پیشرفت و ترقی کے اسلامی ایرانی نمونے کا خاکہ تیار کرنے والے مرکز کی سپریم کونسل کے ارکان اور متعلقہ فکری مراکز کے عہدیداروں نے پیر کی صبح قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ ملاقات کرنے والوں میں یونیورسٹیوں اور دینی علوم کے مرکز کے مختلف موضوعات کے اساتید، مفکرین اور دانشور شامل تھے۔ اس ملاقات میں اسلامی ایرانی ترقی کے نمونے کے خد و خال طے کرنے والی علمی و نظریاتی بحثوں کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا۔

اس موقعے پر قائد انقلاب اسلامی نے ترقی و پیشرفت کے اسلامی ایرانی نمونے کی خاکہ بندی کو بڑا عظیم، قابل فخر، طویل المیعاد اور انتہائی عمیق عمل قرار دیا اور فرمایا کہ پیشرفت و ترقی کے اسلامی ایرانی نمونے کے خاکے کا تعین، در حقیقت اسلامی انقلاب کے ماحصل کو پیشکش اور تدبر و اسلامی افکار کے تناظر میں تمام شعبوں کے لحاظ سے پیشرفتہ جدید تہذیب کی تعمیر سے عبارت ہے لہذا اس نصب العین کا افق دراز مدتی اور گیرائی و گہرائی کا حامل ہونا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے توجہ دلائی کہ آج کی دنیا مغرب کی تہذیب و ترقی کے نمونے سے متاثر ہے اور تمام شعبہ ہائے زندگی پر مغربی طرز زندگی کا غلبہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ان حالات میں ترقی کے اسلامی ایرانی نمونے کی تعمیر جرئت، شجاعت اور قوی جذبے کی متقاضی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فکر و تدبر کو اس عمل کی اصلی روح قرار دیا اور اس دراز مدتی منصوبے میں پیدا ہونے والی ہر ممکنہ خامی و نقص کے قابل اصلاح ہونے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اس عمل میں ہر طرح کی عجلت پسندی سے اجتناب کرتے ہوئے نئے تجربات اور نوجوانوں کی استعداد کو بھی بروئے کار لانا چاہئے تا کہ پیش قدمی کا عمل کبھی بھی متوقف نہ ہو۔ قائد انقلاب اسلامی نے نینو ٹکنالوجی اور نیوکلیائی ٹکنالوجی جیسے سائنسی مراکز اور اسی طرح صنعتی مراکز میں جوش و جذبے سے سرشار نوجوان سائنسدانوں کی کثرت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ نوجوانوں پر تکیہ کرنا چاہئے کیونکہ جوان کا جوش و خروش اور اس کے جذبات لا متناہی سرمایہ ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ترقی کے اسلامی ایرانی نمونے کی تعمیر میں اسلامی تعلیمات اور اصولوں بنیاد کا درجہ دیا جانا چاہئے اور اس نمونے کا خاکہ کھینچنے کے عمل میں ہر مرحلے پر اسلامی تعلیمات کو بڑی دقت نظری کے ساتھ نگاہ میں رکھنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں کسی طرح کی مروت اور رواداری برتنے کی ضرورت نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس عمل میں دینی علوم کے مرکز کی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لانے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ ترقی کے اسلامی ایرانی نمونے کے تعین میں چار میدانوں؛ فکر، علم، روحانیت اور زندگی پر تکیہ کیا جانا چاہئے جبکہ فکر ان میں سب سے زیادہ اہم عنصر ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مغربی تہذیب، اس کی تشکیل کے مراحل، اس کے عروج اور سرانجام عصر حاضر میں اس کے انحطاط کے نمایاں آثار کو کسی بھی تہذیب کے نقائص اور خامیوں کی شناخت کا بہترین نمونہ قرار دیا اور فرمایا کہ مغربی تہذیب ہیومنزم کے نظریات کی بنیاد پر اور سیاسی طاقت اور پھر سرمائے کی محوریت کی اساس پر وجود میں آئی جو اپنے عروج پر پہنچی اور اب اس کی تباہی و تنزلی کی علامتیں نمایاں ہیں جن میں سب سے واضح علامت جنسی بے راہروی اور اخلاقی انحطاط ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے مغربی تہذیب کے ایک اور بنیادی عیب کا ذکر کرتے ہوئے گزشتہ چند صدیوں کے دوران یورپ میں بڑی کثرت سے رونما ہونے والی جنگوں کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ مغربی تہذیب کے انحطاط اور گوناگوں نقائص کی وجہ اس کا روحانیت و معنویت سے عاری ہونا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کے مطابق پیشرفتہ اور کمترین نقص و عیب والی تہذیب اور طرز زندگی کی تعمیر کی اصلی شرط دین اسلام پر استوار روحانیت ہے آپ نے فرمایا کہ دینی روحانیت صلاحیتوں کی شناخت اور ان کے مناسب استعمال کی تمہید اور تمام شعبوں میں کمترین جوکھم کے ساتھ بہترین ترقی کی ضمانت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس دراز مدتی اور انتہائی اہم اور ادق منصوبے کو اخلاص اور مجاہدانہ جذبے کا متقاضی قرار دیا اور فرمایا کہ ترقی کے اسلامی ایرانی نمونے کے عملی شکل اختیار کرنے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اسے لوگوں کے ذہنوں میں بخوبی بٹھایا جائے۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ دانشوروں کی فکر و نظر میں اس نمونے کے لئے جگہ بنانا اور پھر نوجوانوں میں اسے عام کرنا قومی سطح پر اس کی ترویج پر منحصر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ صاحبان نظر اور مفکرین کے نظریات و افکار سے استفادہ کرتے ہوئے اس نمونے کی بھرپور ترویج کے بعد صبر و تحمل سے ایک قابل افتخار، مسحتکم اور گراں قدر نمونے کی تدوین عمل میں آنا چاہئے۔

اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل پیشرفت کے اسلامی ایرانی نمونے کی تدوین کے مرکز کے سربراہ ڈاکٹر صادق واعظ زادہ نے پیشرفت و ترقی کے اسلامی ایرانی نمونے کی تدوین کرنے والے مرکز کی تشکیل کے عمل کے بارے میں بتایا اور اس سے متعلق فکری مراکز کا تعارف کرایا۔ انہوں نے مرکز میں منظور ہونے والے فرائض پر عمل آوری کی تفصیلات بیان کیں۔