خطاب کا وقت صبح دس بجے تھا لیکن امام بارگاہ ساڑھے سات بجے ہی جشن کے شرکاء سے پر ہو چکی تھی۔ ہم کچھ لوگ حسینیۂ امام خمینی کی طرف بڑھے اور سیکورٹی کے مراحل کو طے کرنے لگے۔ سیکورٹی اہلکار اپنا کام پوری چابک دستی سے انجام دے رہے تھے لیکن وہ مبارکباد دینا نہیں بھول رہے تھے۔ ہمارے ساتھ ایک مشہور رپورٹر واحدی صاحب بھی تھے جو اپنے بانشاط اور فرحت بخش پروگراموں کے لیے معروف ہیں۔ انھوں نے اپنی گردن میں ایک ہرے رنگ کا کپڑا ڈال رکھا تھا جو ایران میں سید ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
جیسے ہی ہم امام بارگاہ میں داخلے کے دروازے پر پہنچے، بہت سی خواتین نے نعرہ لگانا شروع کیا: "واحدی عیدی بدہ، واحدی عیدی بدہ" (واحدی، عیدی دو، واحدی عیدی دو) ایران میں عید غدیر، "عید سادات" کے نام سے بھی جانی جاتی ہے اور لوگ برکت کے طور پر سادات سے عیدی لیتے ہیں۔
جب ہم حسینیۂ امام خمینی کے اندر داخل ہوئے تو ماحول پوری طرح جشن کا تھا۔ ابتدائي صفوں میں سے ایک میں کہگیلویہ و بویر احمد صوبے کے کچھ لوگ اپنے مخصوص لباسوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کی کریم رنگ کی عبائيں اور گرے اور کالے رنگ کی ٹوپیاں فوٹوگرافروں اور کیمرہ مین کی توجہ اپنی جانب مبذول کر رہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ واحدی صاحب سمیت کئي رپورٹر ان لوگوں کی طرف گئے اور اپنے ٹی وی پروگراموں کے لیے ان سے انٹرویو کرنے لگے۔
امام بارگاہ میں ایک خاص طرح کا جوش و جذبہ دکھائي دے رہا تھا، لوگ نعرے لگا رہے تھے۔ ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ دو حصے والے ایک نعرے کا پہلا حصہ مرد حضرات ادا کر رہے تھے اور خواتین دوسرے حصے کا نعرہ لگا کر اسے مکمل کر رہی تھیں۔
مرد کہہ رہے تھے: "ما اہل کوفہ نیستیم" (ہم کوفی نہیں ہیں) اور خواتین جواب میں کہہ رہی تھیں: "علی تنہا بماند" (کہ علی اکیلے رہ جائيں)
"این ہمہ لشکر آمدہ" (یہ اتنا بڑا لشکر آيا ہے) - "بہ عشق رہبر آمدہ" (رہبر کے عشق میں آيا ہے)
"دست خدا بر سر ما" (ہمارے سر پر خدا کا ہاتھ ہے) - "خامنہ ای رہبر ما" (خامنہ ای ہمارے رہبر ہیں)
امام بارگاہ کے ایک حصے میں جنگ میں اپنے اعضائے جسم کا نذرانہ پیش کرنے والے کچھ لوگ ویل چیئر پر ایک دوسرے کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے اور یہ سماج کے اس ایثار پیشہ طبقے کی تعظیم کا مظہر تھا۔ رہبر انقلاب کی ملاقاتوں میں اس طبقے پر ہمیشہ خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
میں نے بعض لوگوں کو دیکھا جو اپنی طرف سے اور اپنے جاننے والوں کی طرف سے کچھ خطوط لے کر آئے تھے اور انھیں رہبر انقلاب کے دفتر کے افراد کو دے رہے تھے تاکہ وہ رہبر کے ہاتھوں تک پہنچ جائيں۔ مجھے رہبر انقلاب کا ایک جملہ یاد آ گیا۔ انھوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ لوگوں کے ان ہی خطوط میں کسی نے یہ تجویز دی تھی کہ جب آپ یوم شجرکاری پر پودا لگاتے ہیں تو بہتر ہوگا کہ پھلدار درخت لگائيں۔ انھوں نے اس تجویز پر عمل کیا تھا اور پھلدار پودا لگایا تھا۔ یعنی اہم بات یہ ہے کہ رہبر انقلاب کو لکھے جانے والے یہ خطوط، جن کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے، پڑھے جاتے ہیں اور ان میں تحریر کردہ نکات پر توجہ دی جاتی ہے۔
امام بارگاہ کے اندر موجود لوگوں میں، میں نے بعض ایسے افراد کو بھی دیکھا جن کے خاص لباس اور دستار سے واضح تھا کہ ان کا تعلق برادران اہلسنت سے ہے۔ ایک رپورٹرن ان میں سے ایک بزرگ کے پاس پہنچا اور اس نے پوچھا کہ آج آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب میں یہ نعرہ دوہرایا: رہبر اگر لب تر کند جانم فدایش میکنم (رہبر اگر اشارہ کریں تو میں اپنی جان فدا کر دوں) یہ وحدت آفریں جواب سن کر لوگوں نے تالیاں بجائيں۔
اچانک ہی امام بارگاہ میں بچوں کا ایک گروہ داخل ہوا، کوئي پندرہ سے بیس بچے ہوں گے جن کی عمر آٹھ نو سال سے لے کر چودہ پندرہ سال تک تھی۔ انھوں نے عربوں، کردوں اور بلوچوں کا لباس پہن رکھا تھا اور ان کے ہاتھوں میں شہید کاظمی، تبریز کے شہید امام جمعہ حجت الاسلام آل ہاشم، شہید قاسم سلیمانی اور کچھ دیگر معروف شہداء کی تصویریں تھیں۔ پتہ چل رہا تھا کہ ان کا تعلق مختلف صوبوں سے ہے۔ بچوں کے اس گروہ نے اپنی دلکش آواز میں ایک ترانہ پڑھا جس سے لوگ وجد میں آ گئے۔
اسی طرح کی باتوں میں وقت گزرتا رہا اور دس بجے رہبر انقلاب، حسینیۂ امام خمینی میں داخل ہوئے۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی لوگ جذباتی ہو گئے، وہ اپنی جگہوں سے کھڑے ہو کر رہبر انقلاب سے اپنی الفت و اطاعت کے اظہار کے نعرے لگانے لگے۔ یہ نعرے کئی منٹ تک جاری رہے۔
پھر قرآن مجید کی تلاوت شروع ہو گئي۔ قاری نے اس دن کی مناسبت سے سورۂ مائدہ کی ان آيتوں کی تلاوت کی جو امیر المومنین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئي ہیں: إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ﴿٥٥﴾ وَمَن يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ ﴿٥٦﴾ (اے ایمان والو! تمہارا حاکم و سرپرست اللہ ہے۔ اس کا رسول ہے اور وہ صاحبان ایمان ہیں۔ جو نماز پڑھتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ (55) اور جو تولاّ رکھے، اللہ سے، اس کے رسول سے اور صاحبانِ ایمان سے (وہ اللہ کا گروہ ہے) اور بے شک اللہ کا گروہ ہی غالب آنے والا ہے۔(56))
پھر خطبے اور عید غدیر کی مبارکباد کے ساتھ رہبر انقلاب کی تقریر شروع ہوئي۔ انھوں نے غدیر کے واقعے، امیر المومنین علیہ السلام کی شخصیت اور ایران میں انتخابات جیسے موضوعات پر بات کی۔ غدیر کے واقعے کی حقیقت اور اس کے پہلوؤں کے بارے میں ان کی باتیں، بہت گہرے تجزیے پر مشتمل تھیں کہ واقعۂ غدیر کے بعد کس طرح کفار و مشرکین مایوس ہو گئے اور کیوں خداوند عالم نے اس واقعے کے بارے میں یہ آیت نازل کی کہ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ (آج کافر تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہو گئے لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔)
رہبر انقلاب کا خطاب کچھ طولانی تھا جس میں واقعۂ غدیر اور فضائل امیر المومنین علیہ السلام کا ذکر کیا گيا، الیکشن کے بارے میں کچھ اہم باتیں بیان کی گئيں اور اسی طرح الیکشن میں صحیح امیدوار کے انتخاب کے بارے میں کچھ سفارشیں کی گئيں۔
حسینیۂ امام خمینی میں جشن ولایت و اخوت اپنے اختتام کو پہنچا۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ صرف ایک جشن نہیں تھا بلکہ اس جشن کے ساتھ ہی دسیوں دیگر پروگرام منعقد ہوئے؛ قومی اتحاد کا پروگرام، اسلامی اتحاد کا پروگرام، عوام اور رہبر کے درمیان الفت کا پروگرام، سیاسی و دینی بصیرت پیدا کرنے کا پروگرام اور اسی طرح کے دوسرے متعدد پروگرام اور پہلو جنھیں یہاں اس مختصر تحریر میں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
احمد عباس