قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ پارلیمنٹ تمام امور میں محور کی حیثیت رکھتی ہے اور مجریہ سنگین اجرائي کاموں کے میدان میں سرگرم عمل ہے لہذا قانون کی پاسداری، انتظامیہ اور پارلیمنٹ کے مابین باہمی تعاون اور اس تعاون میں انصاف کا مد نظر رکھا جانا ضروری ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے بدھ کی صبح پارلیمنٹ کے اسپیکر اور ارکان سے ملاقات کے موقعے پر اپنے خطاب میں گیارہویں صدارتی الیکشن کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ سب کو مل کر یہ کوشش کرنا چاہئے کہ وسیع عوامی شرکت کے ساتھ انتخابات کا پرشکوہ انعقاد ہو کیونکہ اسلامی انقلاب کی فتح کے وقت سے اب تک اسلامی نظام کا استحکام عوامی شراکت اور پشت پناہی کا نتیجہ رہا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے انتخابات کے پرجوش انعقاد کو ملکی قوت و طاقت اور تحفظ و سلامتی کی ضمانت اور دشمنوں کے خطرات کو بے اثر بنا دینے کا راستہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ عوام اور عوام کی متحدہ پشت پناہی ایران کے اسلامی نظام کی گہری جڑیں ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامی نظام کے لئے عوامی حمایت و پشت پناہی کو ملک و نظام کی عزت و عظمت کا سرچشمہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس زاویہ نگاہ سے انتخابات جو عوامی شراکت کا آئینہ ہیں، پرجوش انداز میں منعقد ہونا ضروری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے انتخابات کے تمام مراحل کے لئے اچھے اور منطقی قوانین کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اب تک تمام مراحل قانون کے مطابق طے پائے ہیں اور انتخابی امیدواروں نے بھی اپنے انٹرویوز میں قانون کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر تاکید کی اور کاغذات نامزدگی اور اہلیت کی جانچ پڑتال کا عمل مکمل ہونے کے بعد بھی انہوں نے قانون کی بالادستی کو قبول کیا، اس پر تمام افراد اور خاص طور پر ان لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جن کی صدارتی انتخابات میں شرکت کی اہلیت ثابت نہیں ہو سکی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ طرز عمل قانون کی اہمیت و کلیدی حیثیت کی علامت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ عین ممکن ہے کہ قانون سے ہم متفق نہ ہوں لیکن قانون کی بالادستی تسلیم کر لینا یہ ثابت کرتا ہے کہ ہم نے قانون کو قول فیصل مانا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے اس خطاب میں صدارتی امیدواروں کو بخوبی سمجھنے کے لئے عوام کو بصیرت و آگاہی سے کام لینے کی ہدایت کی۔ آپ نے فرمایا کہ سیاسی امور میں عوام کے شعور اور ادراک کی اوسط کے عالمی سیاسی شعور کی اوسط سطح سے بہتر ہونے کے مد نظر، اسی طرح قومی نشریاتی ادارے آئی آر آئی بی نے انتخابی مہم کے لئے جو پروگرام ترتیب دئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے انتخابی امیدواروں کی صحیح شناخت اور درست نتیجے تک پہنچنے کے وسائل مہیا ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ممکن ہے کہ انسان اپنی تشخیص اور شناخت کے مطابق جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ درست یا غلط ہو، لیکن اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ہمیں پوری آگاہی و بصیرت کے ساتھ اپنی تشخیص کے مطابق عمل کرنا ہے اور یقینا اس پر اللہ تعالی سے ہمیں اجر و ثواب حاصل ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے انتخابی امیدواروں کو بھی ہدایت کی کہ جو امیدوار آئی آر آئی بی کے پروگرام میں شرکت کے لئے جاتے ہیں، ان پر بہت حساس ذمہ داری ہوتی ہے لہذا انہیں چاہئے کہ بہت محتاط رہیں کہ صرف عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لئے کہیں خلاف حقیقت باتیں ان کی زبان سے نہ نکل جائیں۔ آپ نے فرمایا کہ امیدواروں کی تمام باتیں حقیقی، صادقانہ اور صحیح اطلاعات پر استوار ہونی چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ انتخابی امیداوروں کو چاہئے کہ عوام کے سامنے، ملکی صورت حال کے سلسلے میں بھی اور اپنے بارے میں بھی صرف حقیقت بیانی سے کام لیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ اگر صدق دلی کے ساتھ کام کیا جائے تو اللہ بھی یقینا مدد فرمائے گا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ نصرت خداوندی کبھی عوام کی خدمت کا موقعہ ملنے کی صورت میں ہوتی حاصل ہوتی ہے اور کبھی یہ ذمہ داری نہ ملنے کی صورت میں ہوتی ہے۔ آپ نے تاکید کے ساتھ کہا کہ انتخابی کینڈیڈیٹ دیگر امیدواروں کی شبیہ خراب کرنے اور سماجی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش نہ کریں۔
بعض امیدواروں کو قائد انقلاب اسلامی کی حمایت حاصل ہونے پر مبنی قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ یہ باتیں ہمیشہ ہوئی ہیں جبکہ حقیقت سے ان کا کوئی ربط نہیں ہے کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ قائد انقلاب کا ووٹ کس کو ملے گا۔ آپ نے کہا کہ قائد انقلاب کو بھی دیگر تمام افراد کی مانند ایک ہی ووٹ ڈالنے کا حق ہے۔
انتخابات میں قائد انقلاب کے رحجان کے سلسلے میں غیر ملکی میڈیا کے پروپیگنڈے کا حوالہ دیتے ہوئے آپ نے کہا کہ دشمن اپنے خاص اہداف کے تحت اس قسم کا پروپیگنڈا کرتے ہیں لیکن اسلامی نطام اس پروپیگنڈے پر کوئی توجہ دئے بغیر اپنے نصب العین کے مطابق اور واضح راہ و تدبیر کی بنیاد پر اپنا کام انجام دیتا رہے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ارکان پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں، پارلیمنٹ کی رکنیت کو اسلامی نظام کے اندر خدمت کا بہت اچھا موقع اور ساتھ ہی اللہ کی بارگاہ میں بہت حساس مرحلہ اور اہم امتحان قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ان حساس مراحل میں محاسبہ نفس بہت ضروری ہے کیونکہ اگر ذمہ دار شخص اس خطرناک موڑ سے بحفاظت گزر گیا تو اللہ کی بارگاہ میں سربلند اور سرخرو قرار پائے گا۔ قائد انقلاب اسلامی نے دسویں پارلیمنٹ میں گوناگوں صلاحیتوں اور مہارتوں کے حامل افراد کی موجودگی کو بل اور قراردادوں کے ماہرانہ جائزے اور تجزئے کی صلاحیت کی علامت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ سیاسی موقف کے اعتبار سے پارلیمنٹ نے گزشتہ ایک سال کے دوران بالکل صحیح اور بجا اقدام کیا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ارکان پارلیمنٹ کے طرز سلوک اور اخلاقیات کو معاشرے کے لئے بہت اہم اور موثر قرار دیا اور فرمایا کہ اگر ایوان میں، عقل و فکر، طمانیت اور مہر و محبت کا ماحول قائم رہے تو معاشرے میں بھی اس کا انعکاس ہوگا اور اگر پارلیمنٹ میں اس کے برخلاف ماحول پیدا ہوا تو عوام کے برتاؤ پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔ آپ نے فرمایا کہ ا گر پارلیمنٹ میں تقوا، دیانت داری، اخلاقیات، فرض شناسی اور جذبہ عمل جیسی خصوصیات حکمفرما ہوں تو عوام کے اندر امید بڑھےگی اور وہ اپنے نمائندوں کے اور بھی قریب آئیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے قراردادوں اور بل کے سلسلے باریک بینی کے ساتھ ماہرانہ بحث و تحقیق کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ارکان پارلیمنٹ کے دوش پر عوام کا حق ہے، بنابریں کسی بل پر ہونے والی ووٹنگ میں حصہ نہ لینا قابل قبول نہیں ہے کیونکہ اگر اس بل کے موضوع کے سلسلے میں رکن پارلیمنٹ کے اندر ضروری مہارت ہے تو اسے اپنی رائے کے مطابق اور اگر ضروری مہارت نہیں ہے تو ماہرین کی مشورے کے مطابق حمایت یا مخالفت میں ووٹ ڈالنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ارکان پارلیمنٹ کو ہمیشہ انصاف کو مد نظر رکھنے کی ہدایت کی اور فرمایا کہ ارکان پارلیمنٹ کو چاہئے اپنے رفقائے کار، اسی طرح عدلیہ اور مجریہ کے سلسلے میں حق و انصاف کو ملحوظ رکھیں کیونکہ انصاف کو ملحوظ نہ رکھنے کی صورت میں معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے مابین باہمی تعاون کے سلسلے میں فرمایا کہ آئین کے مطابق مقننہ اور مجریہ کی معینہ حدود اور اختیارات ہیں اور ان حدود کا احترام کرتے ہوئے انہیں آپس میں تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ اور حکومت کے درمیان کاموں کے سلسلے میں بعض اختلافات کا ہونا فطری ہے لیکن یہ فطری اختلافات شدت اختیار کرکے کدورت کا باعث نہ بننے پائیں۔ آپ نے پارلیمنٹ اور حکومت کو ایک دوسرے کا لحاظ کرنے کی سفارش کی اور فرمایا کہ پارلیمنٹ کو یہ بات مد نظر رکھنا چاہئے کہ حکومت سخت اجرائی امور انجام دینے کے لئے میدان عمل میں موجود ہے اور تمام تنقیدوں کا رخ اسی کی جانب ہے، بنابریں مجریہ کا خاص خیال رکھا جانا چاہئے اور اسی طرح حکومت کو بھی چاہئے کہ پارلیمنٹ کے عظیم حقوق کو ملحوظ رکھے۔ آپ نے فرمایا کہ تمام کاموں کی بنیاد قانون ہے اور پارلیمنٹ حکومت کے لئے پٹری بچھانے کا کام انجام دیتی ہے اور حکومت کو اسی پٹری پر چلتے ہوئے آگے بڑھنا ہوتا ہے لیکن پارلیمنٹ کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ اس انداز سے پٹری بچھائے کہ حکومت کے لئے اس پر آگے بڑھنا ممکن ہو اور اس میں ایسے خطرناک موڑ نہ ہوں جہاں سقوط کا خطرہ پایا جاتا ہو۔ قائد انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ کے سلسلے میں ایک اور اہم نکتہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ بیشک پارلیمنٹ تمام امور کے محور کا درجہ رکھتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر رکن پارلیمنٹ خود کو تمام امور کا محور تصور کرے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس وقت ہم سب کا اہم ترین فریضہ صدق دلی، محنت و لگن اور احساس ذمہ داری کے ساتھ کام کرنا ہے۔