اٹھارہ شہویور مطابق نو ستمبر پیر کے روز ملک بھر کے امام جمعہ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملے۔ ائمہ جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے پورے نظام کو انتہائی گراں قدر دینی، عوامی اور حکومتی نیٹ ورک قرار دیا۔ آپ نے ملکی، علاقائی اور عالمی مسائل پر جامع نظر رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ حکومت، حکام، سیاسی رہنما، سفارت کار اور عوام سب کو چاہئے کہ مغرب اور امریکا کی پیچیدہ سرگرمیوں، برتاؤ اور انسانی حقوق کے سلسلے میں ان کے تصنع کا حقیقت بیں نگاہوں سے جائزہ لیں اور اسلام سے مغرب کے گہرے اور بنیادی نوعیت کے تصادم کے تناظر میں اس کا تجزیہ کریں، ورنہ دوسری صورت میں مد مقابل فریق کی چالوں اور اسٹریٹیجی کے فرق کو سمجھنے بلکہ خود دشمن کو پہچاننے میں غلطی ہو سکتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ملکی و عالمی مسائل پر جامع اور حقیقت بیں نظر رکھنے کی اہمیت اور وجہ کا ذکر کرتے ہوئے گزشتہ کئی صدیوں سے اسلام کے خلاف مغرب کی محاذ آرائی اور اس مقابلے میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پیدا ہونے والے نئے موڑ کی جانب اشارہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ استعماری دور میں مغرب نے مشرق منجملہ عالم اسلام پر اپنے اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی تسلط کو وسعت دی اور سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں پیشرفت کی مدد سے یہ تاثر قائم کیا کہ تمام تخمینوں اور اندازوں کے سلسلے میں مغربی دنیا کو مرکزیت حاصل ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انہوں نے تو جغرافیائی اندازوں کو بھی مغربی دنیا کی برتری کے تصور کی بنیاد پر تبدیل کرنے کی کوشش کی اور مشرق قریب، مشرق وسطی اور مشرق بعید جیسی غلط اصطلاحات ایجاد کر لیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے استعمار کے دور میں مغرب کے مطلق العنان اور مالکانہ تسلط کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے حالات میں جب ایران سمیت علاقے کے تمام ممالک مغرب اور مادی دنیا کے زیر تسلط تھے، ایران کا اسلامی انقلاب مکمل خود مختاری اور اسلام و قرآن کی تعلیمات کی مکمل پابندی کی بنیاد پر کامیاب ہوا اور اہل مغرب کے تاریخی حصار پر گہری ضرب پڑی۔ علاقے اور دنیائے اسلام پر ایران کے اسلامی انقلاب کے گہرے اثرات اور اس انقلاب سے قوموں کے دینی و اسلامی تشخص کے احیاء کا ذکر کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران کے اسلامی انقلاب کے تشخص اور افکار کی تدریجی توسیع سے مغرب والوں پر سراسیمگی طاری ہو گئی چنانچہ اسلامی افکار کی گہرائی و وسعت میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ مغربی طاقتوں نے اور بھی پیچیدہ اور گہرے منصوبے تیار کئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس وقت علاقے اور عالم اسلام کے حالات کچھ اس طرح کے ہیں کہ مغرب کو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ اسلامی انقلاب کے طرز فکر کے مقابلے میں پیچھے رہ گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اس پسماندگی کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ ان حالات میں علاقے میں اسلامی بیداری کی لہر بھی پیدا ہو گئی اور مغربی طاقتیں جو اسلامی انقلاب کی فکر کی تیز رفتار ترویج کے مقابلے میں خود کو بہت پیچھے محسوس کر رہی تھیں، سراسیمہ ہوکر اسلامی بیداری اور اسلام سے مقابلے کے لئے میدان میں اتر پڑیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ علاقے کے حالات اور تغیرات کا اس نقطہ نظر سے جائزہ لینا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ حکومت، حکام، سیاسی رہنما، سفارت کار اور عوام کا جامع اور درست زاویہ نگاہ اختیار کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ دوسری صورت میں ہم حقائق کو سمجھ نہیں پائيں گے اور فریب کھانے کے ساتھ ہی ہم چوٹ بھی کھا جائیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلام کے خلاف مغربی دنیا کی محاذ آرائی کے میدان میں اسلامی جمہوریہ ایران کو 'فتح الفتوح' یعنی بہت بڑی فتح سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ یہ فتح الفتوح پورے استحکام اور مضبوطی کے ساتھ بدستور قائم ہے اور پہلے سے زیادہ داخلی ہم آہنگی، اقدار اور اصولوں کے تئیں اداروں کے پہلے سے زیادہ التزام کی صورت میں یہ طاقت اور یہ فتح الفتوح اور بھی محفوظ ہو جائیگی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مغربی دنیا کے مقابلے میں ہمیں خود کو مستحکم اور مقتدر بنانا چاہئے کیونکہ مغربی طاقتوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی پر بھی رحم نہیں کرتیں اور انسانی حقوق کے بلند بانگ دعؤوں اور تصنع کے برخلاف ملینوں انسانوں کے قتل عام سے بھی ان کا ضمیر متاثر نہیں ہوتا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دروغگوئی اور تصنع مغربی سیاستدانوں کی خصلت میں شامل ہے۔ آپ نے فرمایا کہ امر واقعہ یہ ہے کہ مغرب، ہیروشیما کے قتل عام، پہلی اور دوسری عالمی جنگوں مین ملینوں انسانوں کے قتل عام اور پاکستان، افغانستان اور عراق میں بے گناہ انسانوں کے قتل عام پر ہرگز پشیماں نہیں ہے بلکہ آئندہ بھی جب مفادات کا تقاضا ہوگا وہ انسانوں کے قتل عام میں کسی تامل کا مظاہرہ نہیں کرےگا، لہذا ضروری ہے کہ ہم مختلف میدانوں میں اپنے سیاسی، معاشی، عوامی اور حکومتی استحکام و اقتدار کو بڑھائیں۔
نماز جمعہ کی اہمیت و افادیت کا ذکر کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کو دینی، عوامی اور حکومتی نیٹ ورک سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ نماز جمعہ دینی و اسلامی حقائق کی پیشکش اور اس میدان میں عوام کی رضاکارانہ موجودگی سے عبارت ہے اور یہ اسلامی حکومت سے متصل عمل ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے حکومت سے نماز جمعہ کے گہرے ربط کے سلسلے میں فرمایا کہ حکومت کی ذمہ داری صرف عوام کی سیاسی خود مختاری، آزادی اور رفاہ و آسائش کی فراہمی نہیں ہے بلکہ عوام الناس کے دین و عقائد کے سلسلے میں بھی حکومت کی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ اہم نیٹ ورک عوامی، اسلامی حکومتی اور سیاسی ماہیت رکھنے کے باوجود گوناگوں سیاسی محاذ بندی اور دھڑے بندی سے بالاتر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے اصولوں اور اقدار کے سلسلے میں بھی نماز جمعہ کی ذمہ دریاں ہیں اور نماز جمعہ میں اسلامی اقدار کی فکری و عقلی بنیادوں پر مکمل پاسداری ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ائمہ جمعہ کو مختصر لیکن پرمغز خطبہ دینے کی سفارش کی اور فرمایا کہ نماز جمعہ کے خطبے ایسے ہوں کہ ان سے مخاطبین اور خاص طور پر نوجوان نسل کے ذہنوں میں اٹھنے والے، دینی اور سیاسی سوالات کے تشفی بخش جواب مل جائيں۔ آپ نے فرمایا کہ خطبے ایسے ہوں جو سامعین کے لئے امید افزا ہوں اور اسلامی نظام سے عوام کا رابطہ مستحکم ہو۔