قائد انقلاب اسلامی نے امریکا کی جانب سے چونتیس سال سے جاری گوناگوں سختیوں اور دھمکیوں کے ساتھ ساتھ امریکی حکام کے مذاکرات پر آمادگی کے بیانات کو ان کی بدنیتی کی علامت قرار دیا۔

جمعرات کی صبح فضائیہ کے کمانڈروں، عہدیداروں اور اہلکاروں سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ ملت ایران عیارانہ چالوں سے متاثر ہونے والی نہیں ہے، آپ نے فرمایا کہ ایران کی باوقار، دور اندیش اور ثابٹ قدم قوم جشن انقلاب کے دن بھرپور اتحاد کے ساتھ اور سبق سکھا دینے والے انداز میں سامنے آئیگی اور ملک گیر سطح پر انقلابی عمل انجام دیکر اسلامی نطام اور انقلاب سے عوام کو دور کرنے کی دشمن کی سازشوں کو ایک بار پھر نقش بر آب کر دے گی۔

قابل ذکر ہے کہ فصائیہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں کی یہ ملاقات آٹھ فروری سنہ انیس سو اناسی کو حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے ہاتھوں پر فضائیہ کی بیعت کے دن کی مناسبت سے انجام پائی۔

قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کی موجودہ عظیم پوزیشن اور چونتیس سال قبل کی اس کی صورت حال کے درمیان نمایاں فرق کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ان تین دہائیوں کے دوران ایرانی عوام نے دیگر اقوام کو بھی یہ سکھایا کہ اغیار کے تسلط کے سامنے ڈٹ جانا چاہئے اور ایسا کرنا دائرہ امکان سے باہر نہیں ہے۔ آپ کے مطابق ملت ایران نے یہ بھی سکھایا کہ اللہ تعالی کی ذات پر توکل کے ذریعے انتہائی پروقار اور خود مختار تحریک کو جاری رکھا جا سکتا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے عشرہ فجر سے موسوم دس روزہ جشن انقلاب اسلامی کو مختلف میدانوں میں اسلامی نظام اور ملت ایران کی پیشرفت کا جائزہ لینے کا بہترین موقعہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس جائزے سے ہمیں اندازہ ہوگا کہ مستقبل کے لئے ہمیں کس راستے کا انتخاب کرنا ہے اور اس سفر کو کیسے طے کرنا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے دشمن کی گوناگوں چالوں کا ذکر کرتے ہوئے کودتا، فوجی اشتعال انگیزی، مخالفین کی ہمہ جہتی مدد، فوجی تصادم، سافٹ وار، خبیث ابلاغیاتی سامراج کے شدید دباؤ اور سخت ترین پابندیوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ حالیہ تین دہائیوں میں انہوں نے جو بس میں تھا کیا کہ ملت ایران مایوسی کا شکار اور اسلام و اسلامی جمہوری نظام کی طرف سے بدگمانی میں مبتلا ہوکر میدان سے ہٹ جائے لیکن فضل خداوندی سے عوام کے جوش و جذبے اور وفاداری و جانفشانی میں اور بھی اضافہ ہوا۔

قائد انقلاب اسلامی نے ایرانی عوام کو اسلامی نظام کے مد مقابل کھڑا کر دینے کی غرض سے پابندیوں میں شدت لانے سے متعلق امریکی حکام کے بیانوں کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ ایرانی قوم نے ہمیشہ اور خاص طور پر جشن انقلاب کے جلوسوں کے موقعے پر اس قسم کی باتوں کا جواب دیا ہے اور اس سال بھی وہ بھرپور جواب دیگی۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بصیرت و بیداری کو اغیار کے مقابلے میں فتح و کامرانی کا راز قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ عوام اپنی ہوشیاری اور ہمہ گیر بیداری کی مدد سے ہر معاملے میں صیہونیوں اور امریکیوں کی ریشہ دوانیوں کو بھانپ لیتے ہیں اور اپنے اقدامات میں کسی غلطی سے دوچار نہیں ہوتے، یہ حسین حقیقت عظیم قومی خصوصیت ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے امریکی حکام کی جانب سے ایران سے مذاکرات کی آمادگی کے مکرر اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ باتیں نئی نہیں ہیں بلکہ مختلف مواقع پر وہ اس کا اعادہ کرتے رہے ہیں اور ہر دفعہ ملت ایران نے ان کے بیانوں کو عملی اقدامات کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد اپنا فیصلہ سنایا ہے۔ امریکیوں کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہ اب گیند ایران کے کورٹ میں ہے، قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ گیند آپ کے کورٹ میں ہے، کیونکہ اس کا جواب آپ ہی کو دینا ہے کہ سختی اور دباؤ جاری رکھتے ہوئے مذاکرات کی بات کرنے کے کیا معنی ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ مذاکرات حسن نیت کے اثبات کے لئے ہوتے ہیں، آپ بری نیت کے ساتھ درجنوں اقدامات کر رہے ہیں اور پھر زبانی طور پر مذاکرات کی بات کرتے ہیں! کیا ایرانی عوام یہ اعتماد کر سکتے ہیں کہ آپ کی نیت صاف ہے؟ امریکی حکام کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمیں خوب معلوم ہے کہ انہیں مذاکرات کی کتنی احتیاج ہے، کیونکہ امریکیوں کی مشرق وسطی اسٹریٹیجی شکست سے دوچار ہو چکی ہے اور وہ اسی شکست کا تدارک کرنے کے لئے کسی ترپ کے پتے کی تلاش میں ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ انقلابی و عوامی ماہیت والی اسلامیہ جمہوریہ کو مذاکرات کی میز تک لانا ایسا ترپ کا پتہ ہے جس کی امریکیوں کو شدید احتیاج ہے۔ آپ نے فرمایا کہ امریکی دنیا میں یہ تاثر پھیلانا چاہتے ہیں کہ وہ تو حسن نیت رکھتے ہیں لیکن کوئی اس نیک نیتی پر توجہ ہی نہیں دے رہا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے چار سال قبل امریکا کی جانب سے کی جانے والی مذاکرات کی پیشکش کی یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا کہ اسی وقت دو ٹوک انداز میں یہ جواب دے دیا گیا تھا کہ ہم پہلے سے کوئی فیصلہ نہیں کریں گے بلکہ ان کے عملی اقدامات کا انتظار کریں گے، تاہم اس چار سال کی مدت میں سازشوں کے تسلسل، فتنہ گروں کی مدد اور ایران کے سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ کرنے والے دہشت گردوں کی حمایت کے علاوہ کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آپ بقول خود، کمر شکن پابندیاں عائد کر رہے ہیں تو اس سے آپ کی نیک نیتی ثابت ہوتی ہے یا برے عزائم؟ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مذاکرات اسی وقت با معنی ہو سکتے ہیں جب فریقین حسن نیت کے ساتھ، مساوی حالات میں اور فریب دہی کے ارادے سے اجتناب کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر بیٹھیں، بنابریں مذاکرات برائے مذاکرات، حربے کے طور پر مذاکرات یا دنیا کو اپنی سپر پاور کی حیثیت جتانے کے لئے مذاکرات کی پیشکش، حیلہ گری کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ میں ڈپلومیٹ نہیں ایک انقلابی انسان ہوں، اسی لئے اپنی بات صراحت، صداقت اور قطعیت کے ساتھ کہتا ہوں کہ مذاکرات کی پیشکش اسی وقت قابل فہم ہوگی جب اس کے ساتھ نیک نیتی کا بھی مظاہرہ کیا جائے۔ آپ نے امریکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایرانی عوام پر اسلحہ تانے کھڑے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ گفتگو کرو ورنہ فائر کر دیں گے! لیکن آپ یاد رکھئے کہ دباؤ اور مذاکرات کا کوئی تال میل نہیں ہے اور ملت ایران ان حیلوں سے متاثر ہونے والی نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے امریکا کی پیشکش پر سادہ لوحی میں یا خاص اغراض کے تحت اظہار مسرت کرنے والوں پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکا سے مذاکرات کر لینے سے کوئی مشکل حل ہونے والی نہیں ہے کیونکہ اس نے گزشتہ ساٹھ سال کے عرصے میں اپنا کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کیا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے ایرانیوں کے سلسلے میں امریکیوں کے روئے پر روشنی ڈالنے کے لئے دو مثالیں پیش کرتے ہوئےامریکا پر مکمل اعتماد کرنے والی ڈاکٹر مصدق حکومت کے خلاف امریکیوں کی جانب سے کرائی جانے والی بغاوت اور ظالم و مستبد پہلوی حکومت کے لئے امریکیوں کی بھرپور حمایت کی یاد دہانی کرائی۔ آپ نے فرمایا کہ انقلاب کے بعد بھی کچھ مدت کے لئے حکام نے حسن ظن کا ثبوت دیتے ہوئے امریکیوں پر بھروسہ کیا تھا لیکن انہوں نے ایران کو بدی کا محور قرار دے دیا اور ملت ایران کی بہت بڑی توہین کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنی اس گفتگو کے آخری حصے میں فرمایا کہ ماضی کے ان واقعات اور موجودہ حقائق کے پیش نظر ہم اعلانیہ کہتے ہیں کہ مذاکرات اور دباؤ دو الگ الگ راستے ہیں اور ملت ایران یہ ہرگز قبول نہیں کریگی کی دباؤ میں آکر دباؤ ڈالنے اور دھمکیاں دینے والے سے مذاکرات شروع کر دے۔ آپ نے انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ جو بھی یہ چاہتا ہے کہ ایک بار پھر امریکیوں کے تسلط کا راستہ کھل جائے اور امریکیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے قومی مفادات، ملکی ترقی اور قومی خود مختاری کا سودا کیا جائے، قوم اس کا گریبان پکڑ لیگی اور اگر میں خود بھی اس عوامی خواہش کے برخلاف عمل کروں تو مجھ پر بھی عوام اعتراض کریں گے۔ آپ نے فرمایا کہ ایرانی عوام بردبار اور امن پسند عوام ہیں اور جو بھی ایران کے خلاف کسی سازش مں ملوث نہیں رہا اس سے ہمارے رابطے اور گفتگو کے سلسلے رہے ہیں اور روابط و مذاکرات کو ہم قومی مفاد کے حق میں سمجھتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ایرانی قوم کی عظیم تحریک ایران، امت اسلامیہ اور انسانی معاشرے کے مفادات کو تحفظ عطا کرنے والی تحریک ہے اور یہ قوم اللہ تعالی کی مدد سے امت اسلامیہ کو افتخارات کی بلند چوٹی پر پہنچائے گی۔ آپ نے بصیرت و اتحاد کو قائم رکھنے کو قومی وقار و پیشرفت کی تمہید قرار دیا اور حکام کی طرف سے ایک دوسرے کے سلسلے میں انجام دی جانے والی بد اخلاقی پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے فرمایا کہ حکام ملکی مفادات کی حفاظت پر توجہ مرکوز کریں۔ آپ نے فرمایا کہ میں بعد میں اس بداخلاقی کے بارے میں عوام سے گفتگو کروں گا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ کچھ مقامات پر نظر آنے والی اس بداخلاقی کو حکام نظر انداز کر دیں اور آپس میں اتحاد و یکجہتی قائم کریں۔

مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں جنگی جہاز، گوناگوں طیاروں اور پیشرفتہ ساز و سامان کی تعمیر کو ملک بھر میں استعداد، ابتکار عمل اور لگن کی عظیم لہر کی علامت قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے مسلح فورسز کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے قوموں کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے میں ناتواں قرار دینے والے سامراج کے پروپیگنڈوں پر خط تنسیخ کھینچ دیا۔

جمعرات کی ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل فضائیہ کے کمانڈر بریگیڈيئر جنرل شاہ صفی نے آٹھ فروری کے عظیم واقعے کی قدردانی کرتے ہوئے فضائیہ کی ترقی و پیشرفت کی بریفنگ دی۔