قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عالم اسلام کو پیغمبر اسلام کی توقعات کے مطابق عمل کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ آج عالم اسلام کی سب سے بڑی ضرورت اتحاد ہے اور تمام تر سازشوں کے باوجود امت اسلامیہ کا مستقبل اتحاد و آگاہی اور اسلامی بیداری کی برکت سے درخشاں اور نوید بخش ہے۔
نبی مکرم کی تاریخ ساز ولادت با سعادت اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت کے بابرکت موقعے پر ملک کے اعلی عہدیداروں، وحدت اسلامی بین الاقوامی کانفرنس کے مندوبین اور عوامی طبقات سے ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے اس عظیم مناسبت اور عید سعید کی مبارکباد پیش کی۔ آپ نے توہمات سے آزادی حاصل کرکے استبدادی حکومتوں کے ظلم و جور سے آزادی کے حصول اور انصاف پر استوار حکومت کی تشکیل کے لئے جدوجہد کو انسانیت کی فلاح و نجات کے لئے اسلام کی جانب سے پیش کی گئی دو بنیادی روشیں قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مسلم اقوام کو چاہئے کہ پہلے اپنے اندر فکری و باطنی آزادی پیدا کریں اور پھر سیاسی خود مختاری کے حصول، عوامی حکومت کی تشکیل، دینی جمہوریت کے قیام اور شریعت اسلامیہ پر عمل آوری کے ذریعے خود کو اس آزادی کی منزل تک پہچائیں جو اسلام کو مطلوب ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امت اسلامیہ کی حقیقی آزادی اور سعادت و کامرانی کا سد باب کرنے کی دشمنان اسلام کی کوششوں اور سرگرمیوں کو انتہائی پیچیدہ اور تہہ در تہہ سازش سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنا استکبار کا سب سے کلیدی حربہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کو فراموش کروانے اور مسلمان اقوام پر جعلی، جرائم پیشہ اور غاصب صیہونی حکومت کا منحوس وجود مسلط کرنے کی پینسٹھ سالہ کوششوں کاحوالہ دیتے ہوئے اسے امریکا اور دنیا کی دیگر جابر حکومتوں کی استبدادی کوششوں کا ایک چھوٹا سا نمونہ قرار دیا اور فرمایا کہ تینتیس روزہ جنگ لبنان اور بائیس اور آٹھ روزہ جنگ غزہ سے ثابت ہو گیا کہ چند حکومتوں کو چھوڑ کر جو عملی طور پر اغیار کے مفادات کی نگراں اور پہرے دار بن کر رہ گئی ہیں، تمام مسلم اقوام پوری ہوشیاری کے ساتھ فلسطین کے وجود اور تشخص کی حفاطت کرتے ہوئے صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کو سبق سکھانے کے لئے پرعزم ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے عالم اسلام کے مسائل کا وسیع پیمانے پر جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ مسئلہ فلسطین کو ذہنوں سے یکسر محو کر دینا اسلام دشمن طاقتوں کا اہم ہدف ہے اور اس کے لئے داخلی جنگیں شروع کروانے، اختلافات کو ہوا دینے اور تکفیری نظریات کی ترویج کا حربہ بروئے کار لایا جا رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اظہار افسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ تکفیری عناصر کا ایک گروہ خبیث صیہونی حکومت پر توجہ دینے کے بجائے اسلام اور شریعت کے نام پر مسلمانوں کی اکثریت کو کافر قرار دیتا ہے اور جنگ و تشدد اور اختلافات کا بازار گرم کرتا ہے، اسی لئے تکفیری نظرئے کا وجود دشمنان اسلام کے لئے بہت راحت بخش ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنی اس گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے قرآن کی آیت (اَشدّاء علیَ الكُفّارِ رُحَماء بَینَهُم مومنین کفار کے خلاف سخت گیر اور آپس میں مہربان ہوتے ہیں۔) کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ تکفیری تحریک اللہ تعالی کے اس صریحی حکم کو نظر انداز کرتی ہے اور مسلمانوں کو 'مسلم و کافر' میں تقسیم کرکے انہیں آپس میں دست و گریباں کر رہی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے سوالیہ انداز میں کہا کہ اس صورت حال میں بھی کیا کسی کو اس بات میں شک و شبہ باقی رہ سکتا ہے کہ اس تحریک کو وجود میں لانا اور اس کی مالی و اسلحہ جاتی مدد کرنا، استکباری طاقتوں اور ان کی قائم کردہ حکومتوں کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کا کام ہے؟
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ان حقائق کی روشنی میں تکفیری تحریک کو عالم اسلام کے لئے بہت بڑے خطرے سے تعبیر کیا اور اسلامی ملکوں کو انتہائی ہوشیاری اور احتیاط سے کام لینے کا مشورہ دیتے ہوئے فرمایا کہ افسوس کی بات ہے کہ بعض مسلم حکومتیں اس تحریک کی حمایت کے تباہ کن نتائج سے بے بہرہ ہیں اور سمجھ نہیں پا رہی ہیں کہ یہ آگ ان سب کے دامن کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے والی ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ تین چار سال کے دوران شیعہ سنی اختلاف میں شدت اور مسلمان اقوام کے اندر داخلی جھڑپوں میں آنے والی تیزی کو بعض اسلامی ممالک میں اسلامی بیداری کی لہر میں آنے والی وسعت پر دنیا کی مستبد طاقتوں کی جوابی سازش کا شاخسانہ قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ استکباری طاقتیں اس کوشش میں ہیں کہ اسلامی بیداری پر پردہ ڈالنے کے لئے مختلف مسلم فرقوں کے پیروکاروں کو آپس میں گتھم گتھا کر دیں اور پھر تکفیری تحریک کے عناصر کی مذموم حرکتوں جیسے قتل ہوئے انسانوں کا جگر چبانے کی تشہیر کرکے سرے سے دین اسلام کو ہی دنیا کی رائے عامہ کی نگاہ میں قابل نفرت بنا دیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ یہ حالات یکبارگی پیدا نہیں ہو گئے، بلکہ اس کے لئے عالمی طاقتوں نے مدتوں منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کے مطابق وحدت و اتحاد کو نقصان پہنچانے والے ہر اقدام اور سبب کا مقابلہ کرنا شیعہ و سنی اور دیگر مسلکوں کا نہایت اہم فریضہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ سیاسی شخصیات، دینی و علمی مفکرین پر اسلامی سماجوں میں اتحاد قائم کرنے کے سلسلے میں بڑی ذمہ داری ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے عالم اسلام کے علمائے کرام کو مسلکی اور فرقہ وارنہ اختلافات کی طرف سے خبردار کرتے ہوئے یونیورسٹی سے وابستہ دانشوروں اور اسکالروں کو طلبہ کے سامنے اسلامی اہداف کی اہمیت پر روشنی ڈالنے اور امت اسلامیہ کی اہم سیاسی ہستیوں کو اغیار اور دشمنان اسلام سے کنارہ کشی کرکے اپنے عوام پر تکیہ کرنے کی دعوت دی اور فرمایا کہ آج عالم اسلام کا سب سے اہم مسئلہ اتحاد و وحدت ہے۔
استعماری طاقتوں کے براہ راست تسلط سے مسلم اقوام کی تدریجی رہائی کا حوالہ دیتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ استکباری طاقتیں استعماری دور کے اپنے مفادات کی بالواسطہ سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی تسلط کی مدد سے حفاظت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے بقول امت اسلامیہ کی خوشبختی و کامرانی کا واحد راستہ بیداری و آگاہی ہے اور بے پناہ وسائل، ممتاز جغرافیائی محل وقوع، گراں قدر تاریخی ورثہ اور بے مثال اقتصادی ذخائر جو اسلامی ملکوں کے پاس ہیں، اتحاد و ہمدلی کے سائے میں مسلمانوں کو وقار اور حاکمانہ پوزیشن دلا سکتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کی کامیابی اور پینتیس سال سے استکباری طاقتوں کی گوناگوں سازشوں کے باوجود اسلامی جمہوری نظام کے روز افزوں استحکام کو امت اسلامیہ کے تابناک مستقبل کی علامت قرار دیا اور فرمایا کہ بفضل الہی ایرانی عوام اور اسلامی نظام روز بروز قوی سے قوی تر اور زیادہ مقتدر ہو رہے ہں۔