قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے امريکي رہنماؤں کے قول و فعل ميں واضح تضاد اور ان کے غير منطقي طرز عمل پر سخت تنقيد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ايراني قوم ايٹمي اسلحہ بنانا چاہتي تو امريکي ہر گز اس کو روک نہيں سکتے تھے-

قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے تبريز شہر کے ہزاروں لوگوں سے ملاقات ميں جو تہران ميں حسينيہ امام خميني ميں انجام پائي ايران کے ساتھ مذاکرات کے تعلق سے امريکي حکام کے غير منطقي بيانات اور اقدامات کي تشريح کی۔ آپ نے امريکي حکام کو

انہي کے بيانات اور اقدامات کا حوالہ ديتے ہوئے انہیں غير منطقي افراد سے تعبیر کيا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمايا کہ ان لوگوں کے بيانات اور عمل ميں تضاد اور بالادستي قائم کرنے کا جذبہ کارفرما رہتا ہے۔

قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ امريکيوں کو يہ توقع رہتي ہے کہ دوسرے ان کي غير منطقي اور زور

زبردستي کي باتوں کو ہر حال ميں مان ليں جس طرح سے بعض ملکوں نے ان کے سامنے سرتسليم خم کر رکھا ہے ليکن ايران کے عوام اور اسلامي جمہوري نظام جھکنے والا نہيں ہے کيونکہ ايران کے عوام اور نظام کے پاس منطق، طاقت و اقتدار اور توانائي ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے موجودہ حالات کا جائز لیتے ہوئے فرمایا کہ دشمن، ملت ایران کی بصیرت و شجاعت، قوت برداشت اور ایمان و عزم راسخ کے سامنے بے بس نظر آ رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ نامعقول اور متضاد حرکتیں انجام دینے لگے ہیں۔

قائد انقلاب اسلامي نے امريکي حکام اور ان کي

مطيع مغربي حکومتوں کے غير منطقي اقدامات اور موقف کي تشريح کرتے ہوئے کچھ عيني نمونے اور مثاليں بھي پيش کيں اور فرمايا کہ وہ لوگ دعوي کرتے ہيں کہ انساني حقوق کے محافظ ہيں اور انہوں نے پوري دنيا ميں انساني حقوق کا پرچم بلند کر رکھا ہے ليکن سب سے زيادہ انساني حقوق کو نقصان وہي پہنچا رہے ہيں اور گوانتانامو

ابوغريب جيلوں جيسے المناک واقعات، افغانستان اور پاکستان

کےعوام کے قتل عام جيسے حادثات کے تحت يہي امريکا اور مغربي حکومتيں سب سے زيادہ انساني حقوق کو پامال اور ان کی توہین کرنے والی حکومتیں ہیں۔

آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے دنيا ميں جمہوريت کو رواج دينے پر مبني امريکي حکام کے دعوؤں کو ايسے بيانات سے تعبير کيا جو حقائق سے دور ہيں، انہوں نےفرمايا کہ امريکي حکام ايک طرف دنيا ميں جہموريت کو فروغ دينے کا دعوي کرتے ہيں اور دوسري طرف ايران سے مسلسل محاذ آرائي اور دشمني کر رہے ہيں، وہ ايران جو علاقے ميں سب سے بڑي اور واضح جمہوريت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکی ایسے عالم میں جمہوریت کی ترویج کے دعوے کرتے ہیں کہ ہمارے اسی علاقے میں بڑی بے شرمی سے ان ملکوں کی مدد کر رہے ہیں جہاں جمہوریت کا کوئی نام و نشان نہیں ہے اور جہاں کے عوام نے کبھی بیلٹ

باکس کا منہ نہیں دیکھا ہے۔

قائد انقلاب اسلامي نے امريکي حکام کے بيانات اور عمل ميں تضاد کي ايک اور مثال ايران کے ساتھ مذاکرات کي آمادگي کے ان کے اعلان کو قرار ديا اور فرمايا کہ ايران سے مذاکرات کرنے کا امريکي حکام کا دعوي ايک ايسے وقت آ رہا ہے جب وہ اسلامي جمہوري نظام کے خلاف

غلط نامناسب اور خلاف حقيقت اتہام لگاتے ہيں اور ايران کے عوام کا مقابلہ کرنے کے لئے پابنديوں اور دباؤ کا حربہ استعمال کر رہے ہیں۔

آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے امريکي صدر کے حاليہ کا بيان کا بھي حوالہ ديتے ہوئے جس ميں انہوں نے کہا ہے کہ وہ ايران کو ايٹمي ہتھيار بنانے سے روکنے کي ہر کوشش کريں گے فرمايا کہ اگر ايران ايٹم بم بناناچاہتا تو امريکا کسي بھي صورت ميں ملت ايران کو اس کام سے نہيں روک سکتا تھا۔ انہوں نے امريکا کے ساتھ مذاکرات کے بارے ميں

آخر ميں فرمايا کہ اسلامي جہوري نظام

اور ايران کے عوام امريکي حکام کے برخلاف

منطق پر يقين رکھتے ہيں، بنابريں اگر مقابل فريق کي طرف سے منطقي بيان اور عمل کا مشاہدہ کريں گے تو اس کا مثبت جواب ديں گے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا اور یہ فیصلہ امریکیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس دینی عقیدے کی بنیاد پر کیا گیا ہے جس کی رو سے ایٹمی ہتھیار کی ساخت انسانیت سوز جرم ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہ بنانے پر تاکید کے ساتھ ہی دنیا میں موجود تمام نیوکلیائی ہتھیاروں کی نابودی کی ضرورت پر بھی زور دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ایران کے ہاتھوں ایٹم بم کی ساخت کا امریکیوں کا دعوی لفظی بازیگری ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران کے ایٹمی معاملے میں اصلی قضیہ ایٹمی ہتھیار کا نہیں ہے، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ یورینیم کی افزودگی اور پرامن مقاصد کے لئے جوہری توانائی کے استعمال کے ملت ایران کے مسلمہ حق کی راہ میں حائل ہو جائیں لیکن یہ طے ہے کہ وہ ملت ایران کو روک نہیں پائیں گے اور یہ قوم اپنے صریحی حق کے تناظر میں اپنا کام پورا کرکے رہے گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت ایران کے حقوق کو پامال کرنے کی کوشش امریکیوں کی غیر منطقی روش کی واضح دلیل ہے، لہذا غیر منطقی اور منہ زور فریق سے عقل و منطق کے ذریعے بات نہیں کی جا سکتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے 34 سال کے عرصے میں مختلف عالمی معاملات میں بخوبی مشاہدہ کر لیا ہے کہ اس کا مد مقابل فریق کون ہے اور اس کا کیا طرز عمل ہے اور یہ کہ اس سے کیسے نمٹنا چاہئے؟!

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مذاکرات کے معاملے میں امریکی حکومت صیہونیوں اور امریکیوں کے ذرائع ابلاغ کی مدد سے عالمی، علاقائی اور ایرانی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور عالمی میڈیا ہماری بات کو یا تو سرے سے نظر انداز کر دیتا ہے یا ناقص بلکہ برعکس شکل میں منعکس کرتا ہے، بنابریں ہماری یہ گفتگو ایرانی عوام سے ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مذاکرات کے مسئلے کے حقائق و مضمرات پر روشنی ڈالتے ہوئے پانچ انتہائی اہم نکات بیان کئے۔ آپ نے امریکی حکام کے قول و فعل کے متضاد اور غیر منطقی ہونے، ملت ایران کو جھکانے کے لئے مذاکرات کو حربے کے طور پر استعمال کرنے، تسلط پسند طاقتوں کی نظر میں مذاکرات کے اصلی معنی، مذاکرات کے ذریعے پابندیاں ختم کرنے کے سلسلے میں امریکیوں کی فریب دہی و دروغگوئی اور امریکی تجویز کے مقابلے میں ملت ایران اور اسلامی نظام کے منطقی طرز عمل کا ذکر کیا۔

قائد اقلاب اسلامی کے مطابق مذاکرات کی تجویز سے امریکیوں کا اصلی مقصد یہ جھوٹا پروپیگںڈا کرنا ہے کہ ملت ایران اور اسلامی نطام نے ان کے آگے سرتسلیم خم کر دیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ امریکی چاہتے ہیں کہ علاقے کی مسلمان اور انقلابی قوموں کو یہ دکھائيں کہ اسلامی جمہوریہ ایران بھی اپنی تمام تر مزاحمت و پائیداری کے باوجود سرانجام مذاکرات اور مصالحت کی میز پر آنے پر مجبور ہو گیا، بنابریں آپ کے پاس بھی سر تعظیم خم کر دینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ تسلط پسند طاقتیں بہت پہلے سے ہی مسلم اقوام پر مایوسی مسلط کرنے کی غرض سے ایران کو مذاکرات اور سودے بازی کی میز پر کھینچنے کی کوشش کر رہی تھیں اور اس وقت بھی وہ اساسی معاملات سے غیر متعلق مذاکرات کے منصوبے پر عمل کرنا چاہتی ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کو ان کا ہدف صاف اور واضح

طور پر نظر آ رہا ہے اور وہ انہی اہداف کو مد نظر رکھتے ہوئے جواب دے رہا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ امریکیوں اور مغربی حکومتوں کی نظر میں گفتگو کا حقیقی مفہوم مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ان کی باتوں کو بغور سننا اور بے چوں و چرا قبول کر لینا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ

اپنی اسی غیر منطقی سوچ کی بنیاد پر اپنے تازہ پروپیگنڈے میں کہہ رہے ہیں کہ ہم براہ راست مذاکرات کریں گے تا کہ ایران کو جوہری توانائی اور یورینیم کی افزودگی سے دست بردار ہو جانے پر قائل اور مجبور کریں جبکہ وہ اگر واقعی منطقی گفتگو کے خواہشمند ہوتے تو یہ کہتے کہ ہم مذاکرات کریں گے تا کہ ایران اپنے دلائل پیش کرے اور جملہ مسائل کا منصفانہ انداز میں جائزہ لیا جائے۔

قائد انقلاب اسلامی نے یہ اتنہائی کلیدی سوال اٹھایا کہ امریکی حکام کے اس طرز فکر اور ایران کے سر تعظیم خم کر دینے کی ان کی توقعات کے باوجود اگر حکومت ایران مذاکرات کی پیشکش کو قبول کر لے تو کیا مذاکرات کا کوئی فائدہ ہوگا اور کیا مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ سکیں گے؟

قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کی منطقی گفتگو پر لا جواب ہو جانے کی صورت میں مذاکرات کو بیچ میں ہی چھوڑ کر اٹھ جانے کی امریکیوں کی حرکت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ گزشتہ پندرہ سال کے عرصے میں دو تین دفعہ امریکیوں نے بڑے شد و مد سے یہ بات کی کہ مذاکرات بہت ضروری، حیاتی اور فوری چیز ہے اور بعض مسائل کے سلسلے میں گفتگو بھی کی لیکن جب ایران کے مدلل موقف کے سامے لا جواب ہو گئے تو مذاکرات کی میز سے اٹھ گئے اور اپنے عالمی ابلاغیاتی نیٹ ورک کی مدد سے یہ ظاہر کیا کہ ایران نے مذاکرات کو ختم کر دیا۔ آپ نے سوال کیا کہ کیا ان تجربات کے بعد بھی ضروری ہے کہ ہم ایک بار پھر مذاکرات میں امریکیوں کے اسی غیر منطق طرز عمل کا

تجربہ کیا جائے؟

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مذاکرات کے بعد پابندیاں ختم کر دینے کے امریکیوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ انہیں یہ خام خیالی ہے کہ ایرانی قوم پابندیوں کے نتیجے میں جاں بلب ہو گئی ہے، لہذا جیسے ہی اس وعدے کے بارے میں سنے گی دوڑ کر امریکیوں سے مذاکرات شروع کر دیگی اور اس کے لئے اپنے حکام پر بھی دباؤ ڈالے گی۔ آپ نے فرمایا کہ در حقیقت یہ وعدہ امریکیوں کی وہی معروف چال ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حقیقی اور منصفانہ مذاکرات کا ارادہ نہیں رکھتے بلکہ ان کا مقصد ملت ایران کو جھکانا ہے جبکہ ملت ایران کو اگر امریکیوں کے سامنے جھکنا ہوتا تو سرے سے انقلاب ہی نہ لاتی۔ قائد انقلاب اسلامی نے مذاکرات کے ذریعے پابندیوں کو ختم کرنے کے امریکیوں کے دعوے کی قلعی کھولتے ہوئے فرمایا کہ پابندیوں کا مقصد جیسا کہ خود امریکیوں نے بارہا کہا ہے، ملت ایران کو تھکا مارنا اور عوام کو اسلامی نظام سے روگرداں کرنا ہے، بنابریں اگر مذاکرات ہوئے اور ملت ایران پھر بھی میدان میں حاضر رہی اور اپنے حقوق پر اصرار کرتی رہی تو پابندیاں لگی رہیں گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس بحث کو جاری رکھتے ہوئے امریکی حکام کی ذہنی سوچ کا جائزہ لیا جس کا ایک حصہ درست اور دوسرا حصہ غلط ہے۔ آپ نے فرمایا کہ امریکیوں کا ماننا ہے کہ اسلامی جمہوری نطام عوام پر تکیہ کئے ہوئے ہے اور اگر پابندیاں عوام کو اسلامی نطام سے دور کر دیں تو اسلامی نطام کی استقامت و پائیداری کی طاقت ختم ہو جائے گی۔ اس سوچ کا پہلا حصہ یعنی اسلامی نظام پوری طرح عظیم ملت ایران پر تکیہ کئے ہوئے ہے، بالکل درست ہے لیکن دوسرا حصہ یعنی سختیوں اور پابندیوں سے قوم گھٹنے ٹیک دیگی اور اس نظام سے برگشتہ جائے گی، بالکل غلط اور کج فہمی کا نتیجہ ہے۔

آپ نے فرمایا کہ بیشک ملت ایران ترقی، فروغ اور رفاہ حاصل کرنے کے لئے کوششیں کر رہی ہے لیکن ذلت و خواری اٹھا کر یہ ہدف حاصل نہیں کرنا چاہتی بلکہ تدبیر، عزم و ارادے اور شجاعت کے ساتھ اور داخلی توانائیوں بالخصوص نوجوانوں پر تکیہ کرکے اس منزل کو سر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے امریکا کے سامنے سر تعظیم جھکانے والے ملکوں سے ملت ایران کی حیرت انگیز ترقی کا موازنہ کرتے ہوئے فرمایا کہ پابندیاں عوام کو بیشک پریشان کر رہی ہیں

لیکن اس سلسلے میں ان کے پاس دو ہی راستے ہیں، یا تو کمزور ملکوں کی طرح دنیا کی سامراجی طاقتوں کے سامنے جھک جائیں اور توبہ کر لیں، یا پھر ایران کی شجاع قوم کی مانند داخلی توانائیوں اور صلاحیتوں کو پروان چڑھائیں اور خطرات سے پروقار اور مقتدرانہ انداز میں عبور کریں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یقینا ایرانی عوام نے آخر الذکر راستہ چنا ہے اور آئندہ بھی اسی پر جلیں گے اور بفضل الہی پابندیوں کو مزید رشد و نمو کے مواقع میں

تبدیل کر دیں گے۔

امریکا سے مذاکرات کے سلسلے میں اپنی بحث کو سمیٹتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکی حکام کے برخلاف ایرانی عوام عقل و منطق پر کاربند رہتے ہیں، چنانچہ اگر ملت ایران نے اپنے مد مقابل فریق کو منطقی روش پر چلتے اور کام کرتے دیکھا تو یقینا مثبت رد عمل ظاہر کریگی۔

قائد انقلاب اسلامي نے کہا کہ اگر امريکا اپني نيک نيتي ثابت کرنا چاہتا ہے تو اس کو منہ زوري اور شيطنت سے باز آنا ہوگا، ايراني عوام کے حقوق کا احترام کرنا ہوگا، ايران کے داخلي امور ميں مداخلت سے باز رہنا ہوگا اور دو ہزار نو کے ايران کے صدارتي انتخابات کے بعد جس طرح سے اس نے فتنہ گر عناصر کي کھل کر حمايت کي تھي اس طرح کي حرکتوں سے خود کو دور رکھنا ہوگا۔

قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ امريکي حکام ان باتوں پر عمل کريں اور قول و فعل ميں نيک نيتي ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ يہ بھي ثابت کريں کہ وہ غير منطقي نہيں ہيں، تب وہ ديکھيں گے اسلامي جمہوريہ ايران اور ايران کے عوام

خيرخواہ اور معاملہ فہم ہيں اور منطقی طرز عمل پر يقين رکھتے ہيں۔

قائد انقلاب اسلامی کے مطابق بائیس بہمن ( مطابق دس فروری کو جشن انقلاب) کے جلوسوں میں عوام کی بھرپور شرکت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ گرانی اور مشکلات پر عوام کو کوئی شکوہ نہیں ہے، آپ نے فرمایا کہ عوام الناس اور خاص طور پر کمزور طبقات سختیوں اور دشواریوں کو واضح طور پر محسوس کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اسلامی نظام سے دور نہیں ہونا چاہتے کیونکہ انہیں یقین ہے کہ اسلامی نظام اور اسلام ہی وہ طاقتور بازو ہے جو مشکلات کا تصفیہ کر سکتا ہے۔

قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے تبريز شہر کے ہزاروں لوگوں سے ملاقات ميں جو تہران ميں حسينيہ امام خميني ميں اٹھارہ فروري انيس سو اٹھہتر ميں اس شہر کی عوامي انقلابي تحريک کي سالگرہ کي مناسبت سے انجام پائي اہل تبریز کے اس قیام کے شہیدروں کو خراج تحسین پیش کیا اور دین و ایمان کو ملت ایران کی پیش قدمی کے عمل کا معیار اور مشعل راہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس حقیقت کی درخشندگی کا نمونہ صوبہ آذربائیجان کے عوام کی ڈیڑھ سو سالہ جدوجہد ہے جو ہمیشہ دین و ایمان کے زیور سے آراستہ اور دینی جذبے سے گہرے رشتے کے سائے میں انجام پائی۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ عالمی طاقتوں کے دباؤ اور خاص طور پر پابندیوں سے ایرانی عوام کے متزلزل نہ ہونے کی اصلی وجہ قوت ایمانی رہی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ انہوں نے کئی ماہ قبل سے وہ پابندیاں عائد کر دی تھیں جن کے بارے میں ان کا دعوی تھا کہ یہ کمر شکن پابندیاں ہیں، یہی نہیں بائیس بہمن (جشن انقلاب کی تاریخ) سے چند روز قبل انہوں نے کچھ نئی پابندیاں بھی عائد کیں تا کہ عوام الناس کے حوصلے سرد پڑ جائیں لیکن ملت ایران کا جواب یہ رہا کہ اس سال بائیس بہمن کے جلوس گزشتہ برسوں سے زیادہ وسیع اور پرشکوہ رہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس سال بائیس بہمن کے جلوسوں میں ہر جگہ سے ہر کسی نے آگے بڑھ کر شرکت کی اور عوام کے حوصلے بلند اور چہرے شاد نظر آئے اور اس عظیم شراکت نے ایک بار پھر دنیا کے سامنے ملت ایران کی اصلی تصویر پیش کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہر سال بائیس بہمن کے جلوس ملت ایران کے دشمنوں اور مخالفین کے سروں پر کاری ضرب کی طرح پڑتے ہیں اور اس سال بھی یہی عمل دہرایا گیا۔

قائد انقلاب اسلامی نے بائیس بہمن (جشن انقلاب) کے جلوسوں میں عوام کی پرشکوہ اور باوقار شرکت کی ایک بار پھر قدردانی کی اور فرمایا کہ اگر سو دفعہ عوام کا شکریہ ادا کیا جائے تب بھی کم ہے، عوام کے اس جذبے اور بصیرت کو سلام کرنا چاہئے۔

قائد انقلاب اسلامی نے اپنے گفتگو کے آخری حصے میں دو ہفتہ قبل پارلیمنٹ میں وزیر محنت کے مواخذے کے وقت پیش آنے والے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے اس سلسلے میں بھی اہم نکات بیان کئے۔ آپ نے اس واقعے پر ملک کے عوام اور اہم شخصیات کے کبیدہ خاطر ہونے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس نامناسب واقعے نے مجھے بھی دو اعتبار سے تکلیف پہنچائی، ایک تو خود اس واقعے کا رونما ہونا اور دوسرے اس پر عوام کی ناراضگی۔ آپ نے فرمایا کہ اس قضیئے میں بد قسمتی سے ایک شعبے (مجریہ) کے سربراہ نے ایسے الزام کی بنیاد پر جو ہنوز ثابت بلکہ عدالت میں پیش بھی نہیں ہوا ہے، دو شعبوں یعنی پارلیمنٹ اور عدلیہ کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جو برا، غلط، نامناسب، خلاف شریعت، خلاف قانون اور خلاف اخلاق عمل تھا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس طرز عمل سے عوام کے بنیادی حقوق کی بھی تضییع

ہوئی کیونکہ پرسکون زندگی اور نفسیاتی و اخلاقی تحفظ کا احساس قوم کے بنیادی حقوق کا جز ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں فی الحال یہ نصیحت کروں گا کہ یہ فعل اسلامی جمہوری نظام کے شایان شان نہیں ہے۔ آپ نے مواخذے کو بھی غلط اقدام قرار دیا اور فرمایا کہ مواخذے کا کوئی فائدہ ہونا چاہئے، اس وقت جب حکومت کی مدت پوری ہونے میں محض چند مہینے باقی بچے ہیں، ایک وزیر کا مواخذہ کرنا اور وہ بھی ایسے قضیئے میں جس کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے، کیا جواز اور کیا فائدہ رکھتا ہے؟

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ پارلیمنٹ کے اندر کچھ لوگوں نے نامناسب باتیں کہیں جو بالکل غلط تھیں۔ آپ نے فرمایا کہ پارلیمنٹ کے محترم اسپیکر کے دفاعی موقف میں بھی قدرے زیادہ روی ہوئی جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ الزام لگانا، اس پر سامنے آنے والا رد عمل اور وزیر کا مواخذہ تینوں لی باتیں نامناسب تھیں۔

قائد انقلاب اسلامی نے سوال کیا کہ جب مشترکہ دشمن موجود ہے اور چار سو سے

سازشیں ہو رہی ہیں تو اخوت کو تقویت پہنچانے اور جذبہ اسقامت کو مزید مضبوط کرنے کے علاوہ کیا کوئی عمل انجام دینا چاہئے؟

قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے حکام کی پشت پناہی کا اعادہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اب بھی مدد کروں گا لیکن یہ طرز عمل حلف اور فرائض سے مطابقت نہیں رکھتا، حکام قوم کی عظمت کو دیکھیں اور اس قوم کی شان کے مطابق عمل کریں۔ آپ نے فرمایا کہ حکام، حکومت اور پارلیمنٹ سب مل کر کوشش کریں کہ ملک اور عوام کی اقتصادی مشکلات برطرف ہوں کیونکہ جیسا کہ میں چند سال قبل بھی عرض کر چکا ہوں، دشمن نے اپنی سازشوں کو اقتصادی امور پر مرکوز کر دیا ہے۔ میں نے چند سال قبل مالی بد عنوانی سے مقابلے کے بارے میں تینوں شعبوں کے سربراہوں کو ایک خط لکھا تھا، اقتصادی بدعوانی کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے لیکن یہ مسئلہ صرف ‌زبانی جمع خرچ سے حل نہیں ہوگا بلکہ علمی جدوجہد کا متقاضی ہے، عملی طور پر کیا اقدام انجام دیا گيا ہے؟ آپ نے کیا عملی اقدام کیا ہے؟ یہ چیزیں انسان کو تکلیف پہنچاتی ہیں۔

قائد انقلاب اسلامی نے بھرپور تاکید کے ساتھ فرمایا، تقوی، تقوی، تقوی! ہمیں حکام سے توقع ہے کہ صبر سے کام لیتے ہوئے، سرکش جذبات کی رو میں آنے سے اجتناب کرتے ہوئے، ملکی مسائل پر توجہ دیں اور اپنی

تمام مساعی عوام کی مشکلات کو برطرف کرنے پر مرکوز کریں، اب جبکہ دشمن کی مخاصمت میں شدت پید ہو گئی ہے تو وہ اپنی باہمی اخوت و برادری کو مضبوط کریں۔ میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ یہ خیر خواہانہ اور شفقت آمیز نصیحت حکام اور بالخصوص اعلی رتبہ عہدیداروں کے مورد توجہ قرار پائے گی اور وہ اس پر عمل کریں گے۔