اس کی پشت پناہی کی وجہ سے مجرم مانتے ہیں لیکن ہم نے جنگ کا آغاز نہیں کیا تاہم جب دشمن نے حملہ کیا، ہمارا جواب منہ توڑ اور بہت ٹھوس تھا۔

آيت اللہ خامنہ ای نے صیہونی حکومت کو ایران کے ٹھوس اور دنداں شکن جواب کی واضح دلیل، اس کی جانب سے امریکا سے مدد مانگنا بتایا اور کہا کہ اگر صیہونی حکومت جھک نہ جاتی اور زمیں بوس نہ ہوتی اور اپنا دفاع کر پاتی تو اس طرح امریکا سے مدد نہ مانگتی لیکن وہ سمجھ گئي کہ اسلامی جمہوریہ کا مقابلہ نہیں کر پائے گی۔

انھوں نے امریکا کے حملے پر ایران کے جوابی حملے کو بھی بہت حساس ضرب بتایا اور کہا کہ ایران نے جس جگہ حملہ کیا وہ خطے میں امریکا کا انتہائی حساس مرکز تھا اور جب بھی خبری سینسر ہٹے گا تو پتہ چل جائے گا کہ ایران نے کتنی گہری چوٹ پہنچائی ہے۔ البتہ امریکا اور دوسروں کو اس سے بھی بڑی چوٹ پہنچائی جا سکتی ہے۔

رہبر انقلاب نے حالیہ جنگ میں قومی یکجہتی کے بھرپور طریقے سے سامنے آنے کو بہت اہم اور دشمن کی سازش کے سامنے بڑی رکاوٹ بتایا اور کہا کہ جارحین کا اندازہ اور سازش یہ تھی کہ ایران کی بعض شخصیات اور حساس مراکز پر حملے سے نظام کمزور پڑ جائے گا اور پھر وہ منافقین اور سلطنتی نظام کے حامی افراد سے لے کر غنڈوں اور اوباشوں جیسے اپنے زرخرید سلیپر سیلز کو میدان میں لا کر عوام کو ورغلا سکتے ہیں اور انھیں سڑکوں پر لا کر نظام کا کام تمام کر سکتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ عملی میدان میں جو ہوا وہ دشمن کی پلاننگ کے بالکل برخلاف تھا اور یہ بھی واضح ہو گيا کہ سیاسی اور دوسرے میدانوں کے بعض افراد کے بھی بہت سے اندازے صحیح نہیں ہیں۔

آيت اللہ خامنہ ای نے ایران کے سبھی لوگوں کے لیے جارح دشمن کے حقیقی چہرے، پلان اور پوشیدہ اہداف کے واضح ہو جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خداوند عالم نے ان کی سازش کو باطل کر دیا اور عوام کو حکومت اور نظام کی پشت پناہی میں میدان میں اتار دیا اور لوگ، دشمن کی سوچ کے برخلاف نظام کی جانی اور مالی حمایت اور پشت پناہی میں اٹھ کھڑے ہوئے۔

انھوں نے مختلف مذاہب اور گوناگوں یہاں تک کہ متضاد سیاسی نظریات رکھنے والے افراد کے ایک ساتھ کھڑے ہونے اور بات کرنے کو عظیم قومی اتحاد پیدا ہونے کا باعث بتایا اور اس عظیم اتحاد کی حفاظت کی ضرورت پر تاکید کی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ عہدیداروں کو پوری طاقت اور بھرپور جذبے کے ساتھ اپنا کام جاری رکھنا چاہیے، کہا کہ سبھی کو جان لینا چاہیے کہ وَ لَیَنصُرَنَّ اللہُ مَن یَنصُرُہ کی آيت کے مطابق خداوند عالم نے اسلامی نظام کے تحت اور قرآن و اسلام کے سائے میں ایرانی قوم کی نصرت کو یقینی بنا دیا ہے اور یہ قوم یقینا فتحیاب ہوگی۔

انھوں نے حالیہ جنگ میں صیہونی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے جرائم کے خلاف قانونی کارروائی کو ضروری بتایا اور کہا کہ عدلیہ کو چاہیے کہ حالیہ جرائم کو سنجیدگی اور پوری ہوشیاری کے ساتھ اور تمام پہلوؤں پر نظر رکھتے ہوئے عالمی اور ملکی عدالتوں میں اٹھائے۔

اس ملاقات کی ابتداء میں عدلیہ کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین محسنی اژہ ای نے عدلیہ کی کارکردگي کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی۔