اسلامی جمہوریہ ایران میں اسلامی انقلاب کی تینتیسویں سالگرہ اور اس مناسبت سے پہلی فروری سے گیارہ فروری تک منائے جانے والے عشرہ فجر کے موقعے پر قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی امامت میں نماز جمعہ ادا کی گئی۔ نماز جمعہ کے خطبوں میں قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کے ثمرات اور کامیابیوں کا جامع تجزیہ پیش کرتے ہوئے داخلی امور، دشمنوں کی دھمکیوں اور ان سے لاحق خطرات، علاقے اور دنیا کے حالات اسی طرح نویں پارلیمانی انتخابات کے تعلق سے انتہائی کلیدی نکات بیان فرمائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے پہلے خطبے کی تمہیدی گفتگو میں عشرہ فجر اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ کے تعلق سے کچھ باتیں بیان کیں اور اس نعمت الہی پر شکر بجا لانے کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ان ایام میں ایرانی قوم کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہئے جو تینتیس سال سے ایثار و وفاداری، شجاعت و عظمت اور بصیرت و بھرپور شراکت کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس سال تیونس، مصر اور لیبیا میں عوامی انقلابوں کی کامیابی کی وجہ سے عشرہ فجر کے موقعے پر پیدا ہونے والے ایک الگ ہی جوش و خروش کا ذکر کیا اور فرمایا کہ یہ واقعات ہماری قوم کے لئے بہت بڑا مژدگانی اور مبارک و شیریں تبدیلی ہے اور ملت ایران ان انقلابوں کی کامیابی سے اسی مقدار میں اکیلے پن سے باہر آ گئی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے انقلاب کے بنیادی خطوط اور ثمرات کا ذکر کیا اور فرمایا کہ انقلاب نے اسلام مخالف، ڈکٹیٹر اور استبدادی نطام کا خاتمہ کیا اور اس کی جگہ اسلامی و عوامی حکومت قائم کی۔ آپ نے انقلاب کے ثمرات گنواتے ہوئے انحصار کے خاتمے اور اس کی جگہ حاصل ہونے والی ہمہ گیر خود انحصاری، گھٹن کے ماحول کے خاتمے اور اس کی جگہ قائم ہونے والی آزادی کی فضا، تاریخی تحقیر سے نجات اور اس کی جگہ قومی وقار کی بحالی، احساس عاجزی اور ناتوانی کی جگہ قومی خود اعتمادی کے جذبے کے احیاء کو اسلامی انقلاب کے اہم ترین ثمرات میں شمار کیا۔ آپ نے فرمایا کہ انقلاب کا ایک اور اہم ترین ثمرہ ملت ایران کا ملکی اور سیاسی مسائل کے سلسلے میں لا تعلق اور الگ تھلگ رہنے والی قوم کے بجائے آگاہ اور ملکی مسائل کے سلسلے میں موثر سیاسی تجزیہ کرنے والی قوم میں تبدیل ہو جانا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ انقلاب کے یہ ثمرات اور بنیادی خطوط اب مستحکم ہو چکے ہیں اور آج بھی اسلامی انقلاب کے نعرے وہی ہیں جو انقلاب کے ابتدائی ایام میں تھے جس سے انقلاب کا صحیح و سالم باقی رہنا ثابت ہوتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انقلاب کے نعرے اس کے اہداف کی جانب مرکوز اشارے ہیں، لہذا اگر نعروں میں تبدیلی نہیں ہوئی ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ حکام اور عوام بھی اسلامی انقلاب کے سیدھے راستے سے بھٹکے نہیں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کے بعض دیگر اہم ثمرات کا ذکر کرتے ہوئے خوبیوں اور خامیوں کا بھی جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہمیں اپنے مضبوط پہلوؤں کو مزید تقویت پہنچانا چاہئے اور کمزوریوں کو چھپانا نہیں بلکہ ان کا ازالہ کرنا چاہئے کہ کہیں وہ جڑ نہ پکڑ لیں۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے اس تینتیس سالہ سفر میں اتار چڑھاؤ ضرور آئے لیکن اصلی اہداف کی جانب پیش قدمی کا عمل کبھی بھی رکنے نہیں پایا بلکہ ہمیشہ جاری رہا۔
قائد انقلاب اسلامی نے چیلنجوں پر غلبے کو اسلامی انقلاب کا انتہائی مضبوط پہلو قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد سے عالمی طاقتوں نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ آٹھ سالہ جنگ، دہشت گردانہ اقدامات اور پابندیوں جیسے حربوں سے ملت ایران کی پیشرفت کے عمل کو روک دیں اور اسلامی انقلاب کو گھٹنے ٹیکنے اور ملت ایران کو اظہار پشیمانی کرنے پر مجبور کر دیں لیکن ان تمام چیلنجوں کے باوجود اسلامی نظام اپنے راستے پر رواں دواں رہا اور ان سب پر غلبہ حاصل کرتا چلا گیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے سب سے پہلے عوام کو کیفیت اور مقدار کے لحاظ سے بہتر سہولیات کی فراہمی کو اسلامی نظام کی اہم خصوصیات میں شمار کیا اور علمی و سائنسی ترقیوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے کی کامیابیاں بھی اہم پہلوؤں میں شامل ہیں کیونکہ علم و دانش ملک کی طاقت میں اضافے کا مقدمہ اور ہمہ جہتی ترقی کی بنیاد ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کو پچھلے تینتیس سال میں حاصل ہونے والی ترقی کو حیرت انگیز قرار دیا اور فرمایا کہ یہ ترقی گوناگوں شعبوں میں حاصل ہوئی ہے لیکن جوہری ٹکنالوجی کی مانند بعض شعبے ایسے ہیں جن کی ترقی کو بڑی شہرت ملی۔
آپ نے فضائی و خلائی شعبے میں، طبی شعبے میں، نیوکلیئر میدیسن تیار کرنے کے شعبے میں، بایو ٹکنالوجی کے شعبے میں، نینو ٹکنالوجی کے شعبے میں، اسٹم سیلز کے شعبے میں، کلوننگ کے شعبے میں، کینسر کی دوائیں تیار کرنے کے شعبے میں، سوپر کمپیوٹر بنانے کے شعبے میں اور جدید انرجی کے شعبے میں حاصل ہونے والی پیشرفت کا ذکر کیا اور فرمایا کہ دنیا کے معتبر ترین سائنسی مراکز نے ان ترقیوں پر مہر تصدیق لگائی ہے اور ایک معتبر سائنسی ادارے نے سنہ دو ہزار گیارہ کی رپورٹ میں ایران کی سائنسی ترقی کو دنیا کی سب سے تیز رفتار ترقی قرار دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسی رپورٹ کی بنیاد پر سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے میں ایران علاقے میں پہلے نمبر پر اور دنیا میں سترہویں نمبر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ترقیاتی منصوبے میں یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ ہم سنہ 2026 میں علاقے میں پہلے مقام پر پہچیں گے لیکن اس اندازے سے کئی سال قبل ہم اس مقام پر فائز ہو چکے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کے بعد کی دوسری اور تیسری نسلوں میں انقلابی اقدار کی منتقلی کو اسلامی نظام کا ایک اور مضبوط پہلو قرار دیا اور فرمایا کہ اس حقیقت کی بین دلیل مصطفی احمدی روشن شہید اور رضائی نژاد شہید جیسے سائنسداں ہیں جنہوں نے انقلاب کا دور نہیں دیکھا لیکن پھر بھی اپنے انقلابی اور اسلامی فرائض کے احساس کے ساتھ اعلی علمی مدارج تک پہنچے اور گوناگوں خطرات کا سامنا ہونے کے باوجود اپنے اس راستے سے نہیں ہٹے۔ آپ نے فرمایا کہ احمدی روشن شہید اور رضائی نژاد شہید اسلامی انقلاب کی تیسری نسل کا حصہ تھے۔ آپ نے فرمایا کہ مصطفی احمدی روشن کی شہادت کے بعد اس شہید کی علمی مہم کو آگے بڑھانے کے لئے طلبا کی جانب سے آمادگي کا اعلان بہت اہم اقدام اور انقلابی اقدار کے تیسری نسل میں منتقل ہونے کا ایک اور ثبوت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے دینی علوم کے مراکز کو بھی اسلامی انقلاب کے اہم پہلوؤں میں شمار کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تمام علمی، سماجی اور فنی ترقیاں ہمہ گیر پابندیوں کے عالم میں حاصل ہوئیں جو بہت اہم نکتہ اور امید افزا حقیقت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دشمن کی طرف سے ہوشیار رہنے اور اس کی دلفریب مسکراہٹوں کے دھوکے میں نہ آنے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ شروع کے دور میں کچھ لوگ دشمن کی مسکراہٹوں کے فریب میں آ جاتے تھے لیکن بتدریج ان وعدوں کی حقیقت آشکارا ہو گئی اور معلوم ہو گیا کہ دشمن کتنی آسانی سے جھوٹ بولتا ہے اور کس طرح آسانی سے عہد شکنی اور بے شرمی سے وعدہ خلافی کرتا ہے؟!
قائد انقلاب اسلامی نے ان مسکراہٹوں کی قلعی کھول دینے والی متعدد مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی صدر کے حالیہ بیان اور خط کا ذکر کیا اور اس خط پر اسلامی جمہوریہ ایران کے جواب اور پھر اس جواب پر امریکہ کے رد عمل کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جس دن ضرورت پڑنے پر یہ خطوط رائے عامہ کے سامنے آئیں گے، سب کو معلوم ہو جائے گا کہ امریکا کے وعدوں اور باتوں کی کیا حقیقت ہے اور امریکی کس طرح اپنے وعدوں کو پامال کرتے ہیں؟! قائد انقلاب اسلامی نے پہلے خطبے میں علاقے اور دنیا کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے گزشتہ سال کے عشرہ فجر سے لیکر اس سال کے عشرہ فجر تک علاقے میں چار طاغوتی اور آمر حکومتوں کی سرنگونی کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ اسی سلسلے کا دوسرا اہم ترین واقعہ یہ ہوا کہ مصر اور تیونس کے عوام نے انتخابات میں اسلام نواز جماعتوں کو ووٹ دیا جس سے ثابت ہو گیا کہ قومویں میں اسلاموفوبیا پھیلانے اور اسلامی نظام سے رائے عامہ کو خوف و وحشت میں مبتلا کرنے کی امریکا اور صیہونیوں کی تمام تشہیراتی تگ و دو بے نتیجہ رہی اور قومیں بدستور اسلام کی گرویدہ ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے صیہونی حکومت کے روز افزوں زوال اور فلسطینیوں کی امید و نشاط میں مسلسل اضافے کو علاقے کے عوامی انقلابات کا اہم ترین ثمرہ قرار دیا اور فرمایا کہ اسرائیل نامی کینسر اس علاقے سے ختم ہونا چاہئے اور ایسا یقینی طور پر ہوگا۔ قائد انقلاب اسلامی نے علاقائی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے بحرینی عوام کی مظلومیت کا ذکر کیا اور فرمایا کہ استکباری طاقتوں کے تشہیراتی ذرائع نے خود پر مکمل سکوت طاری کر رکھا ہے اور بحرین کے عوام کا بائیکاٹ کر دیا ہے لیکن ان چالوں کا کوئي نتیجہ نہیں نکلا ہے اور ملت بحرین کی فتح بھی اللہ کے فضل سے یقینی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے بحرین کے مسئلے میں ایران کی مداخلت پر مبنی بحرینی حکام کے دعوؤں کے بارے میں فرمایا کہ یہ باتیں سراسر جھوٹ ہیں کیونکہ اگر ہم نے مداخلت کی ہوتی تو بحرین کے حالات کچھ اور ہی ہوتے! قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہم جہاں بھی مداخلت کرتے ہیں، اعلانیہ کرتے ہیں، چنانچہ ہم نے صیہونی حکومت نامی کینسر سے نفرت کی بنا پر تینتیس روزہ (جنگ لبنان) اور بائیس روزہ ( جنگ غزہ) کے مسئلے میں مداخلت کی اور آئندہ بھی اگر صیہونی حکومت کے خلاف کوئی قوم اور کوئي تنظیم جنگ کرتی ہے تو ہم اس کی مدد کریں گے اور اسے صریحی طور پر بیان کرنے میں بھی ہمیں کوئی تامل نہیں ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے عالمی حالات پر گفتگو کرتے ہوئے امریکا کی اقتصادی و سیاسی بدحالی کا ذکر کیا اور فرمایا کہ امریکا کو مشرق وسطی میں، فلسطین اور عراق میں شکست ہوئی اور عراق کے عوام اور عوامی حکومت نے امریکیوں کو ان کی لاکھ کوششوں کو باوجود عراق میں رہنے نہیں دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکی اب بھی عراق کے تیل اور سیکورٹی سے متعلق امور میں مداخلت کر رہے ہیں لہذا عراقی عوام اور حکومت کو اس کا بھی کوئی نہ کوئي حل نکالنا ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکا کے مختلف شہروں میں جاری عوامی مظاہروں کا کانگریس میں باراک اوباما کی تقریر میں کوئي ذکر نہ کئے جانے کو امریکی حکومت کی کمزوری کی علامت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ امریکا نے کمزوریوں کو چھپانے کے لئے چار مہینے سے جاری امریکی قوم کے مظاہروں اور پولیس کی جانب سے مظاہرین کی سرکوبی کی طرف کوئي اشارہ تک نہیں کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے یورپی ممالک کی مالی و سیاسی بدحالی کا بھی ذکر کیا اور فرانس جیسے یورپی ممالک کے امریکا پر انحصار کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر کسی دن یورپی اقوام نے یہ بھانپ لیا کہ ان کی مشکلات کی اصلی وجہ ان کی حکومتوں کا امریکا اور صیہونزم کی پالیسیوں پر عمل پیرا رہنا ہے تو بڑی عظیم عوامی تحریک شروع ہوگی جس کے زیر سایہ ایک نئی دنیا معرض وجود میں آ ئے گي۔
قائد انقلاب اسلامی نے عالمی سطح پر مغربی حکومتوں کی کمزوریوں کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران اور ایرانی عوام پر لگائی جانے والی پابندیوں کو اس نمایاں کمزوری کی علامت قرار دیا اور فرمایا کہ وہ چاہتی ہیں کہ اسلام کے راستے پر چلنے کے باعث ملت ایران کو سزا دیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پابندیاں دو پہلوؤں سے اسلامی نظام اور ملت ایران کے حق میں جائیں گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے مقامی صلاحیت و استعداد پر ملت ایران کے انحصار کو تیس سال سے عائد پابندیوں کا ایک نتیجہ قرار دیا اور فرمایا کہ اگر انہوں نے ہم پر دفاعی پابندیاں نہ عائد کی ہوتیں اور بوشہر ایٹمی بجلی گھر خود ہی آکر تعمیر کیا ہوتا اور انہوں نے اگر ہم پر علم و دانش کے اپنے دروازے بند نہ کئے ہوتے تو آج دفاعی اور علمی شعبے میں ہم اتنی ترقی نہ کر پاتے، ہم یورینیم کی افزودگی میں اس ممتاز مقام پر نہ ہوتے اور طبی و فضائی و خلائی شعبے میں اس بلندی پر نہ پہنچ پاتے۔ بنابریں ایرانی نوجوانوں کی بیکراں صلاحیتوں پر اسلامی نظام اور عوام کے اعتماد کا باعث بننے کے لحاظ سے پابندیاں ہمارے فائدے میں رہیں اور سبب بنیں کہ (صلاحیتوں کا ) یہ ابلتا ہوا چشمہ روز بروز زیادہ بارور ہوتا جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے پابندیوں سے مغربی ممالک کو پہنچنے والے نقصانات کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ بقول مغربی حکومتوں کے ایرانی قوم پر پابندیاں عائد کرنے کا مقصد ایٹمی شعبے میں ایران کو اس کے موقف سے پیچھے ہٹانا ہے اور چونکہ اسلامی نظام اور ایرانی عوام ایٹمی شعبے میں حاصل ہونے والی قابل فخر کامیابیوں سے دست بردار ہونے والے نہیں ہیں لہذا یہ پابندیاں سرانجام علاقے اور دنیا میں قوموں کے نزدیک مغرب کی دھونس اور دھمکیوں کے بے وقعت ہو جانے کا باعث بنیں گی اور عالمی رائے عامہ میں ملت ایران کا وقار اونچا ہوگا، بنابریں اس لحاظ سے پابندیاں ہمارے فائدے میں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے آئے دن دوہرائے جانے والے امریکی حکام کے اس جملے کا بھی حوالہ دیا کہ تمام آپشن میز پر ہیں اور فرمایا کہ اس جملے کا مطلب جنگ کی دھمکی ہے لیکن سب واقف ہیں کہ یہ دھمکی امریکا کے نقصان میں ہے جبکہ باقاعدہ جنگ کے آغاز کی صورت میں امریکا کو دس گنا زیادہ نقصان پہنچے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکی حکام کے دھمکی آمیز لہجے کو اسلامی جمہوریہ کا منطقی انداز سے مقابلہ کرنے میں واشنگٹن کی عاجزی و ناتوانی کا ثبوت قرار دیا اور فرمایا کہ وہ فکر و منطق کے میدان میں زور آزمائي کے قابل نہیں ہیں لہذا طاقت اور جنگ کی باتیں کرتے ہیں اور اس طریق کار کا مطلب یہ ہے کہ امریکا طاقت کے علاوہ کوئي زبان نہیں سمجھتا اور اپنی خواہشات مسلط کرنے کے لئے جنگ کے علاوہ کوئي طریقہ اسے نہیں آتا۔ قائد انقلاب اسلامی نے دھمکی بھرے بیانوں کو رائے عامہ میں امریکی حکام کی بے اعتباری کا سبب قرار دیا اور فرمایا کہ جو حکومت اپنی قوم کی نظروں میں اپنا اعتبار کھو بیٹھے اس کی بقاء کی کوئي امید نہیں رہ جاتی اور سقوط و انتشار کے علاوہ اس کا کوئي اور انجام نہیں ہو سکتا، جیسا کہ سویت یونین کی سرنگونی سے یہ حقیقت پہلے بھی ثابت ہو چکی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکی یہ جان لیں! ویسے وہ جانتے بھی ہیں کہ جنگ کی دھمکی اور تیل پر پابندی عائد کرنے کی دھمکی کے جواب میں اسلامی جمہوریہ ایران بھی کچھ دھمکیاں دے سکتا ہے اور موقعہ آنے پر انشاء اللہ یہ اقدام انجام بھی دیا جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے پہلے خطبے کے اختتامی حصے میں نویں پارلیمانی انتخابات کا ذکر کیا۔ آپ نے انتخابات کو ملک کے تحفظ کی ضمانت قرار دیا اور فرمایا کہ عزیز ملت ایران یہ بات جان لے، البتہ اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ عوامی شراکت و موجودگی وہ اہم ترین ذریعہ ہے، جس سے ایران کی عظمت و جلالت دشمنوں کے سامنے آتی ہے اور دشمن جارحیت کے بارے میں سوچنے سے بھی گھبراتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے دو مارچ کے پارلیمانی انتخابات اور گیارہ فروری کو اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے جلوسوں میں عوام کی بھرپور شرکت کو عوامی شراکت و موجودگی کے اہم مواقع سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ پولنگ اسٹیشنوں پر عوام کی شراکت جتنی زیادہ ہوگي قوم کا اعتبار اتنا ہی بڑھے گا، ملک کا تحفظ یقینی اور ایران کا مستقبل درخشاں ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایک باصلاحیت، مضبوط اور صحت مند پارلیمنٹ کی تشکیل کو ملک کے مستقبل اور حکومت اور مقننہ سمیت تمام اداروں کی کارکردگی میں موثر بتاتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی پارلیمنٹ کو صرف عوام کی بھرپور موجودگی ہی وجود عطا کر سکتی ہے- آپ نے انتخابات میں شرکت کے سلسلے میں عوام کو مایوس کرنے کے لیے کئي مہینوں سے جاری دشمن کے تشہیراتی حربوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ ملک کے اندر بھی کچھ غافل افراد، سوچے سمجھے بغیر دشمن کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں-
آپ نے معمولی مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور ملک میں بحران کے بے بنیاد دعووں کو پارلیمانی انتخابات کی جانب سے عوام کو مایوس کرنے کے سلسلے میں دشمن کا ایک ہتھکنڈا قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک ایسے ملک میں جو پوری طرح سے پرامن ہے اور حکومتی ادارے اور عوام پوری محنت سے اپنا اپنا کام کر رہے ہیں، کسی طرح کا کوئي بحران نہیں ہو سکتا تاہم دشمن اور غافل افراد مسلسل بحران کی بات کرتے ہیں۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تہمت اور الزام تراشی سے پاک شفاف انتخابی رقابت پر زور دیا اور کہا کہ انتخابات کا ماحول پوری طرح سے صحت مند ہونا چاہئے اور عوام اگر خود امیدواروں کو بخوبی پہچانتے ہیں تو اپنی اس شناخت کی بنیاد پر عمل کریں ورنہ بابصیرت اور دیندار لوگوں سے رائے لے لیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے انتخابات کے صحیح انعقاد کے سلسلے میں متعلقہ عہدیداروں کی جانب سے مکمل توجہ پر بھی تاکید کی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین عشروں میں ملک میں پوری شفافیت کے ساتھ تیس سے زائد انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے اور بعض مواقع پر شاید کچھ گڑبڑ بھی ہوئي ہو اور کچھ لوگوں نے اعتراضات بھی کیے ہیں اور ان کے اعتراضوں پر قانونی کارروائي بھی ہوئي ہے تاہم انتخابات کبھی بھی غیر شفاف نہیں رہے ہیں اور اس کے بعد بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امیدواروں کی اہلیت کے اثبات کے عمل کے بارے میں فرمایا کہ نگراں کونسل کو قانونی طریقے سے لوگوں کی اہلیت ثابت پرکھنی چاہیے، البتہ ہم نے ہمیشہ ہی کہا ہے کہ صلاحیتوں کی سطح ایک معقول حد تک ہوني چاہیے اور اسے اتنا اونچا نہیں اٹھانا چاہیے کہ بہت کم لوگ ہی اس پر پورے اتریں۔
آپ نے اسی سلسلے میں فرمایا کہ ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو نگراں کونسل کی نگرانی کے عمل پر اعتراض ہو اور ان کا اعتراض بھی صحیح ہو تاہم جب ایک قانونی ادارہ کوئي فیصلہ کرتا ہے تو سب کو اس کے سامنے سر جھکانا چاہیے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ کسی کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ جن امیدواروں کی صلاحیت کی توثیق نہیں ہوئي ہے وہ لازمی طور پر نااہل افراد ہیں کیونکہ صرف پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے ان کی اہلیت کی توثیق نہیں ہوئي ہے لیکن دوسرے امور میں وہ باصلاحیت اور اہل ہو سکتے ہیں اور اس بات کا بھی امکان ہے جن لوگوں نے ان کی اہلیت کی توثیق نہیں کی ہے، ان سے غلطی ہوئی ہو۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پارلیمانی انتخابات کے بارے میں جو باتیں کہیں ان میں آخری نکتہ یہ تھا کہ عوام، امیدواروں اور حکام کو ملک کی سلامتی اور دشمن کی سازشوں کی جانب سے ہوشیار رہنا چاہیے- آپ نے فرمایا کہ جن لوگوں کو ووٹ نہیں ملتے، انہیں پوری طرح سے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ سنہ دو ہزار نو میں ووٹ حاصل نہ کر پانے والے جس فریب میں مبتلا ہوئے تھے، اس میں وہ بھی مبتلا نہ ہو جائیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے خطبۂ اول کے آخر میں فرمایا کہ تمام امیدواروں، ان کے حامیوں اور حکام کو امن و امان میں خلل پیدا کرنے کی دشمن کی ممکنہ سازشوں کی جانب سے ہوشیار رہنا چاہیے اور کسی کو بھی دوسرے پر الزام لگا کر دشمن کو موقع فراہم نہیں کرنا چاہیے۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے نماز جمعہ کے دوسرے خطبے میں جو عربی زبان میں پڑھا گیا، اسلامی بیداری کی بہار کی پہلی سالگرہ پر اسلامی امت کو مبارکباد پیش کی اور تیونس اور مصر کے انتخابات میں اعتدال پسند اسلامی جماعتوں کی کامیابی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام نوازی صیہونیت کی مخالفت، آمریت کی مخالفت، حریت پسندی، خودمختاری اور ترقی و پیشرفت کے جذبے جیسی صفات کا حامل ایک ایسا راستہ ہے جسے عزم مصمم کے پرتو میں تمام اسلامی اقوام طے کریں گي۔
آپ نے تین عشرے قبل ملنے والی اسلامی انقلاب کی کامیابی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایرانی قوم کے بابرکت انقلاب کی کامیابی کو بتیس سال گزرنے کے بعد اسلامی بیداری انہیں جذبات اور انہیں امنگوں کے ساتھ اسلامی اور عربی مشرق وسطی میں پھیل رہی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے موجودہ صدی کو اسلام کی صدی اور اقوام کا عہد بتایا اور مصر کے التحریر اسکوائر کی تحریک سے واشنگٹن اور یورپی دارالحکومتوں میں نوجوانوں اور روشن فکر افراد کو ملنے والے حوصلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تحریک آئندہ چل کر پوری انسانیت کے مستقبل پر اثر انداز ہوگي۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ نے پٹھو آمروں سے عرب اقوام کی جد و جہد اور غربت، پسماندگی اور حقارت سے ان اقوام کے تنگ آ جانے اور سوشلزم، لبرلزم اور سیکولر نیشنلزم سے عرب اقوام کے دھوکا اٹھانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مصر اور تیونس کے انتخابات اور یمن، بحرین اور دیگر عرب ممالک کے عوام کے نعروں اور ان کی کارکردگی سے پتہ چلتا ہے کہ سبھی یہ چاہتے ہیں کہ موجودہ دور کا مسلمان افراط اور تفریط سے دور ہو اور سبھی کا یہ خیال ہے کہ اقوام، معنویت، انصاف اور عقل پسندی جیسی باتوں کے زیر سایہ اور مذہبی جمہوریت کی روش پر بھروسہ کرکے تحقیر، ظلم، استعمار، بدعنوانی، غربت اور امتیازی سلوک سے نجات حاصل کر سکتی ہیں۔
آپ نے دین کی مخالفت، اغیار پر انحصار، آمریت، صیہونیت کے ساتھ تعاون اور اس کے اتباع، قانونی آزادی کے فقدان اور عوام کی غربت اور پسماندگی کو نظر انداز کیے جانے کو پٹھو حکومتوں کی خصوصیات میں شمار کیا اور کہا کہ ان خصوصیات سے اقوام کی مخالفت عرب اور اسلامی قوموں کی تحریکوں کی ماہیت کی شناخت کی سب سے واضح علامت ہے اور ان انقلابوں کے مستقبل کو انہیں کسوٹیوں پر پرکھا جائے گا۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ نے عرب اقوام کے انقلابوں کو انقلاب مخالف تحریک میں تبدیل کرنے کی مغرب کی کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان ملکوں کے عوام اور انقلابیوں کو مسلسل ہوشیار رہنے کی سفارش کی اور کہا کہ ایران، عراق، لبنان اور فلسطین میں اپنی یکے بعد دیگرے شکستوں سے سبق حاصل کرکے مغرب یہ جان چکا ہے کہ اسلام کی مخالفت اور علی الاعلان تشدد پسندانہ رویہ ناکام ہو چکا ہے بنابریں وہ اس کوشش میں ہے کہ انقلابوں کی ماہیت کو تبدیل کرنے اور جعلی نمونے پیدا کرکے انقلابوں کو کنٹرول کر لے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مغرب کی اس نئ چال کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ سامراجیوں کی کوشش ہے کہ شہادت پسندی کی جگہ پر دہشت گردانہ اقدامات، اسلام و جہاد پسندی کی جگہ پر تعصب، رجعت پسندی و تشدد، اسلام و قوم سے محبت کے بجائے قبائلی و فرقہ وارانہ جذبات اور پیشرفت و خودمختاری کے بجائے مغرب پرستی اور مغرب پر انحصار کو اقوام عالم پر مسلط کر دے ۔ ان کی کوشش ہے کہ ساز باز کو منطق، اخلاقی بد عنوانی و بد چلنی کو آزادی اور آمریت کو نظم و نسق و سلامتی کے نام پر اقوام عالم میں رائج کر دیں اور اس طرح سے اسلامی بیداری کی پر طوفانی لہروں پر قابو کریں اور اسے راستے سے ہٹا دیں -
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سرمایہ کاری اور کمیونزم کے دو بلاکوں کے خاتمے کی سمت اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اب مسلمانوں کی قیادت میں دنیا کے مظلوموں اور امریکہ، نیٹو اور عالمی صیہونیزم کی قیادت میں سامراجیوں کے بلاکوں کے درمیان مقابلہ آرائی ہے اور تیسرا کوئی محاذ موجود نہيں ہے ۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی و عرب انقلابوں ميں نظر آنے والے اہم عناصر کی تشریح کرتے ہوئے ان میں سے تین عناصر پر زور دیا؛ ایک امریکہ نیٹو، صیہونی حکومت اور اس کے اتحادی اور ایجنٹ، دوسرے قومیں اور نوجوان اور تیسرے اسلامی و غیر اسلامی جماعتیں اور سیاسی کارکن۔
قائد انقلاب اسلامی نے پہلی قسم یعنی امریکا، صیہونیت اور ان سے وابستہ افراد کو مصر، تیونس اور دیگر ممالک میں اصلی ہار کا سامنا کرنے والا قرار دیا اور اس محاذ کے عالمی اعتبار کو لگنے والے جھٹکے اور فیصلے کی طاقت کے فقدار سے بحران کی گہرائی میں ان کے ڈوب جانے کی سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ قوموں کی بیداری پر قابو پانے میں ناکامی کے بعد اب یہ کوشش کر رہے ہيں کہ انقلاب کے مراکز پر قابض ہو جائيں اور موثر جماعتوں میں در اندازی کرکے، عوام میں اختلافات پیدا کریں اور مختلف دیگر طریقوں سے ماضي کے بدعنوان ڈھانچے کو قائم رکھیں، اسلامی بیداری سے ہونے والے بھاری نقصان کی تلافی کریں اور علاقے کی پٹھو حکومتوں کو تیل کے بدلے حاصل ہونے والے ڈالروں کی مدد سے، صیہونی حکومت کا تحفظ کرنے کے ساتھ ہی اسلامی مزاحمتی تحریک پر وار کریں ۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی بیداری کے عمل میں قوموں کو سب سے زیادہ موثر عنصر قرار دیا اور ان قوموں کے درمیان اسلامی معیارات و رجحانات اور ان میں امریکا و اسرائیل سے نفرت کے برانگیختہ جذبات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قیام کرنے والی قوموں کو یہ جان لینا چاہئے کہ ان کا انقلاب ابھی ختم نہیں ہوا ہے، اس بنا پر بیدار ذہن اور بھرپور طاقت کے ساتھ جو راہ شروع کی ہے اسے جاری رکھنا ہے -
قائد انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں زور دیا کہ مصری قوم، فلسطینی اہداف کے دفاع میں دوبارہ صف اول میں کھڑی ہوگی اور غداری پر مبنی کیمپ ڈیویڈ معاہدے کو پیروں تلے روند کر حسنی مبارک کی آمرانہ حکومت کی جانب سے صیہونی حکومت کو حاصل امداد کا سلسلہ بند کر دے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی بیداری کے عمل میں تیسرے عنصر یعنی جماعتوں اور سیاسی شخصیتوں سے بھی بیدار رہنے، امریکہ و نیٹو کے وعدوں پر اعتماد نہ کرنے، اسلام دشمن طاقتوں کی کھوکھلی دھمکیوں سے نہ ڈرنے، عرب ملکوں میں مغرب کی اتحادی اور اس سے وابستہ حکومتوں کے تیل سے حاصل کئے گئے ڈالروں کے کھیل سے دور رہنے، قوموں کی اسلامی شناخت کی بازیابی کے عمل میں تعاون کرنے، دینی جمہوریت پر اعتماد رکھنے، امریکی و برطانوی اسلام پر اعتماد نہ کرنے، اصولوں پر ڈٹے رہنے، مصلحت کوشی سے دوری اور حکمت و منطق پر بھروسے کی سفارش کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے عرب قوموں کی سیاسی جماعتوں اور شخصیتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کا اصل مسئلہ حکومت کی تشکیل، آئین کی تدوین اور ملک و انقلاب کا نظم نسق سنبھالنے کی نوعیت ہے اور ضروری ہے کہ اس انتہائي حساس دور میں اپنا تاریخی کردار ادا کرکے، جمہوری طریقوں سے اور منطق و علم کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے سماج کی تشکیل کریں۔ قائد انقلاب اسلامی نے مسلمانوں کے انقلابوں کو منحرف کرنے کے لئے مغرب کے دو طریق کاروں یعنی تکفیری و انتہا پسندی کی شکل میںدکھائے دینے والے اسلام اور ماڈرن اسلام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے زور دیا کہ اقوام کے مستقبل کے تعین پر اثر انداز ہونے والے افراد اور دھڑوں کو آگے بڑھ کر، اصول پسند، اعتدال پسند اور منطقی اسلامی ماڈل کو استحکام عطا کرکے ان گمراہ کن کاوشوں کو ناکام بنانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دوسرے خطبے کے آخر میں انقلاب لانے والی قوموں کے ساتھ تعاون اور ان کی مدد پر اسلامی جمہوریہ ایران اور عظیم ایرانی قوم کی آمادگی پر زور دیا اور فرمایا کہ اسلامی انقلاب، عصر جدید کا سب سے زیادہ کامیاب اسلامی تجربہ ہے اور قوموں کو یہ سکھاتا ہے کہ مغرب و صیہونیت کی زور زبردستی، پابندیوں اور دھمکیوں کے مقابلے میں ڈٹ جانا اور اسی کے ساتھ ترقی و پیشرفت کی بلندیوں کو سر کرنا ممکن ہے اور اسی لئے ایرانی قوم کی پیشرفت و استقامت سے غیظ و غضب میں مبتلا سامراجی طاقتيں ایرانی قوم اور دیگر مسلمان اقوام کے درمیان بڑھتے رابطوں کو روکنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
آپ نے اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے افغانستان، بوسنیا، لبنان، عراق، فلسطین اور دیگر مظلوم قوموں کی امداد اور حمایت کا ذکر کرتے ہوئے زور دیا کہ مسلم عرب قوموں کو، ایرانوفوبیا اور ایران و دیگر مسلمانوں کے درمیان شیعہ و سنی کے نام پر اختلافات پیدا کرنے کی سازشوں کی طرف سے ہوشیار رہنا ہوگا کیونکہ ایران کا جمہوری نظام کسی بھی صورت میں عربوں کو ایرانی یا مسلمانوں کو شیعہ بنانے کی کوشش میں نہیں رہا ہے اور نہ رہے گا بلکہ تمام علمی، سیاسی و معاشی شعبوں میں اپنی غیر معمولی ترقی کے ساتھ، اپنے بے مثال تجربات کو اسلامی امت کی طاقت، ترقی، اتحاد و برادری کے لئے استعمال کرنے پر تیار ہے۔