قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عید بعثت پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے موقع پر فرمایا کہ نور بعثت کی بے شمار کرنوں میں سے دو کی آج انسانی معاشرے کو اشد ضرورت ہے۔ ایک ہے فکر و تدبر کا برانگیختہ ہونا اور دوسرے تہذیب اخلاق۔
عید بعثت کے موقع پر پیر کے روز اسلامی نظام کے اعلی عہدیداروں، تہران میں متعین اسلامی ممالک کے سفیروں اور شہداء کے لواحقین سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران اور امت اسلامیہ کو اس عید سعید کی مبارکباد پیش کی اور فرمایا کہ دین محمدی کی جانب قوموں کی نشاط انگیز رغبت سے ثابت ہوتا ہے کہ طویل تجربات کے بعد قوموں کو اس حقیقت کا ادراک ہو گیا ہے کہ مشرق و مغرب کے مادی مکاتب فکر انسانی ضرورتوں کی تکمیل سے قاصر اور بے سود ہیں اور صرف بعثت کی تعلیمات سے ہی بنی آدم کو حقیقی سعادت و پیشرفت نصیب ہو سکتی ہے۔ آپ نے بعثت کی دو اہم ترین تعلیمات یعنی فکر و تدبر اور تزکیہ نفس سے انسانی معاشرے کی دوری کو مشکلات کا بنیادی سبب قرار دیا اور فرمایا کہ اخلاقی انحطاط اور پستی سے انسانوں کی نجات بعثت پیغمبر کا نصب العین ہے اور اگر اس میں کامیابی مل جاتی ہے تو قوموں کی تمام اہم مشکلات کے ازالے کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔ قائد انقلاب اسلامی کے بقول فکر و تدبر کی قوت کو حرکت میں لانا انبیائے الہی کی بعثت کا دوسرا بنیادی ہدف ہے۔ آپ نے فرمایا کہ آج انسانی معاشرے کو غور و فکر کرنے اور ان مشکلات کی جڑوں کو تلاش کرنے کی شدید ضرورت ہے جنہوں نے قوموں کو اپنے حصار میں مقید کر رکھا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے کے بعض ممالک میں تسلط پسند طاقتوں کے آشکارا مظالم اور مہلک کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ عالمی استبدادی طاقتوں کے سیاہ نقطہ نگاہ کے مطابق انسان کی کوئی قدر و وقعت نہیں ہے، چنانچہ مغربی ممالک کے اقتصادی بحران کے قضیئے میں پوری دنیا گواہ ہے کہ تسلط پسند طاقتیں صرف سرمایہ دارانہ نظام کے تحت کام کرنے والے بینکوں اور کمپنیوں کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے کوشاں ہیں، عوامی مشکلات کی انہیں کوئی فکر نہیں ہے۔ آپ نے قوموں کو ان حقائق کا بغور جائزہ لینے کی ایک بار پھر دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ ان تمام مشکلات کی جڑ دنیا پر حکمفرما تسلط پسندانہ نظام اور دنیا کے ملکوں کی تسلط پسند اور تسلط کا شکار ممالک کے درمیان تقسیم بندی ہے اور اس مشکل سے نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ تسلط کے شکار ممالک بے عملی کا سلسلہ ختم کرکے خود کو اس پوزیشن سے باہر نکالیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے کی قوموں کے انقلابوں کو ان کے اصلی راستے سے منحرف کرنے اور انہیں سبوتاژ کرنے کے لئے استعماری طاقتوں کی بلا وقفہ کوششوں کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ قومیں فکر و خرد کے خداداد خزانے کی مدد سے اور نصرت الہی کے وعدوں کے تعلق سے حسن ظن کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائیں اور تسلط پسند طاقتوں کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں۔ آپ نے عظیم الشان ملت ایران کے وقار و اقتدار کو استقامت و مزاحمت کے نمایاں ثمرات قرار دیا اور اسلامی جمہوریہ کی دشمنی میں عالمی استکباری طاقتوں کی باہمی ساز باز کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ گزشتہ تینتیس سال کے دوران ذی فہم ایرانی قوم اور ہمارے ملک کو تمام عالمی طاقتوں نے اپنی سازشوں کی آماجگاہ بنائے رکھا تا کہ وہ دیگر اقوام کی نگاہ میں استقامت و پیشرفت کا نمونہ اور آئیڈیل نہ بن جائے لیکن استعماری طاقتوں کی ملت ایران کو میدان سے خارج کرنے کی تمام تر کوششیں فضل پروردگار سے اس بار بھی ناکام اور بے سود ثابت ہوں گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے حرکت، مجاہدت اور بے خوفی کے ساتھ خطرات سے مقابلے کو نصرت الہی کے وعدے کے ایفاء کی شرط قرار دیا اور قرآنی آیات کی روشنی میں فرمایا کہ فتح کے وعدے کے ایفاء کے لئے صرف مومن ہونا ہی کافی نہیں بلکہ مجاہدت اور صبر و استقامت بھی ضروری ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کے دشمنوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ آپ مجاہد و صابر ملت ایران کے خلاف اپنے ناکام تجربات سے عبرت لیجئے اور یاد رکھئے کہ اس قوم کے مقابل تکبر، اپنی قوت کے بارے میں مغالطے اور بیجا مطالبات سے آپ کو کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے جس نے قرآن سے استقامت و اتحاد کا سبق لیا ہے اور جو خود شناسی کی منزل تک پہنچ چکی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے شیعہ و سنی فرقوں کو ایک دوسرے سے ہراساں کرنے کی دشمنان اسلامی کی منصوبہ بندی کا حوالہ دیا اور اتحاد کو عالم اسلام کی اہم ترین ضرورت بتایا۔ آپ نے بعض عناصر کی جانب سے جاری تفرقہ انگیزی کی کوششوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے عناصر جو اسلام کو نہیں مانتے اور جنہیں تشیع اور تسنن کی کوئی تمیز بھی نہیں ہے استعماری ممالک کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے اشارے پر تفرقہ و منافرت کا بیج بوتے اور تشویشناک لہجے میں مذہب تشیع کا دائرہ بڑھنے کی بات کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے مسلمان قوموں سے دانشمندانہ روش اختیار کرنے اور اتحاد و استقامت کی سفارش کرتے ہوئے یہ امید ظاہر کی کہ عنایت خداوندی سے ملت اسلامیہ اپنے دشمنوں پر غالب آئے گی اور بعثت رسول اعظم کے اہداف پورے ہوں گے۔
نشست میں صدر مملکت، پارلیمنٹ اسپیکر، عدلیہ کے سربراہ اور تشخيص مصلحت نظام کونسل کے سربراہ بھی تشریف فرما تھے۔ نشست کے آغاز میں صدر محمود احمدی نژاد نے عید بعثت پیغمبر کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ انسانیت کو دوسرے کسی بھی دور کی نسبت عصر حاضر میں الہی تعلیمات اور بعثت کے پیغامات کی زیادہ ضرورت ہے۔ صدر احمدی نژاد نے انسانی معاشرے کی ضرورتوں کے ادراک و تکمیل میں مادی طاقتوں کی ناتوانی اور بے بضاعتی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ کے بابرکت وعدوں کے مطابق اور قوموں کی بیداری و پائيداری کے نتیجے میں استکباری طاقتوں اور صیہونیوں کی بساط یقینی طور پر لپیٹ دی جائے گی اور انسانیت کی پیشرفت و سعادت اور امن و سکون کا باب وا ہوگا۔