قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ہجری شمسی سال 1393 (21 مارچ 2014 الی 20 مارچ 2015) کے پہلے دن سال نو کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے نئے سال (یعنی قومی عزم اور مجاہدانہ انتظام و انصرام کے سائے میں معیشت و ثقافت کے سال) میں ملک کی پیش قدمی کے قومی روڈ میپ کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے مقدس شہر مشہد میں جمعے کے دن فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں زائرین اور مجاورین کے جذبات سے چھلکتے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں معیشت کو مستحکم اور خود منحصر بنانے کے لازمی اقدامات، اس قسم کی معیشت کی ماہیت اور توانائیوں پر روشنی ڈالی نیز انتہائی اہمیت کے حامل ثقافتی شعبے کی ضرورتوں کو بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہمیں خود کو اس طرح مستحکم بنانا ہوگا کہ دنیا کی توسیع پسند استبدادی طاقتیں قوم کا کوئی بھی حق نظر پامال کرنے پر قادر نہ رہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک و قوم کی قوت میں اضافے اور قومی اقتدار کے استحکام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کمزور اقوام کے حقوق پامال کرنے کی دنیا کی توسیع پسند استبدادی طاقتوں کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مادہ پرستانہ نظریات کے تحت چلنے والی دنیا کا مزاج ہی یہ ہے کہ اس میں طاقتور، کمزوروں اور مستضعفین پر اپنی بات مسلط کرتا ہے لہذا ضروری ہے کہ ہم خود کم مضبوط بنائیں اور پیشرفت حاصل کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے 1393 ہجری شمسی کے روڈ میپ کے طور پر 'قومی عزم اور مجاہدانہ انتظام و انصرام کے سائے میں معیشت و ثقافت' کے نعرے کے انتخاب کی وجہ بیان کرتے ہوئے قوم کے کامیاب تجربات اور دور رس نتائج کے حامل اقدامات اور ملک کے وسیع امکانات و وسائل کا حوالہ دیا اور کہا کہ قومی اقتدار و قوت کا پرافتخار سفر اس نعرے پر حکام اور عوام کی توجہ اور ارتکاز کے نتیجے میں اور بھی سرعت کے ساتھ طے ہوگا۔ آپ نے کسی بھی قوم کے اقتدار و قدرت کے اہم عناصر کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ بیشک پیشرفتہ دفاعی وسائل کا ہونا بھی ضروری ہے مگر معیشت، ثقافت اور علم قومی اقتدار کے اصلی عنصر ہیں اور گزشتہ بارہ سال کے دوران اللہ تعالی کی مدد سے علم و دانش کے شعبے میں بڑی نمایاں ترقی حاصل ہوئی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے قومی اقتدار و قوت کے دیگر دو عناصر یعنی ثقافت و معیشت پر خاص توجہ کی ضرورت پر زور دیا اور اپنے خطاب کے پہلے حصے میں معیشت کے مسئلے کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں ایران کی معیشت کو اس انداز سے مستحکم بنانا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے والی کوئی لرزش اور دنیا میں کہیں بھی کوئی بھی خواہ وہ امریکا ہو یا کوئی اور، ہمارے ملک کے اقتصاد اور عوام کی معیشت پر اپنے ایک فیصلے اور اپنی ایک نشست سے اثرانداز نہ ہو سکے، اسی کو مزاحمتی معیشت کہتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے مزاحمتی معیشت کی کلی پالیسیوں کے نوٹیفکیشن اور مجریہ، مقننہ اور عدلیہ کی جانب سے ان پالیسیوں کی حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے تین اہم سوال اٹھائے اور ان کے جواب دئے۔
1- مزاحمتی معیشت کی خصوصیات کیا ہے؟
2- کیا یہ ہدف قابل حصول ہے یا صرف ایک آرزو اور خیال خام ہے؟
3- اگر قابل حصول ہے تو اس کے لازمی اقدامات کیا ہیں؟
قائد انقلاب اسلامی نے پہلے سوال یعنی مزاحمتی معیشت کی خصوصیات سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ مزاحمتی معیشت ملکی ضرورتوں سے مطابقت رکھنے والا ایک علمی ماڈل ہے جسے دنیا کے دوسرے بھی بہت سے ملکوں نے بین الاقوامی اقتصادی و سماجی تغیرات اور جھٹکوں کے اثرات کو کم کرنے کے لئے اپنے اپنے حالات کے مطابق اختیار کیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ مزاحمتی اور مستحکم معیشت کی دوسری اہم خصوصیت داخلی وسائل اور توانائیوں پر اس کا ارتکاز اور ساتھ ہی بیرونی دنیا سے درست تعاون کی صلاحیت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ افسوس کی بات ہے کہ کچھ زبانیں اور قلم اس کوشش میں ہیں کہ ایران کی معیشت کے محصور ہو جانے جیسے ابہامات اور شبہات پیدا کرکے ملکی معیشت کو مستحکم اور خود منحصر بنانے اور قوم کی سعادت و کامرانی کے راستے کو مسدود کر دیں حالانکہ مزاحمتی معیشت ایسی ہے کہ عالمی برادری سے بہترین تعاون کی صلاحیت رکھتی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مزاحمتی معیشت کی تیسری خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اقتصاد حکومتی اقتصاد نہیں ہے بلکہ اس کا محور عوام ہیں۔ البتہ اس سلسلے میں حکام کا فرض یہ ہے کہ حالات کو سازگار بناکر، رہنمائی اور مدد کرکے عوامی سرمائے اور عوام کی شراکت کا راستہ ہموار کریں۔ قائد انقلاب اسلامی نے مزاحمتی معیشت کی خصوصیات کی تشریح کرتے ہوئے صنعتی اور زراعتی شعبوں کے تجربہ کار افراد کی مہارتوں سے بھرپور استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دینے کے ساتھ ساتھ 'نالج بیسڈ معیشت' پر تاکید کی۔ آپ نے اسی طرح دنیا میں رائج اقتصادی معیارات اور اسٹینڈرڈ جیسے قومی نمو اور قومی پیداور، پر توجہ رکھنے کے ساتھ ساتھ سماجی اور معاشی مساوات پر خصوصی توجہ پر تاکید کی اور مزاحمتی معیشت کو پابندیوں کے دور میں بھی اور پابندیاں ہٹ جانے کے زمانے میں بھی انتہائی کارساز بتایا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زائرین اور مجاورین کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں اس سوال کا جائزہ لیا کہ کیا مزاحمتی معیشت محض توہم، آرزو اور خیال خام ہے؟ آپ نے ٹھوس اور اطمینان بخش حقائق اور اطلاعات کی بنیاد پر ثابت کیا کہ یہ توہم اور خام خیال نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ عظیم افرادی قوت منجملہ نوجوان نسل، یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلبہ کی ایک کروڑ کی تعداد، چالیس لاکھ سے زیادہ طالب علم اور دسیوں لاکھ ماہر اور تجربہ کار صغتی و غیر صنعتی افرادی قوت، نیز بے پناہ اور انتہائی قیمتی ذخائر، کم نظیر جغرافیائی محل وقوع اور بنیادی تنصیبات سے پتہ چلتا ہے کہ مزاحمتی معیشت کو یقینی طور پر عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بیشک یہ ممکن ہے کہ کوئی یہ رائے زنی کرے کہ پابندیوں کے عالم میں ان غیر معمولی وسائل کو بروئے کار لانا ممکن نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے انہیں حالات میں، علم داش کے میدان میں، دفاعی میدان میں، نینو ٹکنالوجی، نیوکلیئر انرجی، اسٹیم سیلز، دفاعی انڈسٹری اور میزائلی صنعت کے میدان میں مبہوت کن ترقی حاصل نہیں کی ہے؟
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ان حقائق کو مد نظر رکھ کر اگر ہم اپنے عزم کو محکم کریں، ایک دوسرے کے شانے سے شانہ ملائیں، دشمن سے آس نہ لگائیں کہ وہ کب پابندیاں ہٹاتا ہے اور کب ایسا کرنے سے انکار کرتا ہے، تو ہم دوسرے میدانوں منجملہ معیشت کے میدان میں بھی قدرت و اقتدار حاصل کر سکتے ہیں۔
مزاحمتی معیشت کو عملی جامہ پہنانے کے لئے لازمی اقدامات کیا ہیں، یہ اس بحث کا تیسرا اور آخری سوال تھا جس کا جائزہ لیتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے چار ضروری اقدامات کا ذکر کیا؛ـ
1- ملکی ترقی کی سب سے اہم کڑی یعنی قومی پیداوار کی حکام کی جانب سے بھرپور حمایت و پشت پناہی،
2- سرماروں اور صنعت کاروں کا پروڈکشن اور قومی پیداوار کو خاص اہمیت دینا،
3- سرمایہ کاروں کا پیداواری شعبے میں اپنی سرگرمیوں کو غیر پیداواری شعبے کی سرگرمیوں پر ترجیح دینا،
4- ملک کے عوام کا داخلی مصنوعات کے استعمال کی پابندی کرنا۔
قائد انقلاب اسلامی نے چوتھے نکتے کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ غیر ملکی اشیاء کی خریداری حرام ہے تاہم ہماری یہ گزارش ہے کہ ملکی ترقی اور معیشت کو مستحکم و خود منحصر بنانے کے سلسلے میں یہ ایک اہم ترین احتیاج ہے اور اس کا تمام مسائل منجملہ روزگار کے مواقع اور داخلی مصنوعات کی کیفیت میں بہتری پر بڑا مثبت اثر پڑیگا۔ البتہ اس سلسلے میں بھی حکام کی ذمہ داری زیادہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس کے بعد ثقافت کے موضوع کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ معیشت سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ثقافت کو خاص اہمیت دینے کی وجہ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ ثقافت ہوا کی مانند ہے کہ ہم چاہیں یا نہ چاہیں ہمیں سانس کے ساتھ اسے اپنے اندر لے جانا ہے، لہذا اگر ہوا صاف ہو آلودہ نہ ہو تو معاشرے اور ملک پر اس کا ایک الگ اثر ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے داخلی منصوعات، قانون کی بالادستی اور خاندان جیسے مسائل کے سلسلے میں عوام الناس کے نقطہ نگاہ اور زاویہ فکر پر ثقافت کے گہرے اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ روز مرہ کے عادات و اطوار اور لوگوں کی اقتصادی، سماجی اور سیاسی سوچ سب پر ان کی ثقافت کا گہرا اثر ہوتا ہے، بنابریں ثقافتی نظریات کا اثر تمام مسائل اور میدانوں پر مرتب ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہی وجہ ہے جو دشمن ثقافت کے موضوع کو غیر معمولی اہمیت دیتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ثقافتی شعبے کے حکام کو چاہئے کہ بڑی ہوشیاری اور احتیاط کے ساتھ جائزہ لیں اور ثقافتی شعبے میں دشمن کی رخنہ اندازیوں پر نظر رکھیں اور اس سلسلے میں اپنے اصلاحی اور دفاعی فریضے پر عمل کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے اندر منصوبوں کے فقدان، تساہلی اور کوتاہی سے ثقافت پر پڑنے والے اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ساری ثقافتی مشکلات کی وجہ دشمن کے اقدامات ہی نہیں ہیں تاہم پینتیس سال سے جاری دشمن کے تخریبی اقدامات کا انکار اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ آزادی، اسلامی انقلاب کے بنیادی نعروں میں سے ایک اور اسلامی جمہوریہ کا اہم ستون ہے تاہم ثقافتی شعبے میں دشمن کی رخنہ اندازیوں حکام کا اقدام آزادی سے متصادم نہیں ہے کیونکہ آزادی کی عظیم نعمت الہی جو، تمام اصولوں اور ضوابط کو نظر انداز کر دینے اور ماحول کے بہاؤ میں بہہ جانے سے الگ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ضوابط کے بغیر آزادی کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ آپ نے مغرب والوں کی اپنی ریڈ لائنوں کی بابت خاص حساسیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یورپ میں کوئی بھی شخص ہولوکاسٹ کے بارے میں، جس کی حقیقت اور نوعیت کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہے، شک و شبہے کا اظہار نہیں کر سکتا، لیکن وہ ہم سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ انقلاب اور اسلام کی ریڈ لائنوں کو ہم نظر انداز کریں۔
قائد انقلاب اسلامی مغرب میں حجاب کو کسی صورت برداشت نہ کئے جانے اور بعض ملکوں کے شہریوں کے سلسلے میں کورانہ تعصب کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ مغرب والوں کی رواداری کی مثالیں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ثقافتی امور کے تعلق سے ملک کے حکام کی سنگین ذمہ داریوں اور فرائض کو بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ ثقافت کے تعلق سے میری گفتگو کا سب سے اہم نکتہ مومن اور انقلابی نوجوانوں سے متعلق ہے جو خود بخود ملک بھر میں اپنے ارادے اور اپنی جدت عملی سے ثقافتی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور انہوں نے بڑے مستحسن اقدامات انجام دئے ہیں۔ آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ میرے عزیزو! پوری لگن کے ساتھ اپنا کام جاری رکھو کیونکہ انقلاب کے اوائل سے ہی آپ کی ثقافتی سرگرمیوں کا ملک کی استقامت و پیشرفت میں بڑا اساسی کردار رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے انقلابی علما، اساتذہ، دانشوروں اور فرض شناس فنکاروں سے بھی ایک اہم سفارش یہ کی کہ وہ ثقافتی امور کے بارے میں اپنی ناقدانہ نظر کو قائم رکھیں اور صریح و روشن مدلل بیان کے ذریعے حکام کو متنبہ کرتے رہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس سلسلے میں تہمت لگانے، ہنگامہ آرائی اور ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے دینے سے سختی کے ساتھ اجتناب کیا جائے اور ملک کی انقلابی برادری بشمول باایمان نوجوانوں بزرگوں اور ممتاز ہستیوں کے، منطقی انداز میں اور ناقدانہ نظر سے خامیوں کو حکام کے سامنے پیش کرے، ثقافتی شعبے میں قومی عزم اور مجاہدانہ انتظام و انصرام سے مراد یہی طرزعمل ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ہجری شمسی کیلنڈر کے گزشتہ سال 1392 کو سیاسی و اقتصادی جہاد کا سال قرار دئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ سیاسی جہاد کے میدان میں تو عوام نے جس کی توقع تھی کر دکھایا اور اپنے دو بڑے اقدامات؛ ایک تو گیارہویں صدارتی انتخابات اور دوسرے گیارہ فروری کے ملک گیر جلوسوں کے ذریعے سیاسی جہاد کو بنحو احسن عملی جامہ پہنایا۔
قائد انقلاب اسلامی نے گیارہویں انتخابات اور 11 فروری کے ملک گیر جلوسوں کو دشمن ذرائع ابلاغ کے حملوں کے جواب میں ایران اور ایرانی قوم کے حقائق کے تعلق سے بڑا اہم اور واضح اور ہمہ گیر پیغام قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی نظام میں ہونے والے انتخابات کے سلسلے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ انقلاب کے آغاز سے لیکر اب تک بار بار ہونے والے انتخابات میں عوام کی شرکت کی شرح ہرگز کم نہیں ہوئی ہے چنانچہ گیارہویں صدارتی انتخابات میں رائے دہندگان کی 72 فیصدی شرکت ہوئی جو ایک نمایاں شرح ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ میدان میں دائمی طور پر عوام کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی نظام میں دینی جمہوریت جڑ پکڑ چکی ہے اور اس نعمت کی قدر کرنے کی ضرورت ہے تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ سنہ 2009 کے انتخابات میں اس عظیم نعمت کی ناقدری کی گئی۔ آپ نے 1392 ہجری شمسی میں اسلامی انقلاب کی فتح کی سالگرہ کے دن 22 بہمن مطابق 11 فروری کے جلوسوں میں ملک بھر کے عوام کی وسیع شرکت کا ذکر کیا اور فرمایا کہ عظیم پیمانے پر عوام کی اس شرکت کی وجہ ملت ایران کے خلاف استکباری محاذ کی پالیسیاں اور امریکیوں کا گستاخانہ اور توہین آمیز لہجہ تھا۔ آپ نے فرمایا کہ ایٹمی مذاکرات ہو رہے تھے لیکن امریکی حکام گستاخانہ انداز گفتگو سے یہ ثابت کرنے کی کوشش میں تھے کہ ملت ایران اپنے موقف اور اصولوں سے پیچھے ہٹ گئی ہے، اس پر ایرانی عوام کے اندر میدان میں اتر پڑنے کا جذبہ اور احساس حمیت اور بڑھ گیا اور نتیجے میں عوام نے یہ پیغام دے دیا کہ وہ اسلامی جمہوریہ، اسلام کے لہراتے پرچم اور اسلامی نظام کی حفاظت کے لئے اپنے پورے وجود کے ساتھ ثابت قدمی سے کھڑے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں دنیا کے مختلف علاقوں، منجملہ فلسطین، شام، عراق، افغانستان اور پاکستان میں امریکا کی ناکامیوں اور ہزیمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ عالمی برادری کے حقائق و تغیرات امریکا کی مرضی کے مطابق انجام نہیں پا رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ وطن عزیز ایران میں بھی ضدی دشمنوں کی پینتیس سال سے جاری خصومت بے نتیجہ رہی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکی حکومت کے بااثر افراد بھی صریحی طور پر کہہ چکے ہیں کہ ہم نے پابندیوں میں شدت پیدا کی ہے کہ عوام اسلامی نظام سے برگشتہ ہوکر سڑکوں پر نکل پڑیں اور انقلاب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں لیکن عوام کے آگاہانہ اور پرجوش تعاون اور ہر موقعے پر بھرپور موجودگی سے انہیں بار بار شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ توفیق خداوندی سے اس سرزمین کا تابناک مستقبل نوجوانوں سے متعلق ہوگا اور دشمن کو بدستور شکست اور ہزیمت کا سامنا ہوتا رہے گا۔