بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
والحمد للہ ربّ العالمین والصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین۔ الحمد للہ الّذی جعلنا من المتمسّکین بولایۃ علیّ بن ابی طالب امیر المومنین و الائمّۃ المعصومین (علیہ السّلام)
آپ سبھی حاضرین محترم، ایرانی عوام اور مسلمین عالم کو عید غدیر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ عید غدیر، صحیح معنی میں اور اپنے نمایاں ترین مفہوم میں سبھی مسلمین سے متعلق ہے۔ پورے عالم اسلام کو عید غدیر کا جشن منانا چاہئے، یہ حقیقی معنی میں عید اللہ الاکبر ہے۔
ہمارے عوام، عوامی شکل میں، سڑکوں پر طولانی مسافت میں عید غدیر کا جشن مناتے ہیں، میں اس پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ عوام کا جشن منانے کا یہ انداز بہت اچھا ہے۔
شہیدان خدمت کا چالیسواں بھی قریب ہے، فطری طور پر ایرانی عوام ان عزیزوں کو بھی یاد کریں گے۔ دوسری طرف عوام میں انتخابات کا جوش و خروش بھی پایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایام بہت اہم ہیں۔ اس مبارک عید، عید غدیر پر ہم سب کو خدا سے یہ دعا کرنی چاہئے کہ ہم یہ کام بھی اس طرح انجام دے سکیں جو ہمارا فریضہ ہے۔
آج میں واقعہ غدیر کے بارے میں اختصار کے ساتھ عرض کروں گا، چند جملے مولائے متقیان امیر المومنین (علیہ الصلاۃ و السلام) کے بارے میں بھی، صرف آپ سے اظہارعقیدت کے لئے عرض کروں گا اور اس کے بعد چند جملے انتخابات کے بارے میں گوش گزار کروں گا۔
یہ آپ برداران و خواہران عزیز سے، جو یہاں جمع ہیں، میری آج کی گزارشات کی فہرست ہے۔
عیدغدیر کے تعلق سے یہ عرض کرنا ہے کہ عید غدیر امیر المومنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کی خلافت کے اعلان کا دن ہے، ایک قرآنی تعبیر اس دن کے حوالے سے بہت اہم اور نمایاں ہے۔ وہ تعبیر یہ ہے کہ سورہ مائدہ کی ابتدائی آیات میں (خداوند عالم) فرماتا ہے کہ "الیوم یئس الّذین کفروا من دینکم" یعنی دس ہجری کی اٹھارہ ذی الحجہ کو جو غدیر اور امیر المومنین کی جانشینی کے اعلان کا دن ہے، کفار اس بات سے مایوس ہو گئے کہ وہ دین مبین اسلام کا قلع قمع کر سکتے ہیں۔ اس دن تک انہیں بدستور یہ امید تھی کہ یہ کام کر سکتے ہیں۔ لیکن اس دن مایوس ہو گئے۔ یَئِسَ الَّذینَ کَفَروا مِن دینِکُم فَلا تَخشَوھم وَ اخشَون (1) (فرماتا ہے) اب کفار کی ہیبت آپ کو مرعوب نہ کرے۔ کفارکے ظواہر، ان کے کاموں اور ان کی خودنمائی کو اہمیت نہ دیں۔ اپنے پرودگار کے سامنے اپنے اعمال کا خیال رکھیں۔ آیت (کا مفہوم) یہ ہے۔ کفار مایوس کیوں ہو گئے؟ اس لئے کہ یہ اسلام کی سیاسی حکمرانی کے دوام کی ضمانت ہے۔
ایک وقت تھا کہ عقیدہ اسلامی تھا، عمل بھی اسلامی تھا، لیکن سیاست اسلامی نہیں تھی، حکمرانی اسلامی نہیں تھی۔ لیکن جب اسلامی حکمرانی وجود میں آ گئی ، روح اسلام، میں عرض کروں گا، حقیقی معنی میں وجود میں آ جائے گی۔ روح اسلام امامت ہے، امامت انبیائے الہی کا اہم ترین مرتبہ ہے۔ یعنی ہر پیغمبر ایک امام ہے، مرتبہ امامت رکھتا ہے۔ پیغمبروں کے لئے مرتبہ امامت، رسالت سے بالاتر ہے۔ پیغمبروں کی رسالت کا مطلب ہے کہ پیغام الہی لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں، لیکن پیغمبروں کی امامت کا مطلب یہ ہے کہ رسالت کو لوگوں کے دل میں، لوگوں کی فکر میں اور لوگوں کے کام اور عمل میں نافذ کر دیتے ہیں۔ یہ ہیں امامت کے معنی۔ اسی لئےآپ دیکھتے ہیں کہ خداوندعالم حضرت ابراہیم علیہ السلام سے، آپ کے سخت ترین امتحانات کے بعد اور آپ کی عمر کے اواخر میں فرماتا ہے کہ :" و اِذِ ابتَلىٰ اِبراھیم ربّہ بِکَلِماتٍ فَاَتَمّھنّ قالَ اِنّی جاعِلُکَ لِلنّاسِ اِماما۔ خداوند عالم ان تمام حوادث کے بعد، ان تمام سخت امتحانات کے بعد آخر عمر میں ابراہیم سے فرماتا ہے کہ "اِنّی جاعِلُکَ لِلنّاسِ اِماما۔" اب تمہیں امامت کا درجہ ملا ہے۔ ہم عمر کے آخری حصے میں کیوں کہہ رہے ہیں؟ اس لئے کہ اس کے بعد ابراہیم کہتے ہیں: وَ مِن ذُرِّیَّتی؟(2) کیا میری ذریت میں بھی امامت موجود ہے؟ اور خداوند عالم انہیں جواب دیتا ہے۔ جناب ابراہیم کی ذریت ان کے بڑھاپے میں وجود میں آئی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بڑھاپے میں شاید نوے برس یا اس سے بھی زیادہ عمر میں دو بیٹوں کے باپ ہوئے۔ قرآن فرماتا ہے: "الحمد للہ الّذی وھب لی عَلَی الکِبَرِ اِسماعیلَ وَ اِسحاق" (3) امامت کے معنی یہ ہیں۔ خدا کے حکم سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اس امامت کو جاری رکھتے ہیں، لیکن اس امامت کا دوام سیاسی حکمرانی کے ساتھ ہونا چاہئے۔ بنابریں اعلان خلافت فرماتے ہیں۔ ولایت کا اعلان کرتے ہیں۔ "من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ" (4)
یہ بھی جان لیں کہ حدیث غدیر کو صرف شیعوں نے نقل نہیں کیا ہے، بلکہ یہ شیعہ اور سنی دونوں میں متواتر ہے۔ یہ حدیث کہ پیغمبر نے فرمایا: "من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ" سبھی نے یا بہت سے سنی محدثین نے نقل کی ہے۔
امامت جاری رہی تو اسلامی طرز زندگی بھی جاری رہے گا، جب معاشرے میں امامت کی حکمرانی ہوگی تو معاشرے کی زندگی کی شکل بھی اسلامی ہوگی، معاشرے میں اسلامی اسوہ بھی وجود میں آئے گا۔ اگر اسلامی حکمرانی ختم ہو جائے تو اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اسلامی زندگی، اسلامی سماجی زندگی بھی ختم ہو جائے گی۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے۔
ہمارے ائمہ (علیہم السلام) نے اسلام کی حکمرانی کے لئے ڈھائی سو برس کی زندگی میں جو کوشش کی ہے، جو مجاہدت کی ہے، اور وہ کام جو بعد میں شیعہ عمائدین انجام دیتے رہے ہیں، جو کام ہمارے امام ( امام خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اور ایرانی عوام نے اسلامی انقلاب کے لئے انجام دیا ہے، ان سب کا مقصد یہ تھا کہ امامت سیاسی حکمرانی پر استوار ہو اور یہ اس بات پر منتج ہو کہ معاشرے میں اسلامی زندگی رائج ہو۔
اسلامی زںدگی کا مطلب کیا ہے؟ سماجی اسلامی زندگی کیا ہے؟ اس کو قرآن میں، نہج البلاغہ میں اور احادیث میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اس میں "لیقوم النّاس بالقسط" (5) ہے۔ یعنی عدل و انصاف، اس میں "اشّداء علی الکفّار" (6) ہے یعنی دشمن کے سامنے حد بندی۔ اس میں "رحماء بینھم" (7) ہے یعنی مومنین کے دمیان آپس میں مہر و محبت۔ یہ بنیادی محور ہیں۔ ان میں سے کسی ایک میں بھی غفلت کی اور اس کو چھوڑ دیا تو اسلامی زندگی میں نقص آ جائے گا۔
اس اسوہ میں "عَزیزٌ علیہ ما عَنِتُّم" (8) ہے۔ یعنی حاکم معاشرہ کو عوام کی پریشانیوں کا اپنے پورے وجود سے، قلب سے احساس اور ادراک ہوتا ہے اور وہ انہیں محسوس کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے"عَزیزٌ علیہ ما عَنِتُّم" تم سختی اٹھاتے ہو تو تکلیف پیغمبر کو ہوتی ہے۔ یہ عوام کے تئيں حاکم کا جذبہ ہے اور عوام کی طرف سے "اَطیعُوا اللہ وَ اَطیعُوا الرَّسولَ وَ اُولِی الاَمرِ مِنکُم"(9) عوام بھی ساتھ دیتے ہیں، اطاعت کرتے ہیں، مدد کرتے ہیں، پیروی کرتے ہیں۔ اسلامی زندگی کے اس طرح کی ہزار یا شاید ہزاروں مثالیں قرآن میں، نہج البلاغہ میں اور صحیفہ سجادیہ میں اور روایات میں موجود ہیں اور تلاش کی جا سکتی ہیں۔ یہ غدیر کے معنی ہیں۔ غدیر تاریخ اسلام کے دوام کے لئے، اسلامی زندگی کا تحفہ پیش کرتی ہے۔ اب یہ کہ واقعہ غدیر کے بعد کیا ہوا، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ غدیر کا مطلب اسلامی اور خدائی حکمرانی کا دوام ہے تاکہ یہ حکمرانی امامت کے وسیلے سے اسلامی زندگی اور اس کی پیشرفت کا واضح اسوہ پیش کرے۔ یہ ہیں غدیر کے معنی۔ اس میں شیعہ اور سنی کے لئے کوئی فرق نہیں ہے۔ سبھی اسلامی فرقے اس سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ ہم غدیر کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ یہ سرچشمہ وحدت ہے۔ غدیر کو شیعہ سنی اختلاف کا بہانہ قرار نہ دیں۔ تو یہ غدیر سے متعلق ایک بات تھی۔
اب امیر المومنین ( علیہ الصلوات والسلام) کے بارے میں۔ ہم علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے بارے میں کیا کہیں؟ کیا معمولی انسان کا ذہن اور عام انسان کی چشم خرد اس خورشید کو دیکھ سکتی ہے؟ کیا اس پر نظر ڈال سکتی ہے؟ اور کیا اس پر اس کی نگاہ ٹک سکتی ہے؟ کیا یہ ممکن ہے؟ نہیں! امیر المومنین (علیہ السلام) کے جمال معنوی کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ ہم جیسے نہیں سمجھتے۔ امیرالمومنین علیہ السلام کے آسمانی مرتبے کو ہم نہیں جانتے۔ یعنی الفاظ بولے جاتے ہیں، ممکن ہے کہ ہمارے ذہن میں کوئی تصویر مجسم ہو لیکن اس روشن حقیقت کے معنی و مفہوم کا جس کے امیر المومنین مظہر ہیں، ہم صحیح ادراک نہیں کر سکتے۔ اس کا ادراک صرف ائمہ کو ہے، خود پیغمبر کو ہے۔ تو پھر ہم امیر المومنین سے کس طرح درس حاصل کریں؟ خود امیر المومنین کے کلمات سے جو نہج البلاغہ میں ہیں، اور الحمد للہ تدوین شدہ شکل میں موجود ہے۔ اسلامی معاشروں کے لئے یہ نہج البلاغہ بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ بھی شیعوں سے مخصوص نہیں ہے۔ نہج البلاغہ کی سب سے بڑی شرح ایک سنی ابن ابی الحدید نے لکھی ہے۔ اسی گزشتہ صدی میں، مصرکے معروف عالم دین محمد عبدہ نے شرح نہج البلاغہ لکھی ہے۔ یعنی نہج البلاغہ صرف شیعوں کی نہیں ہے۔ سبھی مسلمانوں کی ہے۔ یہ درس ہے، راستہ ہے، راستہ دکھاتی ہے، معیار بیان کرتی ہے، اصول بیان کرتی ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ ہم نہج البلاغہ کو دیکھ کر اور اسی طرح قرآن کریم کو دیکھ کر امیر المومنین علیہ السلام کی شخصیت کے پہلوؤں کو سمجھ سکتے ہیں تاکہ درس حاصل کریں۔ میں مختصر عرض کرتا ہوں کہ اگر کوئی بیٹھ کر امیر المومنین علیہ السلام کے فضائل بیان کرنا چاہے تو ایک گھنٹے، آدھے گھنٹے اور دس گھنٹے میں ممکن نہیں ہے، برسوں لگ جائیں گے۔ میں چند جملے عرض کرتا ہوں۔
آپ کے فضائل اتنے زیادہ ہیں کہ دوسری صدی کے معروف عالم، خلیل بن احمد کے بقول، دشمنوں نے بھی انہیں چھپایا اور دوستوں نے بھی، دشمنوں نے دشمنی میں اور دوستوں نے گھٹن کے ماحول کی وجہ سے، تقیے میں، خوف میں چھپایا اور بیان نہیں کیا۔ اس کے باوجود کہ دشمنوں نے بھی چھپایا اور دوستوں نے بھی چھپایا، فضائل امیر المومنین سے دنیا بھری پڑی ہے۔ اس کی ( خلیل بن احمد کی) تعبیر یہ ہے:" ملء الخافقین"۔ کون سی ایسی عظیم ہستی ہے کہ وہ لوگ بھی جو اس کے دین اور اس کے اعتقاد کو نہیں مانتے، وہ بھی اس کے بارے میں کئی جلدوں پر مشتمل کتاب لکھتے ہیں؟ یہ امیر المومنین علیہ السلام سے مخصوص ہے۔ یہ صرف علی بن ابی طالب سے مخصوص ہے۔ عیسائی ان کی بات کرتے ہیں، ہندو ان کی بات کرتے ہیں، بودھ ان کی بات کرتے ہیں، اہل سنت مسلمان برادران ان کی بات کرتے ہیں، جو شیعہ نہیں ہیں لیکن امیر المومنین کو قبول کرتے ہیں، آپ کے بارے میں کتاب لکھتے ہیں، ان کے بارے میں بولتے ہیں۔ آپ کے فضائل ایسے ہیں۔
اب چند جملے امیر المومنین (علیہ السلام) کی شخصیت اور زندگی کے بارے میں عرض کروں گا۔ آپ کے یہ سبھی پہلو اوج پر ہیں۔ پہلا یقین ہے۔ راستہ تلاش کرنے والے کو، کسی ہدف کی لگن میں چلنے والے کو راستے پر باقی رکھنے والی چیز کیا ہے؟ یقین۔ جو امید رکھتا ہے، نا امید نہیں ہوتا، مایوس نہیں ہوتا، شک میں نہیں پڑتا۔ امیر المومنین (علیہ السلام) یقین کے اوج پر ہیں۔ خود آپ کے الفاظ یہ ہیں کہ اِنّی … لَعَلىٰ بَصیرَة مِن نَفسی وَ یَقینٍ مِن رَبّی" (10) "لَو کُشِفَ الغِطاء مَا ازدَدتُ یَقینا " (11) البتہ مجھے نہج البلاغہ میں یہ جملہ نہیں ملا ہے۔ لیکن بہرحال آپ سے یہ جملہ نقل کیا گیا ہے۔ امیر المومنین (علیہ السلام ) کا یقین اس بلندی پر ہے۔
انسانوں کے تئیں احساس کے بارے میں۔ صرف مسلمانوں اور اپنے پیرووں کے ہی بارے میں نہیں بلکہ سبھی انسانوں کے بارے میں آپ کا احساس اوج پر ہے۔ نہج البلاغہ میں چند واقعات ہیں، میں ان میں سے یہاں ایک نقل کرتا ہوں۔ آپ کو خبر دی کہ شام کے لٹیرے اور شر پسند بدمعاش آتے ہیں، گودام پر حملہ کرتے ہیں (12) لوگوں کے گھروں پر حملہ کرتے ہیں، عورتوں کے ہاتھوں سے اور پیروں سے زیورات اتار لیتے ہیں، انہیں ایذائیں پہنچاتے ہیں، آزار دیتے ہیں۔ جب آپ کو یہ خبر دی تو آپ فرماتے ہیں:"فَقَد بَلَغَنی اَنَّ الرَّجُلَ منھم کانَ یَدخُلُ عَلَى المَراَة المُسلِمۃِ وَ الاُخرَى المُعاھدۃ فَیَنتَزِعُ حِجلھا۔"
دیکھئے! فرماتے ہیں مجھے خبر ملی ہے کہ یہ گھر کے اندر داخل ہوتے ہیں جس گھر میں عورت ہوتی ہے، عورت مسلمان ہے یا غیر مسلمان، اور اس کے بعد فرماتے ہیں: فَلَو اَنَّ امرَءاً مُسلِماً ماتَ مِن بَعدِ ھذا اَسَفاً ما کانَ بہ مَلوما" اگر مسلمان مرد اس واقعے پر، اس خبر پر، غم سے مر جائے تو قابل ملامت نہیں ہے۔ احساس دیکھئے! افراد معاشرہ کے تئيں بے خیالی اور اس کے مقابلے میں ایک ایک فرد معاشرہ کے لئے، حتی غیر مسلم عورت کے لئے یہ احساس کہ فرماتے ہیں کہ اگر مسلمان مرد اس پر غیرت سے، اس غم میں مر جائے کہ شام کے بدمعاش شر پسند گھر کے اندر داخل ہوتے ہیں، مسلمان اور غیر مسلمان عورت پر دست درازی کرتے ہیں تو "ما کان ملوما" تو اس کی ملامت نہیں کی جا سکتی۔ "بل کان بہ عندی جدیرا" (13) بلکہ مناسب ہے، سزاوار ہے کہ انسان غم سے مر جائے۔ حساسیت کا اوج دیکھیں! افراد معاشرہ، عوام کے ساتھ ہمدردی اس اوج پر ہے۔ یہ آمیر المومنین (علیہ السلام) کی شخصیت کا ایک گوشہ ہے۔
جہاں تک عدل کی بات ہے تو امیر المومنین کی عدالت کے بارے میں تو کوئی لب کشائی نہیں کر سکتا۔ عدالت علی کی توصیف ممکن نہیں ہے۔ میں آپ کا ایک جملہ نقل کروں گا۔ آپ فرماتے ہیں:" وَ اللہِ لَاَن اَبیتَ عَلی حَسَکِ السَّعدانِ مَسَهَّداً اَو اُجَرَّ فِی الاَغلالِ مُصَفَّداً "
"اگر مجھے سخت ترین ایذائیں دیں، میرے برہنہ جسم کو کانٹوں پر گھسیٹیں تب بھی" اَحَبُّ اِلَیَّ مِن اَن اَلقَی اللہ عَزَّ وَ جَلّ یَومَ القیامۃ ظالِماً لِبَعضِ العِباد" (14) یہ سب میرے لئے اس سے بہتر ہے کہ میں قیامت کے دن خدا سے اس حال میں ملوں کہ کسی پر مجھ سے ظلم ہوا ہو! اگر دنیا میں حد اکثر ایذائيں مجھے دیں، تو مجھے گوارا ہے لیکن کسی پر ظلم گوارا نہیں ہے۔
آپ ملاحظہ فرمائیں کہ یہ باتیں کون کر رہا ہے؟ جس کی حکومت مغرب سے مشرق تک ہے، ہمارے موجودہ ایران سے کئی گنا بڑی۔ وہ مملکت جس کے امیر المومنین حاکم تھے، اس مملکت کے امیر المومنین تھے، وہ دریائے جیحون سے دریائے نیل تک پھیلی ہوئی تھی۔ یعنی ایران، افغانستان، عراق اور مصر اس میں شامل تھے۔ صرف شام اس سے الگ تھا، جس کو معاویہ نے الگ کیا تھا بقیہ سب پر امیر المومنین کی حکومت تھی۔ آپ فرماتے ہیں کہ اتنی بڑی آبادی میں جو اس مملکت میں رہتی ہے، کسی ایک فرد پر ظلم ہو تو یہ میرے لئے اس سے زیادہ سنگین ہے کہ مجھے زندگی بھر ایذائيں دی جائيں! یہ عدالت امیر المومنین ہے۔
میں نے عرض کیا کہ عدالت امیر المومنین کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کی عدالت اتنی سںگین ہے اور آپ کی عدالت کی نشانیاں اتنی عجیب و غریب ہیں (کہ اس کی توصیف ممکن نہیں ہے) یہ بھی اوج پر ہے۔
دشمن کے مقابلے میں آپ کی ہوشیاری کو دیکھیں تو وہ بھی اوج پر ہے۔ اس سلسلے میں بھی میں نہج البلاغہ سے ایک جملہ عرض کروں گا۔ آپ فرماتے ہیں کہ "واللہ لا اَکونُ کَالضَّبُعِ تَنامُ عَلی طولِ اللَدم" (15) اس کا مطلب یہ ہے کہ میں ایسا انسان نہیں ہوں کہ دشمن کی لوری سے سو جاوؤں۔ (یعنی دشمن مجھے دھوکہ نہیں دے سکتا) بہت سے لوگ ہیں جو دشمن کی مسکراہٹ پر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔ دشمن لوری سنائے تو سو جاتے ہیں! امیر المومنین فرماتے ہیں کہ "وَ مَن نامَ لَم یُنَم عنہ" (16) اگر تم سو گئے تو معلوم نہیں ہے کہ دشمن بھی سو گیا ہو، وہ بیدار ہے۔ دشمن کی نوازش اور اس کی لوری مجھے نہیں سلا سکتی۔ یہ دشمن کے مقابلے میں ہوشیاری ہے۔ یہ بھی اوج پر ہے۔
ایک اور نکتہ آپ کی حکومت کے عوامی ہونے سے متعلق ہے۔ حاکم اور عوام کا ایک دوسرے پر حق۔ "وَ لَکُم عَلَیَّ مِنَ الحَقِّ مِثلُ الَّذی لی عَلَیکُم" (17) فرماتے ہیں جتنا حق میں تم پر رکھتا ہوں، آپ دیکھیں کہ عوام پر امیر المومنین کا حق کتنا بڑا ہے۔ آپ مظہر قوت الہی ہیں، مظہر رحمت خدا ہیں، مظہرعلم خدا ہیں، انسانوں پر آپ کا کتنا حق ہے؟ جتنا حق میں تم پر رکھتا ہوں، اتناہی حق تمھارا ہمارے اوپر ہے۔ اسلامی نظام کے عوامی ہونے کا مطلب یہ ہے۔
اب کچھ لوگ بیٹھیں اور کہیں کہ انتخابات، ڈیموکریسی اور عوامی حکمرانی اسلامی جمہوریہ ایران نے مغرب والوں سے لی ہے! تو کیا نہج البلاغہ مغرب والوں کی ہے؟! امیر المومنین (علیہ السلام) کی زبان میں حکومت کے عوامی ہونے کا مطلب یہ ہے۔ قرآن کریم میں بھی بے شمار آیات ہیں جن سے یہ مفہوم سمجھا جا سکتا ہے اور یہ کلام امیر المومنین ہے۔
آپ کا ایک جملہ اور ہے، وہ بھی عوام کی رائے کے احترام کی منزل میں ہے اور یہ بھی اوج پر ہے۔ "فلا تَکُفّوا عَن مَقالۃ بِحَقٍّ اَو مَشوِرَة " (18) امیر المومنین علیہ السلام معدن حکمت ہیں، معدن علم ہیں، آپ کا علم، علم خدا سے متصل ہے، آپ کا علم عام وسائل سے حاصل نہیں ہوا ہے۔ ایسا انسان، اتنی علمی عظمت پر فائز انسان کہتا ہے کہ "فلا تَکُفّوا عَن مَقالۃ بِحَقٍّ اَو مَشوِرَة " اگر حق بات تمہاری نظر میں آئی کہ مجھ سے کہنا چاہئے تو کہہ دو، خاموش نہ رہو۔ اور "مشورۃ بعدل"، یا کسی وقت مجھے کوئی مشورہ دینا چاہو، کوئی بات تمھاری نظر ميں آئی ہے کہ مجھے اس کا مشورہ دو،( تو دے دو) ہر چیز اور ہر پہلو اوج پر ہے!
ایک اور نکتہ جو ملک کے بارے میں فیصلے میں عوام کی مشارکت اور اس کی تاثیر سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ " وَ لَا امرُؤٌ وَ اِن صَغَّرَتّہ النُّفوسُ وَ اقتَحَمَتہ العُیونُ بِدونِ اَن یُعینَ عَلَى ذلک"(19) کوئی فرد چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو اور آپ اس کو نظرانداز کرنا چاہیں اور نظرانداز کر سکتے ہوں، وہ ملک کے مستقبل کے فیصلے میں بے تاثیر نہیں ہو سکتی۔ یعنی معاشرے کے معمولی ترین افراد، غریب ترین افراد اور لاچار ترین افراد بھی ملک کے مستقبل کے فیصلے میں موثر ہیں۔
یہ امیر المومنین (علیہ السلام) کی شخصیت کا صرف ایک گوشہ ہے۔ سادہ زبان میں عرض کرنا چاہیں تو کہنا چاہئے کہ امیر المومنین (علیہ السلام) کی شخصیت کے سو پہلو ہیں۔ یہ چند پہلو ہم نے خود آپ کے کلمات کا سہارا لے کر بیان کئے اور دیکھا کہ ان تمام پہلوؤں میں امیر المومنین اوج پر ہیں۔ صرف انہیں پہلوؤں ميں نہیں بلکہ سبھی پہلوؤں میں آپ اوج پر ہیں۔ آپ کا زہد، آپ کی عبادت، آپ کا اخلاص، آپ کی بخشش، آپ کی سخاوت، میں نے عرض کیا کہ اگر کوئی اس بارے میں بولنا چاہے تو ایک گھنٹے اور دو گھنٹے کی بات نہیں ہے بلکہ دنوں، مہینوں اور برسوں بیٹھ کے بولے۔ خود آپ کے کلام کی روشنی میں آپ کی شخصیت کے دیگر پہلوؤں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
نہج البلاغہ سے انسیت پیدا کریں۔ میں نوجوانوں سے تاکید کروں گا کہ نہج البلاغہ کو حفظ کریں۔ خوش قسمتی سے نہج البلاغہ کے بہت اچھے ترجمے ہوئے ہیں جو سب کی دسترس میں ہیں۔ نہج البلاغہ پڑھئے، دیکھئے کہ امیر المومنین ہمیں کیا درس دیتے ہیں اور آپ کی شخصیت میں کیا ہے۔ امیر المومنین (علیہ السلام) جو بیان فرماتے ہیں، ان تمام اقدار کا اعلی ترین مظہر خود آپ کا وجود مبارک ہے۔ دیگر ائمہ (علیہم السلام) کے کلمات بھی اسی طرح ہیں۔
یہی عید غدیر کی جو زیارت ہے۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام سے منقول ایک بہت ہی معروف اور عظیم مشروح زیارت ہے۔ یہ زیارت معتبر سند کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور مفاتیح میں موجود ہے۔
حضرت امام علی نقی (علیہ السلام) امیر المومنین کے بارے میں اتنی تفصیل سے کیوں بیان فرماتے ہیں، اس سلسلے میں میرا ایک تجزیہ ہے اس کے بارے میں زیادہ نہیں بولوں گا۔
حضرت امام علی نقی (علیہ السلام) اس زیارت میں قرآن کریم کی دسیوں آیات کا حوالہ دیتے ہیں اور انہیں امیر المومنین (علیہ السلام) سے تطبیق دیتے ہیں۔ امیر المومنین (علیہ السلام) کے بارے میں یہ ساری باتیں کرنے کے بعد، شاید مفاتیح میں دس بارہ صفحے میں ہے، حضرت امام علی نقی (علیہ السلام) اپنے جد بزرگوار سے فرماتے ہیں کہ "فَما یُحیطُ المادِحُ وَصفَک" آپ کی مدح کرنے والا آپ کی توصیف نہیں کر سکتا۔ یہ ممکن نہیں ہے! امیر المومنین (علیہ السلام ) کے بارے ميں ان تمام باتوں کے بعد جو دس بارہ صفحے میں ہے، امام علی نقی (علیہ السلام) جو خود بھی امام ہیں، عظیم آسمانی ہستی ہیں، کہتے ہیں" فَما یُحیطُ المادِحُ وَصفَک وَ لا یُحبِطُ الطّاعِنُ فَضلَک" (20) آپ کے دشمن اور مخالف کے لئے، آپ کی ان عجیب صفات کو چھپانا اور پنہاں کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ ہے توصیف امیر المومنین (علیہ السلام)۔
درس حاصل کریں، سیکھیں۔ امیر المومنین (علیہ الصلاۃ والسلام) کا نام، اسم مبارک، آپ کی مدح میں جو کچھ کہا گیا ہے، وہ ہماری دسترس میں ہے، لیکن میں ایک بار پھر اعادہ کرتا ہوں کہ یہ کافی نہیں ہے۔ امیر المومنین (علیہ السلام) معلم ہیں، ان کے سامنے تعظیم سے زانو تہہ کریں، آپ سے سیکھیں۔ سبھی سیکھیں۔ اعلی حکام بھی سیکھیں اور عوام بھی سیکھیں، اعلی افسران بھی سیکھیں اور مجھ جیسے حقیر بندے اور طلبہ بھی سیکھیں، سبھی عوام سیکھیں۔ میں نے عرض کیا کہ امیر المومنین (علیہ السلام) مظہر اعلائے امامت ہیں۔ امامت معاشرے میں اسلامی زندگی کے بیان اور اس کے نفاذ پر تاکید کی ذمہ دار ہے۔ اس زندگی کو سیکھیں۔ البتہ انقلاب نے مدد کی ہے۔ انقلاب تبدیلی لایا ہے۔ ایران کے عوام اس سے پہلے پوری طرح غفلت میں تھے۔ ہم سب۔ امام بزرگوار( امام خمینی رحمت اللہ علیہ) پر خدا کی رحمت ہو، انقلاب کی پیشرو شخصیات پر خدا کی رحمت ہو جن میں سے بہت سی شہید ہو گئيں۔ انھوں نے زحمتیں کیں، کام کیا، محنت کی، انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا، الحمد للہ کسی حد تک ہمیں واقف کیا۔ خدا کی رحمت ہو ایرانی قوم پر۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ پر لیکن ہم اب بھی انہیں ابتدائی مراحل میں ہیں۔ ہمیں بہت راستہ طے کرنا ہے۔ بہت کام کرنا ہے۔ یہ غدیر اور امیر المومنین (علیہ السلام) کے بارے میں کچھ باتیں تھیں۔
چند جملے انتخابات کے تعلق سے۔ براداران و خواہران عزیز! انتخابات بہت اہم ہیں۔ تین دن بعد ایرانی عوام کا ایک بہت بڑا امتحان ہے۔ ایک لحاظ سے یہ انتخابات ہمیشہ سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ تقریبا چالیس دن قبل، بہت اچھے، مقبول، عوامی، ماہر، کام کرنے والے صدر شہید ہو گئے، عوام بھی انہیں چاہتے تھے، ان کے جنازے میں پورے ملک میں دسیوں لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ یہ سب افتخار کی باتیں ہیں، ان کے چالیسویں کے موقع پر لوگ انتخابات میں شرکت کر رہے ہیں، یہ بہت اہم ہے۔ دنیا میں اس کی نظیریں بہت کم ملیں گی۔ ایرانی عوام یہ کام کر رہے ہیں۔
امید ہے کہ خداوند عالم ایرانی قوم کو اس الیکشن میں سرافراز کرے گا۔ سرافرازی کیا ہے؟ سرافرازی کے دو معنی ہیں۔ پہلے درجے میں عوام کی حد اکثر شرکت اور بعد کے مرحلے میں باصلاحیت ترین فرد کا انتخاب۔ دونوں ہی اہم ہیں۔ عوام کی حداکثر مشارکت پر ہم ہمیشہ اصرار کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ حد اکثر مشارکت کا اہم ترین نتیجہ اسلامی جمہوریہ کی سرافرازی ہے۔
اسلامی جہموری نظام کو اپنی تشکیل کے وقت سے ہی، سخت ترین دشمنوں کا سامنا ہے۔ ان سے جو بھی ہو سکا، اسلامی جمہوریہ کے خلاف انہوں نے کیا۔ اب بھی کر رہے ہیں، مستقل سازشیں کر رہے ہیں، جنہیں میں نے مختلف تقاریر میں بیان کیا ہے۔ ان کی سازشوں کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ الحمد للہ ان کی بعض سازشوں کو بے نقاب کیا تاکہ دیکھا جائے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ اب بھی سازشوں میں مشغول ہیں۔
اسلامی جمہوریہ کے دشمن ہیں۔ ایک چیز جس نے اسلامی جمہوریہ کو دشمنوں پر غالب کیا ہے، الیکشن ہے۔ اگر انتخابات میں عوام کی مشارکت زیادہ ہو تو یہ اسلامی جمہوریہ کے لئے سرافرازی ہے۔
عوام کی مشارکت اسلامی جمہوریہ کی سرشت ميں ہے۔ اسلامی جمہوریہ یعنی عوام۔ اسلامی جمہوریہ کا مطلب یہ ہے کہ عوام، عام لوگ اسلامی راہ و روش سے میدان میں آئيں۔ اس میدان کے مظاہر بہت ہیں، جن میں سے اہم ترین الیکشن اور ملک کے حکام کا تعین ہے۔ عوام کے میدان میں آنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ حقیقی معنی میں جمہوریہ ہے۔ بنابریں دشمنوں کی زبان خاموش ہوجاتی ہے۔ جس الیکشن میں بھی عوام کی مشارکت کم رہی ہے اس کے بعد اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں اور مخالفین کی ملامت بڑھ گئی ہے۔ جب ٹرن آؤٹ زیادہ ہو تو بدخواہوں کی زبان بند ہو جاتی ہے۔ پھر وہ سرزنش نہیں کر سکتے۔ خوشی نہیں منا سکتے۔ میں عوام کی زیادہ مشارکت پر اسی لئے اصرار کرتا ہوں۔ بنابرین پہلا عنصر، عوام کی مشارکت ہے۔ عوام کاہلی نہ کریں، بے اعتنائی نہ برتیں، معمولی نہ سمجھیں، ملک کے ہر گوشے میں شرکت کریں۔ مشارکت صرف شہروں سے اور بڑے شہروں سے تعلق نہیں رکھتی ۔ سبھی آبادیوں میں، دیہی بستیوں میں، تحصیلوں میں، قصبوں میں عوام انتخابات میں حصہ لیں تاکہ دنیا میں اسلامی جمہوریہ سرافراز ہو۔
دوسرا نکتہ باصلاحیت ترین کا انتخاب ہے۔ باصلاحیت ترین کے انتخاب کا مطلب کیا ہے؟ 'اصلح' یا سب سے زیادہ باصلاحیت وہ ہے جو پہلے درجے میں انقلاب کے بنیادی اصولوں پر اور اسلامی نظام پر قلبی اور حقیقی یقین رکھتا ہو۔ "علی بصیرۃ و علی یقین" جیسا کہ میں نے امیر المومنین علیہ السلام کے کلمات کے بارے میں عرض کیا، اسی طرح اس راہ پر بھی یقین رکھتا ہو۔ یہ ایک بات ہے۔
ہمارے مرحوم صدر جمہوریہ، شہید خدمت، رئیسی عزیز، حقیقی معنی میں اس پر یقین رکھتے تھے۔ میں پہلے سے انہیں پہچانتا تھا، تقریبا تین سالہ دور صدارت میں مسلسل مجھ سے ملا کرتے تھے، پوری طرح محسوس ہوتا تھا کہ دل و جان سے، پورے یقین کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ تو ایک بات یہ ہے کہ اعتقاد اور یقین رکھتا ہو اور دوسرے یہ کہ کارآمد بھی ہو۔ دن رات نہ دیکھے۔ کام کرے۔ کام کرنے کی توانائی رکھتا ہو۔ اچھے لوگوں اور اچھے ساتھیوں سے کام لے۔ اس سلسلے میں، میں آخر میں کچھ عرض کروں گا۔ اسلامی انقلاب کے بنیادی اصولوں پر اعتقاد اور یقین کے ساتھ کام کی توانائی اور جذبہ، صلاحیت کا موجب ہوتا ہے۔ اگر صلاحیت ہو تو یہ شخص ان خصوصیات کے ساتھ ملک کی سبھی گنجائشوں کو بروئے کار لاتا ہے۔
میں نے یہاں ملک کی گنجائشوں اور تونائیوں کی ایک فہرست لکھی ہے، اگر وضاحت اور تشریح کروں گا تو بات بہت طولانی ہو جائے گی۔ اس ملک میں وسائل بہت ہیں۔ بعض وسائل قدرتی ہیں۔ بعض انقلاب کے بعد کے برسوں میں تدریجی طور پر وجود میں آئے ہیں۔ لیکن حکومتوں نے ان سے یکساں طور پر استفادہ نہیں کیا ہے۔ بعض نے استفادہ کیا ہے، اور بعض نے بہت اچھا استفادہ کیا ہے۔ یہ تیرھویں حکومت ان حکومتوں میں رہی ہے جس نے بہت اچھا استفادہ کیا ہے۔ اگر یہ حکومت جاری رہتی تو میں سمجھتا ہوں کہ ملک کی بہت سی مشکلات بالخصوص اقتصادی مشکلات حل ہو جاتیں۔ میں ان میں سے بعض کا ترتیب سے بغیر کسی تشریح کے ذکر کرتا ہوں۔
ملک کی اہم ترین توانائی، تعلیم یافتہ نوجوان آبادی ہے۔ مجھے پوری دنیا کا پتہ نہیں ہے لیکن علاقے کے ملکوں میں کسی بھی ملک میں، ہمارے ملک جتنے تعلیم یافتہ نوجوان نہیں ہیں۔
ایرانیوں کی ذاتی استعداد اور ذہانت بھی ایک توانائی ہے۔ ملک کے عظیم معدنیاتی ذخائر۔ صرف تیل اور گیس نہیں، میں نے ایک بار کہا تھا کہ (21) ہماری آبادی دنیا کی کل آبادی کی ایک فیصد ہے۔ لیکن ہمارے پاس دنیا کے بیس پچیس فیصد بنیادی معدنیاتی ذخائر ہیں۔یعنی آباد کے لحاظ سے کئی گنا زیادہ۔ یہ بھی ایک توانائی ہے۔ اس سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ہماری جغرافیائی پوزیشن۔ ہم شمال اور جنوب اور اسی طرح مشرق اور مغرب کے درمیان رابطہ پل بن سکتے ہیں۔ مرحوم رئیسی نے اس کے تمہیدی امور انجام دیے تھے اور ان میں سے بعض کام کئے جا رہے ہیں اور ان شاء اللہ آئندہ حکومت یہ کام صحیح طور پر انجام دے گی۔ یہ ملک کے لئے بہت اہم ہے۔
ہماری طولانی آبی سرحدیں، شمال اور جنوب کے سمندر، ہمارے پڑوسیوں کی تعداد، بڑے علاقائی بازار، اسّی ملین آبادی کی ہمارے اپنے ملک کی منڈی، ملک کا موسمیاتی تنوع ، پورے ملک میں پھیلا ہوا سڑکوں کا جال اور ریلوے نیٹ ورک، یہ سب وہ امتیازات ہیں جو الحمد اللہ مختلف حکومتوں میں حاصل کئے گئے ہیں۔
بلڈنگ کنسٹرکشن میں ہمارے لوگوں اور نوجوانوں کی تکنیکی توانائیاں، شاہراہوں، ڈیموں اور انواع و اقسام کی تنصیبات اور مراکز بنانے کی توانائیاں، انواع و اقسام کے وسائل تیار کرنے کی صلاحیت، اتنے بنیادی انفراسٹرکچر، یہ سب اہم توانائیاں ہیں۔ یہ ملک کی پیشرفت کی بنیادیں ہیں۔
فری کمرشیل زون، اگر ان سے صحیح استفادہ کیا جائے۔ اس طرح نہیں کہ طولانی عرصے تک ان سے غلط شکل میں کام لیا گیا۔ اگر صحیح استفادہ کیا جائے تو یہ فری کمرشیل زون یا خصوصی اقتصادی علاقے، ملک کی اہم توانائیاں ہیں۔
ہمارے ملک کی تہذیبی اور ثقافتی وراثتیں۔ یہ بھی اہم وسائل ہیں۔ سیاحت کے فروغ کے لئے ان سے کام لیا جا سکتا ہے۔
تقریبا پورے ملک کےعوام کا دینی ایمان۔ یہ بہت اہم ہے۔ ہمارے عوام واقعی ایسے مومن ہیں کہ شاید اسلامی ملکوں میں یہ بات بھی نادر ہو۔ ممکن ہے کہ ظاہری طور پر بعض امور میں شریعت کی صحیح پابندی نظر نہ آتی ہو لیکن ایسی اکثریت کہ جس پر 'سبھی' کا اطلاق ہو سکتا ہے، اسلامی اور دینی ایمان کی مالک ہے۔ اس سے بھی ملک کی پیشرفت کے لئے کام لیا جا سکتا ہے۔ جو امیدوار سب سے زیادہ باصلاحیت ہو، اس کی حکومت ان شاء اللہ ان گنجائشوں اور توانائیوں سے استفادہ کر سکتی ہے۔ جس کے اندر ان گنجائشوں اور توانائیوں سے استفادہ کرنے کی توانائی پائی جائے وہ با صلاحیت ترین ہے۔
ملک کے بعض سیاستداں اس طاقت یا اس طاقت سے وابستگی کا خیال رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس مشہور بڑی طاقت سے وابستگی کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ بعض اس طرح سوچتے ہیں۔ یا بعض کا خیال یہ ہے کہ پیشرفت کے سبھی راستے امریکا سے ہوکر گزرتے ہیں۔ نہیں! یہ کچھ نہیں کر سکتے۔ جن کی نگاہیں ملک کی سرحدوں سے باہر لگی ہوئی ہیں، وہ ان توانائیوں کو نہیں دیکھتے، جب نہیں دیکھتے تو ان کی قدر بھی نہیں جانتے۔ فطری طور پر ان کے پاس ان سے استفادے کا کوئی پروگرام بھی نہیں ہے۔
ہم جو یہ کہتے ہیں کہ آپ کی نگاہیں، بیرون ملک پر نہ ہوں، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جب نگاہ ملک سے باہر کی طاقتوں پر نہیں ہوگی تو انسان اندرونی توانائیوں کو دیکھنے، سمجھنے اور پہچاننے پر قادر ہوگا۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے خدا کے فضل سے اب تک ثابت کیا ہے کہ اغیار پر بھروسہ کئے بغیر، حتی ان کے موذیانہ اقدامات کے باوجود، ان کی طرف سے مشکلات وجود میں لانے کے باوجود، آگے بڑھ سکتا ہے اور اس نے پیشرفت کی ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ثابت کر دیا ہے۔ آئندہ بھی خدا کی قوت و نصرت سے، ایرانی قوم کسی کو بھی اپنے مستقبل کے فیصلے میں مداخلت اور اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ وہ اس کی قسمت کا فیصلہ کریں۔
جب ہم بعض اوقات اپنی گفتگو میں یا تقریر میں یہ باتیں کرتے ہیں تو بعض اس وہم میں مبتلا ہوتے ہیں یا لکھتے ہیں کہ یہ ملک کے گرد حصار کھینچنا ہے، دنیا سے رابطہ نہ رکھنا ہے۔ ہرگز نہیں! میں شروع سے کبھی بھی رابطے کا مخالف نہیں رہا۔ میں کم و بیش ان میں سے بعض حضرات کی عمر کے برابر عرصہ، سیاست میں، انقلاب کے مسائل اور ملک کے مسائل میں مشغول رہا ہوں۔ شروع سے ہی ایک دو استثنا چھوڑ کر، میں پوری دنیا سے رابطے کا قائل رہا ہوں۔
ابتدائے انقلاب میں جنوبی افریقا تھا جہاں نسلی امتیاز کی حکمرانی تھی، ہم نے جنوبی افریقا سے اپنے روابط منقطع کئے تھے اور پھر جب وہاں نسلی امتیاز ختم ہو گیا تو ہم نے اپنے روابط بحال کر لئے اور اس وقت ہمارے روابط بہت اچھے ہیں۔
جو چیز روابط منقطع ہونے کا باعث ہے اس کو ختم ہونا چاہئے۔ ورنہ ہم پوری دنیا سے روابط کے حق میں ہیں اور الحمد للہ سبھی سے ہمارے روابط ہیں۔ بعض حکومتوں میں جو بنیادی اصولوں کی سخت پابند تھیں، جیسے شہید رئیسی کی حکومت تھی، دنیا سے ہمارے روابط کی تقویت ہوئی ہے۔ ہمارے بین الاقوامی روابط زیادہ مستحکم ہوئے ہیں۔
بنابریں جب ہم کہتے ہیں کہ ہماری نگاہیں اغیار پر نہ ہوں تو اس کا مطلب روابط منقطع کرنا نہیں ہے، بلکہ غیرت و شجاعت ملی ہے۔ ملی خودمختاری ہے۔ آپ کے اندر ملی شجاعت ہو، قومی خود مختاری ہو تو ایرانی قوم اپنی شخصیت، اپنی توانائی، اپنی خومختاری اور اپنی طاقت دنیا کو دکھائے گی، دنیا میں اس کا احترام بڑھے گا۔ جیسا کہ الحمد للہ ہوا ہے ۔ کامیابیاں بڑھیں گی۔
میری گزارشات ختم ہوئیں۔ میری دو نصیحتیں ہیں۔ ایک عوام کے لئے اور ایک صدارتی امیدواروں کے لئے ہے۔
عوام کے لئے میری نصیحت یہ ہے کہ ہم نے طاقتور اور سرافراز ایران کہا ہے، یہ سلوگن ہے۔ طاقتور ایران کے طرفدار بہت ہیں۔ ایران کے طاقتور ہونے کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ اس کے پاس انواع و اقسام کے میزائل ہوں، الحمد للہ ہمارے پاس ہیں، انواع و اقسام کے ہیں، مفید اور کارآمد ہیں، لیکن طاقتور ہونے کا مطلب صرف یہی نہیں ہے، طاقتور ہونے کے مختلف پہلو ہیں۔ علمی، ثقافتی، اقتصادی اور ایک پہلو سیاست کے میدان، انتخابات کے میدان میں عوام کی موجودگی ہے۔ یہ بھی طاقتور ہونے کی علامت ہے۔ بنابریں جو بھی یہ چاہتا ہے کہ ایران طاقتور ہو، وہ انتخابات میں شرکت کرے۔ جو بھی اسلامی جمہوری نظام کی حمایت ضروری سمجھتا ہے اس کو اس سلسلے میں زیادہ اہتمام کرنا چاہئے۔ یہ عوام کے لئے ہماری نصیحت ہے۔
صدارتی امیدواروں سے بھی میری گزارش اور تاکید ہے۔ میں ان محترم حضرات سے عرض کرتا ہوں کہ اپنے خدا سے عہد کریں کہ اگر جیت گئے اور ملک کی باگ ڈور ہاتھ میں لی تو جو لوگ انقلاب سے ذرہ برابر بھی انحراف رکھتے ہوں، انہیں اپنی حکومت میں شامل نہیں کریں گے۔ جو انقلاب، امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور اسلامی نظام سے ذرہ برابر بھی منحرف ہو، وہ آپ کے کام نہیں آئے گا۔ وہ آپ کے ساتھ اچھا تعاون نہیں کرے گا۔ جس کی امیدیں امریکا سے وابستہ ہوں اور یہ سمجھتا ہو کہ امریکا کی مہربانی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا، وہ آپ کا اچھا رفیق کار نہیں ہوگا۔ جو دین اورشریعت کی راہ سے بے اعتنا ہو، وہ آپ کا اچھا ساتھی نہیں ہوگا۔ اس کا انتخاب کریں جو اہل دین ہو، جو اہل شریعت ہو، انقلابی ہو، نظام پر پورا یقین رکھتا ہو۔
اگر اپ محترم امیدواروں نے اپنے خدا سے یہ عہد کر لیا تو جان لیں کہ اپنے انتخاب کے لئے جو کام بھی کر رہے ہیں، وہ سب حسنہ میں شمار ہوں گے اگر نیت یہ ہو۔ اگر آپ نے اپنے خدا سے یہ عہد کر لیا تو آپ کی انتخابی سرگرمیاں حسنہ شمار ہوں گی اورخدا اس کا ثواب عطا کرے گا۔
امید ہے کہ خداوند عالم ان سب کو توفیقات عنایت فرمائے گا، ہم پر اپنی توفیقات نازل فرمائے گا۔ خداوند عالم ان شاء اللہ آپ کی حفاظت فرمائے۔
و السلام علیکم و رخمۃ اللہ و برکاتہ
1۔ سورہ مائدہ آیت نمبر 3
3۔ سورہ ابراہیم آیت نمبر 39
4۔ امالی شیخ صدوق ، صفحہ 122
5۔ سورہ حدید آیت نمبر 25 "۔۔۔۔ تاکہ لوگ انصاف کے لئے اٹھ کھڑے ہوں
6۔ سورہ فتح آیت نمبر 29 "۔۔۔ کافروں کے لئے سخت۔۔۔"
7۔ سورہ فتح آیت نمبر 29 ' ۔۔ باہم مہربان ۔۔۔"
8۔ سورہ توبہ آیت نمبر 128
9۔ سورہ نسا آیت نمبر 59 "۔۔۔ خدا کی اطاعت کرو، پیغمبر کی اطاعت کرو اور صاحبان امر کی بھی اطاعت کرو۔۔۔۔"
10۔ نہج البلاغہ خط نمبر 62
11۔ غرر الحکم، صفحہ 566
12۔ عراق کا ایک شہر
13۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 27 (تھوڑے سے فرق کے ساتھ)
14۔ نہج البلاغہ خطبہ نمبر 224
15۔ نہج البلاغہ خطبہ نمبر 6
16۔ نہج البلاغہ خط نمبر 62
17۔ نہج البلاغہ خطبہ نمبر 216
18۔ نہج البلاغہ خطبہ نمبر 216
19۔ ایضا
20۔ بحار الانوار جلد 97 صفحہ 367
21۔ 4 اپریل 2023 کو ملک کے حکام سے خطاب